جب آزادی کی کہانی لکھوں گا
قاضی داد محمد ریحان
مجھے افسوس ہے
دل کی گہرائیوں سے
اپنے اُن خوابوں پر
جو میں نے بندوبست پاکستان میں مساوات کے
لیے
اپنے لڑکپن کی دہلیز پر دیکھے تھے
سبز انقلاب کا خواب
جس کا کوپا جماعت اسلامی نے میری آنکھوں
پر چڑھایا تھا
افسوس ہے اپنی اس معصومیت پر
جب میں نے اخترمینگل کو بلوچوں کا مسیحا
جان کر اس کی تعریف کے پُل باندھے تھے
افسوس ہے اپنی جوانی کا آڑھے ترچھے راستوں
میں لاپتہ ہونے کا
میری غلطی ، عظیم غلطی کہ میں نے کنچے کھیلنے
کی عمر میں اپنی چھوٹی آنکھوں میں بڑے خواب پالے
وہ کتابیں بھی کم قصوروارنہیں جن کے زرد
صفحات میں منتر جیسے الفاظ کندہ تھے
گل بکاولی ،
چہار درویش ، آرایش محفل ، الف لیلہ ، داستان
امیرحمزہ
قصص الانبیا
قصص الاولیا
اور
جنت کے مناظر بمع مرنے کے بعدکیا ہوگا جیسے رسالوں کے بیچ ، میرے دادا
کی کتابوں کی کالی شیشیم کی الماری میں ایک جادو بھی بند تھاجب میں اس کے پَٹ کھولتا تو اپنے آپ میں
کہیں گہرائی میں کھوجاتا ، بھٹکتا ، سر پھٹکتا ____جوئے شیر کی تلاش میں
کبھی حاتم طائی کے سات سوالوں کے کھوج میں
حسن بن صبا کی خیالی جنت نے تو مجھے اسکول
کی لائبریری میں ہی اپنے اُور آکرشت کیا تھا ، میں یعقوب ناشاد کی خشمگین نگاہوں کی
پرواہ کیے بغیر وہ کتاب آدھے مہینے تک پڑھتا رہا اور پھر پھٹا ہوا جلد بدل کر واپس کیا۔
ماسٹراسماعیل صابر نے اس گم شدہ بچے کو
اپنے اخباروں کے اسٹال سے بھگاتے ہوئے کبھی
سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہی بچہ صحافت میں اس کا شاگرد بن کر اس سے داد بٹورے گا لیکن
اس بچے کی آنکھوں میں وہ منظر ہمیشہ زندہ رہا ، کانوں میں اس سوال کی گونج اب بھی ہے۔
آپ کی یہ کہانی نہیں ہے ____ آپ آج جس زمانے
میں جی رہے ہیں ، میرے بچوں ! آپ اُس راستہ کھونے والے بچے کے احساسات کو محسوس نہیں
کرسکتے ۔ اس کو جانے کیسے یہ احساس ہوا کہ یہ راستہ کتابوں کے صفحات میں پوشیدہ ہے
کتابیں جن میں کوئی تخصیص نہیں کہانیاں جنہیں کوئی بھی لکھے __شرط منٹو اور کرشن چندر
ہونا نہیں۔ اس لیے تو مُٹھی میں چند مڑے تڑے نوٹ لے کر میں نے یوں ہی ہاتھ سے اشارہ
کرکے کہا کہ :وہ کتاب دو_ماسٹراسماعیل جیسے اخبار کے صفحے کے اندر سے باہر آئے۔
اپنی آنکھوں سے میری اُنگلی کا تعاقب کیا ، میں
ایک ہفتہ وار میگزین کی طرف اشارہ کررہا تھا ، میری طرف دیکھ کر کہا: پہلے اس کا نام بتاو ، پھر دوں گا ۔ میں نام نہیں
بتا سکا ، عجیب آڑھا ترچھا لکھا تھا ، اب یاد کرتا ہوں تو شاید وہ کوئی سندھی میگزین
تھا ۔
آج وہ منظر ٹٹولا ____کچھ الفاظ لکھے ،
مٹ گئے ___پھر لکھ رہا ہوں___وہی احساس الفاظ
الگ
آج جب سوچتا ہوں تو جیسے میرا لڑکپن اور
میری جوانی ____میری زندگی سے کھرچ لیے گئے ہوں
آج جب جیتا ہوں تو اندر سے ایک بچہ باہر
نکلتا ہے ایک بدتمیز لاپرواہ جوان ___جو جی بھر کر کھلکاریاں مارنا چاہتا ہے
جو موبایل کی اسکرین کے اس طرف قہقہوں اور خوشبووں کی محفل میں ہونا چاہتا
ہے ، جہاں سلجھے ، اُجلے اور محبت چھلکاتے چہرے دل کے پُژمردہ ارمانوں کو کچکوے لگاتے
ہیں
ان ارمانوں کا قاتل وہ مصنفین بھی ہیں جنہوں
نے حق اور باطل کی باتوں سے ایک ننھے ذہن کے کٹورے کو بھر دیا
وہ اشعار بھی ظالم ہیں __میر اور میرا جی کے اشعار بھی
مست توکلی کے کلام بھی
غالب کی زبان فارسی بھی
اور اقبال لاہوری نے بھی اس بالک کے ذہن
پر کم ظلم نہیں ڈھائے
اصلاح احوال کے لیے مولانا مودودی کے بھاری بھرکم خیالات نے بھی
اندر ایک باغی کی پرورش کی
داستان پردازنوں نے تخیل کی آزادی کی راہ
دکھایا ،سوچنے اور سوچنے ____اور لکھنے کا ایسا روگ کہ دشمن جان بن گیا ۔
اس سولہ سال کے نوجوان کی تشنگی میرے اندر
دبک کر بیٹھ گئی ہے جس کی کمر پر ہزار سالوں کا بوجھ لادھا گیا
وہ کبڑی کمر کا آدمی اب بھی ذہن کی کھڑکی
سے پار ___کراچی یونیورسٹی میں لیکچر نہ سننے پر گھنٹوں کف افسوس ملتا ہے
لیکن اسے افسوس نہیں تو بس اس ایک بات کا
کہ اس نے اپنی آزادی کو کبھی رہن نہیں کیا
اس لیے اس کے اسکرین کے اس طرف واپس جانے
کی کوئی خواہش نہیں جہاں قہقہوں اور خوشبووں کے بیچ اُجلے چہروں کے میک اَپ کے تہہ میں آزادی
مدفون ہے
وہ بوڑھا سوچتا ہے کہ جب کبھی وہ واپس جائے
گا تو اس کے ہاتھ میں کنستر ہوگا جس میں ٹافیاں
ہوں گی
اس کے چہرے پر جھریاں ہوں گی جس کے ہر سلوٹ
کے تہہ میں ایک کہانی ہوگی
اس کا چہرہ الف راتوں کا الف لیلہ ہوگا
لیکن وہ بس ایک لفظ سرورق پر سجائے رکھے
گا ___آزادی
چہرے کے جھریوں کے تہہ کی کہانیاں؟
آزادی کی مٹھاس
گیت ، کہانیاں
آزادی کی راہ میں آزاد مرنے والے سرمچار
دوستوں کے نام
اگر میں مرگیا تو میں بھی ان بوڑھے جھریوں
کی تہہ میں رہنا چاہوں گا
___ ا♪ اگر آپ میری گلابی اُردو میں اس بلاگ کی آڈیو سننا چاہتے ہیں ، تو درج ذیل لنک پر کلک کریں
آپ اسے ڈاونلوڈ بھی کرسکتے ہیں 👇
Post a Comment