سازشی جملہ ہے کہ:’’ بلوچ کبھی متحد نہیں ہوسکتے کیوں کہ وہ فطرتاًاناپرست ہوتے ہیں ۔‘‘ زمانہ تھا کہ سیاسیات کے طلبا ء میں یہ مطالعاتی فیشن رائج تھا کہ وہ فرد اور علاقوں کے خود ساختہ نفسیاتی خاکہ کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ۔ انگریز قبضہ گیرکی پروپیگنڈہ مشینری سے وابستہ لکھاریوں نے اس انداز کی رائے سازی کے رجحان کو راسخ کیا۔ سائنس کی ترقی نے سماجی مطالعے کی نئی جہتیں تو یقیناً متعارف کروائی ہوں گی لیکن ہم ابھی تک انہیں برتنے کا ہنر نہیں جانتے ، سو اب بھی ہم میں سے کئی اسی جملے پر ایمان رکھتے ہیں ۔

جب کہ حقیت یہ ہے کہ دنیا کے وہ تمام انسانی گروہ جو ایک قوم کہلاتے ہیں،صرف اپنی وحدت اور یکجہتی کی بنیاد پر ۔ باالفاظ دیگر بلوچ اس لیے ایک قومی وحدت کے طور پر جانا جاتا ہے کہ اس کے مختلف قبائل اپنے مشترکہ سیاسی اور سماجی مفادات کی بنیاد پر متحد ہیں ۔ یعنی ان کی فطر ت نے انہیں اتحاد کی طرف راغب کیا اور ان کے اتحاد نے ایک قومی وحدت تشکیل دیا ۔اگر ان کی فطرت میں اتحاد نہیں ہوتا تو بلوچ قوم کی تشکیل نہ ہوتی ۔ 

پھر ہم جو سیاست میں اتار چڑھاؤ دیکھ رہے ہیں ، بلوچ قومی دھارے سے باہر نکل کر بلوچ قومی مفادات کے برخلاف سیاست کرنے والے بلوچوں کی بلوچ نسل کشی پر بیگانگی دیکھ رہے ہیں ، یہ کیا ہے ؟ کیوں کرہم اسے بلوچوں کی نااتفاقی کے علاوہ کسی دوسرے نام سے یاد رکھیں ؟

اس طرح کے سوالات کا عموماً مایوس کن جواب دیا جاتا ہے ،جیسے کہ ’ چھوڑو ان سیاستدانوں کو جوقوم کو تقسیم کرکے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں ۔‘ فی الحقیقت جسے عام لوگ ٹانگ کھنچائی سمجھتے ہیں وہی سیاست ہے ۔ منفی اور مثبت سیاست کے عنوانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں سیاسی شعور کی آبیاری کرنی چاہئے ۔ بندوبست پاکستان میں جس طرح جان بوجھ کر سیاست کو برائی کا محور اور باطل قرار دیاجاتا ہے ، یہاں تک سیاسی کارکنان بھی دھوکا دہی کو سیاست سمجھتے ہیں اس کا ہم بلوچوں کی سیاست پر بھی نہایت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

شہید حاجی رزاق اس پر ایک خوبصورت جملے میں تبصرہ کرتے تھے :’’ ہم اپنے مقاصد کو لے کر سیاست کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ سیاست کرتے ہیں ۔ ‘‘ بی ایس او میں اتار چڑھاؤ اور موجودہ تنظیموں میں تنظیمی ڈھانچوں کی زبوں حالی اسی پاکستانی طرز فکر کی عطا ہیں ۔ جہاں کسی دوست نے اختلاف رائے کا اظہار کیا وہاں ا س کو مشکوک قرار دے کرا س پر ذاتی حملے کیے گئے ۔غیرجمہوری طریقوں سے اس کے اداروں میں پہنچنے کے راستے مسدود کیے گئے ، نتیجہ تقسیم در تقسیم تھا ۔ ماس پارٹیز اور بی ایس او اکثر سیشن کے بعد بحران کا شکار ہوئی ہیں ۔اکثر نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ شخصی اختلاف اور عدم برداشت توڑ پھوڑ کی وجہ بنے ہیں۔ یہا ں شخصیات کو عمل کی بجائے الفاظوں میں تولاجاتا ہے ناپسندیدگی کے لیے کسی کے ماضی کو جواز بنایا جاتا ہے تو کسی کے اختلاف رائے کو جمہوری اداروں میں زیربحث لائے بغیراسے ماورائے ادارہ روک کر انتشار کی بیج بوئی جاتی ہے ۔

تو سیاست ہے کیا ؟ متعین طرز عمل کا نام تو ہرگز نہیں یا ٹھوس شرائط پر من وعن عمل کرنا کسی سیاسی کارکن کا فرض عین نہیں ۔ سیاست ایک رضاکارانہ عمل ہے جس میں یکساں موقف رکھنے والے افراد ایک جماعت میں اکھٹے ہوتے ہیں ، تب تک کہ ان کو لگتا ہے کہ وہ اس اتحاد کے اندر اپنے مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں جب بھی ان کے درمیان کسی بھی معاملے پر اختلاف پیدا ہوتا ہے پارٹی میں پھوٹ پڑتی ہے ۔ جس پارٹی کے ادارے مضبوط ہوتے ہیں وہاں ایسے تخریبی عمل بھی تعمیری انداز میں ہوتے ہیں اور پارٹی تقسیم کی بجائے نئے حالات اور واقعات کے مطابق نئی پالیسیاں وضع کرتی ہیں ۔ 

ہم بلوچ اس فطری عمل کو تعمیری شکل دینے میں ناکام ہیں ، کیوں کہ آج تک ہم نے اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ البتہ شہید واجہ غلام محمد نے بلوچ نیشنل فرنٹ میں اپنے ہی جماعت سے الگ ہونے والے دھڑے کواس کی کمزور استعداد، کمیت اور حجم کے باوجود شامل کرکے ہمارے لیے ایک رہنما ء مثال ضرور قائم کی ہے کیوں شہیدواجہ بی ایس او کے سیاسی تربیت یافتہ کیڈر تھے۔ کم عمری سے علم سیاسیات کا مطالعہ و مشاہدہ کی بدولت وہ کسی معاملے کو اپنی انا کی عینک سے دیکھنے کی بجائے سیاسی تناظر میں دیکھتے تھے تب ہی تو انہوں نے جماعتوں کے علاوہ ایک ایک فرد کے ساتھ بھی اتحاد کیا ۔ 

بلوچ نیشنل فرنٹ کے بکھرنے کی وجوہات میں بدقسمتی سے ان ہی افراد کا غیرسیاسی رویہ شامل تھا جو فردی جماعتوں کے سربراہ ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف اتحاد کے مینڈیٹ سے تجاوز کیا بلکہ اپنی کمزور تنظیمی پوزیشن کو بھی بی این ایف کی سرگرمیوں کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی ۔ وہ افراد جو اپنے ایجنڈے کی بنیاد پر اپنے علاقوں میں بھی غیرموثر تھے اتحاد کے فلیٹ فارم پر بلوچ قومی رہنماؤں کے صفوں میں شامل ہوگئے ، جس کے منفی اثرات حقیقی سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی پر مرتب ہوئے ۔’اتحاد ‘ کے نعرے کو استعمال کرکے سیاسی کارکنان کوجماعتی مراکزسے توڑ دیا گیا ۔ ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ سیاسی کارکنان اپنے جماعتی نظریات کو پس پشت ڈالنے لگے ۔ فرنٹ کی غیرضروری سرگرمیوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے تنظیمی سرکلز کے لیے وقت نہ رہا۔ایسی تنظیموں کے آزادی پسند رہنماء جو اتحاد میں شامل نہ تھے نے اتحادی جماعتوں کے بعض سینٹرل کمیٹی ممبران اور دیگر موثر افراد کے ذریعے اتحاد کے پروگرامات میں دخل اندازی شروع کی۔ اخلاقی ضوابط کے بغیر بیانات دیئے گئے جو اتحادی جماعتوں کے منشور سے عدم مطابقت رکھتے تھے ۔ یہ ایسے اقدام تھے جن سے کسی بھی اتحاد کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا تھا اس لیے بلوچ نیشنل فرنٹ کا شیرازہ بکھر گیا ۔ 

مندرجہ بالاوجوہات ہمارے غیرسیاسی رویے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اتحاد کے مختصر زمانے میں ہم ’سنگل پارٹی‘ کے رومانس کا شکار تھے جب کہ اتحاد کسی پارٹی کا نعم البدل نہیں ہوتا بلکہ جماعتیں ہزاروں اختلاف کے ساتھ کسی ایک اتفاق کی بنیاد پر بھی اتحاد بناسکتی ہیں ۔اتحاد کے بارے میں یہ مشہورسیاسی کہاوت ہے کہ ’اتحاد ٹوٹنے کے لیے بنتے ہیں ۔‘اس لیے بلوچ قوم دوست جماعتوں کواتحاد ٹوٹنے کے خوف سے نکل کر اپنے اپنے ایجنڈوں میں اتفاقات تلاش کرکے اتحاد کرنی چاہئے ۔ متوقع ’یونائیٹڈ بلوچ نیشنلسٹس‘ کو اپنے مینڈیٹ کے تجاوز سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی چیئرمین اور ترجمان مقررکرنے کی بجائے اس کے معاملات ایک مشترکہ کونسل کے سپرد کیے جائیں ۔ حساس نوعیت کے ایسے قومی ایشوز جن کی بنیاد پر بلوچستان کے مستقبل کا تعین ہونا ہے مشترکہ کونسل کے سپرد کرنے سے پہلے تمام جماعتوں کے سفارشات ، تجاویز اور تائید حاصل کرنا اور فیصلے کی صورت توثیقی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے جو یقیناًمتعلقہ جماعتوں کی سینٹرل کمیٹی کا مینڈیٹ ہے جس کے لیے نہایت دوراندیشی اور صبر کی ضرورت ہوگی ۔ خاص طور پر بی این ایم جیسی جمہوری سیاسی پارٹی میں رائے سازی ایک وقت طلب کام ہوگا ۔ لیکن اگر تمام اسٹاک ہولڈر ز سیاسی اپروچ کے ساتھ مکالمہ کریں اپنے سیاسی دھڑوں کی پالیسیوں کو ایک دوسرے پر مسلط کرنے کی بجائے ایسے پوائنٹس پر توجہ دیں جہاں پالیسیاں موافقت کرتی ہیں تو ہم ایک دیرپا اتحاد بلکہ قومی ادارہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.