قلندر اپنے مخصوص وجدانی کیفیت میں آنکھیں بند کیے بڑبڑا رہاتھا”بلوچ سے لڑنا ہوگا.........تم تو تریسٹھ سالوں سے لڑ رہے ہویہ حر تو ہزاروں سالوں سے غلامی کے خلاف لڑتے آ رہے ہیں ۔تمہاری آواز میں تھکن کا واضح احساس ہوتاہے لیکن یہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ ”قربانیوں سے گھبرانے والے نہیں آزادی کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے ۔لڑیں گے مریں گے آزادی لے کر رہیںگے ۔اس جنگ میں تقدیر کی نہیں تدبیر کی جیت ہوگی اوراس دفعہ تدبیر نے جنگ کو چناہے ۔سر مچار پھولوں سے نہیں کانٹوں سے محبت کرتے ہیں ۔آل پنومعشوق کو نیا روپ دے رہے ہیں ۔محبت اور نفرت ان کے موثرترین ہتھیار ہیں ۔بلوچ گلزمین بلوچ راج سے محبت اوران سے نفرت کرنے والوں سے نفرت ۔”موذن صبا“ ہر نومولود کے کان میں اذان دینے کی بجائے دلوں میں زہر بھر رہے ہیں ......اس سے اچھا موقع اور کیا ہوسکتا ہے ہاں بلوچ سے لڑنا ہوگا۔“ان کے گمان کے سار ے منظر قرطاس پر بکھر گئے ۔
” کیا سچ کو ا س لیے جبر کے آگے سجدہ ریز ہونا ہوگاکہ قانون فطرت میں کمزور کی سزاءموت ہے تو ہم ننگے پاﺅں آگ پر چلنے والے بھوکے سر مچار اس قانون کو نہیں مانتے ۔“
بیلوکے ایک درخت کی شاخیں ادب سے جھک گئیں ۔دار ورسن کا رسم ادا ہوا۔جھلاوان کے پہاڑوں سے باغیوں کی آواز آئی ”سردار !ہمیں مر نا قبول ہے جھکنا نہیں ۔“
”تمہیں مرنے کاشوق ہے تو اپنا شوق پوراکر لوہم تمہاری بھی برسی منائیں گے ۔“
شیر جھلاوان کے لہوسے روشن کندیل میں ”رسول “نے بھی اپنے لہو کا تیل اُنڈیل دیا۔
”کندیل سا روشنی کیا میں نے
پتنگے چشم براہ ہوئے ...............“ سرخ کرنیں بکھیرتاکندیل کے چاروں طرف مرنے کے شوقین پتنگے ”راج نکیبو“کے گیت پر دھمال کرنے لگے ۔
”عزیز ازجاں میری ماں
سیکھ اُن ماﺅں سے ذرا
جنہوں نے اپنے گھبروجوان بیٹوں کو
حمیت پہ لٹا دیا“
ماں بولی ”رسول اور میرل نے میرے کوکھ کا حق اداکردیا“
شھناز کی افسردہ آواز آئی ”افسو س کہ میں اپنے وطن پہ قربان ہوکر شہیدوں میں نام نہ لکھاسکی ۔“
آقاکا غلام بولا”شعوری جدوجہد کے بغیر منزل نہیں ملتی ۔“
”شعوری جدوجہد بازار میں ملنے والی کوئی شے ہے تو اس کی قیمت کیاہے ؟“
”ووٹ ۔“
”ابن الغوث کے کرامات کے ہوتے ہوئے اس کی ضرورت تو محسوس نہیں ہوتی ۔“
کالافرشتہ بولنے لگا”ہم ایک ضلع کو نہیں چھوڑسکتے توخزانوں سے بھرابلوچستان کس طرح چھوڑ یں گے ۔سر مچار !یہ خواب دل سے نکال دو۔چاہے ہمارے سارے جوان شہید ہوجائیں ہم بلوچستان نہیں چھوڑیں گے ...............“کالافرشتہ جب مسکرایاتو پتاچلاکہ فرشتے کے لبادہ میں شیطان چھپاہواہے ۔مکار وہمی ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتاہے کہ”کالارنگ “اس کے لیے مبارک ہے اس لیے اس نے فرشتے کا سوانگ رچ کربھی کالا لباس پہن رکھاہے ۔
”چھوڑنا ہوگا۔ہم اپنے لہوکی آبیاری سے اس گلزمین پر کانٹیں اُگا دیں گے ۔“سر مچار نے اسے تنبیہ کی ۔
”کانٹے....................!“
”کاٹنے والا بھڑ بھی ایک چھوٹا سا کمزورکیڑاہے لیکن تم اس کے گھروندے میں ہاتھ نہیں ڈالتے ۔کیوں کہ اسے اپنے کاٹنے والے ڈنک کو استعمال کرناآتا ہے۔وہ اپنے گھر میں کسی کو زبردستی کو گھستے دیکھ کر دم کے بل کھڑا ہوکر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے گھر میں گھسنے والا طاقتور ہے یا کمزور اسے فطرت نے یہ سبق دیا کہ جوتیرے گھر میں زبردستی گھسنے کی کوشش کرئے اسے ڈنک مار ۔ہاتھی اپنے پاﺅں تلے روندھے جانے والے ہزاروں چیونٹیوں میں سے کسی ایک کے موثر حملے سے مرکرکمزور کے ہاتھوں طاقتور کی موت کی نہ جھٹلانے والی حقیقت آشکار کرتاہے ۔کیڑے اگر اپنے بقاءکے لیے لڑ سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں ۔میں بھی لڑوں گا ۔میری لڑائی صرف مرنے کے لیے نہیں مارنے کے لیے بھی ہوگی ۔جہاں میرل کی میت گری تھی وہاں سے تمہاری لاشیں بھی اُٹھائی گئی ہیں ۔“
”میری لاشیں ؟..............“کالافرشتہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا ”میری نہیں وہ طاقتور اُونٹوں کی لاشیں تھیں ۔بیچارے طاقتور اُونٹ ، وفاشعار خشک گھاس کھاکر میلوں دور کا سفر کرنے والے اُونٹ ۔ان کا مہار میرے ہاتھ میں ہے میں ان ”سر خ اُونٹوں “کو جس طرف بھی ہانکنا چاہوں ہانک سکتاہوں ۔تمہیں جتنا مارنا ہے مارو میں اپنی زندگی پر ایسے سرخ چمڑے والے ہزاروں اُونٹ قربان کرسکتاہوں ۔“
ایک سرخ اونٹ دوپیروں پر کھڑا ہوگیا۔مجاہد اونٹ کے ہاتھ میں بندوق تھا۔اس نے تکبیر بلند کیا ”نعر ہ تکبیر .............“شہید الطاف خون میں نہا گئے اورمختیار تڑپ اُٹھا ۔
تاریخ کے صفحے پہ لکھاہے کہ ہندوستان میں جنگی ہاتھیوں نے پلٹ کر اپنے مالکوں کو ہی روندھ ڈالا ۔ بلوچ سے زیادہ اُونٹ کی سرشت کون جانتاہے ۔ مست اونٹ اپنے مالک کو بھی چباڈالتاہے ۔زخمی اُونٹ کی وحشت تاریخ دیکھے گی ۔
پیر فلک کا حکم آیا اور وقت کا پہیہ گھوم گیا۔کالافرشتہ کے سینگ اُگ آئے ۔وہ اس شیطانی روپ میں بھی خود کو فرشتہ کہتارہا لیکن لوگ اسے ”شیطان شیطان “کہہ کر چھڑانے لگے۔
وہ بولا”چپ ورنہ زبان کھینچ لوں گا طاقت کی جیت فطرت کا اٹل قانون ہے۔سرخ اُونٹ کا دستہ آگے بڑھ بلوچوں کو کچل دو۔“
سارے سرخ اُونٹ بے رحم جنگ کا خوراک بن گئے ۔مرتے مرتے ایک اُونٹ کی آنکھوں میں ایک تحریر چھپ گئی ۔جسے ایک غلام اُونٹ نے ہمت کر کے پڑھ لی ”میرے مالک میں جانتاہوں کہ تو مجھے کھلاتا پلاتا ہے ۔مگر اتنا تو بتا کہ مجھے ان مینڈھے کی طرح لڑنے والی مخلوق سے کیوں لڑارہاہے ۔میری قربانی کس مقدس مقصد کے لیے ہے اس جنگ کے بعد بیت المقدس فتح ہوگا یا کشمیر آزاد ہوگا ۔ مجھے اتنا توبتا دے مالک !............“
”چل چھوڑ مرگیاہے ۔قربانی کا اُونٹ تھا قربان ہوگیا ۔اُونٹ کا دستہ آگے بڑھ ۔“اس دفعہ کالے فرشتے کی آواز پہ اُونٹ آگے بڑھنے کی بجائے بدک گئے ۔مجاہدین کالشکر جرار منکر بلوچوں کے چھوٹے سے گروہ کے آگے پسا ہورہاتھا۔”اُونٹ بکر ے “سب اُونٹوں کی مردار موت دیکھ کر بھاگ گئے ۔جنگ کےفیصلہ کن مر حلے میں کالافرشتہ کے لنگوٹ دارن لاڈلے سپاہی تھر تھر کانپتے ہوئے آگے بڑھے۔سر مچا ر نے اپنا دعوی ٰ سچ کردیا۔اس نے اپنے لہوسے ہر طرف کانٹے ہی کانٹے اُگا دیئے ۔ان کانٹوں پر چلتے ہوئے لنگوٹ دارن سپاہیوں کے پاﺅں زخموں سے چور ہوگئے اوربروقت دوا نہ ملنے پر زخم ناسور بن گئے ۔گلزمین کانٹے اُگاکر اپنی حفاظت کرنے میں کامیا ب ہوگئی۔خون کی خوشبو سے معطر بولان نے بھوک ، پیاس اور جہالت کو شکست دے دیا ۔لنگوٹ والوں کا ”استان “اب بھی ایک ناقابل تسخیر قلعہ ہے جس کے دروازے پر لکھاہے ”جوبولے سونہال ........ست سریا کال ۔“دیوار پر کندہ رنجیت سنگھ کی تصویر کے ساتھ جہاں کبھی بھگت سنگھ کی تصویر ہوا کرتی تھی اب بدنما دھبا رہ گیا ہے تصویر سر مچار اُکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں ۔

٭٭٭٭٭
12-09-2009
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.