جیرونیمو کون،دہشت گرد یا مزاحمت کار؟
قاضی داد محمد ریحان
اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کی جانے والی امریکن کارروائی میں استعمال کیے جانے والے اس کے کوڈ نام ”جیرونیمو“ کے صوتی تلفظ سے اندازہ تھاکہ یہ امریکن بومی(مقامی) کی زبان سے لیا گیالفظ ہے ،اُس قوم کی زبان کاجن کا کوئی نام نہیں ۔ان کے لیے ”ریڈ انڈین “کا غلط العام نام استعمال کرتے ہوئے مجھے ہمیشہ ہچکچاہٹ ہوتی ہے ۔میرے خیال میں کسی قوم کوایک مہم جو ( کولمبس ) کی غلط فہمی کے بناءپر اُن کی تاریخی شناخت سے محروم کرنا زیادتی ہے ۔امریکن آبادکاروں کے منہ سے لفظ ”جیرونیمو “کو سن کر تعجب کے ساتھ غلط فہمی بھی ہوئی کہ شاید امریکن اپنی بومی سے اپنا تعلق جوڑ کر اپنے پرکوں کے گنا ہوں کا کفارہ اداکرنا چاہتے ہیں جنہوں نے سونے جیسی زمین اور دولت کی خاطر ایک عظیم ، بہادر اور منفرد قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا کر اُن کی ہڈیوں پر اپنے محلات تعمیر کیے ۔ابھی میں اسی متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ سی این این پر خبر آگئی۔”امریکی قبائل نے اسامہ کا کوڈ نام جیرونیمو رکھنے پر اعتراض کیا ہے اور اسے قبائل کے لیے ہتک آمیز قرار دیا ہے ۔“اس خبر نے میری تمام غلط فہمیوں کو دور کردیا۔”اوکلا ہوما کے فورٹ سل اپاچی قبائل کے چیئرمین جیف ہاوزر نے امریکی صدر اوباما کو خط لکھا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اسامہ کو اپاچی قبیلے کے جنگجو رہنما جیرونیمو یا کسی اور قبائلی سے نسبت دینا ان قبائل اور تمام امریکن بومیوں کے لیے ہتک آمیز اور انتہائی دکھ کی بات ہے۔انھوں نے صدراوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر باضابطہ معافی مانگیں۔“
جیرونیمو کا پورٹریٹ by Edward S. Curtis, 1905
نیشنل کانگریس آف امریکن انڈینزکے صدر جیفرسن کیل نےبھی اعتراف کیاکہ:”ایک بومی جنگجو کو بن لادن سے تشبیہ دینا تاریخ کی درست عکاسی نہیں اور یہ بومی کے فوجی اہلکاروںکے لیے نقصان دہ ہے ۔یہ قابل تنقید ہے، فوجی قیادت اور آپریشن کے علامات اُن کے خدمات کا احترام کریں جنہوں نے ہماری آزادی کی حفاظت کی تھی۔“قبائلنے امریکنز کویہ بھی یاددہانی کرائی کہ اکسٹھ امریکن اور الاسکن بومی افراد فوجی خدمات کے دروان عراق اور افغانستان کی جنگ میں مارے جاچکے ہیں اور چارسو پینتالیس زخمی ہوچکے ہیں اور چوبیس ہزار امریکہ کے ریگولر آرمی میں ہیں ۔
شاید آئندہ چند گھنٹوں میں امریکن حکومت اپنی اس غلطی یا دانستہ استعمال کیے گئے لفظ پرمفافی مانگ لے یاحکومتی سطح پر مندرجہ بالا وضاحت کو دہرایا جائے ۔ فی الحقیقت ”جیرونیمو“اٹھارویںصدی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف اسامہ سے بڑے رکاوٹ تھے ۔اُن کے بارے میں پڑھتے ہوئے بے اختیار لیبیا کے عظیم رہنماءعمر مختار ،پر تگیز حملہ آﺅروںکے مقابلے میں جنوبی ایشیا ئ(ایران وہند)کا دفاع کرنے والے بلوچ جنگجو ھمل جیھند،برطانوی فاروڈ پالیسی میں رخنہ ڈالنے والے غلام حسین مسوری بگٹی اور بلوچ خان جنہیں بلوچ سردار وں اور انگریزوں کی مشترکہ آپریشن میں قتل کردیا گیااورپاکستانی استعماری اقدام کے خلاف اپنی محدود طاقت کے ساتھ ڈٹ جانے والے نوروزخان زرک زئی ، شھباز اکبرخان بگٹی اور بالاچ بھی اسی عظیم رہنماءکے فلسفے کے پیروکار معلوم ہوتے ہیں....................جیرونیمو دشمن کے ساتھ مقدور بھر مزاحمت کے حامی تھے، اس لیے آج ڈیڑھ صدی سے زائدکاعرصہ گزرنے کے باوجود بھی امریکہ کےلیے خوف اور دہشت کی علامت ہیں ۔
جیرونیمو 16جون 1829کو جنگلی حیات کے لیے دنیاکا مشہوترین علاقہ ایری زونامیںگیلا ندی کے ایک شاخ بیڈنکوہ کے کنارے پیدا ہوئے جوموجودہ زمانے میںامریکہ کی شمال مشرقی ریاست نیو میکسیکو کا حصہہے ۔اُن کےپیدائشی نام کا انگریزی زبان میں ممکنہ تلفظ
GoyathlayیاGoyahkla
ہے۔ جس کی چی ری کاہوا زبان میں معنی ”وہ اکیلا جس نے جمائی لی“
one who yawns
ہے۔ اُرود میں اس کا درست ترجمہ ”تنہا بیدار شخص “ہوسکتا ہے ، بلاشبہ وہ اسم بامسمی تھے ۔جیرونیموکا نام اُنہیں میکسین کے ساتھ ایک لڑائی میں پیش آنے والے حادثے کے بعد دیا گیا۔چی ری کاہوااَپاچی قبیلے کے اِس عظیم رہنماءنے امریکہ اور میکسیکو کے اپاچی زمین پر قبضے کے خلاف کئی عشروں تک مزاحمت کی جسے ”جنگ اپاچی “کہاجاتاہے ۔قبائلی اس علاقے کوسرزمین بیڈنکوہ کہتے ہیں ۔اُن کے دادا” ماکو “بیڈنکوہ اپاچی قبیلے کے سردار تھے ۔اُن کے تین بھائی اور چار بہنیں تھیں۔
اس جنگ میں انہوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ایک چاقو کی مدد سے میکسین فوجیوں پر پے درپے وار کیا ۔اس پھرتیلے جنگجو کے خون آشام چاقو کے زخم سے مکیسن فوجی بلبلااُتھے اور انہوں نے اپنے روحانی پیشواءسینٹ جیروم کوچیخ چیخ کرمددکے لیے پکارنا شروع کیا ”جیرونیمو!“۔یہ سن کر امریکن یہی سمجھے کہ حملہ آﺅر کا نام”جیرونیمو “تھا۔ بہادری ، جرات اور چالاکی میں مشہور ہونے کے بعد اپاچویوں کے دل میں گویادلے کے لیے ایک روحانی صلاحیتوں کے حامل جنگجو کے طور پر عزت پیداہوئی اور”جیرونیمو “کا نام جوکہ اُن کے دشمن کے لیے دہشت کی علامت تھی اُن کا خطاب بن گیا۔
سترویں صدی کے اواخر میںسونارا،ا ور چی ہواہوا پر اپاچوی حملوں سے میکسین کو یہ علاقے ہاتھ سے جاتے دکھائے دیئے ۔ہسپانوی نوآبادیوں کواپاچی حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے 1685میں جانوس اور 1690میںفرنٹیرازاور جنوبی اپاٹامیںپریزیڈو (ایک خاص طرز تعمیر کا قلعہ بند چھاﺅنی نما علاقہ) تعمیر کیے گئے۔1835میں میکسیکو نے اپاچی کے دہانے پر فوجی تعمیرات کیے ۔دوسال بعد مانگازکلراڈازدستوری طور پر سردار اور جنگی رہنماءبن گئے اور انہوں نے میکسین کے خلاف چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا۔اپاچویوں کے چھاپوں سے میکسینکا کوئی گاﺅں اور علاقہ محفوظ نہ رہا۔
جیرونیمو خود کو سردار کی بجائے جنگی رہنماءسمجھتے تھے ،اُن کا کہنا تھا کہ”وہ ہرگز سردار نہیں تھے ،وہ ایک جنگی رہنماءتھے ۔“چی ری کاہوا اَپاچویوں کے نزدیک اس کامطلب وہ بہت سے لوگوں میں سے روحانی صلاحیتوں کے حامل واحد شخص تھے جواُن کی صلاحیتوں کو ’کرشمہ “مانتے تھے ۔اُن میں قدموںکی نشان بنائے بغیر چلنے ، آج کل انتقال افکار
kelekinesis / telepathy
کہلانے والی صلاحیتاورگولیوں کی بوچھاڑ میں خود کو محفوظ کرنے کی صلاحیت تھی۔اُنہیں دومرتبہ بارود اور چھروں نے زخمی کیا لیکن اُن کی زندگی محفوظ رہی ۔اپنی آنکھوں سے ان کے کرشماتی خوبیوں کو دیکھنے کے بعد اپاچویوں نے رضاکارانہ طور پر اُن کی پیروی اختیار کی۔اس کی قیادت تسلیم کرنے کی بہت سے وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اپاچی اُنہیں ایک ایساشخص سمجھتے تھے جن کا مدگار یو زن (یوسن ) تھاجنہیں کہ اپاچی اپنا سب سے بڑے خدامانتے تھے ۔وہ اپنے ہاتھوں سے اپاچی رواج کے مطابق جنگجوﺅں کے چہروں پر روایتی ومقدس نقش بناتے تھے۔ اُن کے ساتھیوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح اُن کی روحانی صلاحیتیں جواُنہیں یوزن کی ودیت کردہتھیں اُن میں منتقل ہوتی تھیں ۔
انہوں نے میکسین کے زیر انتظام صوبوں اور امریکہ کے زیر انتظام ایریزونا ،نیو میکسیکواور مغربی ٹیکساس کے علاقوں پر لگاتا ر حملے کیے۔میکسین اور متحدہ ریاستوں، دونوں کے فوجوں کے ساتھ وہ اُلجھتے رہے ۔وہ چالاکی ، بہادر ی اور جُل دے کر نکلنے کی وجہ سے کافی مشہور ہوئے انہی صلاحیتوں کے سبب وہ 1858سے لے کر1886کے درمیان اٹھائیس سال تک گرفتاری سے بچے رہے ۔اُن کا فوجیوں کو جل دے کر نکلنے کا ایک واقعہ کافی مشہور ہوا ۔جنگجو نیو میکسیکو کے شمالی علاقے میںروبلیڈو پہاڑوں میں مقیم تھے کہ کہ یوایس کے سپاہی ان کے نزدیک پہنچ گئے اور وہ خود کو بچانے کے لیے ایک غار میں گھس گئے اُن کے انتظار میں سپاہی کئی روز تک غار کے سامنےمورچہ لگاکربیٹھے رہے لیکن وہ باہر نہیں نکلے ۔ کچھ عرصے بعدقریبی علاقوں میں ان کے دیکھے جانے کی اطلاعات ملیں یہ واقعہ دو مرتبہ پیش آیا جس کی وجہ سے یہ غار اب بھی ”جیرونیمو غار“کہلاتاہے ۔اپنی عسکری زندگی کے اواخر میںوہ چھوٹے سے دستے کی قیادت کررہے تھے جن میں صرف36مرد ، خواتین اور بچے شامل تھے ۔انہوں نے ایک سال میں ہزاروں میکسین اور امریکی فوجیوں کو ہلاک کیاجس کی بدولت سفید فام نوآبادکاروں نے اُنہیں ”ہمیشہ زندہ رہنے والے برے انڈین “کا نام دیا۔
وہ بھی دنیا کے دیگر مزاحمت کاروں کی طرح جد یداور منظم عسکری قوت کے حامل نوآبادکاروں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے بے رحمانہ چھاپہ مارکارروائیوں کوموثر سمجھتے تھے ۔۔ قابض میڈیا ان کے اس طرح کی کارروائیوں کو ظالمانہ کارروائیوں سے تعبیر کرتاامریکن قبائل پر
"Apaches: a history and culture portrait
نامی کتاب کے مصنف ،جیمزایل ہیلی (1997) کے مطابق”فرار کے دوہفتے بعد سِلو ر سٹی کے قریب قتل عام سے متاثر خاندان کی رپورٹ ملی کہ ایک لڑکی کوزندہ لے جاکر گوشت لٹکانے والے آنکڑاسے لٹکایا گیاجواس کی کھوپڑی میں گھسایا گیا تھا ۔“اُن کا دستہ آزاد امریکن بومیوں کا آخری گروہ تھا جنہوں نے مغربی امریکہیو ایس کی غلامی اور قبضہ گیری قبول کرنے سے انکار کیا ہواتھا۔
اپاچی رہنماءجیرونیمو(دائیں )شمالی میکسیکو میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ1886
بالآخر سرزمین چی ری کاھوا کے آخری حریت پسنداپنے ہی لوگوں کی دغا بازی کی وجہ سے دشمن فوج کے گھیراﺅ میں آکر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے ۔انہیں اپنے آبائی علاقے ایریزونا میںاسکلیٹن کینونمیں 4ستمبرکو تھوڑے سے ساتھیوں کے ساتھ گرفتاری کے بعدجیرونیمو اور دوسرے اپاچویوںکو حتیٰ کے اپاچی اسکاﺅٹ کے اُن غداروں کوبھی جنہوں نے جیرونیموکی گرفتاری میں مدد کیاتھا،پینساکولامیںفورٹ پک کینزمیں بھیجا گیا جب کہ ان کے خاندان کو ان سے علیحدہ کرکے فورٹ مارشن میں ڈالاگیا۔مئی 1987کو انہیں سات سال کے لیے االاباما،ماﺅنٹ ورنن بیرک منتقل کیا گیا جہاں اُنہیں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔1884کو انہیں اوکلا ہوما کے فورٹ سل میںمنتقل کیا گیا جو اُن کا آخری آرام گاہ ثابت ہوا۔قید میں وہ ایک بے داغ ستارے (ہیرو) کے طورپر اُبھرے اورباہر کی دنیا میں اُن کی تصویریں کافی مقبول ہوئیںبہر حال اُنہیں آخردم تک اپنے آبائی علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔
جیرونیمو، یوایس کے قیدی 1905
بڑھاپا او ر قید بھی اس کرشماتی کردار کے جوان شوق کم نہ کر سکے اور ایک جنگجو بالآخر پاﺅں رکاب میں دھرے مر گئے ۔فروری 1909کو جب وہ اپنے گھوڑے پر سوار گھر لوٹ رہے تھے کہ گھوڑے سے گر پڑے سرد ٹھٹرتی رات کو وہ کھلے آسمان تلے موت سے نبرد آزمارہے جب ان کے ایک دوست نے انہیں دیکھا تو وہ بری حالت میں تھے ۔17فروری 1909کو غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے والے عظیم رہنما ءاوکلاہومافورٹ سل میں یوایس قیدی کی حیثیت میں موت کے آغوش میں چلے گئے ۔انہیں فورٹ سل میں اپاچوی قیدیوں کے قبرستان میں سپر د خاک کیا گیا۔
آج قریب ایک صدی گزرنے کے بعد امریکن حکومت نے اپنے ایک قیدی کو دوبارہ دہشت کی علامت کے طور پر یاد کیاہے۔موجودہ زمانے بظاہر امریکن بومی اور امریکن آبادکار دونوں کی سوچ بدل چکی ہیں خود امریکہ کے صدرایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بزرگوں کی صدیوں جانوروںکی طرح خرید وفروخت کی جاتی تھی۔بہت سے سیاہ فام مانتے ہیں کہ اوباما ایک عظیم شخص مارٹن لوتھر کنگ کے عظیم خواب کی تعبیر ہیں ۔لیکن نہیں لگتا ہے کہ سامراج اور قبضہ گیریت کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئی ہے اوباما ہرگز اس عظیم خواب کی تعبیر نہیں جس میں غلامی کے خاتمے کی نوید دی گئی تھی یہ تو ایک نئے آقاہیں جس کی رنگت سابق غلاموں کیطرحلیکن مزاج خالص سامراجی او ر حاکمانہ ہے ۔امریکن حکومت کی طرف سے اسامہ کے لیے جیرونیمو کا لفظ استعمال کر نے پر حیرت نہیں بلکہ اپاچی قبائل کے رہنماﺅں کے ردعمل پر حیرت ہے جنہوں نے اسے اپنا ہتک قرار دے کر داراصل تاریخ کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔درست ہے جیرونیمو سر زمین چی ری کاہوا کے ہیرو ہیںمگر امریکہ نے ان کے ساتھ آخری دم تک دشمن جیسا بھرتا ﺅکیا ۔وہ سر زمین جس کے لیے جیرونیمو نے اپنے بیوی ، بچوں اور عیش وعشرت کی قربانی دی تھی کب کا تاریخ کی قبرستان میں دفن ہوچکی ہے اب کسی کویہ حق بھی نہیں کہ وہ جیرونیموکے اصل کردار کو مسخ کرئے ........................جیرونیمو جیسے لوگ اپنے دشمن کے منہ سے اس طرح کی تعریف سن کر فخر محسوس کیا کرتے ہیں ۔
جیرونیموکاقبرجوکہ فورٹ سل اوکلاہوما میں ہے 2005
اپاچی رہنماء سمجھتے ہیں کہ اسامہ ایک دہشت گردہیں حالانکہ ابھی تک دنیا میں دہشت گردی کی کوئی تعریف ہی متعین نہیں اس لیے تما م غیر جانبدار صحافتی حلقے اسامہ کا عسکریت پسند کے طور پر ہی ذکر کررہے ہیں۔ جس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ ان کے نظریات کے حامی ہیں مگر اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ وہ امریکہ کے یک طرفہ الزام کو ماننےکو تیار نہیں ۔چاہے کوئی کسی بھی نظریے اور سوچ کو ماننے والا ہو کسی ایک متعین قاعدے سے یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اسامہ دہشت گردتھے ۔اس بنا ءپر کہ اسے دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا کہ انہوںنے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے تشدد کا سہارہ لیا تو یقیناً کمیونسٹوں کوبھی دہشت گرد کہا جائے گا جنہوںنے دنیا میں بڑے پیمانے پر خونی انقلاب کی سوچ کو پروان چڑھایا ۔اس بنا ءپر کہ وہ دنیا پر حکمرانی کاخواب دیکھ رہے تھے تو سکندر اعظم سے لے کر موجودہ امریکہ کے حکمرانوں تک سب کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جائیں ۔اگر اس بنا ءپر کہ القاعدہ کے حملوں میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے تو امریکہ اوراس کے حواری بھی دنیا بھر میںاپنے اہداف کے حصول کے لیے بے گناہوں کے مارے جانے کی پرواہ نہیں کررہے ہیں جو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ۔اس بنا ءپر کہ القاعدہ کسی قانون اور قاعدے کو تسلیم نہیں کرتا توامریکہ نے کس بین الاقوامی قانون کے تحت ایک نہتے شخص ( اسامہ)کو قتل کردیا ؟.............................سچائی یہ ہے کہ دہشت گردوں کی اس دنیا میںاسامہ بھی ان جیسے ہی ایک دہشت گرد تھے ۔سچ یہ بھی ہے کہ قانون اور ضوابط کی پاسدار ی کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ”قانون جس کا راستہ بہترین، مگر اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے “ ۔شایداسی بناءپرکیوبا کے سابق صدر اور انقلابی رہنماءفیدل کاسترونے ایک غیر مسلح بنی نوع انسان کے اپنے خاندان کے درمیان ہلاک کر نے کو ایک ”مکروفعل “قرار دیا۔انہوں نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ پر اپنے حالیہ مخالفانہ کالم میں جو کہ کیوبا کے ریاستی اخبا ر میں شائع ہوا ہے لکھا ہے کہ :”قتل اوراس کے جسد کو سمندرکی گہراہیوں میں ڈالنایوایس کے خوف اور احساس عدم تحفظ کو ظاہر کرتے ہیں ۔“ان کے مطابق :”یو ایس کے اقدام نے بن لادن کوزیادہ خطرناک کردار بنا دیاہے ۔“انہوں نے اوباماکے ہی الفاظ کو ہراکر اُن کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے ،ان کے پیراگراف کا خلاصہ ہے:”عراق اور افغانستان کی جنگوں میںہزاروں بچے مجبوراًاپنے ماں باپ کے بغیرپروان چڑھ رہے ہیں................والدین جو اپنے بچوں کو آغوش میں لینے کے احساس سے ناواقف ہیں۔“
بنی نوع انسان بھی شاید لیمارک اور ڈارون کے نظریات کو سچ کر نے پر تلا ہواہے ۔ جن کا خیال تھا کہ دنیا میںوہی جاندار زندہ رہتے ہیں جو سخت مقابلے کے بعد اپنی نسل کو بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔دنیا خوبصورت تحریروں ، جذباتی پیغامات اور انا پرست نظریات سے بچائی نہیں جاسکتی ۔”تشد د سے تشددکو ختمنہیں کیا جاسکتا“ کانظریہ بعض حالات میں تشدد کے ناگزیز ہونے کے باوجود تاریخ کے ہر تجربے میں درست ثابت ہواہے۔ہر قسم کی دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے مذہبی ، قومی ،نظریاتی اور حاکمانہ اُصولوں کا ازسر نوجائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ہر ایککو مطلق اُصولوں کے تحت زندگی گزارنے کا پابند کیاجائے ۔ایسے قوانین کے تحت جوقوم اور فردسے چاہئے برابری کی بنیاد پربرتاﺅ کریں یا استعدادکے مگر ان کا مطلق ہوناضروری ہوتاکہ آنے والی نسل کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد تھے یا مزاحمت کار۔
٭٭٭٭
06/05/2011
تحریر کے ماخذ:1:http://twitter.com/#%21/GMA/statuses/65551207896317952
2:http://www.historytoday.com/MainArticle.aspx?m=33177&amid=30265445
3:سی این این
4:http://www.behindthename.com/name/geronimo
5:www.freerepublic.com/focus/f-news/2715557/posts
اسامہ سے متعلق ایک اور تحریر ”جیرونیمواکیا“کو پڑھنے کے لیے کلک کریں
Post a Comment