بلوچستان میں پنجابی فوج کے ’’آپریشن سائیلنس‘‘کی شدت میں گزشتہ تین سا ل سے کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ ’’آپریشن سائیلنس ‘‘ پاکستان کے پنجابی مقتدرہ کے مفاد کے تحفظ اور بلوچ قوم دوستوں کے خلاف شروع کی جانے والی اس جارحیت کا کوڈ نام رکھا گیا ہے جس کے تحت گزشتہ تین سال سے روزانہ کی بنیاد پر پنجاب شاہی پاکستانی فوج ، ایف سی ، آئی ایس آئی ، ایم آئی اور دیگر اداروں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کو مجرمانہ طریقے سے ماورائے قانون گرفتاری کے بعداُنہیں بلوچستان کے طول وعرض پر پھیلے ہوئے نیول چھاؤنیوں ، فوجی چھاؤنیوں ، کوسٹ گارڈاور ایف سی کیمپوں اور فوجی قیام گاہوں میں واقع عقوبت خانوں میں تشدد کے ذریعے شہید کرنے کے بعد لاشیں سڑکوں اور ویرانوں میں پھینکی جارہی ہیں ۔گزشتہ ایک سال کے عرصے میں اس جارحیت کے نتیجے میں دوسو کے لگ بھگ سیاسی کارکنان کو شہید کر کے اُن کی مسخ لاشیں پھینکی جاچکی ہیں ۔
بظاہر بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس جارحانہ پالیسی کے خلاف ہیں۔بلوچستان کی سیاست تین مختلف سو چ رکھنے والے گروپس میں تقسیم ہے ۔ایک گروہ ایسا ہے جو خود کو قوم دوست کہلانے پر بضد ہے لیکن قوم دوست سیاست کے بنیادی نظریے کا منکر ہے یعنی وہ پاکستانی بندوبست کو قبول کرتے ہوئے اس کے موجودہ آئین وقوانین کے تحت سیاست کرنا چاہتا ہے۔ اس گروہ کی نمائندہ جماعتیں نیشنل پارٹی اور بی این پی (عوامی ) ہیں ۔نیشنل پارٹی میں سرداروں کی شمولیت اور ان کو عام سیاسی کارکنان کی نسبت ترجیع دینے پر کوئی آئینی قدغن مانے نہیں ، بلوچستان کے خود کوخود سرداروں کے سردار ( چیف ) کہلانے والے بھی اس جماعت میں موجود ہیں اس کے علاوہ تھوک کے حساب سے ٹکریاں اور علاقائی معتبرین بھی ہیں۔ا س کے باوجود اس جماعت کا اصرار ہے کہ اسے بلوچستان کے متوسط طقبے کی واحد سیاسی جماعت کہا جائے مگر اس گروہ میں شامل جماعتوں کو عرف عام میں پارلیمان پسند جماعتیں کہا جاتا ہے ۔دوسرا گروہ ایسی جماعتوں کا ہے جو وفاقی سیاست کے حامی ہیں یعنی براہ راست اسلام آباد کے ماتحترہنے کے حامی ہیں ان کے لیے زیادہ تر سیاسی حکم نامے جی ایچ کیو سے ہی آتے ہیں اس گروہ کیسب سے بڑی جماعت جمعیت علماء اسلام ہے اس کے علاوہ جماعت اسلامی ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن ) کے بھی اکا دکا دفاترموجود ہیں مگر بلوچستان کی سیاست پر ان جماعتوں کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا ۔بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چند دیگر مماثلت کی طرح ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ اسلام آباد میں جس کی حکومت بنتی ہے پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں بھی اسی پارٹی کی حکومت بنائی جاتی ہے اس لیے مذکورہ جماعتوں کا اثر محض کٹھ پتلی اسمبلی میں ہی نظر آتا ہے۔اور تیسر اگروہ آزادی پسندوں کا ہے جو بلوچستان کو پاکستان کا حصہ ماننے سے انکاری ہیں ان کا موقف ہے کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی جس پر مارچ 1948کو پاکستان نے بزور طاقت قبضہ کر لیا اس لیے بلوچوں کو چاہئے کہ اس قبضے کے خلاف ہر محاذ پر جنگ کر یں ،مذکور ہ گروہ میں شامل تمام جماعتیں پرامن سیاسی جماعتوں کے زمرے میں آتی ہیں لیکن یہ آزادی کے لیے جنگ کو بھی ناگزیر سمجھتی ہیں۔ بلوچستان میں جاری پنجابی مقتدرہ کے اصل مدمقابل یہی گروہ ہے جس کی نمائندہ جماعتیں بی این ایم ، بی آرپی اور بی ایس او( آزاد ) ہیں ۔اس کے علاوہ بلوچ نیشنل وائس نامی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اتنظیم اور بلوچ خواتین پینل بھی آزادی کے حامی ہیں ۔ آپریشن سائیلنس میں اب تک شہید کیے جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق انہی قوم دوست سیاسی جماعتوں سے ہے۔
مندرجہ بالا سیاسی درجہ بندی میں بی این پی کے نہ ہونے پر حیرت کا اظہار یقینی امر ہے کیوں بی این پی اس سیاسی خاندان کی جماعت ہے جس کے ذکر کے بغیر بلوچستا ن کی سیاست نامکمل ہے ۔اس جماعت کا مرکز جھالاوان ، اس کے لیڈر سردار عطاء اللہ مینگل اور آئینی صدر ان کے فرزند اخترجان مینگل ہیں۔ ان کی جماعت مندرجہ بالادرجہ بندی میں اس لیے نہیں سماتی کیوں کہ ان کا موقف مندرجہ بالا تمام جماعتوں سے مختلف ہے ۔پارلیمان پسند جماعت نیشنل پارٹی کے لیڈران کا ماننا ہے کہ بی این پی اور ان کی جماعت کا موقف یکساں ہے اور آزادی پسند جماعت بھی اکثر بی این پی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتی ہیں ۔بی این پی کی قیادت یہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نظر نہیں آتی کہ اس کی جماعت پاکستانی بندوبست کو تسلیم کرتی ہے لیکن یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ اس کی جماعت آزادی پسند ہے بلکہ آزادی پسندوں کے ساتھ ان کے اخباری بیانات سے دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے مخالف نظر آتے ہیں مگر دوسری طرف اس کے پاکستانی بندوبست کے خلاف اخباری جذبات بھی آزادی پسندوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اس لیے اس جماعت کو کسی درجہ بندی میں ڈالنا مشکل ہے ۔بی این پی کے سربراہ اختر جان کے بلوچستان کی صورتحال پر تازہ بیان کو لیجئے جس میں ایک جملہ بھی ایسا نہیں جس سے اخذ کیا جاسکے کہ بی این پی ، بی این ایف اور بی آرپی کے نکتہ نظر میں اختلاف ہے ۔گوکہ اس جماعت کے نظریے اور پالیسی کو سمجھنا اتنا آسان نہیں کہ کوئی رائے قائم کی جاسکے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی این پی نظریاتی اختلافات سے زیادہ شخصی اختلافات کا شکار ہے ۔ ماضی میں بی آرپی ذرائع سے یہ بات سامنے آئی کہ بی این پی کو غلام محمد ( جب آپ شہید نہیں کیے گئے تھے )کی جماعت بی این ایم اور بی ایس او(آزاد ) پر تحفظات ہیں مذکورہ جماعت بی ایس او (آزاد) کو بی این ایم ہی کی ذیلی جماعت سمجھتی ہے ۔ان دونوں جماعتوں کو بی این پی کے کارکنا ن بابامری ( نواب خیر بخش مری ) کے فلسفہ کے پیروکار بتاتے ہیں یعنی اصل مسئلہ مری اور مینگل فلسفے کے ٹھکراؤ کا ہے جس نے بی این پی کو معلق جماعت بنا دیا ہے ۔جب کہ مذکورہ جماعت بی آرپی سے ہمیشہ حلیفانہ تعلقات کی خواہاں ہے حالانکہ بی این ایم کی قیادت بھی کئی مرتبہ یہ واضح کرچکی ہے کہ اگر کوئی بھی جماعت بلوچستان کی قومی آزادی کے نکتے پر اتفاق کرتے ہوئے ان کے ساتھ متحدہونا چاہئے تو اس کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اور یہی بات اخترجان نے اپنے حالیہ بیان میں بھی دہرائی ہے ۔
اختر جان نے نیوز ایجنسی آن لائن سے خصوصی بات چیت میں اُن کے نمائندے کے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ :’’ نام نہاد جمہوری حکمرانوں سے ہمیں خیر کی کوئی توقع نہیں بلوچ وطن دوست اور قوم دوست جماعتوں کو کہتے ہیں لاپتہ افراد مسخ شدہ لاشوں اور بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا راستہ روکنے اور بلوچستان میں خفیہ ایجنسیوں، فوج اور اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے خاتمے کے لیے اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔تمام قوم دوست سیاسی جماعتوں کواپنے اختلاف کو بالائے طاق رکھنا ہوگاسرزمین کے دفاع کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں ۔‘‘اگر ہم چاہئیں تو ان مندرجات کو بھی اختلافی نکتہ بنا کر پیش کرسکتے ہیں لیکن یہ ایماندارانہ بات نہیں ہوگی ہمیں مد نظر رکھنا چاہئے کہ بی این پی قیادت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے حامی ہیں جو باتیں آزادی پسند ڈنکے کی چھوٹ پر کہتی ہیں بی این پی اُن کو کوتمثیل ، علامات اور تشبیوں کے ذریعے کہتی ہے ۔یہاں بھی اتحاد کی بات (خاص طور پر بلوچستان میں پنجابی فوج کی ’’آپریشن سائیلنس‘ کو رکوانے کے حوالے سے )ایسی نہیں کہ نظر انداز کی جائے ۔لیکن اختر جان بھی اچھی طرح جانتے ہیں محض ایک اخباری بیان سے اتحاد نہیں بنتے ماضی میں بھی بی این پی قوم دوستوں کے درمیان گرینڈ الائنس کی بات کر چکی ہے جس کے جواب میں بی این ایم کے دفترا طلاعات سے پارٹی پالیسی کے ترجمان کے طور پر بی این پی کے قائمقام صدر کے نام ایک خط لکھا گیا اور اتحاد کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے شرائط پیش کیے گئے جو بی این پی کے بیان پر ذرا زیادہ گرمجوش ردعمل تھا (یہ خط اخبارات میں بھی شائع ہوچکاہے )مگر بی این پی نے اس پر کوئی ردعمل دکھانے کی بجائے اپنے کارکنان میں اس تاثر کی تقویت کے لیے کام کیا کہ بی این پی کے اتحاد کی کوششوں کو بی این ایف میں شامل اتحادیں جماعتیں پذیرائی نہیں دے رہئیں ۔
اختر جان اور اس کے دوست اکثر دوسری جماعتوں خاص طور پر بی این ایف کے سیاسی تنقید سے بھڑک اُٹھتی ہیں یہ وہ رویہ ہے جو اُسے بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں سے ممتاز بنادیتا ہے بلوچستان کی دیگر تمام جماعتیں جیسی بھی ہیں اُن میں سیاسی تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہے ۔نئے دور میں اس کی روایت شہید واجہ ( غلام محمد ) نے مضبوط کی کہ سیاست میں کوئی مقدس گائے نہیں اگر کسی کو تنقید برداشت نہیں تو گھر بیٹھ جائے ، لیڈری چھوڑ کر سردار ی کر ئے۔ آپ کے تنقیدی بیانات اور تقاریر سے پہلے سردار صاحبان کے آپسی نوک جھونک ہوا کرتے تھے لیکن کسی عام سیاسی رہنماء کو جس کی کوئی قبائلی حیثیت نہیں ہوتی تھی ایک سردار سے سیاسی اختلاف کی جرأت نہیں ہوتی ۔بی ایس او کے زمانے میں سیاسی اختلاف اکثر پرتشدد شکل اختیار کرتے تھے لیکن شہید واجہ نے سیاسی کارکنان کو راستہ دکھایا کہ سیاست اصل میں لڑائی جھگڑے کا نہیں بلکہ دوسروں کی سیاسی پالیسیوں پر اختلاف کی صورت ان پرسیاسی بیانات کے ذریعےکھلم کھلا تنقید کا نام ہے اور آپ خود بھی کسی کی تنقید پر کبھی برا نہیں مناتے تھے بلکہ ہمیشہ مسکرا کر اس کاجواب دیتے تھے ۔
بی این پی والوں کو آج بھی یہ سمجھانا مشکل لگتا ہے کہ تنقید اُن پر کی جاتی ہے جن سے توقعات ہوتے ہیں ۔جس طرح ہماری توقع ہے کہ بی این پی یک طرفہ غم وغصے کا شکار ہوکر اپنی قوت اور توانائی کو ہوامیں مکے مار کر ضائع کرنے کی بجائے جس طرح کہ اس کے دعوے ہیں اتنی ہی سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کھلے دل ودماغ کے ساتھ بی این ایف کی تنقید کو سنے گی اور بی ایس او(آزاد ) جیسی نوجوانوں کی جماعت سے زیادہ خود کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے عملی میدان میں اس کو ثابت کرئے گی ۔اس کے اتحاد کی اخباری باتیں محض اس کی’’ نیک نیت‘‘کو مطمئن کر نے لے لیے نہیں بلکہ اس کے لیے بلوچ آزادی پسند رہنماؤں سے باضابطہ رابطے بھی استوار کرئے گی ۔بی این پی اگر ماضی کی کسی بات کو جواز بناکر خود کو ہمیشہ کی طرح ’’گنگا نہائی ‘‘سمجھتی رہے گی تو ہم بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے بی این پی ایک سیاسی جماعت ہونے کے باوجود فرسودہ قبائلی روایات کی اسیر ہے ۔سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں ایک مرتبہ کی ناکامی ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی مخالفانہ بات انہیں اپنے منزل سے بھٹکا سکتی ہے البتہ ہر تنقید کو یکسر رد کرنے کی روش کسی بھی جماعت یا گروہ کے لیے سود مند نہیں ہوتی ۔
اختر جان کے بیان میں پتے کی با ت یہ ہے کہ:’’بلوچستان کا مسئلہ قبائلی نہیں اور بلوچ قوم کوئی قبیلہ ہے کہ اس کو جرگہ یا میڑ ھ کے ذریعے حل کیا جائے یہ قومی مسئلہ ہے ہماری وزیرا علیٰ رئیسانی سے کوئی ناراضگی نہیں اگر وہ خود فریق بننا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے اور پھر ناراضگی اپنوں سے ہوتی ہے دشمن سے صرف جنگ ہوتی ہے ۔پنجاب ، فوج اسٹبلشمنٹ اور اس ملک ( پاکستا ن ) کی بالادست قوتیں بلوچ قوم اور بلوچستان کی دشمن ہیں ان کے ساتھ اب دوستی ہوسکتی ہے اور نہ نواب رئیسانی بلوچ قیادت کومذاکرات کی دعوت دینے کی زحمت نہ کریں تو بہتر ہے ۔‘‘اس بیان میں بی این ایف اور بابامری کے موقف میں تضاد تلاش کرنامشکل ہے مگر محض ایک بیان سے بی این پی اور بی این ایف کے موقف کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتاالبتہ یہ بیان ایسا بھی نہیں کہ اس میں بی این پی کے حامی بلاوجہ کیڑے نکال کر بی این پی کو کٹی رہنے کا مزید موقع دیں ۔
بظاہر بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس جارحانہ پالیسی کے خلاف ہیں۔بلوچستان کی سیاست تین مختلف سو چ رکھنے والے گروپس میں تقسیم ہے ۔ایک گروہ ایسا ہے جو خود کو قوم دوست کہلانے پر بضد ہے لیکن قوم دوست سیاست کے بنیادی نظریے کا منکر ہے یعنی وہ پاکستانی بندوبست کو قبول کرتے ہوئے اس کے موجودہ آئین وقوانین کے تحت سیاست کرنا چاہتا ہے۔ اس گروہ کی نمائندہ جماعتیں نیشنل پارٹی اور بی این پی (عوامی ) ہیں ۔نیشنل پارٹی میں سرداروں کی شمولیت اور ان کو عام سیاسی کارکنان کی نسبت ترجیع دینے پر کوئی آئینی قدغن مانے نہیں ، بلوچستان کے خود کوخود سرداروں کے سردار ( چیف ) کہلانے والے بھی اس جماعت میں موجود ہیں اس کے علاوہ تھوک کے حساب سے ٹکریاں اور علاقائی معتبرین بھی ہیں۔ا س کے باوجود اس جماعت کا اصرار ہے کہ اسے بلوچستان کے متوسط طقبے کی واحد سیاسی جماعت کہا جائے مگر اس گروہ میں شامل جماعتوں کو عرف عام میں پارلیمان پسند جماعتیں کہا جاتا ہے ۔دوسرا گروہ ایسی جماعتوں کا ہے جو وفاقی سیاست کے حامی ہیں یعنی براہ راست اسلام آباد کے ماتحترہنے کے حامی ہیں ان کے لیے زیادہ تر سیاسی حکم نامے جی ایچ کیو سے ہی آتے ہیں اس گروہ کیسب سے بڑی جماعت جمعیت علماء اسلام ہے اس کے علاوہ جماعت اسلامی ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن ) کے بھی اکا دکا دفاترموجود ہیں مگر بلوچستان کی سیاست پر ان جماعتوں کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا ۔بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چند دیگر مماثلت کی طرح ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ اسلام آباد میں جس کی حکومت بنتی ہے پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں بھی اسی پارٹی کی حکومت بنائی جاتی ہے اس لیے مذکورہ جماعتوں کا اثر محض کٹھ پتلی اسمبلی میں ہی نظر آتا ہے۔اور تیسر اگروہ آزادی پسندوں کا ہے جو بلوچستان کو پاکستان کا حصہ ماننے سے انکاری ہیں ان کا موقف ہے کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی جس پر مارچ 1948کو پاکستان نے بزور طاقت قبضہ کر لیا اس لیے بلوچوں کو چاہئے کہ اس قبضے کے خلاف ہر محاذ پر جنگ کر یں ،مذکور ہ گروہ میں شامل تمام جماعتیں پرامن سیاسی جماعتوں کے زمرے میں آتی ہیں لیکن یہ آزادی کے لیے جنگ کو بھی ناگزیر سمجھتی ہیں۔ بلوچستان میں جاری پنجابی مقتدرہ کے اصل مدمقابل یہی گروہ ہے جس کی نمائندہ جماعتیں بی این ایم ، بی آرپی اور بی ایس او( آزاد ) ہیں ۔اس کے علاوہ بلوچ نیشنل وائس نامی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اتنظیم اور بلوچ خواتین پینل بھی آزادی کے حامی ہیں ۔ آپریشن سائیلنس میں اب تک شہید کیے جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق انہی قوم دوست سیاسی جماعتوں سے ہے۔
مندرجہ بالا سیاسی درجہ بندی میں بی این پی کے نہ ہونے پر حیرت کا اظہار یقینی امر ہے کیوں بی این پی اس سیاسی خاندان کی جماعت ہے جس کے ذکر کے بغیر بلوچستا ن کی سیاست نامکمل ہے ۔اس جماعت کا مرکز جھالاوان ، اس کے لیڈر سردار عطاء اللہ مینگل اور آئینی صدر ان کے فرزند اخترجان مینگل ہیں۔ ان کی جماعت مندرجہ بالادرجہ بندی میں اس لیے نہیں سماتی کیوں کہ ان کا موقف مندرجہ بالا تمام جماعتوں سے مختلف ہے ۔پارلیمان پسند جماعت نیشنل پارٹی کے لیڈران کا ماننا ہے کہ بی این پی اور ان کی جماعت کا موقف یکساں ہے اور آزادی پسند جماعت بھی اکثر بی این پی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتی ہیں ۔بی این پی کی قیادت یہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نظر نہیں آتی کہ اس کی جماعت پاکستانی بندوبست کو تسلیم کرتی ہے لیکن یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ اس کی جماعت آزادی پسند ہے بلکہ آزادی پسندوں کے ساتھ ان کے اخباری بیانات سے دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے مخالف نظر آتے ہیں مگر دوسری طرف اس کے پاکستانی بندوبست کے خلاف اخباری جذبات بھی آزادی پسندوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اس لیے اس جماعت کو کسی درجہ بندی میں ڈالنا مشکل ہے ۔بی این پی کے سربراہ اختر جان کے بلوچستان کی صورتحال پر تازہ بیان کو لیجئے جس میں ایک جملہ بھی ایسا نہیں جس سے اخذ کیا جاسکے کہ بی این پی ، بی این ایف اور بی آرپی کے نکتہ نظر میں اختلاف ہے ۔گوکہ اس جماعت کے نظریے اور پالیسی کو سمجھنا اتنا آسان نہیں کہ کوئی رائے قائم کی جاسکے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی این پی نظریاتی اختلافات سے زیادہ شخصی اختلافات کا شکار ہے ۔ ماضی میں بی آرپی ذرائع سے یہ بات سامنے آئی کہ بی این پی کو غلام محمد ( جب آپ شہید نہیں کیے گئے تھے )کی جماعت بی این ایم اور بی ایس او(آزاد ) پر تحفظات ہیں مذکورہ جماعت بی ایس او (آزاد) کو بی این ایم ہی کی ذیلی جماعت سمجھتی ہے ۔ان دونوں جماعتوں کو بی این پی کے کارکنا ن بابامری ( نواب خیر بخش مری ) کے فلسفہ کے پیروکار بتاتے ہیں یعنی اصل مسئلہ مری اور مینگل فلسفے کے ٹھکراؤ کا ہے جس نے بی این پی کو معلق جماعت بنا دیا ہے ۔جب کہ مذکورہ جماعت بی آرپی سے ہمیشہ حلیفانہ تعلقات کی خواہاں ہے حالانکہ بی این ایم کی قیادت بھی کئی مرتبہ یہ واضح کرچکی ہے کہ اگر کوئی بھی جماعت بلوچستان کی قومی آزادی کے نکتے پر اتفاق کرتے ہوئے ان کے ساتھ متحدہونا چاہئے تو اس کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اور یہی بات اخترجان نے اپنے حالیہ بیان میں بھی دہرائی ہے ۔
اختر جان نے نیوز ایجنسی آن لائن سے خصوصی بات چیت میں اُن کے نمائندے کے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ :’’ نام نہاد جمہوری حکمرانوں سے ہمیں خیر کی کوئی توقع نہیں بلوچ وطن دوست اور قوم دوست جماعتوں کو کہتے ہیں لاپتہ افراد مسخ شدہ لاشوں اور بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا راستہ روکنے اور بلوچستان میں خفیہ ایجنسیوں، فوج اور اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے خاتمے کے لیے اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔تمام قوم دوست سیاسی جماعتوں کواپنے اختلاف کو بالائے طاق رکھنا ہوگاسرزمین کے دفاع کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں ۔‘‘اگر ہم چاہئیں تو ان مندرجات کو بھی اختلافی نکتہ بنا کر پیش کرسکتے ہیں لیکن یہ ایماندارانہ بات نہیں ہوگی ہمیں مد نظر رکھنا چاہئے کہ بی این پی قیادت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے حامی ہیں جو باتیں آزادی پسند ڈنکے کی چھوٹ پر کہتی ہیں بی این پی اُن کو کوتمثیل ، علامات اور تشبیوں کے ذریعے کہتی ہے ۔یہاں بھی اتحاد کی بات (خاص طور پر بلوچستان میں پنجابی فوج کی ’’آپریشن سائیلنس‘ کو رکوانے کے حوالے سے )ایسی نہیں کہ نظر انداز کی جائے ۔لیکن اختر جان بھی اچھی طرح جانتے ہیں محض ایک اخباری بیان سے اتحاد نہیں بنتے ماضی میں بھی بی این پی قوم دوستوں کے درمیان گرینڈ الائنس کی بات کر چکی ہے جس کے جواب میں بی این ایم کے دفترا طلاعات سے پارٹی پالیسی کے ترجمان کے طور پر بی این پی کے قائمقام صدر کے نام ایک خط لکھا گیا اور اتحاد کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے شرائط پیش کیے گئے جو بی این پی کے بیان پر ذرا زیادہ گرمجوش ردعمل تھا (یہ خط اخبارات میں بھی شائع ہوچکاہے )مگر بی این پی نے اس پر کوئی ردعمل دکھانے کی بجائے اپنے کارکنان میں اس تاثر کی تقویت کے لیے کام کیا کہ بی این پی کے اتحاد کی کوششوں کو بی این ایف میں شامل اتحادیں جماعتیں پذیرائی نہیں دے رہئیں ۔
اختر جان اور اس کے دوست اکثر دوسری جماعتوں خاص طور پر بی این ایف کے سیاسی تنقید سے بھڑک اُٹھتی ہیں یہ وہ رویہ ہے جو اُسے بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں سے ممتاز بنادیتا ہے بلوچستان کی دیگر تمام جماعتیں جیسی بھی ہیں اُن میں سیاسی تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہے ۔نئے دور میں اس کی روایت شہید واجہ ( غلام محمد ) نے مضبوط کی کہ سیاست میں کوئی مقدس گائے نہیں اگر کسی کو تنقید برداشت نہیں تو گھر بیٹھ جائے ، لیڈری چھوڑ کر سردار ی کر ئے۔ آپ کے تنقیدی بیانات اور تقاریر سے پہلے سردار صاحبان کے آپسی نوک جھونک ہوا کرتے تھے لیکن کسی عام سیاسی رہنماء کو جس کی کوئی قبائلی حیثیت نہیں ہوتی تھی ایک سردار سے سیاسی اختلاف کی جرأت نہیں ہوتی ۔بی ایس او کے زمانے میں سیاسی اختلاف اکثر پرتشدد شکل اختیار کرتے تھے لیکن شہید واجہ نے سیاسی کارکنان کو راستہ دکھایا کہ سیاست اصل میں لڑائی جھگڑے کا نہیں بلکہ دوسروں کی سیاسی پالیسیوں پر اختلاف کی صورت ان پرسیاسی بیانات کے ذریعےکھلم کھلا تنقید کا نام ہے اور آپ خود بھی کسی کی تنقید پر کبھی برا نہیں مناتے تھے بلکہ ہمیشہ مسکرا کر اس کاجواب دیتے تھے ۔
بی این پی والوں کو آج بھی یہ سمجھانا مشکل لگتا ہے کہ تنقید اُن پر کی جاتی ہے جن سے توقعات ہوتے ہیں ۔جس طرح ہماری توقع ہے کہ بی این پی یک طرفہ غم وغصے کا شکار ہوکر اپنی قوت اور توانائی کو ہوامیں مکے مار کر ضائع کرنے کی بجائے جس طرح کہ اس کے دعوے ہیں اتنی ہی سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کھلے دل ودماغ کے ساتھ بی این ایف کی تنقید کو سنے گی اور بی ایس او(آزاد ) جیسی نوجوانوں کی جماعت سے زیادہ خود کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے عملی میدان میں اس کو ثابت کرئے گی ۔اس کے اتحاد کی اخباری باتیں محض اس کی’’ نیک نیت‘‘کو مطمئن کر نے لے لیے نہیں بلکہ اس کے لیے بلوچ آزادی پسند رہنماؤں سے باضابطہ رابطے بھی استوار کرئے گی ۔بی این پی اگر ماضی کی کسی بات کو جواز بناکر خود کو ہمیشہ کی طرح ’’گنگا نہائی ‘‘سمجھتی رہے گی تو ہم بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے بی این پی ایک سیاسی جماعت ہونے کے باوجود فرسودہ قبائلی روایات کی اسیر ہے ۔سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں ایک مرتبہ کی ناکامی ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی مخالفانہ بات انہیں اپنے منزل سے بھٹکا سکتی ہے البتہ ہر تنقید کو یکسر رد کرنے کی روش کسی بھی جماعت یا گروہ کے لیے سود مند نہیں ہوتی ۔
اختر جان کے بیان میں پتے کی با ت یہ ہے کہ:’’بلوچستان کا مسئلہ قبائلی نہیں اور بلوچ قوم کوئی قبیلہ ہے کہ اس کو جرگہ یا میڑ ھ کے ذریعے حل کیا جائے یہ قومی مسئلہ ہے ہماری وزیرا علیٰ رئیسانی سے کوئی ناراضگی نہیں اگر وہ خود فریق بننا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے اور پھر ناراضگی اپنوں سے ہوتی ہے دشمن سے صرف جنگ ہوتی ہے ۔پنجاب ، فوج اسٹبلشمنٹ اور اس ملک ( پاکستا ن ) کی بالادست قوتیں بلوچ قوم اور بلوچستان کی دشمن ہیں ان کے ساتھ اب دوستی ہوسکتی ہے اور نہ نواب رئیسانی بلوچ قیادت کومذاکرات کی دعوت دینے کی زحمت نہ کریں تو بہتر ہے ۔‘‘اس بیان میں بی این ایف اور بابامری کے موقف میں تضاد تلاش کرنامشکل ہے مگر محض ایک بیان سے بی این پی اور بی این ایف کے موقف کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتاالبتہ یہ بیان ایسا بھی نہیں کہ اس میں بی این پی کے حامی بلاوجہ کیڑے نکال کر بی این پی کو کٹی رہنے کا مزید موقع دیں ۔
***
07/08/2011
07/08/2011
apko punjabi k baray ma aysa nai kehna chaya ma aik saraiki hn aur multan mera city ha puray pakistan ma yehe haal hai bus allah se dua krein k pakisatn ko salamat rakh.amin
very gud article Sir Qazi Dad. Inshllah B.N.P join BNF very soon
Welsaid Waja Qazi Dad Mohammad. I agree with you.