ہم اس بات سے لا علم نہیں کہ پاکستا نی سرکار پشتون اور بلوچوں کے درمیان کئی مصنوعی تنازعات کھڑے کرنے کی کوشش کرتا رہاہے ۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستا ن میں جاری خونخوار پاکستانی فوجی جارحیت میں بلوچ سیاسی نوجوانوں کو اغوا ءکرنے میں استعمال ہونی والی فورس ایف سی کی بڑی تعداد پشتونوں پر مشتمل ہے ۔مگر یہ پشتونوں کے ساتھ نفرت کاجوازنہیں کیوں کہ اس سے زیادہ بھیانک کردار خود اُن بلوچ مخبروں کا ہے جو آزادی پسندوں کے صفوں میں گھس کرچند ٹکوں کے عوض اپنا ایمان ، غیرت اور قومی ہیرﺅں کی زندگی کا سودا کررہے ہیں۔ ایمان فروشوں کی کوئی قومیت نہیں ہوتی وہ ہر رنگ وبھیس میں یہ سود اکرتے ہیں اس لیے بلوچ آزادی پسندوں نے بڑی زیرک بینی سے اس کا مشاعدہ کیا اور ایف سی میں شامل پشتون اہلکاروں کو پنجابی کے کرایے کی فوج کو طور پر شناخت کیا گیا۔ جس کا مطلب ایسے ربوٹک انسان جو پنجابی مقتدرہ کے اشاروں پر چلتے ہیں۔بابامری نے اسی تناظر میں فرما یا تھا کہ ” بلوچ پتھر کے پیچھے نہیں بھاگے گا اس ہاتھ کی طرف بڑھے گا جس نے پتھر پھینکا ہے ۔
ایک کٹورہ سوسال کے وفاکی قیمت کا درس“ کچھ ہی لوگ بھولے ہوں گے۔ خوش قسمتی سے بلوچ جنگ آزادی لڑنے والے قومی قائدین ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی تربیت بلوچی دستور کے مطابق ہوئی ہے ۔انہوں نے مشرقی بلوچستان کے پاکستانی بندوبستی نظام کے تحت شامل پشتون آبادی کی طرف سے بلوچوں کے خلاف پاکستانی فوج کی جارحانہ کارروائیوں پر خاموشی پر کوئی گلہ نہیں کیا۔ دوسری طرف پشتون قیادت کو بھی جیسے بلوچستان مسئلے پر سانپ سونگ گئی ہے لیکن اتنی غنیمت ہے کہ وہ کسی تنازعے کا سبب بننے سے گریزکررہے ہیں ۔ آزادی پسندوں کے منصوبے میں بھی پشتون آبادیوں کو بلوچستا ن کا حصہ بنانا شامل نہیں اور نہ ہی مستقبل میں ان کا پشتونوں کے ساتھ کسی ایسے مستقل تنازعے میں پڑنے کا ارادہ ہے جن کا عموماً بلوچستان جیسے غیر متعین سر حدوں پر مشتمل ریاستیں آزادی کے بعد شکار ہوتی ہیں ۔شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے پشتون اور بلوچ کے رشتے کو ”مفاہمانہ رشتے “ کانام دیاہےجس کا مطلب ہے کہ” وہ قوم ہے جس کے ساتھ بلوچ اپنے تمام تر تنازعات مفاہمت ، برابری اور باہمی احترام کے ساتھ حل کرنے کا خواہاں ہے ۔
بابامری ماضی کے تلخ تجربات کو پرکھنے میں دوسرے رہنماﺅں کی نسبت زیادہ حساس ثابت ہوئے ہیں اس لیے وہ کسی قوم کے لیے برادرانہ رشتے کی اصطلاح پر تنقید کرتے ہیں پشتون اور بلوچ کے لیے بھی اسے یہ اصطلاح قبول نہیں وہ کہتے ہیں کہ ” افغان حکمرانوں نے بلوچستان کو ہمیشہ اپنی چراگاہ بنانے کی کوشش کی ہے بلوچوں نے بزور طاقت کو افغانوں کو واپس اپنے سر حدوں میں دھکیل دیا ۔تاریخ کے مطالعے سے افغان اور بلوچ کا رشتہ کبھی آقا اور غلام کا اورکبھی قابض اور قبضہ گیر کے ساتھ لڑنے والاکارہاہے۔“ مگر مستقبل میں شاید افغانستان کے لیے یہ ارادہ دل میں رکھنا سود مند نہیں ہوگا ۔اس کے لیے بلوچستان جیسی مشکل سر زمین کو اپنے عملداری میں لینے سے زیادہ اپنے ان علاقوں کی واپسی اہم ہے جو برطانوی سر کار نے افغانستان میں پشتوتوں کی تعدادا ور طاقت کو باٹنے کے لیے کاٹ کر برٹش بلوچستان اور فرنٹیر میں شامل کیے تھے ۔
جن لوگوں نے مہاجرت کی زندگی بسر کی ہو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی مہاجر کسی دوسری جگہ مستقل ٹھکانہ بنانے کے لیے ہجرت نہیں کرتا وہ ہمیشہ اپنے وطن اور گھر کی یاد میں زندگی بسر کرتاہے۔ طویل قیام سے وہ علاقائی ضرورتوں کے مطابق اپنے لیے ذریعہ معاش اور گزر بسر کی دوسری ضروریات پیدا کر لیتے ہیں۔ مقامی لوگوں سے رشتہ داری بھی ہوتی ہے ۔دنیا میں شورشوں اور خانہ جنگیوں میں اضافہ کی وجہ سے مہاجرین کی مسئلہ سر فہرست ہے ۔اب دوسرے ممالک کے لیے بھی اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو قبول کر نا ممکن مشکل بنتا جارہاہے ۔کیوں کہ ان بے سر وسامان آنے والے لوگوں کے ساتھ کئی مسائل بھی چلے آتے ہیں جیساکہ غربت اوربھوک انہیں جنسی اور دیگر معاشرتی جراہم کی طرف اکساتے ہیں ۔
کراچی جیسے بڑے شہروں میں جہاں مزدوری کے مواقع کی وجہ سے افغان مہاجرین بڑی تعداد میں ہجرت کر گئے ہیں ۔وہاں ایسے مہاجرینجن کا بطور مہاجر سر کاری ریکارڈ موجود ہے دوسروں سے زیادہ مصیبت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔پاکستان میں طالبان حملوں کے بعد ان کے ساتھ قیدیوں جیسا برتا ﺅ کیا جاتاتھا ۔ایک چار دیوار ی میں بند ان مہاجرین کو مقررہ اوقات تک ہی آزادانہ طور پر باہر نکلنے کی اجازت تھی ۔اسی وجہ سے افغان مہاجرین باقاعدہ رجسٹرڈ افغان مہاجرکے طور پر ہجرت کرکے آنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت بلوچستان اور پاکستانی بندوبست میں شامل پشتون علاقوں میں پناہ لیتے ہیں ۔
بلوچ پشتونوں سے احترام اور عزت سے پیش آتے ہیں اور پشتون بھی جہاں کہیں ہو بلوچ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔پشتون روایات میں بلوچ ایک بہادر اور غیرت مند قوم کے طور پر مشہور ہے جس سے دوستی کرنے میں وہ ہمیشہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔
گزشتہ دوں بلوچستان نیشنل پارٹی کا نوشکی میں ایک جلسہ ہو ا ۔اخبارات کے مطابق میں جلسہ عام سے بی این پی کی قیادت نے خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ ”مردم شماری میں شرکت کر کے افغان مہاجرین کو نکال باہر کریں ۔“سطحی و پارلیمانی سیاسی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ خیال منطقی معلوم ہوتاہے ۔ہندوستان جیسی سب بڑی جمہوریت کہلانی والی ریاست میں بھی انتخا ب کے نتائج پر برادریوں کے اثرات ہیں مگر بلوچستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں یہ بیان لوگوں کی توجہ حالات سے ہٹا کر انہیں ایک غیر اہم کام میں اُلجھا نا ہے ۔بی این پی کے قائدین کی زبان سے افغان مہاجرین کو نکال باہر کرنے کی بات میں اس کٹورے کو توڑنے کی خواہش پوشیدہ ہے جس سے مینگل ، بگٹی او رمری بلوچ قبائل کے ہزاروں مہاجرین پیاس بجھا تے رہے ہیں ۔
بی این پی مردم شماری ، حلقہ بندی او ر پارلیمانی جوڑتوڑکی جس سیاست کے ڈگر چلنا چاہتی ہے اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ افغان مہاجرین کے لیے وہ لہجہ استعمال کر ئے جو اسے قابضین کے خلاف استعمال کر نا چاہئے ۔بی این پی کے سیاسی سمجھ بوجھ کے مطابق یہ ایک سنجید ہ مسئلہ ہے مگر ہمارے خیال میں یہ افغان مہاجرین کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے سے حل نہیں ہوگا ۔اس کے لیے انہیں سائنسی وادارتی بنیادوں پرایساکام کرنا چاہئے کہ بلوچ اور افغان رشتے کو کوئی گزندنہ پہنچے ۔
10/06/2011
Post a Comment