بلوچستان کے مرکزی شہر شال میں ہڈیوں کے گودے تک اترنی والے سرد موسم کا
آغاز ہوچکا ہے لیکن یہ سرد موسم بھی ایک بہن کی محبت کی گرمی کم نہ کرسکی
اور نہ ہی ایک بیوی کو اپنے لاپتہ شوہر کے لیے آواز اُٹھانے سے روک پائی ۔
موسم بدلتے ہیں، عام لوگوں پر شاید ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا لیکن جن
کے پیارے لاپتہ ہیں ان کے لیے ہر گزرتا دن ایک عذاب ہے۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں
کہ ان کے پیاروں کی شبیہ ان کے ذہن کے پردے پر نمودار نہ ہو ، کھانے کے
ذائقے پیکھے ، تفریح اور تہوار کی خوشیاں ماتم کنان ہوتی ہیں ۔ دسترخوان
پر ہر ایک نوالہ اُٹھاتے ہوئے آنکھیں اُس پیارے کو تلاش کرتی ہیں اور یہ
خیال ان نوالوں کو زہر بنادیتا ہے کہ ہمارے جگرگوشہ نے کھانا کھایا ہوگا بھی
کہ نہیں ؟ میں تو آج یہ لذید کھانے کھارہا ہوں اور وہ جانے کس حال میں ہے
؟ نرم بستر بھی کانٹوں کی طرح چھبتا ہے کہ میراجگرگوشہ جانے ٹارچرچیمبرمیں
کس طرح کی اذیتیں سہہ رہا ہے ۔
میں نے چیئرمین زاہدجان کے نام سے ٹارچرچیمبر سے خیالی خطوط لکھے تھا ، ایک خط شبیر کے نام تھا ، شبیر نے مجھے بتایا کہ اس جگہ جہاں میں نے زاہد کی پیاس کی شدت اور پانی کے طلب کا ذکر کیا تھا ، پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں اور میری آنکھیں شبیر کانام سنتے ہی دھندلاجاتی ہیں ۔ میں جس نے بمشکل چند دن ، چند گھنٹے شیر کے ساتھ گزارے ہیں ، ہمارے درمیان اکثر فون پر ہی باتیں ہوتی تھیں مگر میں ان سمیت اپنے اسیردوستوں کا ذکر سن کر یا سوچ کر بے چین ہوجاتا ہوں ، تو ایک ماں ، بہن ، باپ ، بھائی ، بیوی ، بیٹی اور بیٹے کی کیا حالت ہوگی ؟
یہ ایک تصویر جس میں ایک بہن اور بیوی ، رورو کر حکمرانوں سے اپنے پیارے کی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہیں ، اس احساس کو بیان کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن مکمل درد کا احاطہ کرنے سے یہ تصویر بھی قاصر ہے ۔ درد کی جو ٹھیس ان دلوں سے اُٹھتی ہیں ،یہ وہی جانتے ہیں جن پر گزررہی ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے پر خوف نے ایسی بے حسی طاری کی ہے کہ ہم ان آنسوؤں کو پونچھنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بولنے کے لیے بھی تیار نہیں ۔
بلوچی زبان میں سوتیلی ماں اور سوتیلے باپ کے لیے الفاظ ہیں لیکن سوتیلے بھائی اور سوتیلی بہن کے لیے کوئی لفظ نہیں کیوں کہ یہ وہ رشتے ہیں جن میں سوتیلاپن نہیں ہوتا لیکن غلامی ایک ایسی لعنت ہے کہ وہ سماج کو کھوکھلاکردیتی ہے۔ طویل غلامی نے بھی بلوچ سماج کو اس کے اقدار سے بتدریج دور کردیا ہے ، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سماج میں نفرت اور خودغرضی کی بیج بوئی گئی جو اب ایک درخت بن کر پھل دے رہا ہے۔ اس لیے ہزاروں گمشدگان کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کی بات زبان پر لانے سے ڈرتے ہیں ، ان کواس خوف نے مُردوں سے بھی بدتر کردیا ہے کہ اگروہ اپنے پیاروں کے لیے آواز اُٹھائیں گیں تو انہیں بھی سزادی جائے گی ۔ ایسے میں شبیر بلوچ کے خاندان کی خواتین کا احتجاج ، اس خوف کو شکست دینے کی ایک کوشش ہے ، اگر اس احتجاج میں دیگر گمشدگان کے لواحقین کو بھی شامل ہوں تو یہ آواز اور بھی زیادہ موثر ہوگی ۔لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ بات سمجھنے ہوگی کہ کسی بھی جرم کی سزا ماورائے عدالت گرفتاری ، گمشدگی اور قتل نہیں ۔
سیاسی اور سماجی تنظیموں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر منظم احتجاج کی منصوبہ بندی کریں اور نہ صرف لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے موثر آواز اُٹھائیں بلکہ ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں میں ملوث عناصر کو سزا دینے اور گمشدگان کو معاوضہ دینے کا بھی مطالبہ کیا جائے تاکہ ایک مثال قائم ہو اور مستقبل میں کوئی قانون نافذکرنے والا ادارہ کسی کو بھی ماورائے عدالت گرفتار کرکے گم شدہ کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ یاد رکھیں کہ یہاں ایک آزمودہ طریقہ ہے کہ کسی بھی تحریک کو مصلحت آمیزی کے نام پر دبوچ لیا جاتا ہے ، سچ کو تسلیم کرتے ہوئے بھی ہزار حیلے بہانے ایسے تراشے جاتے ہیں جوریاست کے نام پر دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کو اس بدمعاشی کا جواز فراہم کرتے ہیں ۔
نفسیاتی طور پر اس طرح کے پرتشدد ہتھکنڈے ان اداروں کو تباہی کے دہانے پر لاتے ہیں اور وہ اداروں کی بجائے کسی شیطان سرشت بدروح میں ڈھل جاتے ہیں جن کو اپنے برے کردار سے محبت ہوجاتی ہے ۔ ان کے اہلکار ببانگ دہل اپنی طاقت سے لوگوں کو ڈراتے ہیں ، راہ چلتے بھی وہ اپنے چہرے پر دنیا کی خباثت ڈالے گھومتے ہیں اور وہ اس ڈر کو اپنا ڈھال بنالیتے ہیں۔ جیسا کہ ایک نشہی خمار کا مزا لیتا ہے یہ بیچارے بھی اس احساس سے پِنکی لیتے ہیں کہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔ آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کو بھی پتا ہے کہ بلوچستان ، پختونخواہ اور سندھ میں ان کا کردار انسانیت سوز ہے ۔ کسی بھی ریاستی بندوبست میں جب مقتدراعلی ’’گبرسنگ‘‘ کی طرح کی حرکتیں کرنے لگے وہاں ادارے خونخواہ بن جاتے ہیں اور جن کے منہ کو خون لگے پھر وہ اپنے اور پرائے میں فرق نہیں رکھتے ۔ جس طرح بالتریب مختلف ادوار میں عربوں ، ترکوں اور افغانوں نے اسلام کو اپنے توسیع پسندانہ عزاہم کے لیے استعمال کیا ،مقامی تہذیب و تمدن کو بالادست قوم نے ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے قوت متحرکہ یا ریاستی آلہ کاروں کو ایک نظریہ دیا جاتا تھا اور وہ اپنے ہر دہشت گردانہ حملے کا آغاز ’’بانگ محمدی ‘‘ سے کرتے تھے ۔ یورپ سے پرتگیز اور انگریزوں نے افریقا اور ایشیا ء کو تاراج کرنے کے لیے سلطنت عثمانیہ کی بخوبی نقل کی اور ان کے بحری قزاق صلیب گلے میں لٹکائے ، سمندر اور ساحل پر غارت گری کرتے تھے ۔ ان کی ذہنی تربیت اس طرح کی جاتی تھی کہ وہ آزادانہ کارروائیاں کرنے کے باوجود اپنے مرکزاور دین کے خود کو پابند سمجھتے تھے ، آج بھی پرتگیز اور ترک ان بحری قزاقوں کو اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔
پاکستانی فوج کا پوشیدہ ہدف بھی" پنجابی اقتدار" کی توسیع پسندی ہے ، جسے پاکستان اور اسلام کا لبادہ اُوڑھا گیا۔
لیکن عسکری طاقت کا غرور کسی بھی
قوم کو ترقی کرنے نہیں دیتاعین ایسا کہ پاکستانی فوج کی زبرست منصوبہ
بندیاں اور فلک شگاف بانگ حیدری اور بانگ محمدی(اللہ اکبر) بھی ان کے
افسران کو کرپشن سے نہیں روک پائے۔فوج نے ملکی معشیت کو جونک بن کر چوس لیا
ہے اور فوجی افسران نے دیمک کی طرح چاٹ کر فوجی اداروں کو کھوکھلا کردیاہے
۔ فوج کو جنگی منافع خور چلاتے ہیں جن کو حالت جنگ ، راس آتا ہے مگرعسکری
طاقت کے غرور کی شکار قوم اپنے ہی فوجی طاقت کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں ۔ بڑی
فوج کو پالنا آسان کام نہیں۔ لوٹ مار سے بھی جب غنیمت نہ ملے تو فوج
اپنے ہی لوگوں کا گوشت کھانے پر تُل جاتی ہے ۔ پاکستان کی فوجی بدمعاشیوں
نے اسے اسی صورتحال سے دوچار کیاہے ۔
لاپتہ لوگوں کا مسئلہ اب پاکستانی بندوبست میں کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک سنگین انسانی مسئلے کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔ سیما اور زرینہ کے آنسو لاپتہ خاندانوں کی ناامیدی کی کھیت پر امید کی بوند بن کر برسے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی بھی خاندان ایسا نہیں جس کا کم از کم ایک شخض لاپتہ نہ ہو یا اس کی مسخ لاش نہ ملی ہویا پھر وہ جبری جلاوطنی کا شکار نہ ہواور اگر یہ سب سیما کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں تو یہ آنسو پاکستان کو حقیقی معنوں میں بہا لے جائیں گے۔ مگریاد رکھنے کی بات پھر بھی وہی ہے کہ بغیرتی کی حدتک مصلحت پسندانہ سیاست بھی ہمارے ارد گرد منڈلارہی ہے جو براہ راست مقتدرہ کی باندی ہے اور بہرحال اسی کا بھلا چاہتی ہے۔ یہ ہم کو ڈرائے گی ، غلط مطالبوں کی خوشنما تعبیریں کرکے لاپتہ اسیران کی تحریک کے جواز کو ماند کردے گی ، ہماری چھوٹی کامیابیوں کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کرئے گی کہ ہم اپنے ہی بے مقصد حرکتیں دہرا دہرا کر تھک جائیں گے اور وہ منزل جس کی ان آنسوؤں سے دھلنے کی امید بندھی ہے پھر سے دھندلاجائے گی ۔
ہمیں اپنی مثبت طاقت کو بڑھانے کے لیے پشتون رہنماء ملابھرام کے آنسوؤں کے پس پردہ ’’مشترکہ درد‘‘ کی کتاب پڑھنی ہوگی ۔ ہمیں آمنہ مسعود جنجوجہ کے درد کو محض اس لیے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ ان کا شوہر مذہبی خیالات رکھتے تھے تو کسی بھی ملک کی فوج کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے خفیہ طور ہر بیچ دے ، خرید لے یا ماورائے عدالت قتل کردے ۔ ہم جو حق اپنے لیے مانگ رہے ہیں وہ انسان کا استحقاق ہے ۔ یہ منزل انسانیت کی ہے محض بلوچیت کی نہیں اوربلوچیت کا معراج بھی انسانیت ہے۔ بلوچ قومی آزادی تو ایک پڑاؤ ہے جہاں سے ہمیں اپنی اصل منزل انسانیت کی طرف سفرکرنا ہے ، جس کا خواب شبیر نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے جو باباخیربخش اور واجہ غلام محمد کا نظریہ ہے ۔
سطحی طور پر دیکھنے والی نگاہیں ، گہراتی تک نہیں دیکھ پاتیں تو وہ جبر کے خلاف مظلوم قوم کی جدوجہد کو بھی شاونزم سے آلودہ کردیتے ہیں جو ننگ انسانیت ہے ۔ باباخیربخش مری سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ مری ہونے پر سب سے زیادہ فخرکرتے ہیں یا بلوچ ہونے پر ؟
ہمارے طرح کا کوئی سطحی شخص ہوتاتو کھٹاک سے جواب دیتا ، میں مری نہیں ، سب سے پہلے بلوچ ہوں ۔ لیکن آپ ایک زیرک انسان اور عمر کے ایسے حصے میں تھے کہ آپ بذات خود مجسمہ علم بن چکے تھے ،فرما یا:’’ میں مری ہوں ، بلوچ ہوں اور اس سے آگے انسان بننا بھی چاہتا ہوں ۔ ‘‘
کتنی گہری بات ہے ،اگر مقصد کو پالیا جائے تو ایک نظریہ ہے ، بلوچ تحریک کی منزل کی اس سے بہتر نشاندہی نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے میں اپنے دوستوں کو باربار میں یہ یادہانی کراتا ہوں کہ’’ نیشنل ازم کا معراج انسانیت ہے ۔‘‘اور ’’ نیشنل ازم کا زوال شاؤنزم ہے ۔‘‘
ملا بہرام کے آنسوؤں کی چمک میں مجھے اسی منزل کی شبیہ نظرآتی ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ ہم لاپتہ بلوچ اسیران کی بازیابی تحریک کیمپ سے اپنی منزل کی طرف کمند لگاکر پہنچ سکتے ہیں اور جب وہ منزل مل جائے توپھر قومی آزادی کو شرمندہ تعبیر ہونے میں کوئی قوت نہیں روک سکتی ۔ جس معاشرے میں انسان آزاد ہوں وہاں اقوام غلام نہیں رہ سکتے۔ زمین کی آزادی سے اگر آزادی ملتی تو آج عرب دنیا روبہ زوال نہیں ہوتی ۔ان کے پاس پیسہ بھی ہے ، زمین بھی آزاد ہے مگر انسانیت آزاد نہیں توان کی دنیا بھی ہچکولے لے رہی ہے ، اب فنا ہوئی کہ تب فنا ہوئی کی کیفیت میں ہے ۔
ملابہرا م کے آنسوؤں کی لکھی کتاب بنام ’’مشترکہ درد ‘‘ کے ایک صفحے پر میں نے لکھا ہوا پڑھا ہے کہ’’ لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف ایک قوم کا مسئلہ نہیں’’ انسانیت کا مسئلہ‘‘ ہے ۔ ہمیں بلاتفریق رنگ ، نسل ، مذہب ، فرقہ ، سیاست ، عقیدہ اور زبان ایک مشترکہ فلیٹ فارم پر اکھٹے ہوکر پاکستانی بدمعاش ریاستی فوج کے ہاتھو ں ماورائے عدالت گرفتار افراد کی بازیابی کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے ۔ ‘‘
یہ بات تاکیداً لکھی جاتی ہے کہ’’
محض ایک دولاپتہ افراد کی بازیابی اس تحریک کی منزل نہ ہوبلکہ ان بدمعاشوں
سے مکمل حساب مانگاجائے ۔ مقتولوں کا خون بہا بھی لیں، ذمہ دارو ں کو
فردافردا واضح سزا ملنی چاہیے ، یہی حقیقی انصاف اور اس تحریک کی فتح ہوگی
۔لاپتہ اسداللہ مینگل اور احمدشاہ کرد سے شروع کرنا ضروری ہے یا اس سے پہلے
مری علاقوں میں بلوچ خواتین سمیت سینکڑوں لوگ اغوا کیے گئے تھے ، آج تک
لاپتہ ہیں ۔ خواتین کو خلیجی ممالک میں بطور کنیز فروخت کردیا گیا ، یا جو
ستم ، سندھ اور پشتونخوا میں ڈھائے گئے ، ان کو درگزر کرکے ہی آج ہم اس حال
میں پہنچے ہیں ۔‘‘
ٓآج وہ گھڑی ہم پر گزر رہی ہے کہ ہمیں کراچی اور حیدرآباد میں مہاجروں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بھی سوچنا چاہئے ۔ جب روزانہ مہاجر نوجوانوں کی بوری بند لاشیں ملتی تھیں ، ریاستی سرپرستی میں شیطان صفت غنڈے گھروں سے صرف لوٹ مار ہی نہیں کرتے تھے بلکہ عوتوں کا ریب بھی کرتے تھے ۔میرے کانوں نے یہاں تک سنا ہے کہ ظالموں نے ریاستی شہہ پرکئی مہاجرخواتین کے پستان بھی کاٹے تھے ۔ جب تک ہم ظالم اور مظلوم ، حق اورباطل، قومی مفاد اور گروہی مفاد ، نیشنل ازم اور شاؤنزم کے درمیان لکیر کھینچ کراپنے مقام کا تعین نہیں کریں گے ۔ آنسوؤں کی لکھی یہ’’ کتاب ‘‘بے معنی ہے ۔اور ہم اس کتاب کونہ سمجھیں تو شاؤنزم نیشنل ازم کو ہڑپ کرئے گا ، گروہی مفاد قومی مفاد پر حاوی ہوں گے ، باطل حق کو دھول چٹائے گا اور مظلوم کی گردن ظالم کے پاؤں کے نیچے دبی رہے گی ۔