میں بی ایس او کی سیاست سے روزاول سے ہی اختلاف رکھتا تھا ، مجھے بی ایس او کی تمام شکلیں طفیلی اور غیرطلبا ء قیادت میں جھنڈا بردار نظرآتی تھیں ۔ بی ایس او کے قائدین کا علم وادب سے زیادہ کُشتی سے نسبت لگتا تھا اس کی وجہ ان کا جسمانی قدوکاٹھ بھی تھا وہ عام طالب علموں سے جسامت میں اکثر بڑے ہوتے تھے ، کچھ طلبا ء رہنماء مجھے طالب علم سے زیادہ پیشہ ور چرسی نظر آتے تھے ۔ میں اپنے زمانے کی بات کررہا ہوں بلاشبہ بی ایس او کا ایک سنہرا بھی دور بھی رہا ہے۔ جس اسکول میں مجھے پہلی مرتبہ پڑھانے کی کوشش کی گئی ، وہ وژدل محلہ اسکول تھا ، اس زمانے میں اسکول کی ایک کمرے پرمشتمل شکستہ عمارت ، شاہی بازار کے عقب میں واقع تھی ۔میں نے سنا ہے کسی زمانے میں وہ بی ایس او کی پبلک لائبریری تھیجس میں تعلیم بالغان کی کلاسیں بھی لگتی تھیں اور شہر میں ایسی دیگر لائبریاں بھی تھیں ۔ لیکن سن شعورمیں ہم نے جو بی ایس او دیکھی وہ کتابوں سے دور ہوکر پوسٹروں کے قریب ہوچکی تھی ، پھر گانے بجانے ، ٹوپی ، ٹی شرٹوں اور سیاہ چادروں کا دور دھوم دھڑکے سے آیا ۔
 
میں سیاست کی بجائے صحافت پرتوجہ مرکوز رکھنا چاہتا تھا اور کم از کم بی ایس او میں شمولیت کا میں نے ہرگز نہیں سوچا تھا ۔ میرے قریبی دوست شہیداحمد داد اور شہیدلالاحمید بھی میرے ساتھ صحافت کررہے تھے ،لالاحمید پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہونے کے باوجو بی ایس او مینگل میں تھے، حالانکہ ان کی فیملی نیشنل پارٹی سے وابستہ تھی۔ انہی دنوں سنگل بی ایس او کا اعلان ہوا ، گوادرمیں اس وقت تک ہم دوست ایک وسیع غیر تنظیمی سرکل بناچکے تھے اورہم بظاہر مختلف سیاسی جماعتوں کے بھی قریب تھے ۔مجھے شہیداحمدداد نے بی ایس او میں شامل ہونے کے لیے کہا ، لیکن تکنیکی طور پر اس میں رکاوٹ یہ تھا کہ سنگل بی ایس او کے قیام کے لیے جو طلبا ساتھ بیٹھ رہے تھے وہ بی ایس او کے کسی نہ کسی دھڑے کے ممبر تھے۔ نیشنل پارٹی دھڑے کے رہنماؤ ں نے مجھ پر اعتراض اُٹھایا کہ میں کسی دھڑے کا ممبر نہیں ،اس کا توڑ نکال کر بی ایس او مینگل نے مجھے رکنیت دے کر اس پراسسز میں شامل کیا ۔ شہیداحمدداد نے مجھے راضی کیا کہ ہماری کوششوں سے بلوچ طلبا سیاستکے مزاج میں تبدیلی آئے گی اورجیسا کہ سنگل بی ایس او کا مقصد ہے بلوچ طلباکو ایک ایسا فلیٹ فارم مہیا کیا جائے جو سیاسی جماعتوں کے اثرات سے آزاد ہو ۔ سنگل بی ایس او کا رسمی اعلان بھی گوادر میں ایک جلسہ عام میں ہونا تھا ۔ میں نے ہچکچاہتے ہوئے بی ایس او میں شمولیت اختیار کی اُس مختصر دورانیہ کی بی ایس او میں جس کا کوئی دوسرا دھڑا نہیں تھا ۔لیکن پہلے اجلاس میں ہی سیاسی جماعتوں کے اثرات ہم پر واضح تھے۔اجلاس میں شریک ہونے والے مرکزی کمیٹی کے ممبران طے شدہ ایجنڈہ لے کر آتے۔گوادر میں بی ایس او متحدہ نہیں تھی ، نہ ہی اس وقت ہمارے ذہن میں بی ایس او متحدہ کی سوچ تھی لیکنہم تمام قریبی دوست بی ایس او کی مکمل خودمختار حیثیت کے حامی تھے ۔مگرہمارے ساتھ سیاسی جماعتوں کے دھڑوں سے وابستہ عناصر نے ایسا کھیل کھیلا کہ کونسل سیشن سے پہلے ہمارے تمام متحرک دوست معطل کردیئے گئے ، مجھے روزنامہ توار میں چھپنے والے بی ایس او سے متعلق ایک خبر کو بنیاد پر معطل کیا گیا ، کیوں کہ میں گوادر میں روزنامہ توار کا بیوروچیف تھا البتہ وہ خبر میرے علم میں لائے بغیر اسماعیل بلوچ نے چلائی تھی جو عملی طور پرمیرے چیف تھے ۔اس معطلی پر ہمارے دوستوں نے سوال اُٹھایاجواباً ’’ باجماعت‘‘ معطل کردیے گئے۔ سیشن میں بی ایس او پھر سے ٹکڑوں میں بٹ گئی ، نیشنل پارٹی اور بی این پی نے اپنا حصہ بٹورا ، بی ایل اے اور بی ایل ایف نے اپنے نظریاتی نعرہ بازوں کو الگ کرکے بی ایس او آزاد کا نام دے دیا ۔ سچائی تو یہ ہے کہ بی ایس او آزاد بھی اتنی ہی آزاد تھی جتنی بی ایس او پجار اور بی ایس او مینگل، فرق ہے تو بس اتنا کہ بی ایس او آزاد بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے ایک واضح نکتہ نظر رکھتی تھی اور باقی دونوں ظاہرو باطن طفیلی تھے ۔ 
 
میں نے بی ایس او آزاد اور اس کی سرگرمیوں کی بنیاد پر ہو تین ہونہار نسلوں کو مِٹتے دیکھا ۔ہم دوستوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی بی این ایم میں شمولیت اختیار کی ، ہم محض اس نکتے پر قائل ہوئے کہ سوچ اور الفاظ کو عملی جامہپہنانے کے لیے میدان عمل کا حصہ ہونا چاہئے۔ میں نے بی ایس او کے دوستوں سے ہمیشہ کہا کہ وہ عوامی سیاست سے اجتناب کریں یہ ان کا مینڈیٹ نہیں ہے ۔ لیکن شہیدقیوم کامریڈ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ بلوچستان میں ماس پارٹی نہ ہونے کا خلا ، بی ایس او پُر کررہی ہے ۔ مجھے عجیب لگتا کہ اسی بی ایس او سے نکل کر بی این ایم میں شامل ہونے والے کس خلا کو پُر کررہے ہیں ؟ ، میں کبھی اس سوچ کے منبع تک نہیں پہنچ پایالیکن مجھے اس بے اطمینانی کے پیچھے بلوچ آزادی پسندوں کے درمیان وہی اختلافات نظر آتے ہیں جو آج کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ ان ہی اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے بلوچ قوم کے مستقبل کو آگ میں جھونک دیا ۔ 
 
دوہزاردس میں میں نے بلوچ آزادی پسندوں کو ایک خط لکھا تھا، اس میں میں نے دیگر کئی تجاویز کے ساتھ یہ تجویزبھی پیش کی تھی کہ بی ایس او کو عوامی سیاست سے دور رکھا جائے ۔ ہماری کسی نے کب سنی؟ بی ایس او آزادسالوں اسی کیفیت میں رہی کہ وہ ’’ ماس پارٹی‘‘ کا خلا پُرکرئے گی ۔ بی ایس او ، دو آزادی پسند جماعت بی آر پی اور بی این ایم کے درمیان مجوزہ اتحاد میں بھی رکاوٹ بنی رہی ۔ بی آر پی کا موقف تھا کہ بی آرایس او کو بھی اسی طرح ایک برابرفریق کے طور پر بی این ایف کے اتحاد میں شامل کیا جائے جس طرح بی ایس او آزاد کو شامل کیا گیا ہے جب کہ بی ایس او ، بی آرپی کو آزاد تنظیم تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی ، اصولی طور پر بی این ایف کے اتحاد میں طلبا ء تنظیموں کی شمولیت ہی بے جوڑ تھی ۔ اور بی ایس او آزاد کی مکمل آزاد تنظیمی حیثیت کا دعوی بھی مشوک تھا ۔ 
 
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی سرگرمیاں بطور صحافی اور علم دوست ہمیشہ میری توجہ کا مرکز رہے ہیں ، جب میں نے ان کے مرکزی کونسل سیشنکے انعقاد کا سنا تو خوشی اور بے چینی کے ملے جلے احساسات نے گھیر لیا ۔ میں اسی دن سے ان گزارشات کو لکھنے کا سوچ رہا ہوں لیکن گردش دوران میں گرفتار کوئی بھی کام وقت پر نہیں ہوپا رہا ۔ خوشی بی ایس اے سی کی کامیابی کی تھی اور تشویش اس بات کی کہ ہماری اکثر تنظیمیں کامیاب کونسل سیشن کے انعقاد کے بعد ہی بکھر گئی تھیں ، بی ایس اونے تو ہرسیشن کے بعد تقسیم کاایک رکارڈ بنا رکھی تھی ۔ اس لیے میں سانپ کا ڈسا رسی سے بھی خوفزدہ تھا ۔
 
بی ایس اے سی کو حتی الوسع ان غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو بی ایس او نے کیے ہیں ۔ ایک طالبعلم کی واحد ذمہ داری حصول تعلیم ہے ، اس کی سرگرمیوں کا محور متعلقہ شعبے میں مہارت حاصل کرنا ہے ۔ عام لوگ دوسرے کی غلطیوں کیبجائے اپنی غلطیوں سے عبرت پکڑتے ہیں لیکن بعض غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوتی اور ایک طالبعلم کے لیے اُس کا وقت ہی اس کا سرمایہ ہے ، جو ہاتھ سے نکل گئی تو پھر اسے واپس حاصل کر نے کا امکان نہیں ۔ طالب علموں کا خاصہ یہ ہے کہ وہ دوسری کی غلطیوں اور کامیابیوں کا تجزیہ کرکے اپنے منزل کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور طلباء تنظیم ایک علم پرور ادارہ ہوتا ہے ۔ ماضی میں بلوچ طالب علموں کا نظریاتی استحصال محض غلطتعلیم وتربیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ خوشنما نعروں کی بنیاد پر بھی کیا گیا۔جس طرح ایک نعرہ مذہب کی بنیاد پر لگا کر ذہنوں پرایک مخصوص ٹوپی چڑھایا جاتاہے اسی طرح قوم دوستی کا نعرہ اگر طالب علم کے تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہو تو وہ اس قوم کے معماروں کا بیڑا غرق ہوتا ہے ،جس طرح ہمارا ہوا ۔ 
 
پھر ایک وقت ایسا آتا ہے یہی قوم دوست جو کل تعلیمی اداروں میں نعروں کی ہوائی فائرنگ کررہے ہوتے تھے ، دانشورانہ ، سائنسی اور علمی رہنما ئی کاتقاضا کرتے ہیں ۔ بی ایس او آزاد جیسی تنظیم کہاں سے پی ایچ ڈی پیدا کرتی جس کا چیئرمین یونیورسٹی کی بجائے کسی اور درسگاہ میں تعلیم حاصل کررہا تھا ؟ پھر جے جے کار بھی دانشور کا ، رونا بھی دانشورانہ اپروچ کے نہ ہونے کا ۔ طلب بھی ہرکام میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا تو یہ منافقت نہیں ؟ 
 
بی ایس او کو کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر وہ ہرسال ہزاروں کے حساب سے زندگی کے مختلف شعبوں میں تعلیم یافتہ قوم دوست افراد فراہم کرتی تو آج بلوچ قوم کی سماجی حالت بہتر ہوتی ۔ بی ایس او کی ماس پارٹی بننے کی سوچ نے اسے گمراہ کردیا ، تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوا ، لکیر کے ایک طرف بی ایس او کا بیانیہ تھا ، جس کا اظہار’’ حمایت سرمچاران ریلی‘‘ کی شکل میں کیا گیا اور دوسری طرف وہ طالب علم تھے جو اپنا طالب علمانہ فریضہ پورا کرنا چاہتے تھے ، وہ ناچار لکیر کے اس طرف تھے جہاں ان کی منزل بلوچ قومی بقا ء کے برخلاف طے ہونا تھا ۔ 
 
میری یہی استدعا ہے کہ بلوچ طلبا ء کی اس تنظیم کو کسی بھی قسم کی سیاسی نعرہ بازی سے گریز کرنا چاہئے ، اس تنظیم کی ذمہ داری ہے کہ بلوچ طلبا ء میں بردباری اور صبر پیدا کریں جو ان کی علمی ترقی میں کردار اداکریں ، جذباتیت اور رومانویت سے بلوچ طلبا ء کو محفوظ رکھنے کے لیے علماء کی خدمات حاصل کرکے اس سلسلے میں تربیتی پروگرامات کریں ۔ بلوچستان کے حالات دگرگون ہیں ، لاتعداد مسائل موجو د ہیں لیکن انہیں اپنے والدین کا محتاج ایک طالب علم حل نہیں کرسکتا بلکہ زندگی کے سردوگرم سے آشنا تعلیم یافتہ شخص ہی ان کے حل کے لیے ایک بہتر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے اور اس صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے جتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے پہلے اسے صبر وتحمل سے حاصل کیا جائے ۔ جس وقت کوئی طالب علم کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لیتا ہے ، اس سے پہلے اس تعلیمی ادارے اسی کی سیٹ پر بیٹھا ہوا ایک شخص فارغ والتحصیل ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھ چکا ہوتا ہے ، کچھ کام اپنے اس پیشرو کے کرنے کے لیے چھوڑ دینا چاہئے ۔ میں یہاں محض پارلیمانی سیاست سے اجتناب کی بات نہیں کررہا بلکہ نظریاتی اور مذہبی سیاست کو بھی طلبا ء تنظیموں پر حاوی نہیں ہونا چاہئے البتہ ثقافتی میدان میں بی ایس اے سی کی ایک علم پرور ذمہ داری ضرور بنتی ہے ۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے سیشن میں بھی کیا ہے کہ انہوں نے شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ دو زندہ بلوچ ادیبوں کے نام پر سیشن کا انعقاد کیا بلاشبہ واجہ عبدالرحمن براھوی اور واجہ مبار ک قاضی اس کے مستحق ہیں ۔ آج بلوچوں کی دونوں زبان علمی طور پر انحطاط کا شکار ہیں ۔ اسی پروگرام میں جناب ڈاکٹرمنظوربلوچ نے اپنے ابتدائی کلمات تو براھوی زبا ن میں اداکیے لیکن انہوں نے بوجوہ بلوچی یا براھوی میں تقریر کرنے کی بجائے اردو میں تقریر کی ، جو ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ اس پر سوچتے ہوئے بلوچ طالب علموں کو اپنی زبانوں کی بقا کے لیے خصوصی پروگرامات کرنے ہوں گے اور بلوچی کوباہمی رابطے کی مستحکم زبان بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
Labels:
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.