” شفق کی غیر معمولی لالی دیکھ کر ماں کہاکرتی تھی کہ آج دنیامیں کوئی شہید ہوئےہوں گے جس کے خون کے چھینٹوں سے چرخ سرخ رو ہے ۔اب کہ عقل سلیم ہو اچاہتاہے یہ خبر نہانی طشت ازبام ہے کہ مشرق سے مغرب کی طرف مراجعت کرتے وقت سورج کی تیرگی روشنی میں پیوست ہوکر شفق کو لالی عطاکرتی ہے ۔ماں نے نانی ماں کا مفروضہ بیان کیا ہوگا ۔“
”شہید کاخون بھی شب دیجور کے سینے میں روشنی کی طرح اُترتاہے “
”ہاں یہ سچ ہے لیکن یہ روشنی سپید ہ سحر جیسی ہوتی ہے جس میں روشنی تیرگی میں پیوست ہوتی ہے ۔ میری ماں بھولی ہے ۔اُو میری پیاری ماں تو اتنی انجان کیوں ہے ؟.......یہ آپ کی سادگی ہی ہے جو مجھ میں سرایت کرگئی ہے ۔اس لیے میں بھی ہمیشہ آدمی کے بنائے گئے تباہ کاری کے کھنڈرات کو دیکھ کر اس کی اس حر کت کودرندگی سے مشابہہ کرنے کی سعی کرتا رہتاہوں جو اپنے اعمال بدکو”شیطانیت ، وحشت اور درندگی“جیسے الفاظ کا پیرہن پہناتاہے ۔نہ ”ہلاکو“درندہ صفت تھا نہ ”چنگیز“وحشی“یہ ان کی آدمیت ہی تھی جس نے انہیں سر وں کا مینار بنانے پر اُکسایا ۔”وحوش“ بیچارے فطرت کی حکم بجاوری میں جوکرتے ہیں ان کا انہیں تفہیم ہی نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو بدھاکے مجسمہ کے پنجے اور دم ہوتے ۔آج پھر ایک سچے کھرے ”رسول “کو یسوع نبی کی طرح لکڑی پہ ٹانک دیاگیا۔ماں تو سچی ہے توچرخ کی لالی کہاں ہے ؟
ماں !............رسول توجھوٹے نہیں ہوسکتے ناں ؟جوجھوٹانہیں وہ شہید ہے ۔میرل کی بھی لاش گری ہے اور مختار بھی مختار کل کے حکم پہ اپنی زندگی حرماں نصیب قوم کودان کرگئے ۔ماں یہ سب ”راج نکیبو “ کے کہنے پر سروں کو شنک کیے جارہے ہیں ۔راج نکیبو کہتاہے کہ ”مرﺅ تو سچائی کے لیےاپنے قومی ناموس کے لیے “شہادت کا درس بھی یہی ہے ناں ؟شہید انہیں کہتے ہیں جو سچائی کے لیے جان دیتے ہیں ۔ماں ہم تو یہی پڑھتے آئے ہیں ۔ماں آپ بتاﺅ نانی ماں کیا کہتی تھی ؟....................ہم سچے نہیں توچنگیز وہلاکو بھی آدم زاد نہ تھے اور بدھا کے مجسمے کے پنجے اوردم” طالبان“ نے کاٹ کر زمین میں گاڑھ دیے ہیں ۔.........ماں !نیند آرہی ہے دھرتی ماں کے آغوش میں سوناہے مگر ماں کہتی ہے کہ ”بیٹا قرض چکاﺅ تو آنا ورنہ میرے آغوش میں بھی سکون نہیں ملے گا “ماں اب میں کیا کرﺅںایک طرف بدکار وں کا ٹولہ ہے تو ایک طرف قوم کی پکار “............“وجد کی کیفیت میں قلندر اپنے تمبورگ کے تاروں کو چھیڑتے ہیں ۔حلقہ قلندر سے درد بھری آواز گونجتی ہے ”مرشد قلندر پیر .........................“
قلندر پھر بولنے لگتاہے ”ماں میں لالہ کے سانجھے راج نکیبو کا پیروکار ہوں ۔یہ قلندر ی چولا سب دکھاوا ہے ڈھونگ ہے اور کچھ نہیں ۔حضرت غوث کا صاحب اولاد ہونا بھی” لاحاصل “رہا۔”چاکر زیست“ بندر کی طرح مداری کی ڈگڈگی پر اُچل کود کر رہاہے اس پر ”کاہان کے درویش “کی صحبت کا کوئی اثرنظر نہیں آتا ۔راج نکیبو کا ایک پرانا ساتھی ”آقاکا زر خریدغلام“ بن چکاہے .....یہ سب جھوٹے راج نکیبو سچا ہے ۔وہی دھرتی ماں کا سچا بیٹا ہے ۔“
قلندر اپنی مجلس میں مجھے دیکھ کر گویا ہوئے ”میری گنجلک سوچ کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر قرطاس پر کندہ کرنے والے اُستاد تو اتنی مدت ہوئے کہاںتھا سلیمانی چادر اُوڑھ کر کوہ قاف کی یاترا کرنے تو نہیں گیا تھا ؟۔ تجھے کیاضرورت ہے سلیمانی چادر اُوڑھ کرکوہ قاف جانے کی پہاڑوں کی گونج تو ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔کوہ قاف نہیں گیاتھا تو پھر لکھنے سے اُکتا گیا ہوگا۔اگر یہی بات ہے تو میری جگہ تو قلندر بن جامیں تیری کہانیاں لکھوں گا۔“
میں قلندر کے شکوہ پہ مسکرادیا”اس سفر میں اُکتانے کا تصور ہی محال ہے اگر ایسا ہو اتو راج نکیبو کا بیلی کیسے کہلاﺅ ں گا ۔راج نکیبو نے بڑی ذمہ داریاں دی ہیں رات دن بوجھ اٹھاتے گزر رہے ہیں اس لیے اسپ تخیل کی سواری کا موقع نہیں ملتا۔بڑی مشکل سے موقع پاکر حاضر ہوا ہوں ۔قلندرتواپنی بتاپہلے مرشد تھے اب راج نکیبو کے مرید بنے ہو؟“
قلندر نے تمبورگ ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے جسم پہ اوڑھے ہوئے چادر کے سلوٹوں کو درست کیااور آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھاکر یوں دیکھنے لگے جیسے کوئی پیغام وصول کررہے ہوں ”پیری مرید ی سب ڈھکوسلہ ۔عشق حقیقی راج نکیبو کا ہے سچا کھرا عشق ۔ اقبال بلند ہو تو ذرہ فلک میں جاکر مثل انجم روشن ہوجاتاہے ۔ اقبال ہاتھوں کی لکیروں یا ماتھے کے شکن کی بدولت نہیں ملتی عمل سے حاصل کی جاتی ہے ۔اگر ایسانہ ہوتا تو آسمان کا تارہ بلی بن کر چلو بھر پانی میں ڈبکی نہ لگاتا ۔ کسی نے اسے جھوٹی خبر کیا دی کہ راج نکیبو مر گئے ہیں پانی سے نکل کر کمبل سے بدن پونچھا ‘جھلاوان کے خنک ہوانے اثر دکھایا تو انسانی روپ دھار کرچاک وچوبند ہوکر ماہی خوران کو بھاشن دینے پہنچ گیا ۔
را ج نکیبو کے بہتے خون کا رنگ دیکھ کر اندھوں کی بینائی لوٹ آئی ۔ڈرپوک بھی جرات وحمیت کے درس گاہ میں بیٹھ گئے ۔بندوق برداروں کے جلو میں واجہ بول تو رہاتھا لیکن اس کی آواز میں گونج نہ تھی ۔اسے بولتا دیکھ کر اس کے لٹ اور جھنڈ ہ بردار ساتھی بھی سوچ رہے تھے کہ ” فاضل کے شہر کا ”راج نکیبو“سانولا،دبلا پتلاایک معمولی آدمی کا بیٹا چند نوعمر نوجوانوں کے جلومیں جن کے پاس نہ دولت نہ قبائلی اثر ورسوخ اسی میدان میں آکر لوگوں کو آزادی خریدنے کے لیے اُکساتا تھا ۔اس کی آواز میں سچائی کی طاقت تھی ۔وہ سردار نہیں ہیں ، غلام بھی نہیں اور مداری بھی نہیں۔وہ راج نکیبو ہیں جو کبھی بھی نہیں مرتے اور آج بھی اسی کردار میں زندہ ہیں ...............“
”اور سردار ؟........................“
”حد ادب! سنا نہیں اس کے استقبال میں لٹ برداروں نے شا ل کو سجایاہے ۔جھلاوان میں ”راج نکیبو“کی آمد کی اطلاع ملی ہے ۔”رسول “کے شہر میں راج نکیبو کو ہر گز اجازت نہیں کہ وہ ماہی خوران کی طرح ”ایلم “کو بھی آزادی کا خریدار بنائیں ۔یہ واجہ کا شہر ہے ۔یہاں کے پہاڑ ،چشمے سب زر خرید ہیں ۔یہاں کاقانون ہے کہ تیرے کھجور تیرے ، تیری مچھلیاں تیری اور یہاں دھرتی ماں جو اُگلے وہ سب بلاشرکت غیر واجہ کی ملکیت ہے.......................حد ادب گستاخ ۔“
”پھر ساحل وسائل کی سانجھے داری کیسی ؟“
”چاغی کا سرمہ آنکھ میں لگاﺅ توسب سمجھ جاﺅ گے ۔گورے آقاﺅں نے بلوچ سرداروں کی سواری سے کیا لطف اٹھا یاہوگا ۔جو پنج آبہ کے لوہار نے واجہ سے بگھی کھنچوا کر مزالیاہے ۔اگر ادب کی سرحدیں حائل نہ ہوتیں تو میں بھی ملامزار بدوزئی کی طرح ”لاٹ نابگی “نظم کر کے جلا وطن ہوجاتا ۔
ایک لاہوری شاعر نے خواب دیکھا تو ایک خانہ خراب وجود میں آیا ۔محراب کی تلوار زنگ آلود ہوئی تو ملاکی اذا ن اور غوث کاوجد مجاہد کی لکار کو بھی بے اثر کرگئے ۔جاڑو جلب اور شئے مریدسا پھر کوئی عقل کوزبان کی لونڈی بناکر بلوچی قول کو حماقت کامفہوم دے گیا۔ڈراور لالچ انسان کوکمزور بنادیتےہیں یاپھر بقول ہمدم شتر مرغ نہ اڑنے کے قابل نہ بوجھ ڈھونے کے ۔ایک خواب نے گلزمین کوخرابہ بنا دیا۔ساحل بلوچی تواضع میں عرب شہزادہ کا نوالہ بنا اوروسائل تلوار نے چاٹ لیے ۔سانجھے داری دیکھ بحر بلوچ کا ”استحصالی آکٹوپس “کا سر راوی میں ، دھڑ مہران میں اور ”پانچ “بولان کے واجہ کاروں کے تالاب میں ہیں۔“
”ساحل کے باسی توہیں ہی بزدل مگر وسائل کے رکھوالوں کو کیا ہواہے ؟“
”اگر شیر کوپنجرے میں بند ھ کر کے بلی بنایاجاسکتا ہے تو بیچارے ”بز“کی کیا مجال ؟چمالنگ کا کوئلہ ، سیندک کا سونا اور چاغی کے ماربل اس میں کوئی جھگڑا نہیں سودے بازی ہے بس سودے بازی ۔کبوتروں کی اُڑان کا قصہ کرکے ڈاکٹر کی ”دین “سلامت مگر جان کے لالے پڑے ہیں ۔ڈیرہ بیورگ اب بھی وہی ڈیرہ ہے ۔ فضاﺅں میں شہباز اُڑ رہے ہیں اور زمین پرکرگس مردار وجود کو نوچ رہے ہیں ۔کاغذی شیر کی غراہٹ سن کر”کاہان کے درویش“ بھی شہباز کی طرح حیران ہیں ۔درویش کہتے ہیں ”کاہان کی دولت میری نہیں ، کاہان وکوہلو میرے نہیں ۔میں اس گلزمین کی مٹی ہوں یہ گلزمین میری ہے اور میں اس گلزمین کا بیٹا ہوں ۔ ایک بالاچ ہی میرا بیٹا نہیں راج نکیبو بھی میر ا بیٹا ہے ۔اسے ”شہزادہ پنوا“ور” دھوبن سسی“ کے عشق سے کیالینا دینا۔اسے تو زمین کا پھٹنا بھی چراوہے کی نیت کا فتور لگتاہے ۔اس کے لہوکی خوشبو بولان کے فضاﺅں کو معطر کی ہوئی ہے۔رسول ، میر ل ، مختار ، شہناز اور جنت کے گرتے خون کی بوندوں کی جھنکار”راج نکیبو “کا نغمہ الاپ رہے ہیں اس نغمے کے دھن سے مجھے بھی راج نکیبو کی طرح سرور ملتا ہے ۔کیوںکہ ہم دونوں ایک ہی مٹی کے بنے ہیں۔ “

٭٭٭٭٭
12-09-2009
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.