بلوچستان کے مرکزی شہر شال میں ہڈیوں کے گودے تک اترنی والے سرد موسم کا آغاز ہوچکا ہے لیکن یہ سرد موسم بھی ایک بہن کی محبت کی گرمی کم نہ کرسکی اور نہ ہی ایک بیوی کو اپنے لاپتہ شوہر کے لیے آواز اُٹھانے سے روک پائی ۔ موسم بدلتے ہیں، عام لوگوں پر شاید ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا لیکن جن کے پیارے لاپتہ ہیں ان کے لیے ہر گزرتا دن ایک عذاب ہے۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ ان کے پیاروں کی شبیہ ان کے ذہن کے پردے پر نمودار نہ ہو ، کھانے کے ذائقے پیکھے ، تفریح اور تہوار کی خوشیاں ماتم کنان ہوتی ہیں ۔ دسترخوان پر ہر ایک نوالہ اُٹھاتے ہوئے آنکھیں اُس پیارے کو تلاش کرتی ہیں اور یہ خیال ان نوالوں کو زہر بنادیتا ہے کہ ہمارے جگرگوشہ نے کھانا کھایا ہوگا بھی کہ نہیں ؟ میں تو آج یہ لذید کھانے کھارہا ہوں اور وہ جانے کس حال میں ہے ؟ نرم بستر بھی کانٹوں کی طرح چھبتا ہے کہ میراجگرگوشہ جانے ٹارچرچیمبرمیں کس طرح کی اذیتیں سہہ رہا ہے ۔ 

میں نے چیئرمین زاہدجان کے نام سے ٹارچرچیمبر سے خیالی خطوط لکھے تھا ، ایک خط شبیر کے نام تھا ، شبیر نے مجھے بتایا کہ اس جگہ جہاں میں نے زاہد کی پیاس کی شدت اور پانی کے طلب کا ذکر کیا تھا ، پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں اور میری آنکھیں شبیر کانام سنتے ہی دھندلاجاتی ہیں ۔ میں جس نے بمشکل چند دن ، چند گھنٹے شیر کے ساتھ گزارے ہیں ، ہمارے درمیان اکثر فون پر ہی باتیں ہوتی تھیں مگر میں ان سمیت اپنے اسیردوستوں کا ذکر سن کر یا سوچ کر بے چین  ہوجاتا ہوں ، تو ایک ماں ، بہن ، باپ ، بھائی ، بیوی ، بیٹی اور بیٹے کی کیا حالت ہوگی ؟

یہ ایک تصویر جس میں ایک بہن اور بیوی ، رورو کر حکمرانوں سے اپنے پیارے کی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہیں ، اس احساس کو بیان کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن مکمل درد کا احاطہ کرنے سے یہ تصویر بھی قاصر ہے ۔ درد کی جو ٹھیس ان دلوں سے اُٹھتی ہیں ،یہ وہی جانتے ہیں جن پر گزررہی ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے پر خوف نے ایسی بے حسی طاری کی ہے کہ ہم ان آنسوؤں کو پونچھنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بولنے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ 

بلوچی زبان میں سوتیلی ماں اور سوتیلے باپ کے لیے الفاظ ہیں لیکن سوتیلے بھائی اور سوتیلی بہن کے لیے کوئی لفظ نہیں کیوں کہ یہ وہ رشتے ہیں جن میں سوتیلاپن نہیں ہوتا لیکن غلامی ایک ایسی لعنت ہے کہ وہ سماج کو کھوکھلاکردیتی ہے۔ طویل غلامی نے بھی بلوچ سماج کو اس کے اقدار سے بتدریج دور کردیا ہے ، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سماج میں نفرت اور خودغرضی کی بیج بوئی گئی جو اب ایک درخت بن کر پھل دے رہا ہے۔ اس لیے ہزاروں گمشدگان کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کی بات زبان پر لانے سے ڈرتے ہیں ، ان کواس خوف نے مُردوں سے بھی بدتر کردیا ہے کہ اگروہ اپنے پیاروں کے لیے آواز اُٹھائیں گیں تو انہیں بھی سزادی جائے گی ۔ ایسے میں شبیر بلوچ کے خاندان کی خواتین کا احتجاج ، اس خوف کو شکست دینے کی ایک کوشش ہے ، اگر اس احتجاج میں دیگر گمشدگان کے لواحقین کو بھی شامل ہوں تو یہ آواز اور بھی زیادہ موثر ہوگی ۔لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ بات سمجھنے ہوگی کہ کسی بھی جرم کی سزا ماورائے عدالت گرفتاری ، گمشدگی اور قتل نہیں ۔ 

سیاسی اور سماجی تنظیموں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر منظم احتجاج کی منصوبہ بندی کریں اور نہ صرف لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے موثر آواز اُٹھائیں بلکہ ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں میں ملوث عناصر کو سزا دینے اور گمشدگان کو معاوضہ دینے کا بھی مطالبہ کیا جائے تاکہ ایک مثال قائم ہو اور مستقبل میں کوئی قانون نافذکرنے والا ادارہ کسی کو بھی ماورائے عدالت گرفتار کرکے گم شدہ کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ یاد رکھیں کہ یہاں ایک آزمودہ طریقہ ہے کہ کسی بھی تحریک کو مصلحت آمیزی کے نام پر دبوچ لیا جاتا ہے ، سچ کو تسلیم کرتے ہوئے بھی ہزار حیلے بہانے ایسے تراشے جاتے ہیں جوریاست کے نام پر دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کو اس بدمعاشی کا جواز فراہم کرتے ہیں ۔ 

نفسیاتی طور پر اس طرح کے پرتشدد ہتھکنڈے ان اداروں کو تباہی کے دہانے پر لاتے ہیں اور وہ اداروں کی بجائے کسی شیطان سرشت بدروح میں ڈھل جاتے ہیں جن کو اپنے برے کردار سے محبت ہوجاتی ہے ۔ ان کے اہلکار ببانگ دہل اپنی طاقت سے لوگوں کو ڈراتے ہیں ، راہ چلتے بھی وہ اپنے چہرے پر دنیا کی خباثت ڈالے گھومتے ہیں اور وہ اس ڈر کو اپنا ڈھال بنالیتے ہیں۔ جیسا کہ ایک نشہی خمار کا مزا لیتا ہے یہ بیچارے بھی اس احساس سے پِنکی لیتے ہیں کہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔ آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کو بھی پتا ہے کہ بلوچستان ، پختونخواہ اور سندھ میں ان کا کردار انسانیت سوز ہے ۔ کسی بھی ریاستی بندوبست میں جب مقتدراعلی ’’گبرسنگ‘‘ کی طرح کی حرکتیں کرنے لگے وہاں ادارے خونخواہ بن جاتے ہیں اور جن کے منہ کو خون لگے پھر وہ اپنے اور پرائے میں فرق نہیں رکھتے ۔ جس طرح بالتریب مختلف ادوار میں عربوں ، ترکوں اور افغانوں نے اسلام کو اپنے توسیع پسندانہ عزاہم کے لیے استعمال کیا ،مقامی تہذیب و تمدن کو بالادست قوم نے ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے قوت متحرکہ یا ریاستی آلہ کاروں کو ایک نظریہ دیا جاتا تھا اور وہ اپنے ہر دہشت گردانہ حملے کا آغاز ’’بانگ محمدی ‘‘ سے کرتے تھے ۔ یورپ سے پرتگیز اور انگریزوں نے افریقا اور ایشیا ء کو تاراج کرنے کے لیے سلطنت عثمانیہ کی بخوبی نقل کی اور ان کے بحری قزاق صلیب گلے میں لٹکائے ، سمندر اور ساحل پر غارت گری کرتے تھے ۔ ان کی ذہنی تربیت اس طرح کی جاتی تھی کہ وہ آزادانہ کارروائیاں کرنے کے باوجود اپنے مرکزاور دین کے خود کو پابند سمجھتے تھے ، آج بھی پرتگیز اور ترک ان بحری قزاقوں کو اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔
پاکستانی فوج کا پوشیدہ ہدف بھی" پنجابی اقتدار" کی توسیع پسندی ہے ، جسے پاکستان اور اسلام کا لبادہ اُوڑھا گیا۔ 

لیکن عسکری طاقت کا غرور کسی بھی قوم کو ترقی کرنے نہیں دیتاعین ایسا کہ پاکستانی فوج کی زبرست منصوبہ بندیاں اور فلک شگاف بانگ حیدری اور بانگ محمدی(اللہ اکبر) بھی ان کے افسران کو کرپشن سے نہیں روک پائے۔فوج نے ملکی معشیت کو جونک بن کر چوس لیا ہے اور فوجی افسران نے دیمک کی طرح چاٹ کر فوجی اداروں کو کھوکھلا کردیاہے ۔ فوج کو جنگی منافع خور چلاتے ہیں جن کو حالت جنگ ، راس آتا ہے مگرعسکری طاقت کے غرور کی شکار قوم اپنے ہی فوجی طاقت کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں ۔ بڑی فوج کو پالنا آسان کام نہیں۔ لوٹ مار سے بھی جب غنیمت نہ ملے تو فوج اپنے ہی لوگوں کا گوشت کھانے پر تُل جاتی ہے ۔ پاکستان کی فوجی بدمعاشیوں نے اسے اسی صورتحال سے دوچار کیاہے ۔

لاپتہ لوگوں کا مسئلہ اب پاکستانی بندوبست میں کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں  رہا بلکہ یہ ایک سنگین انسانی مسئلے کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔ سیما اور زرینہ کے آنسو لاپتہ خاندانوں کی ناامیدی کی کھیت پر امید کی بوند بن کر برسے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی بھی خاندان ایسا نہیں جس کا کم از کم ایک شخض لاپتہ نہ ہو یا اس کی مسخ لاش نہ ملی ہویا پھر وہ جبری جلاوطنی کا شکار نہ ہواور اگر یہ سب سیما کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں تو یہ آنسو پاکستان کو حقیقی معنوں میں بہا لے جائیں گے۔ مگریاد رکھنے کی بات پھر بھی وہی ہے کہ بغیرتی کی حدتک مصلحت پسندانہ سیاست بھی ہمارے ارد گرد منڈلارہی ہے جو براہ راست مقتدرہ کی باندی ہے اور بہرحال اسی کا بھلا چاہتی ہے۔ یہ ہم کو ڈرائے گی ، غلط مطالبوں کی خوشنما تعبیریں کرکے لاپتہ اسیران کی تحریک کے جواز کو ماند کردے گی ، ہماری چھوٹی کامیابیوں کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کرئے گی کہ ہم اپنے ہی بے مقصد حرکتیں دہرا دہرا کر تھک جائیں گے اور وہ منزل جس کی ان آنسوؤں سے دھلنے کی امید بندھی ہے پھر سے دھندلاجائے گی ۔ 

ہمیں اپنی مثبت طاقت کو بڑھانے کے لیے پشتون رہنماء ملابھرام کے آنسوؤں کے پس پردہ ’’مشترکہ درد‘‘ کی کتاب پڑھنی ہوگی ۔ ہمیں آمنہ مسعود جنجوجہ کے درد کو محض اس لیے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ ان کا شوہر مذہبی خیالات رکھتے تھے تو کسی بھی ملک کی فوج کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے خفیہ طور ہر بیچ دے ، خرید لے یا ماورائے عدالت قتل کردے ۔ ہم جو حق اپنے لیے مانگ رہے ہیں وہ انسان کا استحقاق ہے ۔ یہ منزل انسانیت کی ہے محض بلوچیت کی نہیں اوربلوچیت کا معراج بھی انسانیت ہے۔ بلوچ قومی آزادی تو ایک پڑاؤ ہے جہاں سے ہمیں اپنی اصل منزل انسانیت کی طرف سفرکرنا ہے ، جس کا خواب شبیر نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہے جو باباخیربخش اور واجہ غلام محمد کا نظریہ ہے ۔

سطحی طور پر دیکھنے والی نگاہیں ، گہراتی تک نہیں دیکھ پاتیں تو وہ جبر کے خلاف مظلوم قوم کی جدوجہد کو بھی شاونزم سے آلودہ کردیتے ہیں جو ننگ انسانیت ہے ۔ باباخیربخش مری سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ مری ہونے پر سب سے زیادہ فخرکرتے ہیں یا بلوچ ہونے پر ؟ 

ہمارے طرح کا کوئی سطحی شخص ہوتاتو کھٹاک سے جواب دیتا ، میں مری نہیں ، سب سے پہلے بلوچ ہوں ۔ لیکن آپ ایک زیرک انسان اور عمر کے ایسے حصے میں تھے کہ آپ بذات خود مجسمہ علم بن چکے تھے ،فرما یا:’’ میں  مری ہوں ، بلوچ ہوں اور اس سے آگے انسان بننا بھی چاہتا ہوں ۔ ‘‘

کتنی گہری بات ہے ،اگر مقصد کو پالیا جائے تو ایک نظریہ ہے ، بلوچ تحریک کی منزل کی اس سے بہتر نشاندہی نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے میں اپنے دوستوں کو باربار میں یہ یادہانی کراتا ہوں کہ’’ نیشنل ازم کا معراج انسانیت ہے ۔‘‘اور ’’ نیشنل ازم کا زوال شاؤنزم ہے ۔‘‘

ملا بہرام کے آنسوؤں کی چمک میں مجھے اسی منزل کی شبیہ نظرآتی ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ ہم لاپتہ بلوچ اسیران کی بازیابی تحریک کیمپ سے اپنی منزل کی طرف کمند لگاکر پہنچ سکتے ہیں اور جب وہ منزل مل جائے توپھر قومی آزادی کو شرمندہ تعبیر ہونے میں کوئی قوت نہیں روک سکتی ۔ جس معاشرے میں انسان آزاد ہوں وہاں اقوام غلام نہیں رہ سکتے۔ زمین کی آزادی سے اگر آزادی ملتی تو آج عرب دنیا روبہ زوال نہیں ہوتی ۔ان کے پاس پیسہ بھی ہے ، زمین بھی آزاد ہے مگر انسانیت آزاد نہیں توان کی دنیا بھی ہچکولے لے  رہی ہے ، اب فنا ہوئی کہ تب فنا ہوئی کی کیفیت میں ہے ۔ 

ملابہرا م کے آنسوؤں کی لکھی کتاب بنام ’’مشترکہ درد ‘‘ کے ایک صفحے پر میں نے لکھا ہوا پڑھا ہے کہ’’ لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف ایک قوم کا مسئلہ نہیں’’ انسانیت کا مسئلہ‘‘ ہے ۔ ہمیں بلاتفریق رنگ ، نسل ، مذہب ، فرقہ ، سیاست ، عقیدہ اور زبان ایک مشترکہ فلیٹ فارم پر اکھٹے ہوکر پاکستانی بدمعاش ریاستی فوج کے ہاتھو ں ماورائے عدالت گرفتار افراد کی بازیابی کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے ۔ ‘‘

 یہ بات تاکیداً لکھی جاتی ہے کہ’’ محض ایک دولاپتہ افراد کی بازیابی اس تحریک کی منزل نہ ہوبلکہ ان بدمعاشوں سے مکمل حساب مانگاجائے ۔ مقتولوں کا خون بہا بھی لیں، ذمہ دارو ں کو فردافردا واضح سزا ملنی چاہیے ، یہی حقیقی انصاف اور اس تحریک کی فتح ہوگی ۔لاپتہ اسداللہ مینگل اور احمدشاہ کرد سے شروع کرنا ضروری ہے یا اس سے پہلے مری علاقوں میں بلوچ خواتین سمیت سینکڑوں لوگ اغوا کیے گئے تھے ، آج تک لاپتہ ہیں ۔ خواتین کو خلیجی ممالک میں بطور کنیز فروخت کردیا گیا ، یا جو ستم ، سندھ اور پشتونخوا میں ڈھائے گئے ، ان کو درگزر کرکے ہی آج ہم اس حال میں پہنچے ہیں ۔‘‘

ٓآج وہ گھڑی ہم پر گزر رہی ہے کہ ہمیں کراچی اور حیدرآباد میں مہاجروں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بھی سوچنا چاہئے ۔ جب روزانہ مہاجر نوجوانوں کی بوری بند لاشیں ملتی تھیں ، ریاستی سرپرستی میں شیطان صفت غنڈے گھروں سے صرف لوٹ مار ہی نہیں کرتے تھے بلکہ عوتوں کا ریب بھی کرتے تھے ۔میرے کانوں نے یہاں تک سنا ہے کہ ظالموں نے ریاستی شہہ پرکئی مہاجرخواتین کے پستان بھی کاٹے تھے ۔ جب تک ہم ظالم اور مظلوم ، حق اورباطل، قومی مفاد اور گروہی مفاد ، نیشنل ازم اور شاؤنزم کے درمیان لکیر کھینچ کراپنے مقام کا تعین نہیں کریں گے ۔ آنسوؤں کی لکھی یہ’’ کتاب ‘‘بے معنی ہے ۔اور ہم اس کتاب کونہ سمجھیں تو شاؤنزم نیشنل ازم کو ہڑپ کرئے گا ، گروہی مفاد قومی مفاد پر حاوی ہوں گے ، باطل حق کو دھول چٹائے گا اور مظلوم کی گردن ظالم کے پاؤں کے نیچے دبی رہے گی ۔ 

میں بی ایس او کی سیاست سے روزاول سے ہی اختلاف رکھتا تھا ، مجھے بی ایس او کی تمام شکلیں طفیلی اور غیرطلبا ء قیادت میں جھنڈا بردار نظرآتی تھیں ۔ بی ایس او کے قائدین کا علم وادب سے زیادہ کُشتی سے نسبت لگتا تھا اس کی وجہ ان کا جسمانی قدوکاٹھ بھی تھا وہ عام طالب علموں سے جسامت میں اکثر بڑے ہوتے تھے ، کچھ طلبا ء رہنماء مجھے طالب علم سے زیادہ پیشہ ور چرسی نظر آتے تھے ۔ میں اپنے زمانے کی بات کررہا ہوں بلاشبہ بی ایس او کا ایک سنہرا بھی دور بھی رہا ہے۔ جس اسکول میں مجھے پہلی مرتبہ پڑھانے کی کوشش کی گئی ، وہ وژدل محلہ اسکول تھا ، اس زمانے میں اسکول کی ایک کمرے پرمشتمل شکستہ عمارت ، شاہی بازار کے عقب میں واقع تھی ۔میں نے سنا ہے کسی زمانے میں وہ بی ایس او کی پبلک لائبریری تھیجس میں تعلیم بالغان کی کلاسیں بھی لگتی تھیں اور شہر میں ایسی دیگر لائبریاں بھی تھیں ۔ لیکن سن شعورمیں ہم نے جو بی ایس او دیکھی وہ کتابوں سے دور ہوکر پوسٹروں کے قریب ہوچکی تھی ، پھر گانے بجانے ، ٹوپی ، ٹی شرٹوں اور سیاہ چادروں کا دور دھوم دھڑکے سے آیا ۔
 
میں سیاست کی بجائے صحافت پرتوجہ مرکوز رکھنا چاہتا تھا اور کم از کم بی ایس او میں شمولیت کا میں نے ہرگز نہیں سوچا تھا ۔ میرے قریبی دوست شہیداحمد داد اور شہیدلالاحمید بھی میرے ساتھ صحافت کررہے تھے ،لالاحمید پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہونے کے باوجو بی ایس او مینگل میں تھے، حالانکہ ان کی فیملی نیشنل پارٹی سے وابستہ تھی۔ انہی دنوں سنگل بی ایس او کا اعلان ہوا ، گوادرمیں اس وقت تک ہم دوست ایک وسیع غیر تنظیمی سرکل بناچکے تھے اورہم بظاہر مختلف سیاسی جماعتوں کے بھی قریب تھے ۔مجھے شہیداحمدداد نے بی ایس او میں شامل ہونے کے لیے کہا ، لیکن تکنیکی طور پر اس میں رکاوٹ یہ تھا کہ سنگل بی ایس او کے قیام کے لیے جو طلبا ساتھ بیٹھ رہے تھے وہ بی ایس او کے کسی نہ کسی دھڑے کے ممبر تھے۔ نیشنل پارٹی دھڑے کے رہنماؤ ں نے مجھ پر اعتراض اُٹھایا کہ میں کسی دھڑے کا ممبر نہیں ،اس کا توڑ نکال کر بی ایس او مینگل نے مجھے رکنیت دے کر اس پراسسز میں شامل کیا ۔ شہیداحمدداد نے مجھے راضی کیا کہ ہماری کوششوں سے بلوچ طلبا سیاستکے مزاج میں تبدیلی آئے گی اورجیسا کہ سنگل بی ایس او کا مقصد ہے بلوچ طلباکو ایک ایسا فلیٹ فارم مہیا کیا جائے جو سیاسی جماعتوں کے اثرات سے آزاد ہو ۔ سنگل بی ایس او کا رسمی اعلان بھی گوادر میں ایک جلسہ عام میں ہونا تھا ۔ میں نے ہچکچاہتے ہوئے بی ایس او میں شمولیت اختیار کی اُس مختصر دورانیہ کی بی ایس او میں جس کا کوئی دوسرا دھڑا نہیں تھا ۔لیکن پہلے اجلاس میں ہی سیاسی جماعتوں کے اثرات ہم پر واضح تھے۔اجلاس میں شریک ہونے والے مرکزی کمیٹی کے ممبران طے شدہ ایجنڈہ لے کر آتے۔گوادر میں بی ایس او متحدہ نہیں تھی ، نہ ہی اس وقت ہمارے ذہن میں بی ایس او متحدہ کی سوچ تھی لیکنہم تمام قریبی دوست بی ایس او کی مکمل خودمختار حیثیت کے حامی تھے ۔مگرہمارے ساتھ سیاسی جماعتوں کے دھڑوں سے وابستہ عناصر نے ایسا کھیل کھیلا کہ کونسل سیشن سے پہلے ہمارے تمام متحرک دوست معطل کردیئے گئے ، مجھے روزنامہ توار میں چھپنے والے بی ایس او سے متعلق ایک خبر کو بنیاد پر معطل کیا گیا ، کیوں کہ میں گوادر میں روزنامہ توار کا بیوروچیف تھا البتہ وہ خبر میرے علم میں لائے بغیر اسماعیل بلوچ نے چلائی تھی جو عملی طور پرمیرے چیف تھے ۔اس معطلی پر ہمارے دوستوں نے سوال اُٹھایاجواباً ’’ باجماعت‘‘ معطل کردیے گئے۔ سیشن میں بی ایس او پھر سے ٹکڑوں میں بٹ گئی ، نیشنل پارٹی اور بی این پی نے اپنا حصہ بٹورا ، بی ایل اے اور بی ایل ایف نے اپنے نظریاتی نعرہ بازوں کو الگ کرکے بی ایس او آزاد کا نام دے دیا ۔ سچائی تو یہ ہے کہ بی ایس او آزاد بھی اتنی ہی آزاد تھی جتنی بی ایس او پجار اور بی ایس او مینگل، فرق ہے تو بس اتنا کہ بی ایس او آزاد بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے ایک واضح نکتہ نظر رکھتی تھی اور باقی دونوں ظاہرو باطن طفیلی تھے ۔ 
 
میں نے بی ایس او آزاد اور اس کی سرگرمیوں کی بنیاد پر ہو تین ہونہار نسلوں کو مِٹتے دیکھا ۔ہم دوستوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی بی این ایم میں شمولیت اختیار کی ، ہم محض اس نکتے پر قائل ہوئے کہ سوچ اور الفاظ کو عملی جامہپہنانے کے لیے میدان عمل کا حصہ ہونا چاہئے۔ میں نے بی ایس او کے دوستوں سے ہمیشہ کہا کہ وہ عوامی سیاست سے اجتناب کریں یہ ان کا مینڈیٹ نہیں ہے ۔ لیکن شہیدقیوم کامریڈ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ بلوچستان میں ماس پارٹی نہ ہونے کا خلا ، بی ایس او پُر کررہی ہے ۔ مجھے عجیب لگتا کہ اسی بی ایس او سے نکل کر بی این ایم میں شامل ہونے والے کس خلا کو پُر کررہے ہیں ؟ ، میں کبھی اس سوچ کے منبع تک نہیں پہنچ پایالیکن مجھے اس بے اطمینانی کے پیچھے بلوچ آزادی پسندوں کے درمیان وہی اختلافات نظر آتے ہیں جو آج کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ ان ہی اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے بلوچ قوم کے مستقبل کو آگ میں جھونک دیا ۔ 
 
دوہزاردس میں میں نے بلوچ آزادی پسندوں کو ایک خط لکھا تھا، اس میں میں نے دیگر کئی تجاویز کے ساتھ یہ تجویزبھی پیش کی تھی کہ بی ایس او کو عوامی سیاست سے دور رکھا جائے ۔ ہماری کسی نے کب سنی؟ بی ایس او آزادسالوں اسی کیفیت میں رہی کہ وہ ’’ ماس پارٹی‘‘ کا خلا پُرکرئے گی ۔ بی ایس او ، دو آزادی پسند جماعت بی آر پی اور بی این ایم کے درمیان مجوزہ اتحاد میں بھی رکاوٹ بنی رہی ۔ بی آر پی کا موقف تھا کہ بی آرایس او کو بھی اسی طرح ایک برابرفریق کے طور پر بی این ایف کے اتحاد میں شامل کیا جائے جس طرح بی ایس او آزاد کو شامل کیا گیا ہے جب کہ بی ایس او ، بی آرپی کو آزاد تنظیم تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی ، اصولی طور پر بی این ایف کے اتحاد میں طلبا ء تنظیموں کی شمولیت ہی بے جوڑ تھی ۔ اور بی ایس او آزاد کی مکمل آزاد تنظیمی حیثیت کا دعوی بھی مشوک تھا ۔ 
 
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی سرگرمیاں بطور صحافی اور علم دوست ہمیشہ میری توجہ کا مرکز رہے ہیں ، جب میں نے ان کے مرکزی کونسل سیشنکے انعقاد کا سنا تو خوشی اور بے چینی کے ملے جلے احساسات نے گھیر لیا ۔ میں اسی دن سے ان گزارشات کو لکھنے کا سوچ رہا ہوں لیکن گردش دوران میں گرفتار کوئی بھی کام وقت پر نہیں ہوپا رہا ۔ خوشی بی ایس اے سی کی کامیابی کی تھی اور تشویش اس بات کی کہ ہماری اکثر تنظیمیں کامیاب کونسل سیشن کے انعقاد کے بعد ہی بکھر گئی تھیں ، بی ایس اونے تو ہرسیشن کے بعد تقسیم کاایک رکارڈ بنا رکھی تھی ۔ اس لیے میں سانپ کا ڈسا رسی سے بھی خوفزدہ تھا ۔
 
بی ایس اے سی کو حتی الوسع ان غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو بی ایس او نے کیے ہیں ۔ ایک طالبعلم کی واحد ذمہ داری حصول تعلیم ہے ، اس کی سرگرمیوں کا محور متعلقہ شعبے میں مہارت حاصل کرنا ہے ۔ عام لوگ دوسرے کی غلطیوں کیبجائے اپنی غلطیوں سے عبرت پکڑتے ہیں لیکن بعض غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوتی اور ایک طالبعلم کے لیے اُس کا وقت ہی اس کا سرمایہ ہے ، جو ہاتھ سے نکل گئی تو پھر اسے واپس حاصل کر نے کا امکان نہیں ۔ طالب علموں کا خاصہ یہ ہے کہ وہ دوسری کی غلطیوں اور کامیابیوں کا تجزیہ کرکے اپنے منزل کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور طلباء تنظیم ایک علم پرور ادارہ ہوتا ہے ۔ ماضی میں بلوچ طالب علموں کا نظریاتی استحصال محض غلطتعلیم وتربیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ خوشنما نعروں کی بنیاد پر بھی کیا گیا۔جس طرح ایک نعرہ مذہب کی بنیاد پر لگا کر ذہنوں پرایک مخصوص ٹوپی چڑھایا جاتاہے اسی طرح قوم دوستی کا نعرہ اگر طالب علم کے تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہو تو وہ اس قوم کے معماروں کا بیڑا غرق ہوتا ہے ،جس طرح ہمارا ہوا ۔ 
 
پھر ایک وقت ایسا آتا ہے یہی قوم دوست جو کل تعلیمی اداروں میں نعروں کی ہوائی فائرنگ کررہے ہوتے تھے ، دانشورانہ ، سائنسی اور علمی رہنما ئی کاتقاضا کرتے ہیں ۔ بی ایس او آزاد جیسی تنظیم کہاں سے پی ایچ ڈی پیدا کرتی جس کا چیئرمین یونیورسٹی کی بجائے کسی اور درسگاہ میں تعلیم حاصل کررہا تھا ؟ پھر جے جے کار بھی دانشور کا ، رونا بھی دانشورانہ اپروچ کے نہ ہونے کا ۔ طلب بھی ہرکام میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا تو یہ منافقت نہیں ؟ 
 
بی ایس او کو کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر وہ ہرسال ہزاروں کے حساب سے زندگی کے مختلف شعبوں میں تعلیم یافتہ قوم دوست افراد فراہم کرتی تو آج بلوچ قوم کی سماجی حالت بہتر ہوتی ۔ بی ایس او کی ماس پارٹی بننے کی سوچ نے اسے گمراہ کردیا ، تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوا ، لکیر کے ایک طرف بی ایس او کا بیانیہ تھا ، جس کا اظہار’’ حمایت سرمچاران ریلی‘‘ کی شکل میں کیا گیا اور دوسری طرف وہ طالب علم تھے جو اپنا طالب علمانہ فریضہ پورا کرنا چاہتے تھے ، وہ ناچار لکیر کے اس طرف تھے جہاں ان کی منزل بلوچ قومی بقا ء کے برخلاف طے ہونا تھا ۔ 
 
میری یہی استدعا ہے کہ بلوچ طلبا ء کی اس تنظیم کو کسی بھی قسم کی سیاسی نعرہ بازی سے گریز کرنا چاہئے ، اس تنظیم کی ذمہ داری ہے کہ بلوچ طلبا ء میں بردباری اور صبر پیدا کریں جو ان کی علمی ترقی میں کردار اداکریں ، جذباتیت اور رومانویت سے بلوچ طلبا ء کو محفوظ رکھنے کے لیے علماء کی خدمات حاصل کرکے اس سلسلے میں تربیتی پروگرامات کریں ۔ بلوچستان کے حالات دگرگون ہیں ، لاتعداد مسائل موجو د ہیں لیکن انہیں اپنے والدین کا محتاج ایک طالب علم حل نہیں کرسکتا بلکہ زندگی کے سردوگرم سے آشنا تعلیم یافتہ شخص ہی ان کے حل کے لیے ایک بہتر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے اور اس صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے جتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے پہلے اسے صبر وتحمل سے حاصل کیا جائے ۔ جس وقت کوئی طالب علم کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لیتا ہے ، اس سے پہلے اس تعلیمی ادارے اسی کی سیٹ پر بیٹھا ہوا ایک شخص فارغ والتحصیل ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھ چکا ہوتا ہے ، کچھ کام اپنے اس پیشرو کے کرنے کے لیے چھوڑ دینا چاہئے ۔ میں یہاں محض پارلیمانی سیاست سے اجتناب کی بات نہیں کررہا بلکہ نظریاتی اور مذہبی سیاست کو بھی طلبا ء تنظیموں پر حاوی نہیں ہونا چاہئے البتہ ثقافتی میدان میں بی ایس اے سی کی ایک علم پرور ذمہ داری ضرور بنتی ہے ۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے سیشن میں بھی کیا ہے کہ انہوں نے شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ دو زندہ بلوچ ادیبوں کے نام پر سیشن کا انعقاد کیا بلاشبہ واجہ عبدالرحمن براھوی اور واجہ مبار ک قاضی اس کے مستحق ہیں ۔ آج بلوچوں کی دونوں زبان علمی طور پر انحطاط کا شکار ہیں ۔ اسی پروگرام میں جناب ڈاکٹرمنظوربلوچ نے اپنے ابتدائی کلمات تو براھوی زبا ن میں اداکیے لیکن انہوں نے بوجوہ بلوچی یا براھوی میں تقریر کرنے کی بجائے اردو میں تقریر کی ، جو ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ اس پر سوچتے ہوئے بلوچ طالب علموں کو اپنی زبانوں کی بقا کے لیے خصوصی پروگرامات کرنے ہوں گے اور بلوچی کوباہمی رابطے کی مستحکم زبان بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔


چُک اِیں بلوچانی: بلوچ قبیلہ سے لے کر قومی تشکیل تک ، ایک مطالعاتی تبصرہ

تیسراحصہ 

دوسراحصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

بلوچ قومی شناخت کی قدامت:

سیدھاشمی کے اس واضح دعوی کو نہ جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو اسی طرح قبول کرنا ممکن ہے جس طرح
سیدہاشمی فرماتے ہیں ۔ کیوں کہ مورخین نے ایرانی تاریخ کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی بنیاد پر ہم تمام ادوار کو تاریخی واقعات اور سلسلہ حکومتوں کے ذریعے کڑی در کڑی پیوست کرکے ایک زنجیر کی صورت دے سکتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں وہ تمام رشتوں کی تفصیل دینا ممکن نہیں جو اس عظیم سلسلہ حکومت کی تشکیل کا باعث بنے
چُک اِیں بلوچانی:بلوچ قبیلہ سے لے کر قومی تشکیل تک ، ایک مطالعاتی تبصرہ

 دوسرا حصہ



بلوچ شناخت کی قدامت:

  بلوچ موجودہ نسلی آمیزش، مہاجرت در مہاجرت ، آبادکاریوں اور نئے قومی ڈھانچے میں ڈھلنے سے پہلے عظیم ایرانی قوم کا حصہ تھا ۔ بلوچوں کے بارے میں اس دعوے کو مکمل رد کیا گیا ہے کہ بلوچ عربی النسل قوم ہے البتہ جس طرح بلوچوں میں دیگر نسلوں کی آمیزش موجود ہے اسی طرح عرب گروہ بھی قلیل تعداد میں بلوچ قوم کاحصہ بن چکے ہوں گے لیکن جس طرح بلوچوں نے موجودہ مشرقی بلوچستان کے وسطی علاقوں میں مبینہ طور پر دراوڑی قبایل کو اپنے اندر ضم کیا ، سندھی قوم کے ساتھ ثقافتی اورنسلی رشتے قائم کیے، پنجاب کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے وہاں نوآدیاں قائم کی اور سرائیکی شناخت کا محرک بنے، ہندوستان سے ہنرپیشہ افراد جم غفیر کی صورت بلوچستان اور بلوچ قومی
پہلا حصہ 
بلوچ بطور قبیلہ:

بلوچ ایک قوم ہے ، قومیں مساعد اور نامساعدحالات میں اپنے تشخص ، اقدار اور قومی یک جہتی کے لیے کوشش کرتی ہیں ۔ قومیں مختلف حادثات اور واقعات کی وجہ سے بنی ہیں ۔ بنیادی طور پر بیشتراقوام کی جڑیں ایک ہیں جیسے کہ بلوچ قوم ماضی کی پارسی قوم کا حصہ تھی، جس کی اپنی ایک جداگانہ تاریخ بھی ہے ۔ قومی ڈھانچے کی تشکیل صدیوں میں ہوتی ہے جو قبیلہ کسی بڑی قومی اکائی سے علیحدہ ہوکر نئی شناخت کے سانچے میں ڈھلتا ہے وہ اس سے پہلے قومی صفات کے حوالے سے نمو پاچکا ہوتا ہے ۔اس عمل کے لیے ضروری سیاسی قوت اسے حاصل ہوچکی ہوتی ہے اور قومی وفاق کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اس کی
سیاسی سنّت مئے کر ءَ نیکیں مستاگے رنگے ءَ سما کنگ بیت اَنچوش کہ کسے ءِ پْرشتگیں ھَڈے جوش بہ گیپت ، دو زھریں برات وشا ن بہ بیت ۔ سیاسی سَنّت کجام لوٹانی پد ءَ اَرزش دار اِیت ھما لوٹاں کس سھرا نہ کنت ، سیاست ءِ تہ ءَ کسے ابرمانکی ءُ کسے وشمنی بنیاد ءَ گپ جنت لھتے وتی جند ءِ واھگاں یک ڈَک سیاسی راھبند باور کنت، بلے ھمے سسایانی ھدابند ھم ’سنّت‘ءِ باندات ءَ سِتک دْرشانی کن  
اَ نت۔ لس مردم ءِ چوناھیگا مستریں جیڑہ لس مردم بیگ اِنت ۔ ھما یاں کہ و ت ءَ وت گچینی بستار داتگ آ لس مردم ءِ چہ ھمے لس مردمے ءَ سوب چِنگ ءُ آیاں رمگ ءِ رنگ ءَ
Powered by Blogger.