تاریخ کے اوراق پلٹے ہیں ۔ یہ 1980ہے ۔ سرپر سفید لٹ دار بلوچی پگڑی ، چہرے پر پیچدار داڑھی ،آنکھوں پر دودھیا چشمہ اور ہاتھ میں تمباکو پائپ لیے یہ بزرگ شخصیت شیرمحمدمری ہیں۔لیجنڈری بلوچ گوریلاکمانڈرجنہیں جنرل شیروف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ محض گوریلا کمانڈر کہنے سے آپ کا تعارف مکمل نہیں ہوتا، آپ بلوچی زبان کے پہلے افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں ۔آپ کسی نامعلوم مقام پر ، رات کے وقت مصنوعی روشنی میں بیٹھ کر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویودے رہے ہیں۔

شیروف :’’ بلوچ آج بھی کہتا ہے کہ میرے حقوق دو ،قومی حقوق ۔اگرنہیں پھر تو تاریخ اپنی راہ بنائے گی
۔ بلوچ نے یہ کہہ دیا کہ اب ہم مزید غلام نہیں رہئیں گے ، غلامی کی زندگی نہیں گزاریں گے ۔اور انگریز کے آنے کے وقت جب انگریزآیا تو اس نے بلوچستان میں اسپیشلی بلوچوں کو سیکنڈ ڈیفنس لائن بنایا، رت زارکے خلاف ۔فرسٹ افغانستان بفراسٹیٹ ،سیکنڈ بلوچ۔توا س نے بلوچون کولوٹا موٹا نہیں ۔

انگریزوں کے معاہدے کے تحت جب پاکستان بنا کلات کو آزادی ملی ، خان کلات احمدیار خان نے دو ہاؤسز بنائے ہاؤس آف عوام ، دارالامرا ،وہی انگریز کے طرز کے،ہاؤس آف کامنز ہے ،ہاؤس آف لارڈ ز ہے ۔جناح صاحب سبی تشریف لائے کہ کلات کو پاکستان میں شامل کرؤ۔بلوچوں نے اچھاخاصا ریزسٹ کیا۔لیکن احمدیارصاحب رات کے بارہ بجے ڈھاڈر سے بھاگے کہ کہیں بلوچ مجھے ارسٹ کرکے کچھ اور گڑبڑ نہ کریں ۔تین بجے کلات پہنچے اور آدھی رات کو اس نے اعلان کردیا کہ بحیثیت رولرمیں نے اس (بلوچستان)کو شامل کردیا(پاکستان میں)۔

میں پہلا شخص تھا ان میں سے کہ میں پہاڑوں پر گیا ۔گوریلا بننے کے لیے جب ہم گئے میں نوبرس پہاڑوں پر رہا گوریلا کمانڈر کی حیثیت سے ۔ بھٹو صاحب کے دور میں آپ کو حیرانگی ہوگی ہماری بچیوں کو منڈیوں میں فروخت کیا گیا۔میں نے کئی بار پریس میں دیا ۔میں نے کہا کہ اگر سرکار نہیں مانتی تو میں نے قیمت دے کر ان لڑکیوں کو واپس لاکر والدین کو دیاہے ، میں ان کو پیش کرسکتا ہوں۔ہماری بچیاں بکی ہیں مال مویشیاں نہیں۔بہو بیٹیوں کی بے حرمتیاں صرف نہیں ہوئیں ،صرف ہمارے جوانوں کوشہید نہیں کیا بچیاں منڈیوں میں بکی ہیں ۔یہ مسلمان ہیں ہم مسلمانوں کے ملک میں رہتے ہیں۔ہم اس ملک کے شہری ہیں ۔

سوئی گیس بلوچستان میں نکلتی ہے ۔ساحل سمندر پاکستان کا بلوچوں کا ہے ۔یورینیم بلوچ علاقوں سے نکلتی ہے، مکوران اور ڈیرہ غازی خان سے ،بلوچ علاقے سے ۔سونا یہاں ہے ،گندھک یہاں ہے ،فلورائڈ یہاں ہے ،کرومائٹ یہاں ہے ،کوئلہ یہاں ہے ،جپسم یہاں ہے ،آئرن یہاں ہے ،سب کچھ دنیاکی جو ہوتی ہے زمین کے نیچے وہ بلوچوں کی سرزمین میں موجود ہے۔اگروہ نہیں صرف بلوچوں کی نہیں ہے ۔پورا پاکستان سوئی گیس سیجلتا تھا ،استعمال کرتے رہے، خود بلوچستان کو دوسال ہوئے ابھی ملی ہے (بلوچستان کے چند شہروں کو)۔وہ بھی بڑا احسان کرکے اور سوئی گیس کا جو انکم ہوتا ہے وہ بلوچستان کو نہیں دیا جاتا پھر ہمیں یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان بھوکا ہے ،بلوچستان کے پاس کچھ نہیں ہے،ہم دے رہے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ بھئی صرف سوئی گیس کا سالانہ انکم کیا ہے ؟و ہ ہمیں دے دو ہمیں تمہاراکچھ بھی نہیں چاہئے ۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے دولتمند صوبہ ہے صرف سوئی گیس کی وجہ سے باقی آپ چھوڑو جو معدنیات آپ لے جارہے ہو ۔

منتیں کیں ، واسطے دیئے ، جھولے پھیلائے ۔بھئی ہم ایک قوم ہیں برابری کی بنیاد پر ہمارے حقوق دو ، ہماری قومیت کوتسلیم کرؤ، ہماری تاریخ کو تسلیم کرؤ،ہمارے کلچر کو تسلیم کرؤ،ہماری زبان کو تسلیم کرؤ،ہم اپنی سرزمین کے خود مالک ہیں اسی ریشوکے حساب سے ہم سے لو،ریشو کے حساب سے ہم کو دو، کسی نے نہیں مانا۔سب لوگ اس میں کام کرنے والے باہر سے آتے ہیں۔بلوچوں کو مزدوری نہیں ملتی ۔مجھے سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ بلوچوں کو احساس ہوا میں غلام ہوں۔جب ایک قوم کو اپنی غلامی کا احسا س ہوتا پھروہ غلام نہیں رہتی ۔اب اس کو غلام کوئی نہیں رکھ سکتا۔ہم آج بھی کہہ رہے ہیں برابری کے حقوق دیں چار قومیں یہاں رہتی ہیں بلوچ ، پشتون ، سندھی پنجابی ۔پہلے قومی خودمختاری ،بلوچوں کا بلوچستان،سندھیوں کا سندھ ،پنجابیوں کا پنجاب صوبہ ، پشتونوں کا جوبھی نام پشتون رکھتے ہیں اپنے صوبے کا ۔مرکز میں مساوی نمائندگی ۔ہرصوبے کو ہر قوم کو اپنی فوج رکھنے کا اختیارہے تاکہ راتوں رات کوئی جنرل اُٹھ کے بوٹ پالش کرکے صبح اپنے ملک کو فتح نہ کرئے ،جیسے کئی بار ہوا ہے پھر میں دیکھوں کہ مارشل لا کیسے لگتا ہے ۔This is a force . ۔جب بھی یہاں کچھ ہوگا بلوچوں کے خلاف ظاہر ہے وہ انوالب (بلوچستان کی فوج)ہوگی۔ مشکل میں رہیگی(پاکستانی فوج) کیوں کہ اسی مقصد(بلوچ مفادات کے بر خلاف) کے لیے تو گئی ۔تو اب بلوچستان میں اس کے لیے کہ یہ خاموشی ہے یہ خاموشی نہیں ہے طوفان ہے ۔ سمندر میں جب خاموشی آتی ہے تو وہ ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔کسی بھی وقت دھماکا ہوگا۔‘‘

آج دوہزار سترہ کے آخری مہینے کا دوسرا عشرہ ہے۔جنرل شیروف نے جو کچھ کہابالخصوص آپ کے انٹریو کے آخری الفاظ کہ ’’کسی بھی وقت دھماکا ہوسکتا ہے ۔‘‘ ان الفاظ کی ادائیگی کے لگ بھگ بیس سال بعد سارا بلوچستان دھماکوں سے گونچ اُٹھا ۔ شیروف کی وفات کو بھی پانچ سال گزرچکے تھے۔ جنرل شیروف کے جو الفاظ یہاں من وعن پیش کیے گیے ہیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بلوچوں نے پنجاب شاہی کے ساتھ بناکر رکھنے کے لیے اپنی تہی تمام ترکوششیں کیں ۔تب بھی جب بلوچ خواتین کو اغواکرکے عرب ممالک کی منڈیوں میں بطور جنسی غلام فروخت کیا گیا بلوچوں نے فیڈریشن کے اندر رہنے کا فارمولا پیش کیا ، محض ایک چیز جو بلوچوں کو تب بھی نا منظور تھی وہ غلامی تھی ۔جس طرح واشگاف الفاظ میں جنرل شیروف فرماچکے ہیں’’ بلوچ غلامی کی زندگی نہیں گزارے گا۔ ‘‘

لیکن پنجاب شاہی اور اس کے فوجی جنرلوں کے سر میں بلوچستان فتح کرنے کا سودا اب بھی سمایا ہوا ہے ۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے بلوچستان کو روزانہ کی بنیاد پر آگ اور خون سے نہلایا جارہا ہے ۔پوری طاقت اس پر لگائی جارہی ہے کہ کس طرح بلوچوں کو پہاڑوں سے اُتار کر غلامی کا طوق پہنایا جائے ۔ ماضی میں جب پاکستان کے نام نہاد وژنری لیڈر بھٹوصاحب پاکستانی فوجکے سب سے بڑ ے بوٹ پالیشیے تھے بھی بلوچوں کے ساتھ پاکستانی پنجابی فوج کا یہی رویہ تھا جو آج ہے ۔ میں نے اپنی بات کہنے کے لیے جنرل شیروف کو اس لیے کوٹ کیا تاکہ یہ سمجھا سکو ں کہ ہمارے اُوپر ڈھائے جانے والے پاکستانی مظالم نئے نہیں ، یہ کسی جنرل کی خودسری نہیں بلکہ پاکستانی مقتدر اداروں کی مستقل پالیسی ہے جسے جنرل شیروف کے الفاظ میں ہزاروں منتیں اور جھولے پھیلانے کے باوجود پنجاب شاہی بدلنے کو تیار نہیں اور اس کی وجہ بھی وہی ہے جو آپ نے بیان فرمایا کہ بلوچوں کے پاس اپنی فوج نہیں اس کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر پنجاب شاہی اپنی فورس کو بلوچوں کے خلاف ایک تسلسل کے ساتھ استعمال کررہی ہے ۔اور گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پاکستان آرمی اسپانسرڈ ملاؤں کا جو دھرنا ہوا تھا اس میں یہ بات خودپاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ نے اپنی منہ سے کہی کہ وہ اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے ، کیوں کہ فوج پنجاب کی ، عوام بھی پنجاب کی اور مملکت پاکستان بھی پنجاب کی تو جیسا وہ چاہئیں پاکستان میں وہی قانون لاگوہوگااور بندوبست پاکستان کے دیگر غیر پنجابی علاقوں میں طاقت ہمیشہ پہلے آپشن کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے اور ہورہی ہے ۔ طاقت محدود اور ٹارگٹڈ آپریشن کے طور پر نہیں بلکہ بلاامتیاز لامحدود اور اجتماعی سزا کے طور پر۔ بلوچ خواتین ، نہتے بوڑھوں اور بچوں تک کونہیں بخشا جارہا اور بلوچستان یہ سب تب سے بھگت رہا ہے جب سے اسے بزور طاقت بلوچ عوام کی منشا کے برخلاف بندوبست پاکستان کا حصہ بنایا گیا ۔


اس بلاگ کی آڈیو سننے کے لیے ،  لنک پر کلک کریں ۔

0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.