پاکستانی فوج نے اپنی رعونت سے بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو جنگ کی طرف دھکیل دیا . نیشنل پارٹی، بی این پی(مینگل- عوامی)،  نام نہاد مذہبی جماعتوں،  کرایے کے بلوچ بیوروکریسی ، جراہم پیشہ گروہ اور سرداروں نے اپنے اپنے وقتی مفادات
کے لیے شاہی مہرے کا کردار ادا کیا.انہوں نےکنٹریکٹوکریسی (ٹھیکہ دارانہ سیاست) کو سکہ رائج الوقت جان کر سیاسی بساط کو لپیٹ کر ٹھیکہ داروں کی جماعتیں کھڑی کی.

پاکستانی فوج نے باچھیں پھیلا دیں اور اس نے اس منصوبے کو آگے بڑھایا جس کا مقصد بلوچستان کو اپنی شناخت سے محروم کرنا ہے.طے کیا گیا کہ بلوچ نیشنل ازم کو اکسا کر نیست و نابود کیا جائے گا بعدازیں  سیاسی قیادت سے محروم بلوچستان کو ایک نئی سماجی اور سیاسی شکل دی جائے گی.

لیکن یہ سب ہڑبونگ اور بدنیتی کی بنیاد پر شروع کیا گیا.وسائل پر قبضہ اور استحصال کی ٹھوس نیت سے بنے ہوئے اس منصوبے پر عملدرامد کے لیے پاکستان کی اپنی ساخت اور داخلی حالات سازگار نہیں تھے. پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کو بلوچوں کو دبا کر رکھنے کے لیے پشتونوں کی حمایت اور افرادی قوت کی ضرورت تھی، بدلے میں انہیں بھی شراکتدار رکھنا ضروری ہوگیا.اب یہی شراکتداری ایک نئی کشمکش کی بنیاد بننے والی ہے.پشتون بلوچوں سے خالی کرائی گئی جگہ کو پُر کرنا چاہئیں گے،  ایسا ہونے کی صورت پنجابی کو داخلی طور پر بدنامی کے سواء اس جنگ سے کچھ نہیں ملے گا ، اس لیے وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گا. غرض پنجاب شاہی کی نوآبادیاتی پالیسیوں نے اسے مسائل کی بھول بھلیوں میں اُلجھا دیا ہے جہاں اسے ہر جگہ تشدد ہی مسائل کا حل نظر آتا ہے.  بلوچستان سے سیکھنے کی بجائے سندھ میں مہاجروں اور سندھی قوم دوستوں کے ساتھ بھی وہی کیا جارہا ہے جو بلوچوں کے ساتھ کیا گیا. دراصل تشدد عسکری اداروں کی نفسیات کو بھی تباہ کردیتا ہے اسی طرح بلوچستان کے سیاسی قیدیوں کے ساتھ بہیمانہ تشدد  پاکستانی فوج کی نفسیاتی تباہی کا باعث ہوا. یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کے نامور صحافی حامدمیر اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خاتون شہید سبین محمود کے ساتھ بھی وہی کیا جو انہوں نے بلوچ پروفیسر شہیدصبادشتیاری کے ساتھ کیا تھا.

آپ پڑھتے ہوئے شاید سوچ رہے ہوں کہ میں کوئی سازشی نظریہ بیان کررہا ہوں، یا حالات پر روایتی تجزیہ کرتے ہوئے ماضی کے واقعات سے از خود اخذ کررہا ہوں ، جی نہیں یہ پاکستانی ٹارچر سیلز اور پاکستانی فوج کے منصوبہ سازوں سے مکالمے کی بنیاد پر ان کی ذہنیت کا عکس ہے ، جو اب طشت ازبام  ہوچکا ہے.

اکبرخان بگٹی کو شہید کیا گیا حالانکہ اس نے بلوچستان کی علیحدگی کی بات نہیں کی تھی .بگٹی ڈوزیئر میں بلوچستان کے وسائل اور جاری میگا پروجیکٹس میں بلوچ حقوق کی ضمانت طلب کی گئی تھی جسے شان بے نیازی سے مسترد کردیا گیا. شہیداکبرخان کو قتل کرنے کے لیے بلااشتعال جارحانہ اور برائے راست ٹارگٹڈ حملے کیے گئے اور پوری ریاستی طاقت اُن کو نابود کرنے میں لگادی گئی.ایک بوڑھے سردار جو اپنے پیروں سے چل بھی نہیں سکتے تھے،  نہ ہی بغیر سہارے کے اُن میں بیٹھنے کی سکت تھی ، جن کی ریاستی وفاداری بھی بے داغ اور پشتینی تھی، جبراً ڈیرہ بیۆرگ (ڈیرہ بگٹی) سے بے دخل کیے گئے محض اس لیے کہ پاکستانی فوج بلوچ قبائلی شورش کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتی تھی.

اخترمینگل کے ساتھ بھی بے رحمانہ سلوک کرکے اسے بری طرح بے عزت کیا گیا، جو اسی منصوبے کا تسلسل تھا. یہ واضح پیغامات تھے کہ اب پاکستانی فوج بلوچستان کی شناخت مٹائے بغیر دم لینے والی نہیں. وہ اپنے راستے میں سر اُٹھانے والی ہر سیاسی اور غیرسیاسی قوت کو پوری شدت سے مٹانے کا عزم لے کر آگے بڑھی اور انتہائی حدود کو بھی پھلانگ گئی. ہمیشہ مذاکرت اور گفت و شنید کے راستوں کو جان بوجھ کر مسدود کیا گیا حتی کہ ایک طرف سرینڈر کروانے کا ڈرامہ رچایا گیا  اور دوسری طرف براھمدگ بگٹی کی طرف سے مذاکرات کے لیے حامی بھرنے کے باوجود ان سے بات کرنے سے انکار کردیا گیا .فوج اس غلط فہمی میں ہے کہ بلوچ سرمچار کمزور ہورہے ہیں تو مزید طاقت کا استعمال کرکے انہیں ختم کیا جاسکتا ہے.

پاکستان کی فوج سمجھتی ہے کہ بلوچستان کا استحصال اور بلوچوں کا قتل عام اس کے لیے ضروری اور اس کا ردعمل قابل برداشت ہے.لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں اپنی پیچیدہ اور غیرپیشہ ورانہ تنظیم کی وجہ سے پاکستانی فوج اس صلاحیت سے عاری تھی.پاکستانی فوج نے ہمیشہ نام نہاد نظریات کے سہارے سیاسی معاملات کو سلجھانے یا زمام اختیار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی. بلوچستان کے پاس وسائل اور زمین کے علاوہ باقی پاکستانی بندوبست کی نسبت سخت گیر اور منظم  قوم پرستانہ سیاسی شعور تھا، جو  بیک وقت پاکستان کے جغرافیائی اور نام نہاد نظریاتی سرحدوں کو چینلج کرتا رہتا تھا،  جسے مزید برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کرکے مکمل صفایا کرنے کی ٹھان لی گئی.

لیکن جیسے ہی جنگ کا آغاز  ہوا،  پاکستان اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے پسماندگی کی طرف چلتا گیا، اب نا جائے ماندن نا پائے رفتن.

پاکستانی فوج اپنی داخلی پالیسیوں کی وجہ سے خارجی معاملات میں بیحد کمزور ہوگئی ہے  . وہی پاکستان جو پہلے چین کی پُشت پناہی سے اپنے سے بڑی طاقت ہندوستان کو آنکھیں دکھاتا تھا اب اپنے سے نسبتا کمزور ہمسایوں سے بھی روزانہ کی بنیاد پر مار کھا رہا ہے.

وہی پاکستان جو افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانا چاہتا تھا،  افغانستان سے معاملات سلجھانے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہے.

ایرانی سپاہ کو جب بھی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستانی بندوبستی حدود میں گھس کر اپنے اہداف پر حملے کرتی ہے. تمام " ایران پاکستان سرحدی راہداریوں " پر  پاکستانی فورسز سے اچھوت جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور وہ یہ سب برداشت کرلیتے ہیں.

خطے میں اس رسوائی اور بین الاقوامی تنہائی کا سبب خارجی سے زیادہ داخلی ہیں.پاکستان کے ہمسائے اور دشمن بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان اب ان سے برابری کی حیثیت کھوچکا ہے. وہ فوج جو اپنے بندوبستی حدود میں لڑاکا طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ میں مصروف ہو وہ کسے دوسرے ملک سے دفاعی نوعیت کے تنازعات نمٹانے کا اہل نہیں ہوسکتی.

اب بھی شاید پاکستانی فوج میں کسی کو یہ اندازہ نہ ہو کہ انہوں نے بلوچوں سے اُلجھ کر کیا کچھ گنوا دیا سب سے بڑھ کر پاکستان نے وہ مواقع گنوادیئے ہیں جن میں وہ بلوچوں سے پرامن بات چیت کرسکتا تھا.ماضی میں جس گریٹ گیم کا ذکر کیا جاتا رہا ہے اب اس کے آثار نظر آرہے ہیں اور تمام تر دعوؤں کے برعکس یہ بین الاقوامی سے زیادہ مقامی کھلاڑیوں کے درمیان کھیل ہے  بالآخر  پاکستان اپنی ہی پالیسیوں اور ہٹ دھرمیوں کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے،  اس کا بچنا بھی اب اپنے اُن ہمسایوں کے مرہون منت ہے جن کو وہ ہمیشہ زک پہنچاتا رہا ہے.

1 Response

Post a Comment

Powered by Blogger.