نیشنل پارٹی کو بلوچ آزادپسند قوتوں سے ہمیشہ یہ گلہ رہی ہے کہ دیگر نام نہاد قوم دوست جماعتوں ( لفظ نام نہاد کا استعمال محض نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ علمی بنیاد پر کرنے پر مجبور ہوں کہ وہ جماعتیں جو قومی آزادی کی تحریک چلارہی ہیں انہیں اصطلاحا قوم دوست کہا جاتا ہے۔ آزادی کے بعدیہ جماعتیں بھی قوم دوست نہیں رہتیں چے جائے کہ ان میں قوم دوستی کا عنصر ختم نہیں ہوتا لیکن اس وقت ہم بات سیاسی اصطلاحات کی کررہے ہیں )کی نسبت زیادہ تنقید کا نشا نہ بنایا جاتاہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے وہ قومی غدار جنہوں نے نیشنل پارٹی کی چھتر سایہ میں پناہ لے رکھی ہے بلوچ سر مچاروں کی سزاءسے محفوظ رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایسا کوئی واقعہ میرے علم نہیں کہ نیشنل پارٹی کے کسی کارکن کو غداری کا الزام لگاکر قتل کردیا گیا ہو حالانکہ ان کے فوجی واسلام آباد کی اسٹبلشمنٹ سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔مشرف دور میں یہ تعلقات شہری حکومت کے نظام میں شراکت داری کے بہانے ہوتے تھے اب ٹھیکہ داری ، صحافت اور این جی اوز وغیرہم کی آڑ میں یہ کاروبار چلایا جارہاہے ۔

صحیح معنوں میں تجزیہ کیاجائے تو بلوچ جنگ آزادی میں شامل وہ غریب طبقہ جو جیمڑی سے لے کر شال، کراچی اور اندرون سندھ تک سے تعلق رکھتا ہے اسی بی ایس او کی پیدوار ہے جس کی انگلی پکڑ کر نیشنل پارٹی کی قیادت نے سیاسی چال چلنا سیکھا ۔ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں نہیں سینکڑوں میں ضرور ہوگی جن کو شہادت اور سر مچاری کا راستہ براہ راست انہی لیڈروں نے دکھایا جن کا مقبول عام نعرہ ” ما ووٹ نہ لوٹ اِیں ھون لوٹ اِیں “ کی بازگشت ابھی تک بہت سے گوریلا سر مچاروں کی سمع خراشی کا سبب ہے مگروہ کمال صبر سے اس واضح انحراف کو جو مذکورہ صاحبان نے کیا ہے سہہ رہے ہیں باوجود اس کے انہی کے آسرے انہوں نے اپنے گھر بار تیاگ کر پہاڑ نشینی مشکل فیصلہ کیا کہ ہم پہاڑوں پر قومی آزادی کی جنگ لڑیں گے اور مذکورہ صاحبان سیاسی میدان میں ہماری ترجمانی کا فریضہ انجام دیں گے ۔

اس واضح گوریلا اُصول کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ غدار کی سزا ءموت ہے پہاڑوں پر چڑھنے والے ان ہی کے تربیت یافتہ سیاسی دوستوں نے شاید دوستی کے رشتوں کی خاطر بغیر کوئی گلہ شکوہ کیے اپنے لیے نئے ساتھی تلاش کیے۔ بی این ایم کی نیشنل پارٹی بننے سے ہزار ہا ردرمیانی و نچلے درجے کے سیاسی کارکنان نے پارٹی قیادت سے اختلاف کیا اور بتدریج نوتشکیل شدہ نیشنل پارٹی کی پالیسیوں سے مکمل کنارہ کشی کرکے بی این ایم کی پالیسیوں پر کاربند رہے جس کی قیادت کی ذمہ داریاں شہیدواجہ غلام محمد نے لے رکھی تھی یہ سلسلہ شہید غلام محمد کی شہادت کے بعد بھی جاری رہا۔کچکول ایڈوکیٹ جیسے رہنماﺅں نے بھی نجی محافل میں واضح اور سیاسی بیانات میں د بے لفظوں نیشنل پارٹی کو اپنی بنیادی پالیسیوں سے منحرف جماعت قرار دیا۔مکران سے سینئر قوم دوست سیاسی کارکن ستار نواز کی قیادت میں جو کہ نیشنل پارٹی گوادر کے سر گرم اراکین میں شمار ہوتے تھے بڑی تعداد میں نیشنل پارٹی کے کارکنان نے تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اعلانیہ بی این ایم میں شمولیت کی ۔بی این ایم میں شامل ہونے والے اس جھتے میں شہید محبوب واڈیلہ بھی شامل تھے ۔مکران میں اب تک پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے سیاسی کارکنان میں سے بیشتر وہی لوگ ہیں جن کی سیاسی تربیت بالواسطہ یا براہ راست ان سر کلوں میں ہوئی جہاں نیشنل پارٹی کی قیادت کا تعلق تھا ۔

جیسا کہ عرض کیا نیشنل پارٹی کے لیڈران کے ہاتھوں جذباتی طور پرشدید مجروح ہونے کے باوجود بھی قوم دوست سیاسی کارکنان نے اُف تک نہ کیا پھر نیشنل پارٹی کے اس شکوے کی وجہ ؟ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے نیشنل پارٹی کو اتحاد ویکجہتی کی علامت کے طور پر پیش کرکے جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے وہ چکنا چور ہوگئے ، پارلیمنٹ اور صوبائی حکومت بہت دور کی بات ایک دو شہروں میں ناظمین لگنے سے نیشنل پارٹی کی قیادت قلعی سیاسی کارکنان کے سامنے کھل گئی ان کے لیے واپسی کا راستہ موجود تھا سب جوک درجوق واپس بی این ایم کا حصہ بنتے گئے۔ یہی نیشنل پارٹی کے مراعات یافتہ طبقے کا جن کے ٹھاٹ باٹ اور مزاج سیاسی کارکنان سے بدل کر افسرانہ ہوچکے تھے ‘کی حواس باختگی کا سبب بنا۔ شہید غلام محمد جیسے بے داغ انسان پر بھی پوچ قسم کے الزامات بونے لوگوں کی طرف لگانے کی روایت نے زور پکڑا چائے خانوں اور نجی سیاسی مجالس میں اُن سیاسی کارکنان کو جو نیشنل پارٹی سے منحرف ہوچکے تھے لعن طعن کیا جانے لگا کہ ”وہ ایک نوسر باز (ان کا مراد شہید واجہ سے تھا )کے ہاتھوں اپنا سیاسی مستقبل تباہ کررہے ہیں “(یہ باتیں میں کسی اور کے کان کی سنی نہیں بلکہ اپنے علم السمع کی بنیاد پر کررہاہوں ۔)جس کا فطری ردعمل آنا ہی تھا سیاسی کارکنان بھی نیشنل پارٹی کی قیادت کے سامنے صف آراءہوگئے جہاں ان کونیشنل پارٹی کی قیادت کی بدنیتی کی بھنک ملی وہاں انہوں نے مداخلت کرنا اپنی سیاسی واخلاقی ذمہ داری سمجھی ۔ نیشنل پارٹی سے آزادی پسندوں کے ماضی کا رشتہ دیگر خود رو لالچی ناقابل ذکر سیاسی جماعتوں سے زیادہ رہاہے اس لیے اس کے بارے میں انہوںنے فکر مندی بھی زیادہ دکھائی جس سے نیشنل پارٹی کی قیادت کی دکانداری اس طرح نہیں چمکی جس طرح انہوں نے سوچ رکھا تھا ۔

شہادت سے چندہفتے پہلے شہید محبوب واڈیلہ نیشنل پارٹی کے ممبر تھے ‘شہید غلام محمد کی شہادت سے پہلے آپ اکثر نیشنل پارٹی کی تعریف میں زمین آسمان ایک کیا کرتے تھے مگر آپ کا موقف ہمیشہ وہی رہاہے جو آزادی پسندوں کا ہے آپ نیشنل پارٹی کو ایک بحر بیکراں سے تشبیہ دیا کرتے تھے جس میں بھانت بھانت کے لوگ موجود ہیں جو بولیاں بھی مختلف بولتے ہیں مگر شہید غلام محمد کی شہادت کے بعدآپ کے تیور بدل گئے اور آپ نے اپنے ساتھیوں پر مزید نیشنل پارٹی سے وابستگی مزید برقرار نہ رکھنے کے لیے دباﺅ بڑھا دیا۔میں آج تک شہید محبوب واڈیلہ کا وہ جملہ نہیں بھولا جو آپ نے ایک گھنٹے کی طویل نشست کو اس میں سمیٹتے ہوئے کہاکہ ’ ’میں نہیں چاہتا میری لاش پر نیشنل پارٹی سیاست کرئے ۔“ یہ بات کہتے ہوئے عموماً غیر سنجیدہ نظر آنے والے شہید محبوب واڈیلہ کے چہرے پر سنجیدگی کی ایک لہر اور آنکھوں میں شہادت کی چمک نظر آئے۔آپ کا وہ چہرہ میرے ذہن میں آج بھی آپ کی سب سے خوبصورت تصویر بن کر چسپاں ہے ۔مگر اس وقت میں آپ کی بات کا مطلب ہر گز نہیں سمجھاکہ آپ کیاکہنا چارہے تھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس بات کو میں نے شہید لالا حمید کے ساتھ دہراکر آپ کا مذاق بھی اُڑایا تھا کہ” محبوب واڈیلہ ( شہید ) کو بھی خدشہ ہے کہ انہیں اغواءکر کے شہید کردیا جائے گا ۔“اب جب کہ آپ اس رتبے کے حاصل کر چکے ہیں ،سوچتا ہوں تو ایک عظیم سیاسی کارکن کے بارے میں جن کے اخلاص کے سویں حصے کے برابر بھی کسی میں اخلاص ہو تواسے ایک بہترین سیاسی کارکن کہا جاسکتا ہے، میر ے خیالات کس قدر گرے ہوئے تھے۔ میں آپ کو ہمیشہ الھڑ اور لاپروا ہ سمجھتا رہا لیکن آپ کواپنی شہادت سے کئی مہینے پہلے یہ فکر دامن گیر تھا کہ آپ کی ممکنہ شہادت ضائع نہ ہو ۔اب اس بات کو چھپانے کی کوئی وجہ نہیں رہی کہ شہید محبوب واڈیلہ بی این ایم سے رشتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وقت جب و ہ نیشنل پارٹی میں تھے تحریک آزادی سے سچی وابستگی رکھنے کی وجہ سے ہدف بناکر اغواءکے بعد شہید کیے گئے ۔ نیشنل پارٹی کی قیادت کے لیے ہمیشہ سے بی این ایم کے قائدین سے زیادہ شہید محبوب واڈیلہ جیسے کارکنان سوہان روح ہیں جنہوں نے ان کے مراعاتی سیاست کی گندگی کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنے دامن کو صاف رکھااور ان کی گندگی صاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں ”گندہ “کہہ کر گندگی کا احساس بھی دلاتے رہے ۔

آزادی پسندوں کے اس طرح کے حکیمانہ حملوں کا نیشنل پارٹی کی قیادت ہمیشہ سازشی نظریات کے ذریعے مقابلہ کرتی ہے تاکہ اپنے کے صفوں میں موجود مخلص سیاسی کارکنان کو اندھیرے میں رکھ کر اپنے کاروباری سیاست کو بڑھاوا دے سکیں۔ان سازشی نظریات کی مسلسل ناکامی کے بعد اب نیشنل پارٹی کے وہ عناصر جو آزادی پسندوں کی کامیابی کو اپنے لیے ناکامی تصور کرتے ہوئے ان کو حتی الوسع ناکام بنانے کی کوشش میں لگے ہیں ، بھوکلاہٹ کا شکار ہیں ۔اس لیے نچھلے درجے کے غیر اہم کارکنان کو اگلے مورچوں میں بھیجا جارہاتاکہ آزادی پسندوں کے راستے میں اتنا گرد وغبار اُڑایا جائے کہ وہ راستہ بھٹک کر مشکل میںگرفتار ہوں۔مولابخش دشتی کے قتل کے بعد نیشنل پارٹی نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے( بی ایل ایف کے اعلیٰ ترین قیادت کی طرف سے وضاحت اور آزادی پسند جماعتوں کی طرف سے قتل کی مذمت کے بعد بھی) براہ راست بلوچ سر مچاروں کی کردار کشی کی۔ اخبارات میں فرضی ناموں سے دشنا م طرازیوں پر مشتمل صفحے صفحے کے شائع کیے گئے ۔اس وقت بی ایل ایف کی غلطی محض یہی تھی کہ انہوں نے ایک غیر معروف تنظیم کی طرف سے ہونے والی قبولیت کی بات کو اپنے بیان میں دہرایا‘مگر بعد میں جس سنجیدگی کی ضرورت تھی اسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم رہے۔

رواں مہینے نیشنل پارٹی تربت کے ایک لیڈر کے قتل کے بعد نیشنل پارٹی کی غیر معروف اور بے چہرہ قیادت ایک مرتبہ پھر بلوچ سر مچاروں کے خلاف اخبارات میں سر گرم نظر آرہے ہیں ۔نیشنل پارٹی کے ترجمان کا متنازعہ بیان تربت سے اخبارات کی زینت بنا جس میں بی ایل ایف سے اپنی نوعیت کا مضائقہ خیز مطالبہ کیا گیاہے ”بی ایل ایف نسیم جنگیان کے قتل کی ذمہ داری قبول کرئے یا انکار کرئے اگر وہ چپ رہے گی تو ہم اسی کو مورد الزام ٹہرائیں گے ۔“اگر نیشنل پارٹی کے مبینہ ترجمان کے اس موقف کو پذیرائی دی جائے اور بی ایل ایف اس پر سنجیدہ ردعمل کا اظہار کر ئے تو یہ اخباری لطیفہ مکران کے ناگفتہ بہ سیاسی ماحول میں مزید خلفشار کا سبب بن سکتا ہے مگر حقیقی معنوں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔بی ایل ایف کی ہمیشہ پوری تحقیق کے بعد غداروں کو قتل کرنے کی روایت رہی ہے جس کے بعد وہ اس کے سیاسی قد کاٹھ اور سماجی رتبے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ذمہ داری بھی قبول کرتی آئی ہے۔ اس کی طرف سے مارے گئے مخبروں کے جنازوں میں ان کے رشتہ دار تک جانے تک گریز کرتے ہیں بی ایل ایف کے خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ نفرت کے باعث تو ایسی میں نسیم جنگیان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں آتی ۔ بی ایل ایف سے کیا گئے فرمائش کا یہی مطلب نکالاجاسکتا ہے کہ علاقے میں کسی قسم کے قتل یا موت کا واقعہ ہو بی ایل ایف اخبارات میں اس سے لاتعلقی کا اعلان کر نے کا پابند ہو۔نیشنل پارٹی کے اس مبینہ ترجمان کے بیان میں یہبات بھی لطیفہ گوئی کے زمرے میں آتی ہے کہ ” نسیم جنگیان کے قاتلوں کے قدموں کے نشان سے پتا چلا ہے کہ وہ وہی لوگ ہیں جو خود کو آزادی پسند کہتے ہیں ۔“ یعنی اب سر مچار عقل سے اس قدر پیدل ہوگئے ہیں کہ نمبر پلیٹ لگا کر گھوم رہے ہیں تاکہ ہر کوئی آسانی سے انہیں شناخت کر لے خدشہ ہے کہ ان کے شک کی ہما بی ایس او کے خیالات سے متاثر ایسے لڑکوں کے سر وں پر منڈلا رہی ہے جن میں ایسےکئی لڑکے محض مذاق میں لوگوں کے سر مچارکہنے کی وجہ سے پاکستانیوں ایجنسیوں نے اغواءکر کے قتل کردیئے ہیں۔

مولابخش دشتی کے قتل کی ذمہ داری بی ایل ایف پر ڈا ل کر ان عناصر نے اصل قاتلوں کو بھاگنے کا محفوظ راستہ دیا اب بچارے نسیم جنگیان کی باری ہے کہ جس کے قتل یہ حضرات بی ایل ایف کے سر تھوپ کر مردے کے کردار پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں او ر ایک ایسے شخص کے ساتھ جسے وہ اپنا شہید قرار دے رہے ہیں ایک سنگین مذاق کامرتکب ہور ہے ہیں کیوں کہ بی ایل ایف ایک تنظیم سے زیادہ عقیدہ بن چکی ہے اگر وہ یہ ذمہ داری قبول کرئے تو پوری دنیا کے بلوچ نسیم جنگیان سے اسی طرح نفرت کریں گے جس طرح ”رازق و بنگان “سے کرتے ہیں ۔
ہم نے تربت سے شائع ہونے والے مرکزی ترجمان کے بیان کو مبینہ اس لیے کہا کہ عموماًمرکزی بیانات کوئٹہ سے جاری کیے جاتے ہیں ۔گزشتہ دنوں نیشنل پارٹی کا ایک بیان بھی نظروں سے گزراجس میں انہوں نے اعتراف کیا تھاکہ کچھ عناصر انہیں بلوچ سر مچاروں سے دست وگریبان کرنا چاہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہوا سے مقابلہ نہیں کیا جاتا البتہ بی ایس اور اور بی این ایم کے نہتے کارکنان سے دست و گریبا ن ہواجاسکتا ہے بلکہ اگر موصوف چاہئیں تو ایک دوسری مبینہ قوم ودست جماعت کی طرح ان کی جی بھر کرمرمت بھی کر سکتے ہیں مگر یہ بیان اس بات کاغماز ضرور ہے کہ نیشنل پارٹی میں دو مختلف خیالات کے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ ایک جو سیاست کو سیاست سمجھ کر کرنا چاہتے ہیں اور کچھ اس کی آڑ اپنے سر کاری فرائض پوری کرنا چاہتے ہیں لہذا بی ایل ایف کو اس معاملے پر مزید سنجیدہ ردعمل دکھانے کی بجائے اپنے مقاصدکے اصول پر دھیان دینا چاہئے ۔نیشنل پارٹی اگر فکری طور پر مکمل بانجھ نہیں ہوئی ہے تو یقینا مبینہ ترجمان کے اس لطیفہ نمابیان پر پارٹی کے اندر سے ہی سخت احتجاج کیا جائے گا۔

٭٭٭٭
09/06/2011


0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.