میری زندگی کےیادگار دنوں میں سے ایک د ن جب مجھے بابامری کی دیدار کا شرف حاصل ہو ا ‘ میں اسے ملاقات اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ نہ آپ مجھ سے واقف تھے نہ ہمارا کسی خاص ایجنڈے پر ملاقات طے تھی ۔ڈیفنس کے خیابان سحر میں آپ کی رہائش گاہ میں ہونے والی اس ملاقات کو ہم شہید واجہ (غلام محمد)کی شہادت کے بعد بی این ایم کے قائدین سے آپ کے ساتھ ایک تعارفی نشست کے طور پر رکھنا چاہتے تھے مگر اس حوالے سے یہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ہمارے وہاں پہنچنے کے چند لمحوں بعد آپ سے ملا قات کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا جن میں زیادہ تر کاھان اور کوھلو کے علاقے سے ہجرت کرکے آنے والے مری بلوچ تھے‘ایک شخص آپ کوایک شادی کی دعوت پہنچانے کے بہانے آٹپکا یوں ہماری نشست محض آپ کی دیدار تک ہی محدودرہی مگر ایک صاحب علم شخصیت سے ملاقات کا ایک لمحہ بھی کئی ہزار صفحات کے مطالعے سے زیا دہ سود مند ہے۔

ایک ایسی شخصیت جسے آپ اپنے دل میں قدر منزلت کے اعلیٰ ترین مقام پر بٹھا چکے ہوں جس کاآپ کا حلقہ احباب دنیا کی برگزیدہ ہستی کی طور پر ذکر کرتا ہواس سے ملا قات سے پہلے ذہن میں عجیب سے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ایک عظیم ہستی کیسی ہوسکتی ہے ؟ ذہن عموماًاسے مافوق البشر شبیہ میں پیش کرتا ہے لیکن بابامری اپنی عظمت کے باوجود ایک انسان ہیں جس طرح تمام عظیم انسان ہوتے ہیں ۔ جدیدمسلح بلوچ قومی تحریک آزادی کے بانی کے طور پر جانے جانے والے اس سردار زادے کی رہائش گاہ کے سامنے کوئی مسلح محافظ نظر نہیںآیا ، ایک نوجوان مری مرغے کو سہلا رہا تھا ، نواب صاحب کے مرغے پالنے کے شوق سے متعلق سیلگ ہیرسن نے اپنی کتاب ’’بلوچستان ان افغانستان شیڈو‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے ۔ ایک نرم گو ‘احترام سے پیش آنے والا خوش خلق نوجوان ،میں نے مری لہجے میں اکثر کرخت آواز میں لوگوں کو گفتگو کرتے ہوئے سنا تھا لیکن اس کےلہجے میں کرخت پن بالکل بھی نہیں تھی ۔ ہما را تعارف سن کر اندرگیا اور ہمیں اندر بلا کر چھوٹے سے صحن کے سبزہ زار میں ہمارے بیٹھنے کے لیے کرسیاں رکھ دیں ۔دیوار کے ساتھ بڑے بڑے پنجرے رکھے ہوئے تھے جن میں کئی درجن مختلف نسل کے مرغے بند تھے ۔اس نوجوان نے بتا یا کہ آپ شاید کبھی مرغے لڑاتے ہوں گے مگر اب آپ مرغے نہیں لڑاتے صرف پالتے ہیں ‘اکثر مرغے کے آپ کو تحفتاً دیے گئے ہیں۔

ایک گھنٹےکے انتظار کے بعد آپ تشریف لائے ،ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ سے ملاقات کے لیے پیشگی وقت لینے کی ضرورت نہیں آپ حسب معمول شا م کو گھر کے اندرونی حصے سے باہر تشریف لاکر صحن میں کرسی لگا کر بیٹھتے ہیں اس دوران بہت کم ایسا ہوتاہے کہ آپ کسی ملاقاتی سے ملنے کو انکار کردیں ۔آپ کا سر اپا سنجیدگی اور علم کا امتزاج ہے۔سپاٹ چہرے کو اگر کوئی پڑھنے کی ہمت کر ئے توتلخ حالات کی بھٹی میں تپ کر کندن بنے انسان کی سرگزشت سے آشنائی ہوگی ۔کوئی لفظ ، کوئی جذبات ، کوئی سانحہ ایسا نہیں کہ آ پ کو راستے سے بھٹکا سکے ۔گفتگو کے دوران ہر ایک لفظ کو مکمل توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔آپ نے بات خود شروع کی ‘موضوع اخباری تھا :’’آپ کیا کہتے ہیں ‘یہ صورت خان مری کہتا ہے کہ جو بلوچ مارے جاتے ہیں ان کے لیے شہید کی بجائے’’ قتل‘‘ کیے گئے ہیں کا لفظ استعمال کرنا چاہئے جو شہید سے زیادہ اثر انگیز ہے اورقاتلوں کے لیے موزو ں بھی ، یہ لفظ ان کے جرم کی نوعیت اور شدت کو آشکار کرتا ہے ۔‘‘ہم سے آپ صاف مکرانی بلوچی لہجے میں گویا ہوئے ۔

میرے ساتھی آپ کو خاموشی سے سن رہے تھے ‘ میں آپ سے ایک ایسے بزرگ کی طرح جو میر ے لیے شفقت کا جذبات رکھتا ہو ‘لاڈ پن سے بات کرنے کے لیے من ہی من مچل رہا تھا لیکن ماحول پر اتنی سنجیدگی طاری تھی کہ جیسے ہم کسی بادشاہ کے دربار میں بیٹھے تھے ‘بابانے سکوت کو توڑا تو مجھے بھی موقع ملا :’’شہید کا لفظ اس لیے کہ مارے جانے والے کوئی عام آدمی نہیں جو بے خبری کی موت مارے جاتے ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس رستے کا خود انتخاب کیا ہے اور ایک مقصد کی خاطراپنی زندگیاں قربان کررہے ہیں ۔اس لیے ان میں اور ایک عام آدمی کے مارے جانے میں فرق کی خاطر ’’شہید ‘‘کا لفظ مستعمل ہے ۔‘‘

آپ میرے جواب سے قدر ے مطمن نظر آنے لگے اور دوسرا سوال کیا :’’لیکن میرے خیال میں یہ لفظ بلوچی کا تو نہیں ؟‘‘

’’ہاں لفظ سفر کر کے آتے ہیں ‘یہ لفظ بھی بلوچی کا نہیں لیکن ہمارے سماج میں بھی ایک مقدس لفظ کا درجہ اختیار کرچکا ہے ۔’’نمیران ‘‘اس کا ہم معنی لفظ ہے مگر وہ صرف دشمن کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کے لیے نہیں بلکہ اچھے کردار و شخصیت کے مالک تمام مرنے والوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چاہئے وہ طبعی موت کیوں نہ مرے ہوں ۔شہید کے لیے ’ ’پاکمِر ‘‘ نیا لفظ گھڑا گیا ہے مگر وہ مروج نہیں ۔‘‘

’’میں نہیں سمجھتا کہ صورت خان یہ سب باتیں نا سمجھی میں لکھتے ہیں جانتے تو وہ بھی خوب ہوں گے ۔‘‘پھران کے کچھ جملوں کومسکراکر دہراتے اور خودکلامی کی سی انداز میں اپنی چھڑی سے فرش کو ٹٹولتے ہوئے فرمایا :’’جو شخص جانتا ہو کہ اسے مرنا ہے اور وہ اس راستے پر چلتا ہے اس کا مارے جانا عام آدمی کی طرح اس کا قتل کرنا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

بلوچ قوم دوست سیاسی کارکنا ن کو قتل کر کے بعد ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینکنے کا سلسلہ شہدائے مرگاپ کے سانحہ کے بعد ایک تسلسل سے بتدریج شدت اختیار کرتا جارہاہے ۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ بلوچستان کے کسی کونے میں کسی بلو چ قوم دست سیاسی کارکن کی مسخ شدہ لاش کی اطلاع نہ ملے ۔بلوچ قوم نے اس کی پروا ہ کرنی چھوڑ دی ہے کہ پاکستانی میڈیا پر ان لاشوں کا ذکر کیا جاتاہے کہ نہیں مگر خطرناک صورتحال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان لاشوں کو معمول کا واقعہ سمجھ کر قبول کر لیاہے ان کے جذبا ت اس قدر سرد ہوچکے ہیں کہ جیسے اب یہی ان کے مقدر میں لکھا گیا ہے کہ قوم دوستی کا جذبہ رکھنے والے کسی نوجوان کو اُٹھا یا جائے تو اس کے خاندان والے اس کی تشدد زد ہ لاش کا انتظار کرتے ہیں جب لاش ملتی ہے تو ایک آدھ دن احتجاج کے نام پر دکانیں بند کی جاتیں اور پھر اگلے واقعے تک سب اپنی رومرہ زندگی کی مصروفیات میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ عام آدمی کا رویہ تو ہمیشہ یہی رہاہے مگرقوم دوست سیاسی پارٹیاں جن سے وابستہ تقریباً ایک نسل شہید کردی گئی ہے بھی غیر موثر سیاسی عمل کو شعار بنائے ہوئے ہیں ۔گزشتہ تین سال کے عرصے میں کوئی بھی پارٹی اس عمل کے تدارک کے لیے جامع حکمت عملی پیش نہیں کر سکا نہ ہی شہدا کی قربانیوں کے نتائج کو تحریک آزادی کے حق میں استعمال کر نے کی کوششیں بار آور ہوئی ہیں ۔

ہم اگر کچھ نہیں کرسکتے ہمیں اپنے لیے مقرر کیے گئے اس موت کو قبول کرنے کی کیفیت سے بہر حال باہر نکلنا ہوگا ۔ہم ہر ایک شہادت کو دشمن کی طرف سے اپنے وجود کو مٹانے کی کوشش جانیں اور اس کے خلاف صف آرا ہوں ۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان لاشوں پر نوحہ کرکے افسوس اور پشومانی کے ماحول کو جنم دیں تاکہ یہ سب قربانیاں ضائع ہوں یاان کی قدرومنزلت کو سمجھیں کہ یہ کسی مہم جوئی کا نتیجہ نہیں ‘یہ قومی جنگ کیقیمت ہے جس کو ہم نے تقریباً چکا دیا ہے ۔لیکن یہ کسی مادی چیز کی خریداری کا معاملہ نہیں کہ قرض اور بقایا پر معاملہ ہوسکے اگر ہم یہی سے پسپا ہوئے توہم اپنی جیتی ہوئی جنگ ہار سکتے ہیں ۔اب پہلے سے زیادہ حوصلہ ، حکمت اور بھر پور توانائی کی ضرورت ہے ۔دشمن اپنی طاقت بڑھائے گا مزیدسخت اور بھیانک حملے کر ئے گاجو اس بات کی نشانی ہوگی کہ بلوچ قومی تحریک کے سپوت میدان جنگ میں موجود اور دشمن کے اعصاب پر سوا ر ہیں ۔کسی واہمہ اور وسوسہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں وہ بزدل لوگ جن کا اس جنگ میں انگلی تک بھی نہیں مروڑی گئی ہمیشہ کی طرح خوف اور بزدلی کو مصلحت کے نام پر فروغ دینے کی کوشش کریں گے۔ہم مصلحت اور جنگی حکمت عملی میں تبدیلیوں کے خلاف ہرگز نہیں لیکن ان تمام قربانیوں کو ضائع کرنے کی کسی کوشش کو نیک نیتی نہیں کہا جاسکتا ۔اب وہ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے کہ ہم جنگ کی مخالفت کرتے، اب جنگ شروع ہوکر اختتام کے قریب ہے جنگ میں شکست کا مطلب ہماری قومی وجود کا خاتمہ ہے ۔اس نازک موقع پر بلوچ قوم کا خیر خواہ صرف وہی ہے جو اپنے شخصی ، گروہی ، جماعتی اور نظریاتی اختلاف کو ایک طرف رکھ کر جنگ کی کامیابی کے لیے جت جائے ۔یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس جنگ کی شروعات پنجاب شاہی نے کی ہے بلوچ اپنے دفاع میں آگے آئے ۔بلوچ سیاسی اور پرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے جائز حقوق کے جدوجہد کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں بابامری ( نواب خیر بخش مری ) ہو ں یا شہیدواجہ ( غلام محمد) دونوں پارلیمانی سیاست کو آزماچکے ہیں۔اگر دونوں رہنما ء اپنی ایمان کا سواد اکرتے تو شایدآج انہیں بھی رئیسانی ، مگسی ، بزنجو ، مالک ، زہری اور دیگر کی طرح سب کچھ ہر ا ہرا ہی نظر آتا ہے لیکن پارلیمنٹ میں جاکر اول الذکر نے محسوس کیا کہ یہ اُن کے گردن میں مستقل غلامی کا طوق ڈالنے کی کوششہے ثانی الذکر نے دیکھا کہ اُن کے مخلص کارکنان کو مراعات یافتہ بناکر ایک ایسا طبقہ تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو مستقبل میں بلوچستان کے قبضے کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے ‘دونوں رہنماء نے جنگ کو مجبوری میں چنا اور ہر گھڑی منتظر رہے کہ پنجابی فوج اپنی غلطیوں پر معافی مانگے گی اور باوقار طریقے سے بلوچوں کو اپنے وطن پر حق حاکمیت کا اختیار دیا جائے گا مگر پنجاب شاہی اپنی طاقت کے نشے میں چور بلوچوں کو اِس راستے کی طرف دھکیلتے رہے ۔ پہلے جنگ ناگزیر تھی اب اس جنگ کا جیتنا ناگزیرہے۔ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جنگ کے بغیر کو ئی دوسرا راستہ موجود ہے یعنی پنجاب کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرنے کا تو اسے بلوچوں کی جنگ کے لیے چکائے گئی قیمت کی واپسی کی بھی ضمانت دینی ہوگی ‘ ہم بابامری کی ضمانت دیتے ہیں کہ وہ مذاکرات سے انکار نہیں کریں گے۔

اس نشست میںآپ کی گفتگو کا محور بلوچ قومی تحریک آزادی میں جان کی بازی لگانے والے شہدا ء تھے ‘نیشنل پارٹی کا ایک تازہ بیان اخبار اتمیں چھپ چکا تھا ، جس میں مذکورہ پارٹی نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دی تھی ۔آپ نے پہلے اپنے مخصوص انداز میں ہماری رائے طلب کی :’’نیشنل پارٹی کا ایک بیان آیا ہے پنجاب سے مذاکرات کے حوالے سے ، میں سوچ رہاہوں کہ اُن کو ایک پیغام دوں ۔کچکول (ایڈوکیٹ) کہاں ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُن سے کہہ دیں کے اپنے ساتھیوں کو سمجھاؤ ۔اب مذاکرات نہیں ہوسکتے مذاکرات تب ہوسکتے تھے جب ہم نے جنگ کے لیے ہتھیار نہیں اُٹھا ئے تھے ۔تمہارے پارلیمنٹ کے ممبرتھے ، تم سے بات کرنے اور معاملات کے سدھارکے لیے روز تمہارے جھنڈے کے سائے میں بیٹھ کر گلا پھاڑتے تھے لیکن تم نے ہماری کسی بات کو اہمیت نہیں دی ، اب ہم شاید بہرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ بات کرتے ہوئے آپ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے ، کرب کی ایک لکیر نمایاں ہوئی لیکن ایک سیکنڈ سے بھی کمتر‘آپ نے نظریں اپنی چڑھی کی نوک پر جمائیں اور فرما یا :’’مذاکرات کے لیے تیار ہوں ، ماضی کو چھوڑیں صرف گزشتہ تین سال میں شہید ہونے والے شہداء مجھے واپس کریں میں مذاکرات کے میز پر بیٹھنے کو تیار ہوں ۔‘‘

ایک بابامری نہیں اس جنگ میں شہید ہونے والے شہدا ء نے ہم سب کو مقروض کیا ہے ، پنجاب شاہی طاقت کے نشے میں ہم پر بوجھ بڑھاتا جارہاہے شاید اس نے بھی سمجھ لیا ہے کہ اب چاہئے ظلم کے پہاڑ ڈھائے یا معافی مانگ کراپنے ہاتھ کھینچ لیں پانی سر سے اُونچا ہوچکا ہے ۔

***
07/07/2011

3 Responses
  1. Anonymous Says:

    Panjabi Duggas must understand that a whole nation shall never accept Slavery...!!!


  2. Anonymous Says:

    sooner or latter we will get our Freedom, But I wish that Baba Marri may Hold the Bairak Of free and United Greater Balochistan.... Long live the war of freedom and Long live The Great Sardar Khair bux Marri....


  3. Baloch Says:

    THE WAY WHICH YOU WRITE ITS VERY NICE AND ALSO VERY MEANING FULL THING FOR THOSE WHO WANT TO LEARN ABOUT HISTORY AND BALOCHISTAN POLITICS YOUR ARTICLES ARE VERY GOOD QAZI KEEP IT UP AND NAWAB MARRI IS THE MESSENGER OF FREEDOM AND HE WILL HOLD THE BAIRAK TILL THE FREEDOM OF BALOCH LAND INSHALLAH


Post a Comment

Powered by Blogger.