ہمارے لڑکپن میں ادبی حلقوں سے وابستہ افراد آپ کا تعارف عموماًایسے پیرائے میں کرتے تھے کہ آپ کا علمی کردار دھند لاجاتا اورآپ کے برعکس ایک مہجول سی شخصیت کا خاکہ ذہن میں ابھرتا۔ہمارایہی غیر علمی رویہ ہے کہ ہم آپ جیسی شخصیات کی زندگی میں آپ سے اس قدر استفادہ نہیں کر پاتے جتنا کرسکتے ہیں۔شہید اُستاد سےمیری پہلی ملاقات ایک علمی ملاقات کی بجائے راہ چلتے شخص سے کندھے ٹھکراکر گزرنےجیسی ہی رہی ۔ذہن پر آپ سے متعلق وہی خیالات حاوی رہے جو ہمارے ناپختہ ذہنی برتنوں میں بھرے گئے تھے۔ہمارے جماعتی تربیت کاروں نے سونا اور کوئلے کوایک ہی ترازو میں تول کر بلوچ ادیبوں سے ہمیں متنفر کرنے کا جو کام کیا تھا اس کا بھی کافی اثر تھا۔مجھے اس ملاقات کے تین سال بعد ادراک ہو اکہ ہم ایک عظیم مدبر او ر عہد ساز استاد کے زمانے میں ان خوش بختوں میں سے ہیں جوآپ سے براہ راست میل ملاقاتوںمیں وہ باتیں بھی دریافت کر سکتے ہیں جو ابھی تک صفحہ قرطاس پر بکھر کر کسی کتاب کا حصہ نہیں بنی ہیں ۔کتابیں اُس وقت انسانوں سے اہم ہوتیں جب انسان ان کا تخلیق ہوتا دراصل کتابوں میں انسانوں ہی کے افکار بھرے ہیں۔ علمی مباحث سے علم کے نئے دریچے کھلتے اور ایسے نکتے ہاتھ لگتے ہیں جو بعد میں کتابوں کی صورت خزینہ علم میں جمع ہوجاتے ہیں ۔

ملیر میں تعلیم اور غر یب عوام کے موضوع پر منعقد ہ سمینار کے سلسلے میں آپ تشریف لائے تھے ۔میں حسب عادت وقت مقررہ پر وہاں پہنچ چکاتھا ۔ پنڈال میں میرے علاوہ چندلڑکے ہی تھے جو کرسیاں لگارہے تھے۔شہید اُستاد اپنے چند دووستوں کے ساتھ تشریف لائے اُن میں بلوچی زبان کے مزاحیہ فنکار دانش بلوچ نمایاں تھے جن پر آپ کا زیادہ توجہ تھا۔بعد میں معلوم ہواکہ دانش اپنی بلوچی سدھارنے کے لیے شہید اُستاد کی سنگت میں تھے ۔اس لیے اُن سے آپ شفقت فرمارہے تھے تاکہ اُن کو احساس دلائیں کہ اپنی زبان سے محبت کا اظہاربڑھکپن ہے ۔آپ حسب معمول بغل میں تھیلا (بغل جول ) اُٹھائے ہوئے تھے۔ بعد کی ملاقاتوں میں پتا چلاکہ اس زرد بغل جول میں سید ظہور ہاشمی ریفرنس لائبریری کے ممبر شپ فارم ‘بلوچی کلاسوں کے داخلہ فارم اوراسی متعلق دیگر بروشرز وغیر ہ تھے۔ کوئی کتاب جواسی طرح کے سیمیناروں میں تحفتاً دی جاتی تو اسے اسی بغل جول میں رکھتے تھے شاید کچھ دوسری چیزیں بھی ہوں گی کیوں کہ یہ آ پ کاپرانا ساتھی تھا ۔اس وقت میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ عنقریب بلوچستان میں جنگ کے شعلے بڑھک اُٹھیں گے اورہم اس آگ میں عرصے تک جھلستے رہیں گے ۔ مجھے اس وقت بلوچ سیاست کے ابجد تک سے آشنائی نہ تھی۔آپ نے مذکورہ موضوع پر اپنے متاثر کن لہجے میں سیر حاصل تقریر کی مگر میں نے آپ کی باتوں میں غضب کی روانی اور ربط پر توجہ دینے کی بجائے اس پر کان کھڑے کیے کہ آپ نے گوادر کے لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں انتباہ کیاتھا کہ” اگر انہوں نے اپنی سر زمین کے ساتھ وابستگی کو اپنی موت اور زندگی کا مسئلہ نہ سمجھا تو ان کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو کراچی کے بلوچوں کے ساتھ ہورہاہے ۔“یہ سال 2001-2002 تھا جب میں تازہ میڑک پاس کر کے مزید تعلیم کے لیے ملیرکراچی گیا ہواتھا ۔

بعدازاں میں نے اس سیمینار پر مختصر سی تنقید بھی کی جو ماھتاک بلوچی میں خط کی صورت شائع ہوا ۔ آپ کی تقریرکے ردعمل میں ایک ٹوٹی پھوٹی نظم لکھی جو بے ربط الفاظ کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے ناقابل اشاعت تھی ۔بعدا زاں میری آپ سے جب بھی ملاقات ہوتی اس نظم کا مفہوم میرے ذہن میں بازگشت کرتا کہ ”او صبا !اچھی طرح سن لے کہ ہم کسی بھی قیمت پر تم کراچوی بلوچوں کی طرح گوادر کو غیروں کی جھولی میں نہیں ڈالیں گے سر کاٹیں گے ، کٹائیں گے مگر ایسا ہر گز نہ ہونے دیں گے ۔“آپ کے الفاظ کااثر دیکھئے ، زبان کی کاٹ دیکھئے ، رگوں میں زہر بھرنے کا ہنر دیکھئے ۔طعنے دے کر راستے پر لانا آپ کی اُستادی تھی۔ آج ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے مجھ پر یہ افشاں ہورہا کہ مجھے پہلی مرتبہ یہ احساس دلانے والا کہ”تمہارا شہر ،تمہاری جنت ، تمہاری خوشیوں کا محور اور بلوچستان کا گوہر نایاب گوادر پر غیروں نے قبضے کی تیاریاں کر رکھی ہیں اگر ہوش کا ناخن نہ لیا توتمہارے پلے افسوس کے سواءکچھ نہ رہے گا “کوئی اور نہیں شہید اُستاد”دی ٹیچر آف بلوچ فریڈم“(آجوئی درونت دئے) ہی تھے۔

میں نے کاغذ پر پاگل پن میں جو بے ربط لکیریں کھینچی انہوں نے اب تک میر اپیچھا کیا ہو اہے جو خود سے کیا گیا میرا عہد وپیمان ہے ۔جب کراچی کے شاہراﺅں پرگوادر برائے فروخت کے بڑے بڑے بورڈ آویزاں ہوئے تو میں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑی اور اپنے شہر لوٹ آیا ۔جہاں مجھے جیسے دو او ر بیتا ب نوجوان احمد داد اور حمید حیاتان ( شہداء) حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیاریاں کرر ہے تھے ۔

پھر وقت نے رفتار پکڑی آپ بلوچ آزادی پسندوں کے صف اول کے رہنماءبن گئے اور مجھ پر بی این ایم کے سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں آگئیں ۔کراچی میں جب بھی آپ موجود ہوتے ہمارے جلسوں میں شرکت لازمی سمجھتے تھے ۔جہاں آپ سے بولنے اور سمجھانے کے نئے گر سیکھنے کو ملتے ۔ادبی حوالے سے چوں کہ مجھے بلوچی زبان کے رسم الخط اور گرائمر سے دلچسپی تھی اس لیے آپ سے اس بارے میں ہلکی پھلکی باتیں ہوجاتی تھیں لیکن یہ ملاقاتیں خالصتاً سیاسی ماحول میں زیادہ تر شہداﺅں کےیادگاری تقریبات جیسے جذباتی موقع پر ہوتی تھیں اس لیے ہم ادب سے زیادہ حالات وواقعات پر ہی بات کرتے ۔مگرمیں نے یہ کبھی محسوس نہیں کیا کہ آ پ ادب کو ثانوی درجہ دیتے ہیں یا آپ سیاست کے لیے ہی وقف ہوچکے ہیں بلکہ زندگی کے آخری لمحات تک ادب ہی آپ کی ترجیع رہی ۔آپ اپنے ادبی صلاحیتوں اور کردار کو آلہ کار بنا کر غلامی کے خلاف لوگوںکوعملی میدان میں نکلنے کی طرف راغب کرتے تھے ۔آپ ہماری تمام باتوں سے متفق ہر گز نہ ہوتے تھےاور اس کا اظہار کرنے میں اس قدر عجلت دکھاتے کہ اسی اسٹیج پر ہماری باتوں کا حوالہ دے کر اصلاح طلب پہلوﺅں کو اجاگر کرتے ۔

کراچی میں زرمبش پبلی کیشنز کے کاموں کے سلسلے میں طویل قیام کے دوران میں وقت نکال کر سید ہاشمی ریفرنس لائبریری جایا کرتاتھا ۔سردیوں کی چھٹیوں میں آپ لائبریری کے لیے ہی وقف تھے ۔جب آپ کا بائی پاس آپریشن ہوا تو کچھ مہینوں تک آپ کافی نعیف اور کمزور ہوگئے۔آپریشن کی وجہ سے کچھ عرصہ لائبریری نہ جاسکے مگر بستر پر پڑا رہنا بھی گوارا نہیں کیا ۔لوگوں کو وہ منظر آج تک نہیں بھولا یہی وہ واقعہ تھا جس کے بعد آزادی پسندوں کا آپ کے اخلاص پر عقیدہ چٹان کی طرح پختہ ہوگیا ۔آپ کا تازہ بائی پاس آپریشن ہوچکا تھا کہ لیاری سے شہید اکبر ( نواب اکبر خان بگٹی ) کے حوالے سے ایک ریلی نکالی گئی اور آپ نے انتہائی جسمانی کمزوری کے باوجود لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے اس میں شر کت کی ۔

آپ کا گھر بغدادی لیاری میں واقع تھا جہاں ہمارے ساتھ نہایت دلچسپ واقع پیش آیا جس کاہم نے بعدمیں شہید اُستاد کے ساتھ بھی ذکر کیا ۔ہم (میرے ساتھ تاکبند مروارد کے ایڈیٹراسحق رحیم تھے )ان کی عیادت کے لیے بغدادی گئے ۔تنگ وتاریک گلیوں میں ہم بھٹکتے رہے اور ہمیں صبا دشتیاری کے گھر کا پتا معلوم کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ بغدادی میں صبا دشتیاری جیسی شخصیت کا مکان ڈھونڈنے میں ہمیں کوئی مشکل نہ ہوگی مگر ایک گھنٹے تک گلیوں کی بھول بھلیوں میں سر پھٹکاتے رہے ۔بغدادی کے زیادہ تر لوگوں کا وہی مزاج ہے جوکراچی سے باہر کراچوی بلوچوں کی پہچان تھی ( آج گٹکا بلوچستان کے تقریباً علاقوں میں عام ہوچکاہے ) منہ میں گٹکا کے پیک جب بات کرتے ہیں تو منہ کو پیالہ نما بناکر بھیڑے کی طرح آسمان کی طرف اُٹھا تے ہیں تاکہ بات کرتے ہوئے گٹکا کے پیک منہ سے نہ گریں ۔ہم بغدادی کی شہرت کی وجہ سے ان گلیوں میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے ۔میر اساتھی میرے بیباکانہ انداز تخاطب سے ڈر رہاتھا کہ کہیں کسی لالہ کو غصہ نہ آئے ۔

ہم نے لڑکوں سے پوچھا جو وہاں بیٹھےسائیکل کو پم کررہے تھے:”واجہ صبا دشتیاری کا گھر کدھر ہے ؟
”اِے نیمگءَ “(اس طرف )مگر ایک کا ہاتھ مشرق دوسرے کا مغرب کی طرف تھا ۔

ہم نے وہی ایک گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے پختہ عمر شخص سے بھی یہی سوال کیاجس کا جواب سن کر ورطہ حیرت میں پڑ گئے :”صبا دشتیاری کئے اِنت ؟ ادءَ صبا دشتیاری نامیں کوئی مردم نیست ؟“
(صبادشتیاری کون ؟ یہاں کوئی صبا دشتیاری نام کا آدمی نہیں رہتا )

ہم نے آپ کی نشانیاں بتائیں :”بلوچی میں لکھتے ہیں ، کوئٹہ میں پڑھاتے ہیں پروفیسر ہیں ۔انہیں تو پوری دنیا کے بلوچ جانتے ہیں ہم نے سن رکھا تھا کہ بغدادی میں رہتے ہیں ان کا بائی پاس آپریشن ہوا ہے ۔ہم ان کے شاگرد ہیں عیادت کو آئے ہیں ۔“مگر وہ ہمارے سراپا کوخاموشی سے گھورتا رہاجیسے ہم اجنبی بولی بولنے والے آسمانی مخلوق تھے ۔

اڑے اِے ھمے گُلو ءَ گشگ ءَ اِں ۔“ (یہ اسی گلوکی با ت کررہاہے ) سامنے والے گھر سے ایک ادھیڑ عمرشخص نے گٹکا کی پچکاری مارتے ہوئے کہا ،پھر پیشانی پر تعجب کے بل لاکر بولا:”تو گُلو ءِلوگ ءَ نہ زان ئے ! شمے لوگ ءِکشءَ اِنت ۔“( تم گلوکا گھر نہیں جانتے جو تمہارے گھر کے ساتھ ہے )
کافی تگ ودو کے بعد ہم نے شہید اُستاد کا گھر تو ڈھونڈ لیا لیکن ان سے ملاقات نہ ہوسکی گھر سے پتا چلا کہ اب انہوں نے بستر چھوڑ دیاہے اور زیادہ تر وقت لیاری میں واقع ایک لائبریری میں گزارتے ہیں لیکن ہم چوں کہ اتنی مشقت کے عادی نہ تھے اس لیے آپ سے ملاقات کیے بغیر واپس آگئے ، راستے میں اپنے اس تجربے پر کافی دیر تک ہنستے رہے ۔

مگر آ پ سے جلد ہی ملیر لائبریر ی میں ملاقات ہوگئی آپ بیماری کے سبب چھٹی پر تھے لیکن آپ نے عملی طور پر کبھی چھٹی نہیں کیا ۔اسی حالت میں روزانہ باوجود اس کے کہ لائبریری کے لیےایک انتہائی ذمہ دار لائبریرین مقررتھا، آپ لیاری سے ملیر کا سفر کر کے لائبریری تشریف لاتے جہاں نوجوانوں کا جھمگٹا رہتا ۔اس دوران میری آپ سے ملاقات ہوئی تو آ پ انتہائی نعیف تھے ہاتھوں میں رعشہ آگیا تھا ۔میرے دل میں خدشہ پیدا ہواکہ ہم نے اس صبا دشتیاری کو کھودیا ہے جو اپنے مخصوص طرز سے بلند آوازمیں ہانک لگاتے اور بلایا کرتے تھے ۔انہوں نے ہمیں محبت سے چائے پلایا ۔سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کی طرف سے تیارکردہ بلوچی زبان سیکھنے کا سر ٹیفکٹ کورس دکھایااور کئی موضوعات پر باوجود بیماری کے لرزتی آوازمیں بے تکان گفتگو کی ۔

ملیر میں ہمارا گھر لائبریری سے سواری کے ذریعے محض پانچ دس منٹ کے فاصلے پرہے جب کہ لیاری سے ملیر کا سفرکچھا کچ بسوں سے بھری ہوئی سڑکوں پر ہم جیسے مکرانیوں کے لیے ہمیشہ تلخ تجربہ رہا ہے۔مجھے اس دن کچھ ریفرنسز کی ضرورت تھی اس لیے میں صبح سویرے موٹر سائیکل کے ذریعے لائبریری پہنچا مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دروازے پر لائبریرین ( غلام رسول کلمتی ) ، ڈاکٹر حمید ( تاریخ مکران کے مصنف ) اور شہید اُستاد کھڑے تھے۔شہیداُستاد اکثر لائبریری کے کھلنے کے مقررہ وقت (صبح ساڑھے نو اور دس بجے ) وہاں پہنچ جایا کرتے تھے اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ شہید اُستادیہ سفر ذاتی سواری یا ٹیکسی پر نہیں بلکہ بائی پاس ہونے کے بعدبھی بس پر کیاکرتے تھے ،آپ کا کمٹمنٹ دیکھ کر مجھے اپنا وجود آپ کے سامنے بونا نظر آنے لگا۔

اس وقت شہید اکبر پر لکھی گئی میری کتابچہ ”شہید اکبر ،صدی کی تاریخ “زرمبش پبلی کیشنز کی طرف سے تازہ شائع ہوچکی تھی جس کی کاپی میں گزشتہ دن بی این ایم ملیر کے پروگرام میں انہیں دے چکا تھا۔انہوں نے مجھے دیکھ کر اپنے مخصوص محبت بھرے لہجے میں بغل گیر ہوکر کہا :”بچا سیاھو ! مرچی تو مئے میتگ ءَ ظاہرئے ۔“(کالےلڑکے ! آج تم ہمارے محلے میں نظر آرہے ہو)

آپ نے میری کتابچہ پر مختصر تبصرہ کیا ،جو آپ کے ہاتھ میں تھا ”میں سا رے رستےتمہاری کتاب پڑھتا رہا،یہی دوصفحے رہ گئے ہیں ۔“

میر اایک کلو وزن بڑھ گیا کیوں کہ آپ کا لہجہ تعریفی تھا اور میں جانتا تھا کہ آپ محض دل رکھنے کے لیے تعریف نہیں کرتے تھے ‘پھر ذرا توقف کے بعد گویا ہوئے :”اس میں ریفرنسزکا نہ ہونا ایک بہت بڑی خامی ہے کسی بھی تاریخی کتاب میں حوالہ جا ت اس کو معتبر بناتی ہیں ۔خیر آپ کی کتا بچہ حوالہ کے طور پر بعد کے محققین کی رہنمائی کرئے گی ۔“

آپ درست فرمارہے تھے دراصل اخبارات کے صفحات میں حوالہ جات کی گنجائش نہیں ہوتی اور یہ روزنامہ توارمیں شائع ہونے والا ایک طویل مضمون تھا جسے معمولی سا نوک پلک سنوارنے کے بعد شائع کیا گیا ۔اس کا تربیت سے زیادہ مقصد زرمبش کے آئندہ کے کاموں کے لیے فنڈ اکھٹا کرنا تھا کیوں کہ بی این ایم کے آئین میں ہم صرف بلوچی زبان میں اشاعت کے پابند تھے لہذا اِس کتابچہ کو ریکارڈ میں باقاعدہ تربیتی ونصابی کتاب کے طور پر بھی شامل نہیں رکھا گیا ۔میں نے آپ کو بھی یہی دلائل دیئے جو ظاہر سی بات ہے کسی علمی شخصیت کو مطمئن کرنے کی بجائے زیادہ بھڑکانے والے تھے کہ ایک کتابچہ تربیت وتعمیر کے مقصد کی بجائے پیسہ ( فنڈ ) اکھٹا کرنے کے لیے شائع کیا جائے ۔لیکن ان کی ڈانٹ ڈپٹ میں ہمیشہ پیار بھرا ہوتا تھا ۔

آپ سے مل کر ایک شفیق انسان سے ملاقا ت کا احساس ذہن پر چھائے رہتا ۔آپ ہم جیسے چھوٹے لوگوں سے بھی بے انتہا پیار اور محبت سے پیش آتے تھے ۔ ان کے برتاﺅ سے ہم پر اپنے وجود کی اہمیت آشکار ہوتی ۔جب و ہ پیار سے ہاتھ پکڑ کر بھوسہ دیتے تو اپنی عظمت کا اسرار منتقل کر دیتے اس روحانی کیفیت کووہی جانتے ہیں جن کو آپ سے ملاقات کا فیض حاصل رہاہے ۔بلوچی زبان کی شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جو انہوں نے نہ پڑھی ہو۔ جب بھی بلوچی زبان میں نئے لکھنے والے کا اضافہ ہوتا آپ اس کا نام اپنے پاس لکھ کر رکھ لیتے آپ کی یاداشت کافی تیز تھی لوگوں کے نام اور چہرہ کبھی نہیں بھولتے تھے اور ہر ایک سے شناسا کی طر ح پیش آتے تھے۔

بلوچستان سے سینکڑوں کے حساب سے ڈمی جرائد چھپتے ہیں جو چھاپہ خانہ سے نکل کر سیدھا ڈی پی آر کے دفتر میں جمع ہوتے ہیں۔ خود ان کے ایڈیٹر صاحبان کوان کے مواد کاپتا نہیںہوتا ۔ان کو ایک ٹائپسٹ پرانے جرائد سے مضامین وغیر ہ کے تراشے لے کر موٹے موٹے فونٹ میں لکھ کر تیار کرتاہے ۔تاکہ قانونی شرط پور ی کرکے سرکاری اشتہارات بٹور سکیں ۔شہید اُستاد ان ڈمی جرائد تک کو ڈی پی آر کے دفتر سے اُٹھا کر لاتے تھے :”من ڈی پی آر ءِ بچک ءَ دوسد روپیہ دست ءَ دئے آں آ منا سجیں ڈمی تاکاں دست ءَ دنت ، مردماں شتلی ءِ بازھنر یاد اِنت بلے ما اُوں ایشانی درسیں ھونڈ درگیپتگ آں ۔“(میں ڈی پی آر کے لڑکے (ملازم ) کو دوسو روپے تھما تا ہوں اوروہ سارے ڈمی جرائد مجھے لاکر دیتاہے ۔لوگوں نے نوسر بازی کے کئی گر سیکھے ہیں مگرمیں نے بھی ان کے سارے کھانچے ڈھونڈ لیے ہیں۔)آپ اکثر ملاقاتوں میں ڈمی رسالوں کو اکھٹا کر نے کی اپنی طریقہ کار ہمیں مزے لے لے کر سناتے تھے اس طرح کی باتیں بتاتے ہوئے آپ کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دمکتی تھے اور جسم میں حرارت بھر جاتی تھی ۔

آپ کی کراچی پریس کلب میں کی گئی مشہور تقریر جو بعد میں زبان زد عام ہوئی اور آپ کی شہادت کے بعد بھی بی بی سی جیسے نشریات اداروں نے اس کے حوالے دیئے ،جس دن روزنامہ توار میں یہ واقعہ چھپا اسی دن آپ سے ملاقات ہوگئی ۔آپ کل کے واقعے کے ترنگ میں تھے یہ آپ کے ترنگ کا ہی دور تھا جب سیاست اور ادب کے محاذ پر جم کر کام کررہے تھے ۔آپ نے لاٹھی کے سہارے چلنا چھوڑ دیا تھا ۔وہ صبا دشتیاری جو بائی پاس کے بعد کمزور اور مریل سے ہوگئے تھے دوبارہ تازہ دم اور شگفتہ نظر آنے لگے تھے ۔نہیں لگتا تھا کہ کبھی آپ کا دل چیر کر بے ترتیب دھڑکن کے سر صحیح کیے گئے ہوں ۔بلوچ یونٹی کانفرنسکے زیرا ہتمام اس سیمینار میں آ پ بن بلائے چلے گئے تھے جب منتظمین نے آپ کو دیکھا تو مجبور اً اسٹیج پر بلا لیا ۔آپ بھی شاید بلوچ مسئلے کو اصل سیاق سباق کے ساتھ بیان کرنے کی نیت باندھ کر گئے تھے۔آپ نے اس موقع پرپاکستان کی نام نہاد صحافی برادری پر بھی شدید تنقید کی ۔جو ایک بڈھی صحافی کوناگوار گزری ور اس نے آپ کو اسٹیج سے اُتارنے کی کوشش کی مگر آپ اپنی جگہ سے ٹھس سے مس نہ ہوئے اور بات مکمل کر کے مائیک چھوڑ ا۔آپ نے اس واقعے کی تفصیلات ہر جملے میں ہنستے ہوئے بیان کیں :” بڈھی شراب کے نشے میں دھت تھی اسے آزادی صحافت کا لحاظ تھا نہ وہاں موجود لوگوںکا پا س ، نشستوں کے قریب لکڑی کا جنگلہ تھا اس نے وہی سے ایک پٹی اکھاڑی اورسیدھا میری طرف لپکی کہ مکرانی کا سر توڑ دوں گی۔ بھلا میں کبھی ان کے دھونس میں آنا والا ہوں میں نے اسے وہیں روک لیا اور کہا کہ تمہیں سچ سننی پڑے گی ۔“

وہ مارٹن لوتھر کنگ کی طرح خواب دیکھ کر ان کی تعبیر کے لیے میدان عمل میں نکلنے کے قائل تھے ۔آپ کے نزدیک خواب دیکھنے کا مطلب یہ ہرگزنہیں تھا کہ بستر بچھا کر اس پر لیٹ جائیں اورذہن میں ایک افسانوی دنیا بسالیں ۔آپ کے نزدیک خواب دیکھنے کا مطلب نصب العین کا تعین تھا اور ان تمام کامیابیوں کو جو دوسرے لوگوں اور اقوام نے حاصل کیے ہیں حاصل کر نااور ترقی کی راہیں کھوجنا تھا۔اس طرح کے خواب بیدار مغزی اور جاگتے آنکھوں سے ہی دیکھے جاسکتے ہیں ۔جس طرح انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی بلوچی لائبریری تعمیر کرنی ہے ۔ ہزار ہاں مشکلات کے پہاڑ آپ کے سامنے کھڑے کیے گئے ، کئی سیاسی وسماجی اختلافات اُٹھائے گئے مگر سب نے دیکھا کہ دھکان گارڈن کی بنجر زمین پر علم وادب کی وہ کھیت لہلائی جسے لوگ سید ظہورشاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری کہتے ہیں ۔آپ نے یہ عمارت کھڑی کرکے گردن نہیں اکڑائی کہ اب بس مجھے گپیں ہانکنے خواب بانٹنے کاایک ٹھکانہ میسر ہے اوریہی میرے لیے کافی ہے ۔ا نہوں نے ہمیشہ خواب دیکھااور دوسروں کو بھی جاگتی آنکھوں سے اپنے خوابوں کی دنیا کی سیر کراتے تھے :”لائبریری کی اوپری منزل کی تعمیر کے لیے ہم ایک بجٹ قائم کریں گے ۔اوپر ایک آرکائیوہوگا جس میں بلوچستان بھر سے پرانی چیزیں ، پرانی کتابیں اور ان سے متعلق معلومات جمع کی جائیں گی اور پھر اس سے آگے ہماری منزل ”سید ظہور شاہ ھاشمی انسٹیٹوٹ آف بلوچیالوجی “ہے ۔لائبریر ی میں ایک آڈیو سینٹر ہوگا جس میں بلوچ ادیبوں کی آوازیں ہوں گی ۔شعبہ آرٹ علیحدہ ہوگا جہاں معیاری ڈرامے اورفلمیں لکھی جائیں گی “ان کی باتوں سے سچائی اور خلوص تصاویر بن کر ہماری نظروں کے سامنے گھومنے لگتیں اورہم خود کو سیدظہور شاہ ھاشمی ا نسٹیوٹ آف بلوچیالوجی میں بیٹھے ہوئے محسوس کرتے ۔آپ کی موجودگی میں وہ لائبریری بھی ایک انسٹیوٹ سے کم نہ تھی جہاں آپ آکر اپنی خوابوں کو نوجوان نسل کو منتقل کیاکرتے تھے۔آپ نے ایک خواب دیکھا ”انسائیکلوپیڈیا بلوچستانیکا“اور پھر بغل جو ل لیے بلوچستان کے کونے کونے کا دروہ کیا کمیٹیاں تشکیل دیں ۔انسائیکلوپیڈیا بلوچستانیکاکے بروشرکے چاروں طرف تحریرہے ”واب گندگ لوٹ اِیت ۔واب گندگ لوٹ اِیت“(خواب دیکھنا چاہئے ۔خواب دیکھنا چاہئے ۔اسی دورے کے سلسلے میں وہ گوادر تشریف لائے جس دن ان کا پروگرام تھا اگلے دن شہدائے جیمڑی کی مناسبت سے جیمڑی میں بی این ایف کاجلسہ تھا ،میں دونوں پروگرامات کی تیاریوں میں شامل تھا۔گوادر میں ریفرنس لائبریری کے نمائندے علی واھگ اورغفاربلوچ نے مجھے بینر ڈیزائن کرنے کی ذمہ داری دے تھی جوبعدازاں دوسرے علاقوں میں بھی انسائیکلو پیڈ بلوچستانیکا کے پروگرامات میں بھی استعمال کیا گیا۔میں نے لائبریری کے نمائندوں کے توسط اُستاد سے ایک دن پہلے آکر جلسے میں شرکت کی درخواست کی جسے آپ نے قبول کیا ۔جلسے میں آپ کے علاوہ ناکوحسین اشرف ، بی آرپی کے بشیر عظیم ‘ بی این ایم جیمڑی کے مغوی رہنماءساجد حسین ، بی ایس او (آزاد ) کے وحید عیدواور بی این ایم کے موجودہ چیئر مین خلیل بلوچ نے خطاب کیا ۔یہ جلسہ جیمڑی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا ۔اس جلسہ میں ناکوحسین اشرف نے بھی پر اثراور یادگار خطاب کیا ۔جب انہوں نے خطاب ختم کیا تو شہید اُستاد نے شرکاءکی طر ف دیکھ کر سیٹھی بجانے کی سی انداز میں انگلیاں منہ میں دبائیں۔ اشارے کامطلب تھا کہ لوگ بابائے گوادر ناکوحسین اشرف کی حوصلہ افزائی میں کسر نہ چھوڑیں اور خود کرسی سے اُٹھ کر انہیں گلے ملے ۔اس جلسے میں جب آپ کو خطاب کے لیےبلایا گیا تو تمام شرکاءآپ کی تعظیم کے لیے تالیاں بجاتے ہوئے کھڑے ہوگئے ۔جیمڑی مغربی بلوچستان کے سر حد پر واقع ساحلی گاﺅں ہے جلسہ میں مغربی بلوچستا ن سے بھی لوگ موجود تھے میرے ساتھ ایک مغربی بلوچستان کا رشتہ دار کھڑاتھا جس کے لیے یہ منظر انتہائی حیران کن تھاجن کے ہاں لوگوں کی عزت دولت اور قبائلی معیار کے مطابق کی جاتی ہے۔

اس دورے میں آپ کافی مصروف رہے‘ کئی ادبی سیاسی وسماجی سرکل کیے ۔آپ ہر بات منہ پر بولتے تھے اندازکھرا کھرا ہوتا تھا ، سچ بولنے میں یہ قطعاً خیال نہ کرتے کہ آپ کی بات کسی پگدار کو ناگوار گزرے گی ۔گوادر میں آپ کو ایک نام نہاد جمہوری وسیاسی پارٹی کے کچھ کارکنان نے سوال جواب کی نشست کی دعوت دی جسے آ پ نے قبول کیا۔ بات زیادہ تربلوچی زبان پرہوئی ۔ آ پ نے فر مایا کہ ”پنجابی مقتدرہ ہمیشہ بلوچی زبان کے سامنے رکاوٹ رہی ہے شہید نواب اکبر خان بگٹی واحد جرا ت مند بلوچ سیاستدان تھے کہ انہوں نے وزیرا علیٰ بنتے ہی یہ کام آسانی سے سر انجام دیا کہ ”چھور ابیا اِت بلوچی نصابے ٹھین اِت ءُ بلوچی بہ وانین اِت “(لڑکوں آﺅ بلوچی نصاب بناﺅ اور بلوچی پڑھاﺅ) آپ کے بعد اسمبلیوں میں بلوچستان کے کئی نام نہاد قوم دوست آئے لیکن کسی نے یہ کام نہ کیا اور(ان کے ایک لیڈر
کانام لے کر اس کی نقل اُتارنے کے انداز میں کہا ) فلاں جب وزیر تعلیم تھے تو روز بہانے تراشتے تھے بات دراصل اتنی سی ہے کہ لاہور سے چار پنجابی نام نہاد ادنشور آئے اور انہوں نے یہاں ان کے کان بھرے کہ بلوچی زبان کی کوئی گرائمر نہیں‘پڑھنے لکھنے والی یہ زبان نہیں محض بولی ہے ، بس بلوچی زبان کے پڑھنے کاسلسلہ ہی موقوف ۔بہانے تراشے گئے کہ متفقہ رسم الخط نہیں وغیرہ ۔“جس وقت آپ نے ان کے لیڈر کا نام لیاتو ان میں سے اکثرکا رنگ فق ہوگیا۔ اس موقع پر جب آپ اپنے مخصوص انداز میں بات کررہے تھے اُن کا چہرہ دیدنی تھا۔

نشست کے اختتام پر میں نے آپ سے کہاکہ ”اُستاد آپ نے یہ سب شعوری طور پر کیا؟ کچھ تو ان کی میزبانی کا لحاظ کرتے ۔“

”بچا گوں منا ھمے دو تل ءُ دوپوستی نہ بیت ۔“( لڑکے مجھ سے یہی منافقت نہیں ہوتی )۔ہم نے شہدائے جیمڑی کے جلسے کی مناسبت سے جو پوسٹر اور بینر بنائے تھے ۔ اس پر جیمڑی کا نام درست صوتیات کے ساتھ ”جیمڑی “لکھا تھا جسے انگریزوں نے بگاڑ کر ”جیونی “اور پنجابیوں نے ”جیوانی “بنادیا ہے ۔آپ کی نظر جب اس پر پڑ ی تو کہا :”تم یہ کیا کررہے ہو جیونی اب لوگوں کی زبان پر چڑھ گئی ہے ۔“

میں نے کہاکہ :”قبضہ گیر ہمشیہ غلام اقوام کے تاریخی مقامات کے نام تبدیل کرتے ہیں تاکہ ان کا اپنی تاریخ سے رشتہ ختم کر لیں اور آزادی پسندہمیشہ اپنی بنیادوں سے جڑے رہنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم ان کی باتیں مانیں تو پھر ہمیں گوادر کو گاوادر، سر بند ن کو سربندر اور باتیل کو ہیمرہیڈ کہنا چاہئے۔ میرا اگر کوئی گردن کاٹ دے میں جیمڑی کو جیمڑی ہی کہوں گا ۔“

آپ میرے اس جواب پر مسکرادیئے اس کامطلب تھا کہ آپ میری تائید کررہےتھے لیکن مجھے چڑانے کے لیے کہا :”شما بچکاں باز یاد اِنت “( تم لڑکوں کے بہت حیلے ہیں ) ۔

آپ کٹر اصول پرست تھے ، آپ نے دنیا بھر میں سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کے ممبر بنا رکھے تھے ۔ممبر شپ کی سالانہ فیس دو سوروپے ہے کوئی بھی اس فیس کی ادائیگی میں کوتائی کرتا آپ اس کی ممبر شپ معطل کر کے اسے باقاعدہ نوٹس ارسال کرتے اور جب کسی علاقے کے دورے میں ہوتے تو اپنے بغل جول سے نادہندگان کی فہرست نکال نکال کرا یک ایک سے فیس وصول کرتے ۔جب بھی کسی ممبر کو دیکھتے آپ کا پہلا سوال ممبر شپ فیس کا ہوتا گوکہ فیس اکھٹاکرنے کے لیے بلوچستان بھر میں لائبریری کے نمائندگان مقررہیں مگر آپ لوگوں کے مزاج سے واقف تھے اس لیے اکثر بہ نفس نفیس یہ کام کرتے تھے ۔اس کے لیے آپ کو نہ خودعاری محسوس ہوتاتھا نہ دوسرے کی مزاج کا خیال رکھتے تھے۔ کسی بھی مجلس میں کوئی نادہندہ نظر آتا وہئیں فیس کا مطالبہ کرلیتے ۔اکثر ایسے لوگوں سے جن سے طویل عرصے تک ملاقات نہیں رہتی ہر ملاقات میں فیس لیا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ مجھے بھی آڑے ہاتھوں لیا اور فیس طلب کی جس پر میں نے لاڈ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کیا کہ”آپ غنڈوں کی طرح بھتہ لے رہے ہیں میں نے تو ابھی دومہینے بھی نہیں ہوئے فیس اداکیے ہیں ۔“لیکن آپ نے میری ایک نہ چلنے دی اور دوسو روپے لے کر فیس کی پرچی کٹواکر کہا کہ” اب تم ڈیڑھ سال تک فیس نہ دو ، ویسے تم جیسے سیاسی لوگ کونوں میں جاکر چھپ جاتے ہیں۔“

شہید واجہ کی شہادت کے بعد بی این ایم عوامی سطح پر کافی مقبول ہوئی ۔ بلوچستان بھر سے پڑھے لکھے لوگ پارٹی کا حصہ بن کر اس کی تنظیم نو کے لیے سرگرم ہوگئے ۔بی این ایم کی اس کامیابی پر آپ نہایت مسرت محسوس کرتے تھے اور نئی قیادت سے مطمئن تھے۔بی این ایم کے بارے میں ایک رکن کی طرح رائے دیتے تھے جس پر آپ کے علمی رتبے کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔جب بی این ایم کی قیادت میں یکایک اختلافات پیدا ہو گئے توآپ ان اکابرین میں شامل تھے جنہیں اختلافات اور ان کی وجوہات سے آگاہ کیاگیا ۔میری اسی متعلق آپ سے سید ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری میں ملاقات ہوئی ، واحد کامریڈ بھی اس موقع پر موجود تھے جنہوں نے آپ کو اس بارے میں پہلے ہی بریف کیا ہو اتھا ۔آپ نے میری پوری بات نہایت توجہ سے سنی ۔آپ نہایت فکر مند دکھائی دے رہے تھے او ر میری باتوں سے کسی طور مطمئن نہ ہوئے، آپ نے کہاکہ ”آپ میری پریشانی کا اندازہ نہیں لگاسکتے میں نے ساری رات اسی فکر میں آنکھوں میں کاٹی ہے ۔“

میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں ذاتی طور پر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرﺅں گا کہ مجھے اپنے ضمیر اور قوم کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے ۔پارٹی عہدے سے استعفیٰ کے بعد آپ سے گوادر میں سرٹیفکٹ کورس کے سلسلے میں منعقدہ تقریب تقسیم اسناد کے سلسلے میں ملاقات ہوئی جومیری آ پ سے آخری ملاقا ت ثابت ہوئی ۔علی واھگ( سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کے ساحلی علاقوں کے نمائندے ) مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں،پروگرامات کے تمام انتظامات اکیلے کررہے تھے اور میں ان کا ہاتھ بٹھارہاتھا ۔انہوں نے اکیلے ہی کافی کام نمٹا دیئے تھے لیکن اکیلے بھلا اتنا ساراکام کیسے سنبھلتا ہے ۔دعوت نامے تقسیم کیے تو غلام فاروق کا دعوت نامہ رہ گیا جو ہمیں پروگرام کے شروع ہونے سے محض چند منٹ پہلے پہنچانا پڑا ۔شہید اُستاد وقت مقررہ پر پہنچ گئے لیکن ہم دونوںمیزبان مزید آدھے گھنٹے تک واھگ کے گھر میں سر ٹیفکٹ بنانے میں مصروف رہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس وقت علی واھگ کیا سوچ رہاہوگالیکن یہ بحیثیت منتظم میرا پہلا پروگرام تھا جس میں مَیں مہمانوں سے بھی لیٹ پہنچا تھا ۔ مجھے سب سے زیادہ ڈر شہید اُستاد کی ڈانٹ سے لگ رہا تھامگر حیرت انگیز طور پر انہوں نے ہماری اس کوتاہی کو در گزر کیا ، ہمارے انتظامات کی تعریف کی اور حوصلہ بڑھایا ۔آپ کو رخصت کرنے کے لیے ہم ائر پورٹ تک ساتھ گئے آپ نے جو آخری بات ہم سے کی وہ آپ کے خواب سے متعلق تھی :”انسائیکلو پیڈیا بلوچستانیکاکے بارے میں فکر ضرور کرنا“

انہوں نے خود سید ھاشمی کے ادھورے خواب پور ے کرنے کے لیے زندگی کھپا دی اور ہماری تکمیل کے لیے ایک خواب چھوڑ گیا ”انسائیکلو پیڈیا بلوچستانیکا “۔

٭٭٭٭

05/06/2011


0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.