خطے میں افغانستان کی سرزمین واحد ایسی جگہ ہے جسے بلوچ پر مصائب حالات میں مہاجرت کا ٹھکانہ بناتے ہیں گوکہ وہاں بلوچوں کو عیاشی کی وہ زندگی میسر نہیں جو یورپی او ر خلیجی ممالک میں پناہ ڈھونڈنے والے بلوچوں کو حاصل ہے، پھر بھی یہ خاک بسر بلوچوں کے لیے ایک سہارہ ہے ۔ہم نے بلوچی کے اس بتل (مقولہ )کو عقیدے کے طور پربزرگوں سے سن رکھا ہے ” تاسے آپ بہ ور سد سال وپا بہ کن “ ( ایک کٹورہ پانی پی کر سوسال تک وفادار رہنا )جو میرے نزدیک بلوچوں کی گم گشتہ نظریاتی وحقیقی ثقافت ( ثقافت دو طرح کی ہوتی ہیں ایک مادی یعنی اُن چیزوں پر مشتمل جو ایک قوم استعمال کرتی ہے اور دوسری اُن نظریات پر مشتمل جو کسی قوم کی ہوتی ہیں ۔چیزیں بیشتر وہی ہیں جودوسرے اقوام بھی استعمال کرتی ہیں مگر نظریات ہر قوم کے مختلف ہیں اسی بنیاد پر میں نظریاتی ثقافت کو حقیقی ثقافت قرار دیتا ہوں )کے چند انگلیوں پر گنے جانے والی باقیات میں سے ہیں جو کہ محض ایک مقولہ کی صورت بلوچی کتابوں میں باقی رہ گیاہے۔

ہم اس بات سے لا علم نہیں کہ پاکستا نی سرکار پشتون اور بلوچوں کے درمیان کئی مصنوعی تنازعات کھڑے کرنے کی کوشش کرتا رہاہے ۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستا ن میں جاری خونخوار پاکستانی فوجی جارحیت میں بلوچ سیاسی نوجوانوں کو اغوا ءکرنے میں استعمال ہونی والی فورس ایف سی کی بڑی تعداد پشتونوں پر مشتمل ہے ۔مگر یہ پشتونوں کے ساتھ نفرت کاجوازنہیں کیوں کہ اس سے زیادہ بھیانک کردار خود اُن بلوچ مخبروں کا ہے جو آزادی پسندوں کے صفوں میں گھس کرچند ٹکوں کے عوض اپنا ایمان ، غیرت اور قومی ہیرﺅں کی زندگی کا سودا کررہے ہیں۔ ایمان فروشوں کی کوئی قومیت نہیں ہوتی وہ ہر رنگ وبھیس میں یہ سود اکرتے ہیں اس لیے بلوچ آزادی پسندوں نے بڑی زیرک بینی سے اس کا مشاعدہ کیا اور ایف سی میں شامل پشتون اہلکاروں کو پنجابی کے کرایے کی فوج کو طور پر شناخت کیا گیا۔ جس کا مطلب ایسے ربوٹک انسان جو پنجابی مقتدرہ کے اشاروں پر چلتے ہیں۔بابامری نے اسی تناظر میں فرما یا تھا کہ ” بلوچ پتھر کے پیچھے نہیں بھاگے گا اس ہاتھ کی طرف بڑھے گا جس نے پتھر پھینکا ہے ۔

ایک کٹورہ سوسال کے وفاکی قیمت کا درس“ کچھ ہی لوگ بھولے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے بلوچ جنگ آزادی لڑنے والے قومی قائدین ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی تربیت بلوچی دستور کے مطابق ہوئی ہے ۔انہوں نے مشرقی بلوچستان کے پاکستانی بندوبستی نظام کے تحت شامل پشتون آبادی کی طرف سے بلوچوں کے خلاف پاکستانی فوج کی جارحانہ کارروائیوں پر خاموشی پر کوئی گلہ نہیں کیا۔ دوسری طرف پشتون قیادت کو بھی جیسے بلوچستان مسئلے پر سانپ سونگ گئی ہے لیکن اتنی غنیمت ہے کہ وہ کسی تنازعے کا سبب بننے سے گریزکررہے ہیں ۔ آزادی پسندوں کے منصوبے میں بھی پشتون آبادیوں کو بلوچستا ن کا حصہ بنانا شامل نہیں اور نہ ہی مستقبل میں ان کا پشتونوں کے ساتھ کسی ایسے مستقل تنازعے میں پڑنے کا ارادہ ہے جن کا عموماً بلوچستان جیسے غیر متعین سر حدوں پر مشتمل ریاستیں آزادی کے بعد شکار ہوتی ہیں ۔شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے پشتون اور بلوچ کے رشتے کو ”مفاہمانہ رشتے “ کانام دیاہےجس کا مطلب ہے کہ” وہ قوم ہے جس کے ساتھ بلوچ اپنے تمام تر تنازعات مفاہمت ، برابری اور باہمی احترام کے ساتھ حل کرنے کا خواہاں ہے ۔


بابامری ماضی کے تلخ تجربات کو پرکھنے میں دوسرے رہنماﺅں کی نسبت زیادہ حساس ثابت ہوئے ہیں اس لیے وہ کسی قوم کے لیے برادرانہ رشتے کی اصطلاح پر تنقید کرتے ہیں پشتون اور بلوچ کے لیے بھی اسے یہ اصطلاح قبول نہیں وہ کہتے ہیں کہ ” افغان حکمرانوں نے بلوچستان کو ہمیشہ اپنی چراگاہ بنانے کی کوشش کی ہے بلوچوں نے بزور طاقت کو افغانوں کو واپس اپنے سر حدوں میں دھکیل دیا ۔تاریخ کے مطالعے سے افغان اور بلوچ کا رشتہ کبھی آقا اور غلام کا اورکبھی قابض اور قبضہ گیر کے ساتھ لڑنے والاکارہاہے۔“ مگر مستقبل میں شاید افغانستان کے لیے یہ ارادہ دل میں رکھنا سود مند نہیں ہوگا ۔اس کے لیے بلوچستان جیسی مشکل سر زمین کو اپنے عملداری میں لینے سے زیادہ اپنے ان علاقوں کی واپسی اہم ہے جو برطانوی سر کار نے افغانستان میں پشتوتوں کی تعدادا ور طاقت کو باٹنے کے لیے کاٹ کر برٹش بلوچستان اور فرنٹیر میں شامل کیے تھے ۔

افغانستان ستر کی دہائی سے جنگوں کی آماجگاہ ہے بیرونی مداخلت نے افغانستان کے کلچر کو مسخ کر کے اپنی شناخت سے محروم کر لیاہے ۔عموماً قومی آزادی کی تحریکیں مدفن ثقافت کو بھی جلا بخشتی ہیں مگر افغانستان میں جاری شور ش جو امریکہ کے مجوزہ منصوبے کے مطابق آئندہ سال افغانستان کو آزادی دلانے والی جنگ میںبدلنے والی ہے بھی مکمل طور پر بیرونی عناصر کے کنٹرول میں ہے ۔سعودی عرب ، امریکہ ، پاکستان اورباہر کے مذہبی جنگجو افغانستان کی زمین پر مضبوط پنجے گاڑ چکے ہیں ۔امریکہ نے ایک دہائی پر مشتمل بے نتیجہ جنگ کے بعد جن قوتوں کو مقامی قوت کے طور پر قبول کر نے کا عندیہ دیا ہے وہ طالبا ن ہیں ۔اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ طالبان زیادہ تر افغان پشتونوں پر مشتمل ہیں مگر یہ سوچ افغانستان کی پیداوار ہر گز نہیں نہ ہی افغانستان کے سماج نے اپنی ضروریات کے مطابق طالبان تنظیم قائم کی تھی ۔یہ امریکہ کی سوچ ، سعودی عرب کی دولت اور پاکستان کی تکنیکی مدد کے ساتھ قائم ہوئی ہے ۔ جس سے یہ اندازہ لگانے والے غلط نہیں کہ امریکہ افغانوں کو ایک دلد ل میں ڈال کر بھاگنے والا ہے جس کے بعد وہ شاید پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دے گا اور اس خطے کے لوگ امریکہ کے اس بھگوڑا پن کی سزا اس وقت تک بھگتیں گے جب تک زیرک اور معاملہ فہم قائدین پیدا ہوکر اپنے تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔

کسی بھی شورش زدہ خطے میں بسنے والے وہ لوگ جو جنگ سے نمٹنے کی طاقت نہیں رکھتے اپنے وطن کو تیاگ کر مہاجرت کی سخت زندگی اختیار کر لیتے ہیں جوعموماً ایسے علاقوں میں ہجرت کرنا پسند کرتے ہیں جہاں پہلے سے اُن کے رشتہ دار موجو ہیں رشتہ داروں کے پاس جاکر رہنے سے مہاجرین کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے ۔جس طر ح افغانستان بلوچوں کے لیے مہاجرت کے پر آشوب زمانے کا مسکن رہاہے بلوچستان بھی ان کے لیے اجنبی خطہ نہیں۔ زیادہ تر افغان مہاجرین پاکستانی بندوبست کے ان علاقوں میں رہناپسند کرتے ہیں جنہیں بلوچ سیاستدان بھی پشتون علاقے تسلیم کرتے ہیں مگر شال ( کوئٹہ ) اور اس کے گرد ونواح میںبھی کافی افغان مہاجرین آکر آباد ہوئے ہیں ، افغانستان میں صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا ہوئی تو اس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔

جن لوگوں نے مہاجرت کی زندگی بسر کی ہو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی مہاجر کسی دوسری جگہ مستقل ٹھکانہ بنانے کے لیے ہجرت نہیں کرتا وہ ہمیشہ اپنے وطن اور گھر کی یاد میں زندگی بسر کرتاہے۔ طویل قیام سے وہ علاقائی ضرورتوں کے مطابق اپنے لیے ذریعہ معاش اور گزر بسر کی دوسری ضروریات پیدا کر لیتے ہیں۔ مقامی لوگوں سے رشتہ داری بھی ہوتی ہے ۔دنیا میں شورشوں اور خانہ جنگیوں میں اضافہ کی وجہ سے مہاجرین کی مسئلہ سر فہرست ہے ۔اب دوسرے ممالک کے لیے بھی اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو قبول کر نا ممکن مشکل بنتا جارہاہے ۔کیوں کہ ان بے سر وسامان آنے والے لوگوں کے ساتھ کئی مسائل بھی چلے آتے ہیں جیساکہ غربت اوربھوک انہیں جنسی اور دیگر معاشرتی جراہم کی طرف اکساتے ہیں ۔

کراچی جیسے بڑے شہروں میں جہاں مزدوری کے مواقع کی وجہ سے افغان مہاجرین بڑی تعداد میں ہجرت کر گئے ہیں ۔وہاں ایسے مہاجرینجن کا بطور مہاجر سر کاری ریکارڈ موجود ہے دوسروں سے زیادہ مصیبت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔پاکستان میں طالبان حملوں کے بعد ان کے ساتھ قیدیوں جیسا برتا ﺅ کیا جاتاتھا ۔ایک چار دیوار ی میں بند ان مہاجرین کو مقررہ اوقات تک ہی آزادانہ طور پر باہر نکلنے کی اجازت تھی ۔اسی وجہ سے افغان مہاجرین باقاعدہ رجسٹرڈ افغان مہاجرکے طور پر ہجرت کرکے آنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت بلوچستان اور پاکستانی بندوبست میں شامل پشتون علاقوں میں پناہ لیتے ہیں ۔

بلوچ پشتونوں سے احترام اور عزت سے پیش آتے ہیں اور پشتون بھی جہاں کہیں ہو بلوچ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔پشتون روایات میں بلوچ ایک بہادر اور غیرت مند قوم کے طور پر مشہور ہے جس سے دوستی کرنے میں وہ ہمیشہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔

گزشتہ دوں بلوچستان نیشنل پارٹی کا نوشکی میں ایک جلسہ ہو ا ۔اخبارات کے مطابق میں جلسہ عام سے بی این پی کی قیادت نے خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ ”مردم شماری میں شرکت کر کے افغان مہاجرین کو نکال باہر کریں ۔“سطحی و پارلیمانی سیاسی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ خیال منطقی معلوم ہوتاہے ۔ہندوستان جیسی سب بڑی جمہوریت کہلانی والی ریاست میں بھی انتخا ب کے نتائج پر برادریوں کے اثرات ہیں مگر بلوچستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں یہ بیان لوگوں کی توجہ حالات سے ہٹا کر انہیں ایک غیر اہم کام میں اُلجھا نا ہے ۔بی این پی کے قائدین کی زبان سے افغان مہاجرین کو نکال باہر کرنے کی بات میں اس کٹورے کو توڑنے کی خواہش پوشیدہ ہے جس سے مینگل ، بگٹی او رمری بلوچ قبائل کے ہزاروں مہاجرین پیاس بجھا تے رہے ہیں ۔

بی این پی مردم شماری ، حلقہ بندی او ر پارلیمانی جوڑتوڑکی جس سیاست کے ڈگر چلنا چاہتی ہے اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ افغان مہاجرین کے لیے وہ لہجہ استعمال کر ئے جو اسے قابضین کے خلاف استعمال کر نا چاہئے ۔بی این پی کے سیاسی سمجھ بوجھ کے مطابق یہ ایک سنجید ہ مسئلہ ہے مگر ہمارے خیال میں یہ افغان مہاجرین کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے سے حل نہیں ہوگا ۔اس کے لیے انہیں سائنسی وادارتی بنیادوں پرایساکام کرنا چاہئے کہ بلوچ اور افغان رشتے کو کوئی گزندنہ پہنچے ۔

٭٭٭٭
10/06/2011


0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.