شہید اُستاد صبا دشتیاری کی شہادت کے بعد آپ کو آزادی پسندقوم دوست جماعتوں کے اتحاد بی این ایف نے دی ٹیچر آف نیشنل فریڈ م یعنی معلم قومی آزادی جس کا بلوچی ترجمہ آجوئی درونت دئے کیا جاسکتاہے جب کہ بلوچ مسلح حریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے شہید اُستاد کو کندیل بلوچ کا خطاب دیا گیا ۔بی ایل اے کی طرف سے اب تک قومی خدمات کے اعتراف میں صرف تین شہداءکو خطا ب دیئے گئے ہیں جن میں شہید اکبر کوڈاڈائے بلوچ، شہید امیر بخش لانگو کو سگار بلوچ اور شہید اُستاد صبا دشتیاری کو کندیل بلوچ کا خطاب شامل ہیں۔

بی این ایف کے خطاب کی نسبت قوم میں بی ایل اے کے دیئے گئے خطاب کو پذیرائی ملنے کی وجہ غالبا ً خطاب کا بلوچی زبان میں ہونا بھی ہے اس کے علاوہ یہ خطاب آپ کے خدمات سے مطابقت بھی رکھتا ہے ۔اس خطاب کی وجوہات عام فہم ہیں۔ کندیل کی روشنی اندھیرے میں رہنماءہوتی ہے اس میں تیزوتند ہواﺅں کا مقابلہ کرنے کی بھی زیادہ سکت ہے ۔کندیل صدیوںتک راستوں میں بھولے بھٹکے مسافروں کے لیے لٹکائے جاتے تھے ۔گھپ اندھیرے میں کندیل ہاتھ میں ہونے سے دل میں اندھیرے کاخوف جاتا رہتا ہے ۔

بلوچ سماج میں علمی اعتبار سے شہید اُستاد کے رتبے کا شایدہی کوئی دوسرا موجود ہوآپ کا بلوچ آزادی پسندوں کی حمایت میں ایک جوشیلے نوجوان کی طرح سڑکوں پر آنا عام با ت نہ تھی اس سے اس سوچ کی نفی ہوئی کہ ایک پڑھا لکھا شخص نعرہ بازی نہیں کرسکتا ۔عموماًاس قبیل کے لوگ دھیمی لہجے میں محتاط گفتگو کرنے والے ہوتے ہیں لیکن آپ کندیل کی طرح تندوتیز ہواﺅں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سچائی کی روشنی پھیلاتے رہے ۔عام شخص اگر پوری زندگی بھی تگ و دو کرئے شاید آپ کے ایک دن جتنا بھی کام نہیں کرسکتا آپ میں لوگوں کو اپنی بات سمجھانے اور انہیں متاثر کرنے کی نادر صلاحیت تھی ۔آپ پیشہ ور معلم تھے آپ کا براہ راست نوجوان طلباءسے رابطہ رہتا تھا آپ اُن کی تربیت اجاراہ داری اورسامراجی نظام تعلیم کے نصا ب کے مطابق نہیں بلکہ قومی نصاب کے مطابق کرتے تھے، حقیقی علم کی روشنی سے ان کے ذہنوں کی گندگی صاف کر تے تھے ۔ایسا نہ تھا کہ آپ ایک سیاسی کارکن کی طرح ہرایک نوجوان کو پکڑ کر انہیں آزادی پسند جماعتوں کا ممبر بننے کو کہتے تھے بلکہ آپ اُنہیں حقیقت شناسی کی درس دیتے تھے حق وباطل کی تمیر بتاتے تھے جس سے اُن کو اپنا راستہ چننے میں آسانی ہوتی تھی ، کندیل بھی مسافروں کی سواری کا کام نہیں آتا صرف گھپ اندھیروں میں راستے کو منور کرتا ہے ۔

اپنے قومی ہیرﺅں کو قومی زبان میں خطاب دینے کی روایت اپنی قومی زبان سے وابستگی ومحبت کی دلیل ہے مگر یہ محبت سطحی ودکھاوے کی نہیں ہونی چاہئے افسوس کہ ہم بلوچ قومی تحریک کے بڑے سے بڑے دعویدار وں کا بھی بلوچی زبان سے رویہ سوتیلے جیساہے ۔ہم ٹوٹی پھوٹی زبان میں بول کر اسے ہی کافی سمجھ لیتے ہیں ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم بلوچی زبان میں ایک غلط لفظ بول کر مستقبل کے آزاد بلوچستان کی قومی زبان کو مسخ کررہےہوتے ہیں ۔الفاظ محض مردوہ معنی نہیں رکھتے بلکہ یہ سننے والے کی روح تک متاثر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہیں ۔

خطاب والقابات بھی الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں ایسے الفاظ پر جن میں ہر ایک کا الگ تفہیم ہوتا ہے ۔ان کی ادائیگی زبان سے ہوتی ہے لیکن جن کو یہ خطاب دیے جاتے ہیں ان سے متعلق خطاب سے مطابقت رکھنے والے احساسات پیدا ہوتے ہیں ۔ ڈاڈائے بلوچ کا خطا ب شہید نواب اکبر خان بگٹی کے لیے دل میں ایک قابل احترا م بزرگ کی سی عزت پیدا کرتا ہے ، سگار بلوچ کہنے سے ذہن میں ایک حریت پسند قومی کمانڈر کی شبیہ ابھرتی ہے اور کندیل بلوچ سے علم وعرفان کی بلندیوں پر پہنچی ہوئی شخصیت کا سراپاپردہ ذہن پر نمودار ہوتاہے ۔یہ الفاظ محض اپنے مفہوم کی وجہ سے فکر میں ہلچل نہیں مچاتے بلکہ جس زبان میں یہ خطاب دیئے جاتے ہیںاس کا بھی احساسات کو متاثر کرنے میں کردار ہے مثلا ًاگر ڈاڈاکی جگہ گرینڈ فادر ، سگار کی جگہ سوار ڈ یا تلوار اور کندیل کی جگہ لالٹین کہا جائے تو ہوسکتا ہے کہ احساسات بھی ان مردہ الفاظ جیسے مریل ہوں ۔

شہید اُستاد کو کندیل بلوچ کا جوخطاب دیا گیا ہے اس کے ساتھ بھی ہمار ا برتاﺅ بلوچی زبان کے ساتھ سوتیلا پن جیسا ہے ۔شاید خطا ب دینے والوں نے بھی محض خود کااہل زبان ہونا ہی کافی سمجھاماہرین زبان سے اس کے تلفظ اور املا کے بارے میں رجوع کرنے کی زحمت نہیں کی گئی تاکہ کم ازکم ایک بلوچی میں دیا گیا خطاب بلوچی املا کی طرح متنازعہ نہ ہوتایہ ایک اخباری بیان نہیں کہ کل باسی ہوجائے بلکہ جتنا وقت گزرتا جائے گا اس کی اہمیت بڑھتی جائے گی اور مجھے سوفیصد یقین ہے کہ کل جب ایک آزادقوم کی زبان کی حیثیت سے بلوچی متعارف ہوگی تو اس کے ماہرین زبان ہر خطاب کومحض اس لیے قبول نہیں کریں گے کہ زمانہ جنگ میں کسی مسلح حریت پسند تنظیم نے یہ خطاب دیاتھا ۔

بہتر ہے کہ ہم آج ان خطاب کا پوسٹ مارٹم کر کے خود کو عقل کل سمجھنے کی غلط فہمی سے نکل کر ایک علمی مباحثے میں شامل ہوں گوکہ اس بحث کا سر اِبلوچی لہجوں میں فرق تک جاتا ہے جس میں یہ بحث بھی ضروری ہے کہ بلوچی لکھنے کی معیاری زبان مکرانی ہے یا علمی تحقیق کے بعد منتخب کی گئی ایک ایسی زبان جس میں پورے بلوچستان کے علاقوں کے الفاظ شامل ہیں۔ ہوسکتاہے کہ مجھ سا ایک آدھ نالائق لکھاری ایسا ہو جو محض اپنے علاقے کے لہجے کو ترجیح دیتا ہومگر مجموعی طور پر بلوچ لکھاری ا پنے نگارشات میںدوسرے علاقوں کے خوبصورت الفاظ کو بھی استعمال کرتے ہیں ۔مگر ہم اس بحث کی ذمہ داری علماءبلوچی ادب کے ذمے ڈال کر ”کندیل بلوچ “کی املا اور تلفظ پر بات کرتے ہیں ۔

کندیل بلوچ کا تلفظ زیادہ تر کندیل ءِ بلوچ کیاجارہاہے ہمزہ بلوچی میں فارسی زیر کی آواز کے لیے مستعمل ہے شاید خطاب دینے والوں نے اخبارات کو یہی تلفظ لکھوایا ہو مگر بلوچی زبان میں مرکب الفاظ بنانے کا یہ طریقہ اختیار کر کے ہم بلوچی کو فارسی زبان کے ساتھ خلط ملط کرنے کی روایت ڈال رہے ہیں جس کی سید ھاشمی اور خود کو کندیل بلوچ نے بڑی مشکل سے بیخ کنی کی تھی ۔گوکہ بلوچی زبان میںایک آدھ پرانی کہاوتیں ایسی بھی ملیں گی جواسی قاعدے کے مطابق بنائے گئے ہیں لیکن علماءادب نے اس کو فارسی قاعدہ قرار دے کر بلوچی الفاظ بنانے کے لئے ناپسند کیا ہے ۔بلوچی قاعدے کے مطابق اس خطاب کو ”بلوچ ئِ کندیل “ہونا چاہئے ،ادائیگی سے ہی اندازہ ہورہاہے کہ صوتی اعتبار سے جاندار لفظ نہیں ۔اس کی نسبت ” کندیل بلوچ “زیادہ وزن دار ہے تو اس کی ادائیگی کا ایسا تلفظ بھی ہونا چاہئے جو فارسی سے قاعدے سے ہٹ کر ہو۔سید ھاشمی اور دیگر ماہر ین زبان کی رائے میں زبان اپنا راستہ خود ڈھونڈتی ہے ۔ اس معاملے میں بھی یہی مثال صادق آتی ہے اس سے پہلے بی ایل اے نے شہیدامیر بخش لانگو کو جو خطا ب دیا تھا اس کا تلفظ بھی یہی تھا یعنی ” سگار ءِ بلوچ “مگر اب زیادہ تر بلوچ زبان کی مزاج کے مطابق اسے ” ءِ “ ہٹا کر ”سگار بلوچ “کہتے ہیں۔ جو بلوچی قاعدے کے مطابق درست اور اسی مفہوم میں ہے جو خطاب دینے والوں کے ذہن میں تھا لہذا ضروری نہیں کندیل بلوچ کو فارسی قاعدے کے مطابق ”کندیل ءِ بلوچ “پڑھاجائے” ءِ “ کی آواز کے بغیر بھی یہ لفظ مکمل اور فارسی زبان کے مرکب الفاظ سے مختلف ہے ۔

اسی طرح کچھ دانشوروں کو غلط فہمی ہے کہ کندیل کا درست املا”قندیل “ہے شاید وہ اس لفظ کو عربی یا فارسی زبان کی میراث سمجھتے ہوئے بلوچی پیراہن پہنانے کو پرائی مال پر قبضہ جمانا سمجھتے ہیں یا ان کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ بی ایل اے کوہ سلیمانی لہجے کی نمائندگی کرنے والی تنظیم ہے لہذا اِس کے دیے گئے خطاب کو ہمیں بگاڑ کر مکرانی لہجے میں لکھنے کا حق نہیں ۔بلوچی زبان کی واحد دستیاب ڈکشنری سید ھاشمی کی ہے ،ظاہر ہے یہاں ہم اس کو اس لیے بطور سند پیش نہیں کرسکتے کہ اس بچاری پر بھی مکرانی ہونے کا سنگین الزام عائدہے ۔

کندیل بلوچی زبان کی ایک قریبی رشتہ دار زبان فارسی میں ”قندیل “لکھیجاتی ہے جس کا تلفظ بھی ذرا مختلف کرتے ہیں یعنی ”ق “کی ”گ “سے مشابہہ آواز نکالتے ہیں ۔لغت نامہ دہ خدا فارسی زبا ن کی ایک اہم لغت ہے جو آن لائن بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔مذکورہ لغت میں درج ہے

(www.loghatnaameh.com)

”قندیل :قندیل [ق](معرب۔اِسم)چیزی است کہ در آن چراغ می افروزندوآن معرب کندیل است ۔“یعنی ایسی چیز جس میں چراغ جلاتے ہیں اوروہ کندیل کا معرب ہے ۔

معرب اُن عجمی الفاظ کو کہاجاتاہے جن کا اصل تلفظ عربی زبان میں استعمال کے بعد متروک ہوچکاہو اور اس کی جگہ عربی تلفظ استعمال ہورہاہو۔اس کا سادہ زبان میں مطلب یہ ہے کہ ہمارے زبان کے وہ الفاظ جن کے ہم عربی لہجے میں ادائیگی کے عادی ہوچکے ہوں ۔ایک دوسری لغت کے مطابق کندیل یونانی زبان کا لفظ ہے ۔

یہاں یہ اعتراض بھی کیا جاسکتاہے کہ متروک لفظ کا استعمال اُلجھا دیتاہے اس لیے ان کی جگہ نئے الفاظ و لہجے کا استعمال درستہے ۔ہوسکتا ہے کہ فارسی زبان کے حوالے سے یہ بات صحیح ہو جنہوں نے اپنی زبان کے نام تک کا معرب ہونا قبول کیا ہے(جو اصل میں پارسی ہے) مگر بلوچی زبان کے لیے یہ قاعدہ مناسب معلوم نہیں ہوتا کیوں کہ ابھی تک نہ بلوچستان میں ” کندیل “معدوم ہوئی ہے نہ اس لفظ کا درست تلفظ متروک ہوچکاہے ۔کندیل کی معرب قندیل لکھنے سے بہتر ہے کہ ہم اس لفظ کو ”کندیل “لکھیں اورسلیمانی ، رکشانی اور مکرانی لہجے کے جھگڑے میں الفاظ کو مجروح کرنے سے گریز کریں کیوں کہ علم کی بنیاد رکھنے میںان کا اہم کردارتھا ۔

نوٹ : واضح رہے کہ روزنامہ توار میں میرے مضمون میں ”کندیل “کی املا ادارتی صفحے کے مدیر نے تبدیل کر کے غلط لکھا ہے مضمون کا درست عنوان ” شہید اُستاد کندیل بلوچ ، یاداشت کے انمنٹ باب “ہے۔

٭٭٭٭

07/06/2010

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.