قابض پاکستانی فورسز کے ہاتھوں بلوچ خواتین کا اغوا اور انہیں لاپتہ کرکے ٹارچرسیلز میں ڈالنا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ۔ ماضی میں روابط کی کمزورویوں اور میڈیا کی غیرموجودگی میں ایسے واقعات کو بآسانی دبایا جاتا تھا ۔لیکن موجودہ تحریک کے ابھار اور متحرک قوم دوست جماعتوں کی وجہ سے اب ایسے واقعات منظرعام پر آرہے ہیں۔ جس سے نا صرف بین الاقوامی برداری ان پاکستانی مظالم سے آگاہ ہورہی ہے بلکہ بندوبست پاکستان کی عوام بھی بتتدریج بلوچستان پرقابض فورسز کی زیادتیوں کے بارے میں جان کر بلوچ تحریک کی حقانیت کو تسلیم کررہی ہے ۔ اس لیے ڈاکٹراللہ نزر بلوچ کی اہلیہ ، بچی اور ان کے ساتھ دیگر خواتین کا اغوا وسیع پیمانے پر پاکستانی فورسز کی سبکی کا باعث بنا۔یہاں تک کہ پاکستان کے ٹاؤٹ بھی اس کے دفاع کرنے میں ناکام رہے اور پاکستانی سینٹ کے اجلاس میں بھی بعض سینٹرز نے اس پر اپنی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کیا ۔
واقعے کی نزاکت اور اس کے ابلاغی طاقت کا تقاضا تھا کہ بھرپور طریقے سے دنیا تک اپنی آواز پہنچائی جائے یہ صرف چند رہنماؤں کے گھر کی خواتین کے تحفظ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ اس طاقتور چیخ کے ساتھ بلوچ قومی مسئلہ بھی مختلف میڈیم سے سفر کرتا ہوا دنیا کے کونے کونے میں پہنچا۔ھیربیارسے تمام تر اختلافات کے باوجود جناب ایک طاقتور سردار اور جدیدبلوچ نیشنل ازم کے بانی باباخیربخش مری کے بیٹے اور بلوچ تحریک کے حوالے سے اپنی پہچان رکھنے والے لیڈر ہیں ۔ان سے یہ توقع ہے کہ وہ اس طرح کی حالات میں مذمتی بیان سے ہٹ کر ایسے اقدام بھی کریں گے جس سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکے لیکن غیرمتوقع طور پر ھیربیار نے فوری ردعمل دینے سے گریز کیا یہاں تک کہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے بھی اس بات کو محسوس کیا اور ایک بلوچی فلم کے ڈائیلاگ ’’ سنگت گپ نہ جنت ‘‘ (دوست بات نہیں کرتا) کو پوسٹ کرکے ان کی اس خاموشی پر تنقید کی گئی حسب معمول ھیربیار کے ہمنواؤں نے ناصرف اس بات کا برا منایا بلکہ اس سوشل میڈیائی تنقید کو بھی کھینچ کر’سنگت‘ کی ذات تک لے جانے کی کوشش کی گئی البتہ یہ یکطرفہ تماشاسوشل میڈیا میں بھی عمومی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بالآخر سنگت کا بیان بھی آگیا ۔ ھیربیار کے ہمنوابیان کے مندرجات پر غور کی بجائے خوشی خوشی ’سنگت‘ کے بیان کو تنقید کرنے والوں کی منہ پر مارتے رہے ، تاثرتھا: ’’لو ھیربیار نے تم لوگوں کا منہ بند کردیا‘‘۔
موصوف کے بیان میں بلوچ خواتین کے اغوا کا تذکرہ تو تھا لیکن حالیہ واقعہ پر توجہ مرکوزکرنے کی بجائے ایک ہی بیان میں عالمی اور علاقائی سیاست کی مکسچر کی گئی جس سے بیان باہمی اعتماد کی فضا جس کی اس مشکل گھڑی میں ضرورت تھی ، پیدا کرنے میں ناکام رہا بلکہ اس سے ایک اور تنازعے نے جنم لیا ۔ ڈاکٹراللہ نزر بلوچ نے ھیربیار کے بیان کے سامنے آنے کے فورا بعد اپنے ٹیوٹ میں ھیربیار کے بیان کی مذمت کی بعدازاں ایک اورسرخیل رہنماء کامریڈ نبی (عبدالنبی بنگلزئی )نے بھی ھیربیار کے موقف پر اپنے تشویش کا اظہار کیا ۔
ھیربیار بلوچستان فری موومنٹ نام کے ایک سرکل کو لیڈ کرتے ہیں ، بین الاقوامی بندشوں کی وجہ سے جناب خود کو اعلانیہ طور پر بی ایل اے سے الگ رکھتے ہیں لیکن ان کی وابستگی ایک کھلا راز ہے ۔اس تناظر میں مذکورہ بلوچ رہنماؤں کی طرف سے دو مختلف نکتہ نظر کا ہونا دو جداگانہ سوچ کی نشاندہی کرتا ہے ایسا نہیں ہے کہ اس سوچ کا حالیہ واقعات یا سعودی عرب میں رونما ہونے والے سیاسی یا خانگی تبدیلیوں سے تعلق ہے یا تازہ واقعات کے بعد ہی دو مختلف سوچ پیداہوئیں مگر ماضی میں مشرقی بلوچستان میں سیاسی جماعتوں اور طلبا ء تنظیموں کے درمیان شدیدترین اختلاف کے باوجود اس ایک نکتے پر اختلاف کی مثال نہیں کہ:’’ بلوچ تحریک مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرئے گی اور نہ ہی معاشرے میں ملائیت قبول کی جائے گی۔‘‘ ھیربیار کے حالیہ بیان میں سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نام نہاد اصلاحی اقدامات کو سراہا کہا گیا ہے ، یہی اس بیان کا مقصد تھا مگر کسی ممکنہ طعنہ سے بچنے کے لیے جناب نے بلوچ رہنماؤں کے نام لینے سے گریز کرتے ہوئے بلوچ خواتین کے اغوا بھی حوالہ دیا جو کہ ان کی ایک سیاسی مجبوری تھی ۔
حیرت ہے کہ ایک محکوم قوم کے ایسے رہنما کی حیثیت سے جو اب تک اپنے گھر میں سدھار پیدا کرنے میں ناکام اور اپنی جماعت کی تقسیم در تقسیم جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے میں قاصر نظر آتے ہیں وہ سعودی بادشاہ کا دفاع کررہے ہیں ۔ سعودی عرب جو وہابیت کا علم بردار ہے ، جس نے اسلام میں ’ لکم دینکم ولی دین ‘ کے فلسفے کو ’ جہادی ‘ فلسفے میں بدل دیا اور اب کے وہاں ایک بادشاہ اپنے اقتدار اور علاقائی اثر ورسوخ بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ۔انہوں نے احتساب کے نام پر اپنے ممکنہ مخالفین کے خلاف ایسے اقدامات کا آغاز کیا ہے جن کی عرب ملوکیت اور دنیا کی بادشاہتوں میں ایک طویل تاریخ ہے ۔ گزشتہ دنوں کے اقدامات سے جس میں درجنوں شہزادوں اور حکومتی اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے ،صاف نظر آرہا ہے بادشاہ اپنے محلاتی سازشوں سے خوفزدہ ہوکر یہ سب کررہا ہے،تجزیہ نگار اس اکھاڑ پچھاڑ میں استحکام نہیں دیکھ رہے۔
اوراچھے سے اچھا دوربین لگانے پر بھی ہمیں ھیربیار کے لائے گئے اس دور کی کوڑی میں بلوچ مفاد ات کا شائبہ تک نظر نہیں آتا یہ الگ بات ہے کہ ھیربیار ہی ’ایران‘ کے خلاف بطور پراکسی اپنے خدمات پیش کرنے کا خواہاں ہو جو یقینا وہ نہیں چاہئیں گے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ھیربیارمری کے ان کے اپنے والدگرامی باباخیربخش مری سے تعلقات میں بگاڑپیدا ہونے کے بعدوہ ان افراد کے قریب ہوگئے جن کا تعلق ایران کے زیرانتظام مغر بی بلوچستان سے ہے جو وہاں زمین پر موجود نہیں لیکن یورپی ممالک میں ایرانیوں کے ساتھ مل کر ایرانی رجیم کے خلاف محض پروپیگنڈہ سے دل بہلا رہے ہیں ۔ان افراد نے ماضی میں بلوچ نیشنل فرنٹ میں بھی درانداز ی کی اور کچھ لوگوں کو ماورائے ادارہ فنڈنگ کرکے ان سے ایران کے خلاف نعرے لگوائے ۔ ان کے اپنے پاس موثر قیادت اور عوامی حمایت نہ ہونے سے ھیربیار جیسے قدآؤر شخصیت کا ان کے دام میں آنا ان کی بڑی کامیابی ہے ، جسے وہ استعمال کررہے ہیں ۔ ان میں سے کئی ھیربیار کے خصوصی مشیر اور سفیر کا درجہ بھی رکھتے ہیں جنہوں نے ھیربیار کے لبریشن چارٹر کی تیاری اور تقسیم میں بھی کلیدی کردار ادا کیا لیکن دوسری طرف ان کا مذہبی انتہا پسند تنظیم جنداللہ ، جیش العدل اور انصارالفرقان سے بھی یارانہ ہے جن کے موقف کی یہ ببانگ دہل تشہیر اور دفاع کرتے ہیں ۔
جب کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے والے ان گروہوں کو بلوچ قوم دوست جماعتیں ہمیشہ سختی کے ساتھ مسترد کرتی رہی ہیں اور اس کا ھیربیار کے اختلافی بیان سے نسبت اتنا ہی ہے کہ موصوف کا بیان بلوچستان کی ان سیکولر سوچ رکھنے والی جماعتوں کے موقف کے برخلاف ہے ۔
بلوچستان کی سب سے بڑی قوم دوست اور آزادی پسند سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ جو کہ ایک’ سیکولرڈیموکریٹک آزاد بلوچستان ‘کی پرامن تحریک چلا رہی ہے روز اول سے بلوچستان میں قبائلیت ، رجعت پسندی اور ملاہیت کے خلاف نظریہ ساز کردار اداکررہی ہے ۔ مذکورہ جماعت نے بلوچ نیشنل فرنٹ کی طرف سے ۲۰ جون ۲۰۱۰ کو مالک ریگی کی پھانسی کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاج سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیاتھا ۔ بی این ایم کا موقف تھا مالک ریگی ایک مذہبی انتہاء پسند گروہ کا سرغنہ تھا جن کے ایجنڈے میں بلوچستان کی آزادی کی بجائے ، ایرانی سنیوں کے حقوق کی حصول تھی اور وہ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتاتھا ۔ بی این ایم کے اس موقف پر اس وقت بھی ان عناصر نے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن بی این ایم اپنے موقف پر قائم رہی اوراس احتجاج کے لیے ’ بلوچ نیشنل فرنٹ ‘ کے نام کو استعمال کرنے والوں سے ایک غیررسمی نشت میں اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا گیا۔
یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ بی این ایم اور اس کی اتحادی تنظیمیں ماضی میں بھی اسی موقف پر قائم تھی جس کا ھیربیار کے بیان کے ردعمل میں اعادہ کیا گیا ہے ۔ مگر ھیربیار مری کا سعودی عرب کے پراکسی کرداروں کی طرف جھکاؤ اور ان کی خوشنودی کے لیے ان کے آقا’آل سعود ‘کی تعریف پاکستان کی طرف سے بدترین نسل کشی کی شکار بلوچ قوم کے مصائب میں اضافہ کرئے گا کیوں کہ پاکستانی دہشت گردی سے بچنے کے لیے اندازاً پچاس ہزار سے زائد آئی ڈی پیز مغربی بلوچستان ہجرت کرچکے ہیں جہاں وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ جن میں نوے فیصدایسے ہیں جو غیریقینی صورتحال میں وہاں پناہ گزین ہیں ۔ ایران کے خلاف ھیربیار کا پراکسی بیانیہ (جو بلوچ مفادات اور زمینی حالات سے میل نہیں کھاتا) ان مہاجرین کی زندگیوں کو برائے راست خطرے میں ڈالنے کا سبب بھی بن سکتا ہے جب کہ اصل خطرہ بلوچ تحریک کے سیکولر نظریے کو ہے جسے مغربی بلوچستان میں شیعہ سنی شکل دے کر مسخ کیا جاچکا ہے جہاں ان ہزاروں بلوچوں کو بھی نفرت اور بیگانگی کی نظر سے دیکھاجاتا ہے جو سنی نہیں ۔اس لیے ھیربیار کے بیان پر فوری ردعمل دینا ایک دور اندیشانہ فیصلہ تھا جس کے مستقبل میں بلوچ معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
Post a Comment