بلوچستان  میں شاہ محمد مری کی سرپرستی میں خواتین کی ایک نئی تنظیم سموراج  پر ، میں نے پیارے عابد میر کے اسی حوالے سے ایک تحریر پر تبصرہ کیا ہے ، اس تبصرے کو اُن دوستوں کے  لیے یہاں علیحدہ پیش کررہا ہوں جنہوں نے مجھ سے اس بارے میں اپنی رائے دینے کو کہا ہے ۔
-------------------------

یہ خبر  تبصرہ کے لیے ہمارے ان بکس میں ایک دوست نے ارسال کیا ، ویڈیو کلپس بھی اس استفسار کے ساتھ کہ اس پر رائے دوں ۔ سموراج موومنٹ کے سمینار میں پیش کی گئی  قرارداد کی کاپی بھی ان معلومات کے ساتھ نتھی تھی ۔ میں نے حسب معمول اسے اپنے سرکل کے سامنے بحث کے لیے رکھا۔ دوستوں نے ملی جلی رائے دی ۔ یہاں ایک دوست کا تبصرہ نقل کررہا ہوں ' شاہ صاحب اپنی عورتوں کو تعویز کی طرح اسی (80) پردوں میں رکھتے ہیں اور دوسروں کی خواتین کی آزادی کی تحریک چلاتے ہیں ۔' '

اس جملہ معترضہ کا جواب عابد میر نے یوں دیا  ' اس تحریک میں ہم سب کی بشمول مری صاحب کی عورتیں شامل ہیں، جنھیں مزید تصدیق کروانی ہو وہ اپنی عورتیں تنظیم میں بھجوا کر ان کے شناختی کارڈ چیک کر لیں ۔ '

میر جان ، پوری بات نہیں سمجھے اور اس پیراگراف کا جواب بھی یہی ہونا چاہئے جو انہوں نے دیا ہے ، میرے تبصرے سے پہلے میرے اس پر جواب کو بھی دیکھیں تاکہ آپ  کو میرے اعتراض کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔

 " ہمیں آپ کی  سوچ سے بنیادی اختلاف ہے صاحب ، میں نے اپنا تبصرہ عنایت فرمایا ہے ۔ ہماری عورتیں ایک بہتر فلیٹ فارم سے جڑی ہیں ، سخت جہدوجہد کا حصہ ہیں ۔ کسی موم بتی مافیا کا حصہ بننے کی بجائے پاوں پر چھالوں کی زخم سہنے کی ہمت رکھتی ہیں ۔ اگر کوئی شک ہے تو آپ  بی این ایم کے سرکل  کا حصہ بن کر اطمینان کرلیں ۔ '

تبصرہ :

موضوع دلچست ہے ، تبصرہ ایک علیحدہ مضمون بن سکتا ہے ۔ یہاں [ فیس بک کے کمنٹ بکس میں ] مَیں بیک وقت نہیں لکھ پارہا ۔ یہ بات نظر انداز کرنے والی نہیں ہے ، طعنہ یا کینہ توز تنقید کے زمرے میں رکھ کر اپنے آپ میں اطمیان ہوجانے والی ہرگز نہیں ۔ سوچنے سمجھنے اور اس دوغلے پن سے نکلنے کے  یا پھر اپنے نظریات کے جائزے کی ہمت ہونی چاہئے ۔ سنا ہے مرحوم سردار خیربخش مری جو کہ کمیونسٹ نظریات پر ایک مردکامل جانے جاتے تھے ، اُن کے فرزند بھی سیاسی سوچ کے حامل اور بظاہر لبرل اور سیکولر خیالات کے ہیں ۔ یقین نہیں ہوتا کہ وہ فرسودہ قبائلی روایات کے پاسدار ہوں گے ۔ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ جب بابا خیربخش کی زوجہ محترم کی رحلت ہوئی تو یہ تاکید کی گئی کہ اُن کا نام میڈیا پر نہیں لیا جائے گا ۔ اس کے برعکس بی این ایم کے رہنماء شہید غلام محمد کی والدہ قبل ازیں اپنے نام سے بیانات بھی دیتی تھیں اور اُن کی رحلت کے بعد اُن کی  کھلے چہرے والی میت کی تصویر اور نام  بھیی میڈیا پر  آئے ۔ یہاں علم و عمل کا فرق مشاہدہ کریں ۔ ایک طرف باباخیربخش کے نظریاتی پسماندگان ہیں اور دوسری طرف واجہ غلام محمد کے ، علم اور تجربے کے اعتبار سے بابا کے مرتبے کا شاید ہی بلوچستان میں کوئی دوسرا بزرگ سیاسی رہنماء رہا ہو۔اُن کے خیالات بالکل اُجلے اور شفاف تھے لیکن مشاہدہ کریں تو سماجی معاملات میں انہوں نے ایک حد تک اپنے نظریہ کے برعکس عمل کی حوصلہ شکنی نہیں کی ۔


اب سموراج ، یہ اصطلاح کیا ہے اس کی پس پردہ کہانی کیا ہے ؟ مست کون تھے ؟ ہم نے علمی طور پر ایک پسماندہ سماج کی روایات سے آگے اس پر تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ جناب مری صاحب کی کتاب اس حوالے سے خرافات سے خالی نہیں ،  سائنسی فکر کے مبلغ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب میں ' حیات الحیوان ' کے مصنف ' اسماعیل دمیری ' کی طرح الم غلم جو بھی ملا ، ڈال دیا ۔ ایک واقعہ جس میں بھنگ کے نشے میں دت مست کے موالی دوستوں کو ایک فقیر بھنگ نہ ملنے پر غصے میں آکر ہوا میں معلق کردیتا ہے ، بھی اس کتاب میں شامل ہے ، پڑھ کر عقل پر ٹارچر ہوتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے مری صاحب کی کتاب میں یہ سب بلاتبصرہ بھر دیا گیا ہے ، اور بھی جھوٹی کہانیاں ہیں جیسے ریل کو اپنے کرامات سے روکنے کا افسانہ ، پھر کیوں نا یہ دل مسلمان ہو ؟

سچائی میں سمو ایک ایسی کردار تھی جس کا مست نے اپنے اشعار میں ان کی مرضی اور خواہش کے برعکس " استحصال " کیا تھا ۔ مست نے شعوری طور پر ان کو ایک ایسے تصوراتی کردار میں تراشا جو ان کی مستیوں کا سامان  بہم پہنچانے کے کام آسکے ۔ مست بلوچی زبان میں لغوی معنوں میں پاگل ، عاشق یا دیوانے کو نہیں کہتے بلکہ شرابی اور نشہ باز کے لیے مست کا لفظ مستعمل ہے ۔ آج اس کو بے ہوشی کی اور کیفیات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ لغات کے مطابق پھلوی زبان کا لفظ ہے یعنی خالص بلوچی کہہ سکتے ہیں ۔ پارسی ڈکشنری معین میں اس کے معنی درج ہیں ؛ شراب خوردہ ۔ خارج شدہ از حالت طبیعی بہ علت خوردن شراب ۔ ۲ ۔بی ھوش ۔ مدھوش ۔ ۳ ۔ کَسی کہ بہ علت داشتن مال و مقام وغیرہ مغرور باشد : ملنگ ،شاد و خوشحال و سردماغ ۔

ترجمہ : ۱۔ شراب پیا ہوا ۔ شراب پینے کی وجہ سے آپے میں نہ رہنا ۔۲۔ بیہوشی ۔ مدہوش ۔ ۳۔ کوئی جو مال اور مرتبے  وغیرہ کی وجہ سے  مغرور ہو : ملنگ ، شاد ، خوشحال اور سرحال ۔

 مست کی شخصیت کا خاکہ وہی ہے جسے اس کے ہم عصروں نے لفظ ' مست ' کی صورت بیان کیا ہے ، اس سے بہتر خاکہ بیان کیا بھی نہیں جاسکتا ۔

راج ، قوم کو کہتے ہیں ۔ جنس کو نہیں ۔ سموراج کی اصطلاح مست نے اپنے اشعار میں خواتین کے لیے استعمال کیا تھا۔ نفسیاتی طور پر مست کو خواتین کے سے ساتھ لگاو تھا ، ہوسکتا ہے یہ اس میں کوئی جنسی  پیچیدگی تھی جس کے لیے انہوں نے یہ راستہ نکالا ہو لیکن اب اس کا محض اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ بہرحال سینہ بہ سینہ روایات یہی ہیں کہ اُن کو خواتین سے اُنیست تھی ، جنہیں وہ سموراج کہہ کر اُن کے لیے سخت مری بلوچ سماج میں اُن تقریبات کے دوران مراعات لیتے تھے جن میں انہیں بطور فنکارمدعوکیا جاتا تھا، اُن کی فرمائش ہوتی کہ کھانے کی دعوت میں' سموونڈ ' رکھا جائے۔  ونڈ بلوچی میں حصے کو کہتے ہیں ، سمو وَنڈ دعوتوں میں وہ مخصوص حصہ ہوتا تھا جسے وہ عورتوں میں انہیں' سموراج ' کہہ کر تقسیم کرتے تھے ۔  یہاں مست توکلی نے اپنے فن کو بلاشبہ ایک تخلیقی اور تجریدی سمت دی ۔  وقت کے ساتھ اُن کے خیالات بھی نکھرتے گئے اور انہوں نے یقینا صوفی ازم کو سمجھ کر اپنا قبلہ بھی درست کیا اور سمو ان کے لیے عشق کا استعارہ بن گئیں ۔ اسی مفہوم  میں ان کا اپنا ایک شعر بھی ہے کہ ' سمو عشق حقیقی کا ایک بہانہ تھیں ، مجھے عشق حقیقی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے خدا نے یہ بہانہ کیا ہے '



لیکن کیا سموراج کی اصطلاح اس قدر توانا بھی ہے کہ اسے آج  خواتین کے حقوق کے لیے استعمال کیا جائے ، بالکل ۔ لیکن اس کی حقیقت سے آگاہی بھی ضروری ہے ، کیا سموراج کے نام پر خواتین کی بحیثیت انسان سماج سے علیحدگی بھی ایک قابل تحسین قدم ہے ؟ ، بالکل نہیں ۔ اسی بات پر میں سموراج موومنٹَ کو برابری کی تحریک نہیں ، جنسی شاونزم کو اُبھارنے اور خواتین کو تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہوں ۔

بلوچ نیشنل موومنٹ جو بہرحال میرے لیے ایک نظریاتی حوالہ ہے ، جس کے ساتھ وابستگی اب دہائیوں کی دہلیز پر ہے ۔ جس کے انقلابی وژن ، فرسودہ روایات کی بیخ کنی کے لیے عملی جدوجہد ، طبقاتی طاقتوں کے لیے بلوچستان میں اس کی سب سے توانا آواز ، یہی ہے کہ آج بلوچ قوم کے پاس آزادی پسند سرداروں کی قوم دوستانہ طاقت کے علاوہ  ایک طاقت موجود ہے ۔ جو محض ایک وژنری قیادت نہیں بلکہ منتخب لوگوں کی ادارتی مشینری کے تابع ہے ۔

 بلوچ نیشنل موومنٹ کو اس سوال کا سامنا رہا ہے ، ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ کسی کتاب کو پڑھ کر سماج کی ارتقا کو ایک جست آگے بڑھا نہیں سکتے ۔ شہید واجہ اس موضوع پر رومانوی یا کتابی گفتگو کرنے والوں کو قائل کرنے کے لیے کہتے تھے کہ ' آپ ڈاکٹر ہوکر کسی کے نبض پر ہاتھ رکھ کر کسی اور کا علاج نہیں کرسکتے '' بلوچ سماج کی اپنی بنت ہے، ایک منتشر مگر وحدانی تاثر رکھنے والا سماج ہے ۔ یہ اپنے سیاسی اور سماجی تجربات سے سیکھ کر ہی ترقی کرئے گا البتہ ہماری سوچ کی پھوار اس پر پڑتی رہے ۔ تو شروع میں بی این ایم کے ممبران نے گھار موومنٹ بنائی ، پھر خواتین پینل سامنے آئی ۔ بی این ایم نے ان کی بھرپور سیاسی اور اخلاقی حمایت کی ۔ کراچی مِیں ممبران کو ان کی حمایت کرنے کے لیے خصوصی ہدایت تھیں ۔ لیکن محسوس کیا گیا کہ ہم سماج کی تقسیم کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو ہمارے آئین اور منشور کے برخلاف ہے کہ ہم خواتین کو ایک علیحدہ فلیٹ فارم پر محدود رکھیں ، ہم اُن آلودہ روایات کی حفاظت کررہے ہیں جو ہم پر مذہبی انتہاپسندوں نے مسلط کیے ہیں ، یہ سوچ پارٹی پالیسی کا حصہ بن گئی ۔

 ہم نے بی این ایم کی علیحدہ خواتین ونگ کی تجویز کو مسترد کرکے اُن کو برابری کی بنیاد پر ساتھ رکھنے پر اتفاق کیا ۔ گزشتہ آتھ مارچ کو بی این ایم کے نشریاتی ادارے ریڈیو زْرمبش کے ٹیلی گرام چینل پر ایک خصوصی تحریری مقالہ شائع کیا گیا جس میں ایک نظریہ دیا گیا ہے کہ ' سماجی معاملات میں ہر ایک کو ' لاجنس ' ہونا چاہئے ، نا مرد نا عورت بلکہ ایک شخصیت کے طور پر ان کو مخاطب کیا جائے ، ان کو فکری آزادی سے کردار ادا کرنے دیا جائے ۔'

اس مقالہ میں بانٹری کی کردار کو استعارہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے سماجی معاملات میں لاجنس کردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے اُن کے ایک مکالمے کو جو کہ اشعار کی صورت میں ہے نقل کیا گیا ہے ۔

 جنہوں نے بلوچ روایات کے مطابق بلوچوں کی تخت دہلی سے ہونے والی لڑائی میں ، قائدانہ کردار ادا کیا تھا ۔

لڑائی جس میں بلوچ مرد سپاہی پسپا ہوکر محاذ سے بھاگ گئے تھے اور بانڑی تلوار سونت کر" شاہ  دہلی " کے مدمقابل تھیں ۔

بادشاہ نے اسے کہا کہ تم ایک عورت ہوکرو میرے مقابلے کو آئی   ہو ، سامنے سے ہٹو ۔

اس کے جواب میں بانٹری نے کہا ' عورتیں وہ ہیں جو گھروں میں بیٹھی ہیں ، جو اپنے مردوں کے ساتھ رومانس کررہی ہیں ۔ میں خواتین ہوں لیکن میں سماجی اور سیاسی معاملات کے لیے بلائے گئے مجالس کا ممبر ہوں اور ان کے بغیر میرا چارہ نہیں ۔ '

آج بی این ایم ایک قابل فخر جماعت ہے کہ جس میں خواتین ممبران شعوری اور علمی بنیادوں پر قومی تحریک سے جڑی ہیں ، قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ہیں ۔ایک نوارد خاتون رکن بھی اپنے ساتھیوں کے لیے ' سنگت ' کا لفظ استعمال کرتے ہوئے نہیں ججھکتی جو کہ پہلے اُردو لفظ ' آشنا ' کی طرح منفی معنوں میں استعمال ہوتا تھا ۔

 ہم آج سے لگ بھگ پانچ سال پہلے جب یہ فیصلہ کررہے تھے کہ ہمیں خواتین کو علیحدہ تنظیمی ڈھانچے میں رکھنا چاہئے یا نہیں تو تصور میں بھی نہیں تھا ایک دن وہ اس قدر آگے نکل کر ہماری رہنمائی کریں گی ، ہماری خواتین ھمبلان [ کامریڈ ] نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کیوں ہمیں ' گھار ' کے لفظ سے پکارا جاتا ہے ، ہمیں آپ احترام دینا چاہتے ہیں تو ایک دوست کا احترام دیں ، ہمیں دوسرے دوستوں کی طرح نام سے بلائیں یا کامریڈ کہہ کر بلائیں ۔


 آج مجھے اطمیان ہے کہ ہماری پارٹی کی اس فیصلے کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوا ۔ سموراج موومنٹ سے جڑا سرکل ہم سے زیادہ ' عالم و فاضل ، کتاب خوان اور انقلابی اداراک و بیان ' کی صلاحیتوں سے مالامال ہے اُن کا خواتین کی علیحدہ تنظیم بنانے کا فیصلہ اُن کے اپنے نظریات کے بھی  برخلاف ہے، یہ وہ راستہ نہیں کہ جس سے خواتین کے حقوق حاصل کیے جائیں یا اسے سیاسی اور سماجی ترقی دے جاسکے ، یہ سماج کو جنسی طور پر تقسیم کرنے کا راستہ ہے ۔  یہ ایک این جی اوز ، یا کمیونٹی بیس آرگںائزیشن کے طور پر تو پھلتی پھولتی اور فنڈ لیتی رہے گی ۔ کچھ نمائشی پروگرامات بھی اس کے بینر تلے ہوں گے لیکن بلوچ پڑھا لکھا اور انقلابی سماج اب اس تقسیم کو ہرگز قبول نہیں کرئے گا ۔ اس کے دیگر پہلووں کے علاوہ اس بنیادی سوچ کے ساتھ ہمارے اختلاف کو جہاں اظہار کی ضرورت ہوگی ہمارے ھمبل اس کا اظہار کریں گے اور اپنے موقف پر اُن کو قاَئل کرنے کی کوشش کی جائے گی جو سماج میں جنسی تفریق کو خوبصورت انداز میں آگے بڑھانے والوں کی سوچ کی گہرائی میں جھانکنے کی زحمت نہیں کررہے ۔
Labels:
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.