افریقہ میں کالونیل دور کے آغاز سے ہی مختلف طاقتوں میں اکھاڑ پچھاڑ اور رسہ کشی کا آغاز ہوا جس کاذکر تاریخ کی کتابوں میں افریقہ کے لیے کش مکش کے طور پر کیاجاتاہے اسی کشمکش نے صرف سوڈان جیسے ممالک میں لسانی اورمذہبی تقسیم کی بنیادیں مضبوط نہیں کیں بلکہ پورے افریقہ کے تقسیم در تقسیم کی را ہ ہموار کی۔ریاستوں میں سماجی نا انصافیاں عموماً اختلافات ، تضادات اور بلآ خرتقسیم کا سبب بنتے ہیں، افریقہ میں یہ عوامل بیرونی مداخلت کے نتیجے میں بتدریج پید اہوئے۔

مصر میں حکمران، سلطنت عثمانیہ کے والی(جن کے لیے پہلی بار’’ خدیو‘‘ کا مخصوص لقب استعمال کیا گیا ، مراد مصر کی حکومت کو اندرونی خود مختاری حاصل تھی) محمد علی پاشانے1820کوشمالی سوڈان پر حملہ کر کے اس کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔اس نے اپنے تیسرے بیٹے اسماعیل بن محمد کو سوڈان کی فتح کی ذمہ داری سونپی اسی حکمران کے دور میں سوڈان کو ایک علیحدہ ریاستی بندوبست کے طور پر شناخت ملی۔ لیکن جنوبی سوڈان کے وزراء کے پہلے خود مختار کونسل نے اسے غلامی کے دورکا آغاز قرار دیا ہے ( جنوبی سوڈان پرسوڈانی حکومت اور جنگجوؤں کے درمیان 2005کے جنگی بندی معاہدے کے نتیجے میں جنوبی سوڈان پر پیپل لبریشن موومنٹ کی خود مختارحکومت قائم ہوئی ، مذکورہ قراردادجنوری میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد اور آزادی سے پہلے کی ہے )سوڈان ٹریبیون کے رپورٹ کے مطابق 30اپریل 2011کو جنوبی سوڈان کے موجودہ دارالحکومت جوبا میں ہونے والے کونسل آف منسٹرز کے اجلاس میں جنوبی سوڈان کی آزادی کی تحریک کو سرکاری طور پر دوصدیوں پر مشتمل قرار دیا گیا۔اخباری رپورٹ کے مطابق جنوبی سوڈان کے صدر سلواکیر میرادت کی زیر صدارت اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا’’1820-2011تک وہ مدت ہے جس میں خطے نے غلامی اور نوآبادکار ی کے خلاف پرانے نوآبادکار حاکموں سے جنگ کی اسی طرح خرطوم کے نئے مقامی جابر رجیم کی ا جارہ داری اور استحصال کے خلاف بھی۔‘‘قرار داد میں1820-1956کے دور کو سوڈان میں قبل ازآزادی کا دورقرار دیتے ہوئے کہا گیا :’’ خطے کی مزاحمت کے نتیجے میں جنوبی سوڈان میں ترکی اور برطانیہ کے بردہ فروش ( غلاموں کی تجارت کرنے والے )اور نوآبادکاروں کے حملے پسپاہوئے۔جس کی پیروی کرتے ہوئے1955-2011تک انقلابیوں کی بڑی تعداد نے مسلسل عربوں کے زیر اثر رہنے والی خرطوم حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہدکی۔‘‘

1820-1956دراصل وہ عرصہ ہے جس میں مقامی قبائل نوآبادکاری کے خلاف بر سر پیکار رہے ،1925تک یہ شمالی اور جنوبی سوڈان کی ایک مشترکہ جدوجہد تھی مگر 1925وہ سال ہے جس میں سوڈان کی تقسیم یا جنوبی سوڈان کی آزادی کی بنیاد رکھی گئی ۔1899میں برطانیہ نے دریا نیل پر قبضے کے لیے فرانسس اور بلجم کی پیش قدمی روکنے کے لیے مصر کے ساتھ سوڈان پر مشترکہ حکومت کے قیام کے لیے ایک معاہدہ کر لیاجس پر عمل کرتے ہوئے دونوں کی فوج نے مل کر سوڈان پر حملہ کر کے خلیفہ عبداللہ کی حکومت ختم کر لی۔معاہدے کے تحت مصر کوبرطانیہ کی رضامندی سے ایک گورنر جنرل کے ذریعے سوڈان پر مشترکہ حکومت کرنے کااختیار دیا گیا ۔لیکن 1925میں سوڈان پر اپنی گرفت کمزور دیکھ برطانیہ نے جنوبی سوڈان کو براہ راست اپنے زیر انتظام لے کر شمالی سوڈان سے انتظامی حوالے سے اس قدر الگ تھلگ کر لیا کہ شمالی سوڈان اور جنوبی سوڈان کی سر حدیں دو ممالک کی سرحدوں سے بھی زیادہ مستحکم ہوگئیں ایسا دونوں حصوں کے درمیان راہداری کے بغیر آمدورفت پر پابندی لگاکر کیاگیا۔شمالی سوڈان جہاں پر مصر کے مسلمانوں کی حکومت تھی وہاں اسلام کو پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع میسر آئے اور جنوبی سوڈان میں عیسائی مشینریوں نے عیسایت کی تبلیغ کی جب کہ سوڈان کا روایتی مذہب ارواح پرستی کہلاتاہے۔ بعض اعداد وشمار جنوبی سوڈان میں عیسائی اکثریت کے دعوے کوجھٹلاتے ہیں۔امریکن کانگریس لائبریری کے وفاقی تحقیقاتی ڈویژن کے مطابق ’’1990کے آغازمیں جنوبی سوڈان کی محض د س فیصد آبادی عیسائی تھی۔‘‘

لیکن اس سچائی کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ اس تقسیم کرؤ اور حکومت کرؤ کی پالیسی نے دومختلف مزاج کے سوڈان کو جنم دینے میں نمایاں کردار اداکیا۔جس طرح جنوبی سوڈان کی آزادی کی تحریک چلانے والی تنظیم سوڈان پیپل لبریشن مومنٹ کے منظورکردہ قرار داد میں اسی نکتے کو بنیاد بنایا گیاہے کہ ’’خرطوم حکومت عربوں کے زیر اثر ہے‘‘ دوسرے لفظوں میں وہ یہ دعو ی کررہے ہیں کہ’’ اُن کی تحریک کی بنیادافریقن نیشنل ازم پر تھی۔‘‘ ہونا تویہ چاہئے تھا اس نظریے کی بنیاد پر وہ پورے سوڈان میں انقلاب کی بات کرتے لیکن اکتیس سالہ تقسیم نے جنوبی سوڈان کی علیحدہ شناخت کو اس قدر مضبوط کر لیا کہ اُن کی افریقن قوم دوستی بھی جنوبی سوڈان کے سرحدوں تک محدودہوکر رہ گئی۔شاید اس کی وجہ مذہبی تفریق بھی ہو لیکن یہ نظریہ اس کی آزادی کی بنیاد نہیں بن سکتانہ ہی جنوبی سوڈان لسانی وحدت ہے ۔جنوبی سوڈان میں بھی شمالی سوڈان کی طرح رابطے کی زبان مقامی لہجے کی عر بی ہے اس کے علاوہ 200کے لگ بھگ مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ بولی جانے والی مقامی زبان ڈنکا ہے جو کہ موجودہ صد سلواکیرمیرادت اور سوڈان پیپل لبریشن آرمی کے بانی ڈاکٹر جان گرانک کے ڈنکاقبیلے کی زبان ہے ، ڈنکا بولی بولنے والوں کی تعداد 2-3ملین بتائی جاتی ہے ۔جنوبی سوڈان پراسی قبیلے کی بالادستی ہے اور جنوبی سوڈان میں عیسائی اکثریت کے دعوے کی بنیاد بھی یہی قبیلہ ہے جس کے زیادہ تر افراد عیسائی مذہب اختیار کر چکے ہیں یا اس سے متاثرہیں۔لیکن مذہبی تفریق کو ریاست کا جواز بناکر جنوبی سوڈان مستقبل میں کئی سماجی مسائل کا شکار ہوسکتا ہے ۔خود جنوبی سوڈان کے صدر سلواکیر ایک رومن کیتھولک عیسائی ہیں لیکن ان کی چوتھی بیوی سے ایک بیٹے نے محض اپنے ملک کے آزادی سے ایک دن قبل اعلانیہ طور پر اسلام قبول کرکے اپنا نام جان سے محمد رکھ لیا۔ ان کے اسلام قبول کرنے
کی تقریب شمالی سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے مرکزی مسجد میں عین اسی وقت انجام دی گئی جب جوبا میں ان کے اہل خانہ آزادی کی تقریبات کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔شاید محمد ( سابق جان )نے اپنے اس عمل سے دنیا او ر اپنے والد کویہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریاست کی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔

یہی کوشش اور آمرانہ روش کی وجہ سے جنوبی سوڈان میں جداگانہ ثقافت سے وابستگی کا احساس پختہ ہوا۔1954میں جنگ عظیم دوم کے بعد مصر اور برطانیہ نے سوڈان کی آزادی کے معاہدے پر دستخط کیے ۔ اسی معاہدے میں سوڈان کی آزادی کی ضمانت دی گئی مگر جنوبی سوڈان کے ان قوتوں کو اعتماد میں لینا گوارا نہیں کیا جو شمالی سوڈان کی سیاسی بالادستی سے خائف تھے۔ انتخابات کے نتیجے میں اسماعیل الازہری سوڈان کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔یکم جنوری 1956کو رسمی طور پرسوڈان میں برطانوی اور مصری جھنڈے اُتار کر سوڈان کا قومی جھنڈا لہرا کر مکمل آزادی کا اعلان کیا گیا۔جب کہ اس سے ایک سال قبل سوڈان کی آزادی کے عبوری دور میں شمالی اور جنوبی علاقوں کے درمیان پہلی خانہ جنگی شروع ہوچکی تھی اس خانہ جنگی میں جنوبی سوڈان کے جنگجو ؤں نے انانیانیا( سانپ کی طرح ) جنگ کا گوریلا طرز اپنا یاجس کی وجہ سے اس خانہ جنگی کا نام بھی ’’انانیانیا‘‘ مشہور ہوگیا۔ انانیانیا گوریلا پہلے مرحلے میں جنوبی حصے کی مزید خود مختاری اورمرکزی اقتدار میں شرکت کا مطالبہ کرتے رہے لیکن آخرمیں یہ جنوبی سوڈان کی تحریک آزاد ی میں تبدیل ہوگئی۔1955-1972تک سترہ سال کی اس طویل خانہ جنگی کے نتیجے میں پانچ لاکھ افراد قتل اور لاکھوں بے گھر ہوئے ۔ خانہ جنگی باغیوں اور سوڈانی حکومت کے درمیان ’’عدیس بابا کے معاہدہ ‘‘ کے نتیجے میں رک گئی جسے آئینی تحفظ فراہم کرنے کے لیے سوڈانی آئین کا بھی حصہ بنایا گیا ۔اسی معاہدے کے تحت جنوبی سوڈان کوخود مختاری حاصل ہوئی ۔معاہدے تک بغاوت اس قدر پھیل چکی تھی کہ خرطوم حکومت کا کنٹرول محض شہری علاقوں پر رہ گیاتھا ۔

جنوبی سوڈان کی تحریک آزادی سوڈان کے لیے واحد مسئلہ نہیں تھا ، سوڈان اپنے حکمرانوں کے پیدا کردہ دیگر مسائل میں بھی بری طرح گرا ہواتھا۔سوڈان کی آزادی کے دوسال بعد فوج نے اسماعیل الازہری کا تختہ اُلٹ دیا ۔اس فوجی بغاوت کا اہم کردار جنر ل جعفرالنمری تھا ۔ جنہوں نے سوڈان ملٹری کالج کے علاو ہ یونائیٹڈ اسٹیٹ آرمی کمانڈ کالج سے بھی عسکری تعلیم حاصل کی ۔ موصوف مصر کے حکمران جمال عبدالناصر کے فری آفیسرز موومنٹ (حرکت الضباط الاحرار)سے کافی متاثر تھے جنہوں نے اسی سال (1959)مصر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ۔اسی مثال پر عمل کرتے ہوئے جنرل نمری نے بھی چار فوجی افسروں کو ہم خیال بنا کر منتخب وزیر اعظم کوچلتا کیااور خود وزیر اعظم اور انقلابی کماند کونسل کے چیئر مین بن گئے ۔انہوں نے اپنا ساکھ بنانے کے لیے خود کو ایک پان عربک قوم دوست( عرب ممالک کو متحد کرنے کی نظریات رکھنے والے ) اور اشتراکی کے طور پر پیش کیا ۔ انہوں نے اپنے کئی اقدام کے نتیجے میں خطے میں ایک مقام بھی بنالیا لیکن لیکن اپنے توسیع پسند خیالات کی وجہ سے سوڈان کے اردگرد اس کے لیے کافی سارے دشمن بھی پیدا کرلیے۔ 1981میں نمری نے وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر صدارت کا عہدہ سنبھال لیااپنے صدارتی مدت میں ماضی کے برعکس انہوں نے خود کو اسلامی نظریات کے امین حکمران کے طور پر پیش کرتے ہوئے اسلامی بھائی چارہ کا نعرہ بلند کیا۔وزیرا عظم نمری نے جنوبی سوڈان کے باغیوں سے عدیس بابا کا معاہدہ کر کے گیارہ سال طویل خانہ جنگی کا خاتمہ کر کے سوڈان کو ایک متحدہ ریاست کے طور پر برقرار رکھنے کی اُمید پیدا کی جب کہ صدر نمری نے اسلامی شریعت کے نفاذ کے نام پر باغیوں کو پھر سے بندوق اُٹھانے پر مجبور کردیا۔

اس مرتبہ جنوبی سوڈان کے باغیوں کی قیادت ایک پڑھے لکھے نسل نے اپنے ہاتھوں میں لی ۔جنوبی سوڈان کے طاقتورڈنکا قبیلے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جان گرینگ اُن باغیوں میں شامل تھے جو عدیس بابا کے معاہدے کے بعد سوڈانی فوج کا حصہ بنا دیے گئے تھے ۔انہوں نے جنگ انانیانیا میں بھی حصہ لیا تھا، کم عمر ہونے کی وجہ سے باغی قیادت نے اُن پر دباؤ ڈالا کے وہ اپنا جنگ میں حصہ لینے کی بجائے اپنی تعلیم مکمل کر ئے ۔اسی دباؤ کے نتیجے میں انہوں نے ابتدائی تعلیم تنزانیہ میں حاصل کی، دوران تعلیم ایک اسکالر شپ جیتنے کی وجہ سے انہیں امریکہ کے گرینل کالج میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملاجہاں اسے کتابیں پڑھنے کی شوق کی وجہ سے بکش (کتابی کیڑا) کے نام سے جانا جاتاتھا ۔عدیس باباکے معاہدے کے معاہدے کے نتیجے میں سوڈانی فوج میں شامل ہونے کے بعد جان گرینک ایک پیشہ ورفوجی کی طرح کپٹن کے عہدے سے ترقی کرتے ہوئے کرنل بن گئے ۔وہ ایک پیشہ ور فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ ایگریکلرچل اکنامک میں پی ایچ ڈی بھی تھے ۔وہ بغاوت سے پہلے سوڈانی فوج کے ہیڈکوارٹر میں کیڈرز کی تربیت پر مامور تھے۔ جب 1983میں سوڈانی صدر جعفر نمری نے اپنے قوانین کے ذریعے جنوبی سوڈان کے ثقافت کو متاثر کر نے کی کوشش کی تو ڈاکٹر جان گرینک نے اسے عدیس بابامعاہدے کی خلاف ورزی قرار دے کر علم بغاوت بلندکر کے جنوبی سوڈان سے تعلق رکھنے والے دیگر فوجیوں کے ساتھ جنگلوں کا رخ کیا ۔

انہوں نے سوڈان پیپلز لیبریشن آرمی کے نام سے جنوبی سوڈان میں ایک منظم تحریک کا آغاز کیا۔ڈاکٹر گرینک نے بکھری ہوئی آبادی اور توہمات کے شکار جنوبی سوڈان کے قبائلیوں کو جلد ہی اس قابل بنا دیا کہ انہوں نے سوڈانی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کردیا۔ان کے پے درپے حملوں اور شمالی سوڈان کے اندرونی حالات کے نتیجے میں تیل پیدا کر نے والے ملک سوڈان کی معاشی حالات پتلی ہوگئی ۔1996میں صدر منتخب ہونے والے عمر البشیر کے لیے جنوبی سوڈان کے باغیوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چار ہ نہ رہا۔سوڈان کے لیے جنوبی سوڈان ایک ایسابلا بن گیا تھا جس سے چھٹکارہ پانے میں ہی اس نے عافیت جانا۔ 2005 میں امریکہ اور برطانیہ کی ثالثی میں خرطوم او ر جنوبی سوڈان کی سوڈان پیپل لیبریشن آرمی کے درمیان جنگ بند ی ہوئی اس جنگ بندی کے نتیجے میں سوڈانی فوج نے جنوبی سوڈان کو مکمل طور پرسوڈان پیپل لبریشن آرمی کے حوالے کر دیا اورجنوبی سوڈان میں پیپل لبریشن مومونٹ کی حکومت قائم ہوگئی ۔ اسی معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ جنوری2011تک جنوبی سوڈان میں آزادی اور سوڈان کے ساتھ رہنے کے سوال پر ریفرنڈم ہوگا ۔معاہدے کے تحت جنوری 2011 تک جنوبی سوڈان کے تیل کے وسائل سوڈان حکومت کے زیر انتظام رہے ۔لیکن اس حکومت میں سوڈان پیپل لبریشن موومنٹ کی بھی موثر نمائندگی تھی اور اپنے حادثاتی موت (جولائی 2005) تک ڈاکٹر گرینگ سوڈان کے نائب صدر کے عہدے پر تھے ۔اس عرصے میں اس کے سوڈان پیپل آرمی موومنٹ نے بین الاقوامی برادری کے تعاون سے جنوبی سوڈان کو آزادی کے قابل ملک بنانے کے لیے کافی کام کیا ۔2005کے معاہدے سے لے کر (9جولائی 2011) تک جنوبی سوڈان کی آزادی کے درمیان محض ایک رسمی ریفرنڈم کا فاصلہ تھا ۔جنوری 2011 کے ریفرنڈم میں جنوبی سوڈان کے 99فیصد لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا یوں ایک سو اکانوے سال کی کھٹن جدوجہد اور 20لاکھ لوگوں کی قربانی دینے کے بعد جنوبی سوڈان ایک آزاد ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا ۔

***
20-07-2011
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.