قومیں مرنے سے نہیں ظالم کے آگے جھکنے سے مٹ جاتی ہیں ‘ شہید بالاچ مری 
..................................................................................
بلوچستان پر ہر طرح کے ظلم ڈھانے کے بعد اس سے توقع رکھاجارہاہے کہ وہ چپ رہے لیکن مادر وطن کے فرزند کبھی چپ نہیں رہیں گے ‘نہ ہی مٹ کر ختم ہوں گے‘ ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا


(شہید بالاچ  سے زیر نظر انٹرویو شہادت سے چند مہینے پہلے نامعلوم افراد نے اُن سے دوران جنگ پہاڑوں میں لیا تھا جسے ویڈیو کی صورت میں مختلف پریس کلبز اور جگہوں پر پھیلا یا گیا ۔آج بالاچ  کی شہادت کے بعد ان کی زندگی اور افکار کے بارے میں ہر کوئی خاص طور پر بلوچ نوجوان جاننا چاہتے ہیں ۔ ایک گھنٹے پر مشتمل اس ویڈیو انٹرویوکو تحریر ی صورت میں تکنیکی ضروریات کے تحت الفاظ کی درستگی اور صحافتی مجبوریوں کی بناء پر ترمیم کے بعد توارکے قارئین کی خد مت میں پیش کیا جارہاہے جس میں شہید نے قومی تحریک کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کرنے کے علاوہ سانحہ تراتانی کے تفصیل سے بھی آگاہ کیاہے ۔ تحریر وترتیب : قاضی داد محمد ریحان)

سوال :27اگست کے اصل واقعات کے بارے میں آگاہ کریں جس میں نواب اکبر خان بگٹی شہید ہوئے اور آپ بچ گئے ‘حقائق کیا ہیں ؟

جواب :23اور 27اگست کا جو سانحہ ہوا 23اگست کو شروع نہیں ہوتا بلکہ اس کی کڑیاں اس وقت سے ملتی ہیں جب نواب صاحب نے ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کیا تھا تب سے ان پر تسلسل سے حملے کئے گئے ۔ تاثر دیا جاتاہے کہ ان پر ہونے والا یہ حملہ ایک ناگہانی واقعہ تھا ۔ان حملوں سے پہلے کچھ ایسے واقعات گزرے جوکافی نمایاں تھے اور ذرائع ابلاغ میں بھی آئے ہیں ۔یہ روزانہ کامعمول بن گیاتھا پچھلے آٹھ نو مہینوں سے ۔ نواب صاحب جہاں پر بھی جاتے وہاں دور مار گولہ باری اور گن شپ ہیلی کاپڑوں سے فائرنگ ہوتی یا بمباری یا پھر اکثرجیٹ طیاروں سے ان کے ٹھکانوں پر حملہ ہوتا۔اس لئے نواب صاحب اکثر جنہیں ھم پیار سے یاپھر کوڈ نام ’’ڈاڈا‘‘سے پکارتے تھے ۔ تاکہ ہم ان کے ٹھکانے یا نقل مکانی کے بارے میں حال احوال رکھ سکیں ۔ نواب صاحب رات کو اکثر ٹھکانے بدلتے اور دن کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی حکمت عملی کے بارے میں ہدایت دیتے ۔ اس کے باوجود جب وہ ٹھکانے بدلتے اگلے دن ‘دوسر ے دن یا ایک دن چھوڑ کران کے ٹھکانوں پر گولہ باری ہوتی اور جیٹ طیارے نمودار ہوتے ۔ ان علاقوں میں ہمیشہ جاسوس طیارے اُڑتے رہتے میرے خیال میں جوان کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات کرتے ۔
نواب صاحب اپنی کمزوری یا بیماری کے باوجود جواُن کے پیر میں تھی ہمیشہ حرکت میں رہتے اور حفاظتی اقدامات پر سختی سے عملدرآمدکراتے ۔ نواب اکبر صاحب کے ساتھ جو 23یا 27اگست کو ہوا۔اسے ناگہانی یا اچانک واقعہ کا نام دیاجائے تو یہ ریاست کی طرف سے پنجابی گماشتوں کی طرف سے جو کہ ریاستی گماشتے ہیں ‘بات کودانستہ چھپانے اور اس کا رخ موڑنے کی کوشش ہے ۔ جو گندگی انہوں نے پھیلائی ہے ۔ جس طرح اُن پیرسن ‘مرد آہن شیر بلوچ کو انہوں نے بڑھاپے میں ہمیشہ ٹارگٹ کیا ۔ لوگوں پر بمباری کی ان سب کو چھپانے کے لئے ایک ڈارمہ بنایا گیا جس کو جواز بناکر یہ کہتے ہیں کہ یہ تو کوئی ناگہانی واقعہ تھا۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ان حملوں کی تعداد دہائیوں میں نہیں بلکہ سینکڑوں تک پہنچتی ہے‘اگر آپ ان کو ٹوٹل کریں۔ اتنے حملوں کے باوجودآدمی یاپھر ریاست کی طرف سے یہ موقف دہرایا جائے کہ یہ ناگہانی حملہ یا واقعہ تھا توبہت بڑی جھوٹ اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے ۔ کیوں کہ نواب صاحب کے ساتھ یہ جوواقعہ ہوااس کے بعد بلوچوں میں ریاست کے خلاف جو ردعمل دیکھا گیا اور جوش وجذبہ پیدا ہو ا‘اس کو ٹھندا کرنے کے لئے یہ سارا کچھ ڈرامہ رچایاجارہاہے ۔ تویہ لمبی بات داستان ہے جس کے لئے اگر میں چاہوں توسارادن بول سکتا ہوں کہ کیا ہوا لیکن جوآپ کا سوال تھا جس میں آپ نے پوچھا کہ یہ 23تا 27اگست کے دنوں میں کیا ہو اتومیں اس کی کچھ تفصیلات میں جانا چاہوں گا۔

سب سے پہلے تو میں یہ بتاؤں کہ 23بلکہ ایک دودن پہلے کافی بڑی تعداد میں فورسز ‘واک کے آگے ایک علاقہ ہے ‘کور دریا ہے پانی ہے اس میں ۔ وہاں سے فورسز نے علاقے کو گھیراکرنا شروع کیایہ 21اگست کاواقعہ تھا ۔فورسز کا گھیراؤ آئستہ آئستہ چلتا رہا۔ پورے علاقے میں فورسز کی مومنٹ ہورہی تھی اور وہ اپنی کارروائیاں کررہے تھے اس لئے ہمیں کوئی خاص عندیہ نہیں مل رہاتھا ۔ لیکن 23کی صبح سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی یہ واک کے علاقے کو فورسز نے تراتانی کی طرف سے مکمل طور پر گھیراکرکے بلاک کردیا اور صبح سات بجے کے قریب دورمار توپوں نے اس علاقے میں شدید گولہ باری شروع کی گوکہ یہ علاقہ کافی وسیع اور کھٹن علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود کہیں سمتوں سے میرے خیال میں لاری (علاقے کے ناموں اور ان کے تلفظ میں غلطی ہوسکتی ہے ۔ راقم ) بھی ہوگا کلی ہے ۔ کافی اور علاقے ہیں جن کو میں نہیں جانتا لیکن کہیں علاقوں سے گولے آکر گررہے تھے ۔ تویہ سات بجے سے نوبجے تک گولہ باری کا سلسلہ چلتا رہے ۔اس کے بعد نو بجے کے قریب کچھ گن شپ ہیلی کاپٹرزنمودار ہوئے انہوں نے آکر اس جگہ ( نواب صاحب کے ٹھکانے ) پر بمباری شروع کردی اور یہ ایک تاثر دیاجاتا ہے کہیں جگہ میں نے ذرائع ابلاغ میں دیکھا ہے کہ بتایاجاتاہے کہ نواب صاحب کا جوخفیہ یا محفوظ ٹھکانہ تھا وہاں سے ہیلی کاپٹرز پر کچھ گولے داغے گئے یہ توبلوچ قوم کو ایک طرح سے بے وقوف دکھانے کی کوشش ہے جس شخص کوپوری بلوچ قوم تحفظ دینا چارہی ہو‘چھپاناچارہی ہو۔ اس کے ٹھکانے سے ہیلی کاپٹرز پر گولے برسائے جاتے ہیں۔

اور اتنے بے وقوف ہیں ۔ مانتاہوں کہ ہمارے وسائل اور کم تربیت کی وجہ سے ہم ریاستوں کے اسٹینڈرڈ پر پورے نہیں اترتے لیکن بلوچ قوم کہ جیسے اپنی گوریلا لڑائی لڑرہی ہے پچھلے ساٹھ سالوں ۔ گوریلالڑائی کوہم بلوچی میں پراری جنگ بولتے ہیں ۔ پراری جنگ جو ہم لڑرہے ہیں اس میں ہمیں کافی تجربہ ہوچکاہے ۔بلوچ قوم جانتی ہے کہ یہ لڑائی کس طرح لڑنی چاہئے ۔ اس میں کسی ریاست کی طرح ایک جگہ ٹھکانہ بناکر وہاں سے گولہ باری نہیں کرتے بلکہ اپنے خاص لیڈران کو محفوظ ٹھکانوں میں رکھتے ہیں جہاں سے اس طرح کی غلطی کا امکان تک نہیں ہے ۔

جوہوا تو میں اس کی تفصیل میں جاناچاہتا ہوں تویہاں صبح نوبجے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے گولے داغنے شروع کئے ۔ اسی دوران ہیلی کاپٹروں نے کمانڈوز بھی اتارنے شروع کردئے اور کچھ ہیلی کاپٹرز کمانڈوز کو فضائی تحفظ دیتے رہے ۔ ہیلی کاپٹرز آتے رہے اور کمانڈوز اتارتے رہے اور علاقوں کو کئی حصوں میں گھیروں میں تقسیم کردیاگیا ۔ نویاگیارہ بجے کے قریب میرے خیال میں تلی دامن کی طرف ایک علاقہ ہے اس طرف سے بھی ہیلی کاپٹرز نے فوجی کمانڈوز گراگر گھیرنا شروع کیا ۔ اس وقت یہ عیاں ہونے لگا کہ ان کو نواب صاحب کا پتا چل گیاہے اور ان کو گھیرے میں لینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ تواس وقت ساتھیوں کی علاقے میں جگہ جگہ ریاستی گماشتے اور پنجابی فوج کے ساتھ لڑائی شروع ہوگئی ۔ لڑائی دیکھتے دیکھتے گھمسان کی شکل اختیار کرگئی اور پھر جگہ جگہ سے گولہ باری اور بندوقوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا اور نواب صاحب کا جومحفوظ ٹھکانہ تھا وہاں پر بڑی تعداد میں ہیلی کاپٹروں اور دور مار توپوں سے گولے گرائے جارہے تھے ۔ آدھے گھنٹے کے وقفوں سے ہیلی کاپٹرنمودار ہوکر یہ کارروائی کرتے جب وہ چلے جاتے تواس دورانیہ میں گولے دور سے گرتے رہتے ۔ تویہ سلسلہ سارا دن چلتارہا۔ پور ی ‘ رات ‘اگلے دن میرے خیال میں دوسری شام تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ تواس وقت بہت بڑی تعداد میں فوج علاقے میں اترچکی تھی اورعلاقے کو چار پانچ ٹولوں کی صورت گھیرے میں لے رکھا تھا تو اس وقت ساتھیوں کے ایک دوسر ے سے رابطے منقطع ہوگئے ۔ ہر ایک اپنی جنگ یا کارروائیوں میں مصروف تھا ۔ کوئی پتا نہیں چلاکہ کون زندہ بچا یاکون ماراگیا۔ جتنے ساتھی موجود تھے وہ لڑتے رہے اور کٹتے رہے کسی کی وہاں سے پسپائی کا عندیہ نہیں ملا اور یہ سلسلہ کچھ رکا نہیں ۔ تواگلے دن جب اخبارات میں یہ با ت آئی ......یہ با ت میں بتانا چاہتا ہوں کہ نواب صاحب کے ساتھ جوساتھی ان کی حفاظت کے لئے تھے ان سے رابطہ ہوا وہ بھی لڑرہے تھے جوکچھ ساتھی ان کے ساتھ تھے اورآخری وقت تک ان کے ساتھ رہے اورآج تک خود نواب صاحب کے ساتھ لاپتہ ہیں ۔ تویہ غلط تاثر ہے کہ نواب صاحب کا پتا نہیں کہ وہ غار میں چھپے ہوئے تھے یاوہاں سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے ۔

میں پہلے کہہ چکاہوں کہ علاقہ کافی دشوار اور کھٹن ہے اس میں نکلنے اورآنے کے رستے بھی بہت کم تھے اور نواب صاحب بیماری کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے یہ میں اُن کی کمزوری بیان نہیں کررہا لیکن اس کے باوجود ان کا جو موقف تھا انہوں نے کافی پہلے ساتھیوں پر واضح کردیا تھا کہ اگر کبھی اس طرح کا واقعہ ہوا تو میر ے وہاں سے نکلنے کے بارے میں نہیں سوچوبلکہ میں وہاں لڑتا لڑتا شہید ہونا پسند کرؤں گا ۔ بجائے اس کے کہ میں علاقہ یا ساتھیوں کو چھوڑ دوں ۔ لیکن جویہ واقعہ ہو ا اور ساتھی بچھڑ گئے ہرایک اپنے اپنے رستے میں جس گھیر ے میں پھنس گیا تو وہیں تھا ۔ اگلے دن ریاستی اداروں کی طرف سے یہ بیان آیا کہ نواب صاحب اس واقعے میں شہید ہوگئے تو یہ ساراجھوٹ کا سلسلہ تھا لیکن یہ علاقہ اس حد تک ان کے گھیر ے میں آگیا کہ ہر ساتھی اپنے اپنے رستے میں نکل گئے۔ اس دن سے لے کرآج تک ہمیں نواب صاحب کے بارے میں پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں پر ہیں ‘خیر خیریت سے ہیں کہ نہیں لیکن ریاست کی طرف سے یہ جوبات پھیلائی گئی ‘یہ جومارنے والا ہے وہی بتاتا ہے کہ میں نے ماردیاہے ۔ نواب صاحب کی لاش ہم نے آج تک دیکھی نہیں ‘وہ ساتھی جو نواب صاحب کے ساتھ غائب ہوگئے ان کا ہمیں کچھ پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں زندہ ہیں یا نہیں ہیں ۔ توہم کیسے اس بات پر یقین کرلیں کہ نواب صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں تونواب صاحب کل بھی ہمارے ساتھ تھے اور آج بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔ جب تک ہم ان کی لاش اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں ۔ اس کی تصدیق نہیں ہوجائے کسی بلوچ بااعتبار بلوچ ہواس کی منہ سے تصدیق نہ ہوجائے یا پھر نواب صاحب کو ہم خود آنکھوں سے نہ دیکھ لیں یاپھر ان کا منزل مقصود جو تھا آجو ‘ آزاد بلوچستان حاصل نہ ہوجائے توہم چین کی نیند کیسے سوسکتے ہیں ۔ ایک اور بات جومیرے سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمیں جلدی کیاہے نواب صاحب کو دفن کرنے کی ‘لاش ملی نہیں ‘میت کسی نے دیکھی نہیں اور ہم جلدی سے جلدی ان کو دفن کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ ایک طرح سے نواب صاحب کی جوشخصیت اور ان کے جومقاصد تھے ان کو ہم زمین میں گاڑھ دیں ۔ جوآدمی اپنی زندگی میں جھکا نہیں ہار نہیں مانی ۔ ہم ان کی غیر موجودگی میں کیوں اتنی جلدی انہیں کسی کے سامنے جھکا دیں یہ میرے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں جس کی وجہ سے ہم بہت جلدی اس مسئلے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ توایک کھلا زخم ہے ۔ایک آدمی مرجاتاہے تواس ہم دفن کردیتے ہیں ۔مانتاہوں اس طرح کے لوگوں کا مقصد اور ان کی زندگی لا جولائحہ عمل تھاوہ دفن نہیں ہوتا ‘مگر درد آئستہ آئستہ مٹنے لگتاہے ۔ مگر یہ جوایک آدمی گم ہوجاتاہے جونواب صاحب اور ا ن کے باقی ساتھیوں کے ساتھ ہوا۔ آج بلوچستان کے چار ہزار سے زیادہ بلوچ غائب ہیں ان سب کا درد ہمارے دلوں میں کھلے زخموں کی مانند ہیں ۔ اس زخم کو ہم بھرنا نہیں چاہتے بلکہ اس زخم کو روزبروزکرید کرید کرتازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ز خم کی درد سے ہم چین کی نیند نہیں سوسکیں ۔ کم ازکم ان کا جو مقصد ہے جن کی خاظر انہوں نے جان د ی ہے ۔ جن کی خاطر یہ غائب ہوگئے ان کو اس منزل تک تو پہنچاسکیں جس کام کے لئے ‘جوجدوجہد ان لوگوں نے شروع کی ان کو ہم آخر تک تو پہنچائیں ۔ ہم جلدی جلدی میں اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اس کوختم کرکے غائب کریں تویہ سوچنے کامقام ہے کہ جلدی کیا ہے ؟اور سوال میں آپ نے جیسے پوچھاتھا کہ میر اکیا لائحہ عمل رہا۔ میر اجولائحہ عمل ہے کافی وجوہات ہیں یااس ٹائم سیکورٹی کی وجوہات ہیں برائے راست لائحہ عمل کے باری میں نہیں بتا سکتا جوانشاء اللہ وقت آنے پر زندگی رہی تو سب کے سامنے بیان کرؤں گا ۔

سوا ل :اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ بگٹی قبیلے میں فوجی حواری تھے جن کی وجہ سے آپریشن کیاگیا ؟
جواب:جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ یہ کوئی انفرادی ‘واحد یا پہلا واقعہ نہ تھا یہ حملوں کے تسلسل پچھلے نومہینو ں سے جاری تھے ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ بلوچ مزاحمتی قیادت کو ماراجائے ۔ ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں کہ نواب صاحب یا کوئی اور مزاحمت کار پنجاب جاکر یا پنجاب پر قبضہ کرنے کے لئے یہ جنگ نہیں لڑرہا بلکہ اپنے مادر وطن کے سینے پر غیروں کے قبضے کے خلاف آج اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور پہاڑوں کا رخ کرکے یہ لڑائی لڑرہے ہیں جن کو ختم کر نے کے لئے ریاست جو زور وجبر استعمال کررہی ہے ان کے خلاف ہے ۔ جوا س نتیجے پر پہنچتا ہے کہ بلوچوں کی غلامی سے نجات کا یہ واحد راستہ ہے ۔ توا س کے نتیجے میں یہی ہونے والا ہے کہ ان کو قید وبند کی اذیتیں ملیں گی یاگمنامی کی موت یا پھر زندہ درگور کیاجائے گا۔ یہ جو مذموم عزاہم جو ریاست کے بلوچوں کے خلاف ہیں ان کو چھپانے کے لئے حیلے بہانے کئے جاتے ہیں کہ کبھی کوئی پنجابی ان کے قبضے میں تھا یا کوئی فورسز ۔

سب سے پہلے تو یہ سوا ل اٹھتاہے کہ فورسز کیا کررہے ہیں ؟ایک اور دوسری بات یہ ہے کہ بلوچوں کے خلاف ہونے والے ظلم کو چھپانے کے لئے جو ڈرامے کئے جاتے ہیں اس کا سلسلہ کافی طویل ہے ۔ جن میں کچھ نمایاں نام ہیں اسد مینگل ‘اصغر بنگلزئی ‘حاجی جان محمدمری اور سر فہرست آج ڈاڈائے بلوچ نواب اکبر خان بگٹی بھی اس میں شامل ہیں۔ آج تک پتا نہیں چلاکہ کہاں ہیں زندہ ہیں نہیں ہیں ۔ جن کی لاش بھی آج تک کسی نے نہیں دیکھے تویہ گھناؤنے عزاہم اور کارروائیاں چھپانے کے لئے ڈرامے کئے جاتے ہیں ۔ایک چیز دوسری بھی ہے کہ کچھ جھوٹ بول کرپنجابی عوام کو تو بہلایا پھسلایا جاسکتا ہے لیکن جس ماں کے ہاتھ میں خون سے لت پت ان کا بیٹا پڑا ہو ‘ان کے بدن پر ہزاروں زخم ہوں اس کو کیسے بہلاؤ گے۔ جن کی دھرتی کے سینے میں آپ نے سارے ظلم ڈھائے ہیں اس سے پھر امید کرتے ہو کہ وہ چپ چاپ بیٹھیں ۔ یہ جو اس ٹائم میں مخاطب ہوں میں کسی پنجابی سے مخاطب نہیں ہوں میں بلوچ قوم سے مخاطب ہوں ۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے بدن پر دیکھو کون سے ظلم ہم پہ نہیں ڈھائے گئے ۔ بدن ہمارا زخموں سے چھلنی ہے ۔اس کے باوجود لوگ ہمیں جھوٹی تسلیاں دیتی ہیں صر ف ایک دفعہ اپنے بدن پر نظر دوڑاؤ آپ پر یہ ساراکچھ خود عیاں ہوگا کہ حقیقت کیا ہے ؟

سوال :آپ کے اور فوج کے بندوں کی اموات کی اصل تعداد کیا ہے ؟

جواب :جیسے کہ میں پہلے کہہ چکاہوں کہ یہ لڑائی 23اگست کی رات کو شروع ہوئی تویہ سلسلہ تین دن تک چلتا رہا۔ گیارہ بجے 23اگست سے لے شام 27اگست تک گھمسا ن کی جنگ چلتی رہی ۔ فورسز اور بلوچ سر مچاروں کی بیچ میں ۔اس میں کافی بڑی تعداد میں سر کاری فوج مارے گئے ۔ کیوں کہ جب بلوچ گروپوں میں بٹ گئے اور سرکار نے کوشش کی کہ علاقے کو قبضہ کرئے توہر کونے پر ہر علاقے میں لڑائی شروع ہوگئی ۔ جس طرح فورسز نے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور جگہ کو قبضہ کرناچاہا تو اس میں تقریباًسوسے زیادہ فوجی مارے گئے ۔ تقریباًاتنی لاشیں بلوچ سر مچاروں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں ۔اس میں کافی ہمارے ساتھی بھی اس جنگ میں لاپتہ ہوئے جن کی زیست ومرگ کا ہمیں کوئی پتا نہیں جو زخمی ہوئے یاجن کی لاشیں ہاتھ لگے ۔گمشدہ ساتھیوں کی تعداد تقریباً18کے قریب ہیں۔

سوال :کیا یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ میں کیماؤی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں ؟

جواب :یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ بلوچوں پر کون سے ہتھیار استعمال نہیں کئے گئے ۔ میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بتاؤ بلوچوں پر کون سے ہتھیار استعمال نہیں کئے گئے ؟بھوک کا ہتھیار ‘غربت کا ہتھیار ‘بیماری کا ہتھیار ‘لالچ کا ہتھیار ‘دباؤ کا ہتھیار ‘ریاستی اداروں کے ہاتھوں زندہ درگور کا ہتھیار ‘لاپتہ کرنے کا ہتھیار ‘اس ہتھیاروں کی فہرست کافی طویل ہے ۔ تومیں اس تفصیل میں نہیں جاناچاہتا ۔اگر کوئی مارا جارہاہوتواس کو کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کس ہتھیار سے مررہا ہے اس کی تو زندگی جارہی ہے ۔ گوکہ سب ہتھیار موت کاسامان ہوتے ہیں لیکن کچھ روایتی او ر کچھ غیر روایتی کہلاتے ہیں ۔ پھر بھی تہذیب یافتہ لوگوں میں ایک روایت ہے کہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کتنے باغیرت دشمن سے لڑ کر فتح یاب ہو اہے ۔ لیکن بلوچوں کی بدقسمتی سے پنجابی میں نہ غریت ہے نہ وہ لڑنا جانتا ہے ۔ میرے خیال میں نہ غیر ت کا مطلب اس کو سمجھ میں آتا ہے ۔ یہ تو ایک بھیڑیا ہے جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ تو کیماؤی ہتھیار کیوں یہ ایٹمی ہتھیار بھی بلوچستان میں استعمال کرسکتا ہے ۔ یہ تو مادر وطن بلوچستان کاسینہ ہے جو سارے ظلم وستم برداشت کرنے کے باوجود چپ ہے ۔ لیکن اس کے کچھ ایسے فرزند بھی ہیں جو ظلم خاموشی سے برداشت نہیں کرسکتے چاہئے تم کیماؤی نہیں جو بھی ہتھیار استعمال کرؤ یہ نہ مریں گے نہ مٹیں گے اور آخری دم تک تمہارے گردن پہ شمشیر حق لے کر کھڑے ہوں گے اور ان فرزندوں کی تعداد قربانیوں سے کم نہیں ہوگی بلکہ قربانیوں سے ان فرزندوں کی تعداد میں روز بروزاضافہ ہوتاجارہاہے۔ بلوچی میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ ’’کوم پہ مِر گ ءَ گار نہ بنت‘پہ کرگ ءَ گار بنت ۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قومیں مرتے ہیں وہ مٹتے نہیں اور جو قومیں زور آؤروں کے سامنے جھک جاتے ہیں وہ مٹ جاتے ہیں وہ ختم ہوجاتے ہیں ۔

ڈاڈائے بلوچ نواب اکبر خان بگٹی کی قربانی ور جو تکالیف اس نے اٹھائے اس سے میں نہیں سمجھتا کہ کسی بلوچ کوباغیر ت بلوچ کو کوئی عبرت ہوگی بلکہ اس سے جذبہ قربانی اور بڑھے گااور وہ اس راہ پہ اور بھی زیادہ پختہ عزم ہوجائیں گے ۔ کیوں کہ اس طرح کی قربانیوں سے لوگ مرتے نہیں بلکہ امر ہوجاتے ہیں ۔ایک فرد کی قربانی کا بلوچ قوم میں کتنا اثر ہو اوہ آپ دیکھ سکتے ہیں ۔ایک شخص کی قربانی بھی پوری قوم کی 
سر خروی اور قومی آجوئی کا باعث بن جاتاہے۔ تودولفظوں میں آپ کے سوا ل کایہ جواب دوں کہ نہ صرف کیمیاوی بلکہ کلسٹربموں اور دیگر ہر قسم کی غیر روایتی ہتھیارجن کو ہم بلوچی میں بے غیرتی کے ہتھیار کہتے ہیں اس موقع پر استعمال ہوئے تھے ۔

سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ جولوگ قوموں کے لئے قربانیاں دیتے ہیں وہ مرتے نہیں اُن کی زیست وموت سے قومی جدوجہد رکتی نہیں اور رہا آپ کے سوال کا جواب کہ کسی نے آپ کو یہ عندیہ دیاہے کہ بلوچ قومی جدوجہد ختم ہوچکی ہے اور دوسرایہ کہ متحد ہونے کے لئے دیر ہوچکی ہے توقومیں اپنے منزل مقصود یا منزل عالی قومی آجوئی کے لئے سینکڑوں نہیں ہزاروں سالوں تک جدوجہد کرتی تھکتی نہیں ہیں اور وہی قومیں سرخرو اور اپنی منزل تک پہنچتے ہیں جوکہ اپنی جدوجہد مسلسل کوجاری رکھتے ہیں ۔ان قوموں کی فہرست میں جنہوں نے قومی قربانیاں دیں بلوچ قوم کا فی پچھلے صفوں میں کھڑا ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلوچ نے قوم کی خاطر قربانیاں نہیں دیں لیکن ابھی بہت حد سے زیادہ قربانیاں اور بھی دینی ہیں۔ ہمارا جو منزل ہے وہ کوئی انفرادی مفادات یااور کوئی پاکستانی پارلیمانی نظام نہیں بلکہ مادر وطن بلوچستان کی آجوئی ہے اور اس کے لئے اگر جان ومال کی قربانی دی جائے ۔ اپنا سر بھی کٹوایا جائے کم ہے اور جو لوگ ڈاڈائے بلوچ نواب اکبر خان بگٹی کے اس قربانی کو وقتی جوش وجذبہ اور ولولے میں بہا دیں اس کو میں حقیقت میں گناہ کبیرہ سمجھتاہوں کیوں کہ اس طرح کی قربانیوں کو سنگ میل کی حیثیت دی جائے۔ ہمیں بلوچ قومی جدوجہد میں متحد ہونے کے لئے ایک فلیٹ فارم ملے بجائے اس کے کہ جو قوم پرست پارٹیاں ا س کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کریں میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا کیوں کہ میں کسی کی طرف ہاتھ لمبا کر کے اشارہ کرنا نہیں چاہتا ۔کیوں کہ میر ے خیا ل میں بلوچ قوم خود کافی حد تک باشعور ہوچکی ہے ۔اپنے دوست اور دشمن کو اچھی پہچانتی ہے ۔

اس طرح قربانیوں کو اگر ایک سنگ میل کی حیثیت سے لیں اور اس سے کچھ سبق سیکھیں تو پھر قوموں کی جدوجہد میں پیش رفت بھی ہوسکتی ہے ۔اگر اس چیز کو دیکھیں کہ ایک آدمی کی قربانی سے قوم میں کتنا شعور اور بدلاؤ آیا ہے اور اگر بلوچ قربانی کے لئے کمر بستہ ہوجائے توآپ خود اندازہ لگائیں کہ بلوچ قومی جدوجہد یاقومی مسئلہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا اور جہاں تک رہی بات اتحاد کی توتمام اقوام اور ہر وہ قوم جو قومی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ لیکن اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اتحاد کس کے ساتھ اور کس لئے ہے ‘اتحاد کی بنیادی وجوہات کیاہیں ۔

آپ اگر کوئی ایک عمارت تعمیربھی کررہے ہوں تواس کے لئے پہلے ایک نقشہ تیار کیاجاتا ہے اور اس کا خاکہ ہوتا ہے ۔ پھر اس کو کوئی مواد یا جس سے وہ عمارت بنتا ہے اس کا تعین کیا جاتا ہے اور کچھ ایسے لوگ چنے جاتے ہیں جو کہ اس کام  میں اسپیشلائزڈ ہوں جن کا کام یہی ہوکہ وہ اندازہ لگائیں کہ کس زمین پر یہ عمارت بنا ئی جارہی ہے اس زمین کی خصوصیات کیا ہیں کس قسم کے مواد استعمال کئے جائیں کہ وہ پھر وہ عمارت مضبوط اور دائم ہو۔اورا گر اس کی تفصیلات میں نہیں جایا جائے اور جوبھی ہاتھ لگے اس سے یہ بنایا جائے تویہ کوئی عمارت کے تناظر میں دیکھاجائے تو ا س کے نصیب میں ٹوٹنا ہوتا ہے ۔

اسی طرح میں بیان کرنا چارہاتھاکہ اگر سارے بلوچ کو میں ایک جگہ اکھٹاکرؤں تو وہ کافی نظریات کے لوگ ہیں ۔ مثال دیتا ہوں کہ ن لیگ سے لے کر میم لیگ تک سب قسم کے لوگ ہیں سب اکھٹے نہیں ہوسکتے ۔ ہاں ایک چیز حقیقت ہے کہ انقلابی فکر کے لوگ جن کے بنیادی مقاصد منزل ایک ہواور وہ اس مقصد اور منزل کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہوں اور ایک متحدہ محاذ پہ کوئی پارٹی یاکوئی چیز تشکیل دیں تو وہ کامیاب بھی ہوسکتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے ۔

جو شعور انفرادی ہواور اسے قوموں میں پذیرائی نہ ملے تو اسے ایک فلسفہ یا فکر کہاجاسکتا ہے اس کو قومی سطح پر پھیلانے کے لئے ’’آس ءُ آپ ‘‘ یعنی خون کی ہولی کھلینی پڑتی ہے تب یہ فکر قوم میں جاکر قومی نجات یا متحد ہونے کا وسیلہ بن جاتاہے ۔ یہ کہنا بے وقوفی ہوگی کہ اتحاد کے لئے دیر ہوچکی ہے ۔

سوال :قلات جرگہ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
جواب :کچھ ایسے سوالات ہوتے ہیں جن کے جواب دینا اپنے کپڑے اتارنے کے مترادف ہوتاہے اور یہ بھی انہی سوالوں میں سے ایک ہے میں کسی عمل یا کسی بلوچ کو برابھلا کہنا پسند نہیں کرؤں گا کیوں کہ میں بھی ایک بلوچ ہوں اور کسی بلوچ کو بر ابھلاکہتا ہوں تو میں اپنے آپ کو برابھلا کہہ رہاہوں گا ۔ لیکن اس سوال کے جواب میں کچھ سوالات بلوچ قوم سے کرتاہوں کہ سب سے پہلے یہ ہے کہ کیا کسی خونخوار بھیڑیا کوآدمی دلیل اور دلائل سے مرعوب کرسکتاہے ۔ اس کو اس بات پہ قائل کرسکتا ہے کہ وہ آپ کو نہ کھائے یااپنی نظریات سے بازآجائے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی غیر ملکی ادارہ اٹھ کر بلوچ کو اس کی آجوئی دلادے ہاں یہ حقیقت ہے کہ جس سے میں انکار نہیں کرسکتا کہ جیسا بھی فلیٹ فارم ملے جیسابھی موقع ہاتھ آئے اس کو استعمال کرنا چاہئے ۔ قومی شعور ‘قومی بیداری کو آگے لانے کے لئے وہ ایک ایک مثبت عمل ہے ۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیاایک مچھر کو مارنے کے لئے توپ کااستعمال ضروری ہے ۔مقصد میرا یہ ہے کہ اس سارے عمل کا مقصد کیا نکلا ؟تواس میں سوچ کی ضرورت ہے ۔تو کیا کسی کورٹ کچہری میں کیس کرنے کے لئے اتنا بڑاجرگہ بھلانا مناسب ہے ؟ یا اس کے کو کسی اور مقصد کے لئے استعمال کیا جائے ؟ ایک بات پر غور کرنا چاہئے کہ آج بلوچستان میں جو شعور پیدا ہواہے جس کی وجہ سے آج یہ قومی جدوجہد اس جگہ پر پہنچاہے وہ عمل کیا ہے ۔اس عمل سے بھٹکنامیر ے خیال میں تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرئے گی ۔ کوئی پارلیمانی نظام ‘کوئی اسمبلیاں ‘کوئی فنڈ کی فراہمی ‘اس شعور کی بیداری کی وجہ نہیں ہے بلکہ مسلح جدوجہد جس میں بلوچوں نے اپنے جان ومال کی قربانیاں دیں جس کے نتیجے میں آج بلوچ اٹھ کھڑے ہوئے اور باشعور ہوتے جارہے ہیں اپنی قومی حیثیت یا جووقار ہے یاقومی مفادات ان کو ترجیع دے رہے ہیں اس کو دیکھنا چاہئے ۔ اس سے بھٹکنا وہ گناہ ہوگا جس کو تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرئے گی ۔ ایک چیز مثال دیتا ہوں کہ محفل جتنی بھی حسین ہو ۔نظارہ جتنا بھی پرکشش ہوآدمی کو اپنے وجود اور حیثیت کو بھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس عمل نے آج بلوچ کو لاکر یہاں پہنچایا ہے بلوچ قومی شعور کو بیدار کیا ہے ۔اس قومی شعور سے بھٹک کر ‘یعنی مقصد سے بھٹک کر کسی او ر رستے پر نہ نکلیں کیوں کہ اگر اس طرح ہواتو میرے خیال میں تاریخ ہمیں معاف نہیں کرئے گی ۔

آج کافی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی ہیں کہ سیاسی پارٹیاں ہیں بلوچوں میں یہ کافی مثبت عمل ہے ۔ لیکن پھر اپنے آپ کو یاد دلانا ہوگا کہ سارا کچھ ہم کس لئے کررہے ہیں کوئی ہمارے شخصی مفادات ہیں ۔ قومی مفادات ہیں یا پس پردہ کوئی اور مفادات ہیں جن کو حاصل کرنے کے لئے ساراکچھ ہورہاہے ۔اس طرح بلوچستان میں کافی سیاسی سر گرمیاں ہورہی ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہما رامقصد عالی کیاہے ۔ کیاکوئی پارلیمان سیاست ‘اسمبلیاں ‘یاپھرآجوئی ‘بلوچستان کی آزادی ؟اگر ہم کچھ دیر کے لئے اپنے مقصد عالی سے بھٹک جائیں اوعارضی اور انفرادی مفادات کے لئے بلوچ کو گمراہ کریں تو میرے خیال میں وقت اور تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرئے گی ۔ ہمیں ہر قدم اٹھانے سے پہلے اپنے کو سودفعہ یاددلانا ہوگا کہ ہمارا مقصد عالی کیاہے اور جس راہ پہ ہم گامزن ہیں ۔ وہ راہ ہمیں کہاں لے جاتاہے اور ہمارامقصد ہماری منزل کیا ہے ۔ قومیں،بلوچ قوم سے ایک مرتبہ پھر گزارش کرتاہوں کہ خود یاد دلائیں اور اپنے دل میں بھی ٹٹولیں کہ ہمارا منزل کیا ہے اور ہماری حکمت عملی کیا ہے ۔

اور رہی بات سر کاری جرگہ کی تویہ عین ممکن ہے ۔اس کے پس پردی مقاصد ہوں کیوں کہ اکثر شکار کو کسی طرف سے گھیرنے کے لئے دوسری طرف شور مچایا جاتاہے اور جس طرف شکا ر نکلتا ہے وہاں پہلے سے کچھ شکاری بیٹھے ہوتے ہیں تو میں جس بات کے لئے فکر مند ہوں وہ یہ ہے کہ ہم بلوچ قومی طور پر شکا ر تو نہیں بن رہے ۔ ہمیں سر کاری جرگہ سے ہٹا کر کسی دوسرے عمل کا لائسن تو نہیں دیا جارہا۔ یعنی ہم اپنے اصل مقاصد مزاحمتی تحریک کو چھوڑ کر کسی اور عمل میں تو گامزن نہ ہوجائیں ۔اس بات کا بہت سخت خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ایسی غلطی ہم کر بیٹھیں توتاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرئے گی ۔ جس چیز کا میں فکر مند ہوں وہ یہی ہے کہ بلوچ قوم انجانے میں شکار نہ ہوجائے ۔اس لیے میں آپ سے ایک بار پھر گزارش کرتا ہوں کہ جس عمل کی وجہ سے بلوچ تحریک شعوری مقام پر پہنچا ہے ۔اس سے ہم نظریں نہ چرائیں کیوں کہ وہ راستہ ہے کہ جس سے ہم سرخروی کی زندگی یا پھر قسمت والوں کو سر خروی کی موت نصیب ہوتی ہے ۔

سوال :آپ کیا سمجھتے ہیں کہ غیر تعلیم یافتہ یا نیم ہنر مندبلوچ ‘کسی قسم کی ہتھیاروں کی سپلائی کے بغیر اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچ چھوٹی قومیت ہونے کی وجہ سے پنجابی یا پاکستانی سر کار کا سامنا کرسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب:بات یہاں میری سمجھنے یا نہ سمجھنے کی نہیں ۔تاریخ ہمیں کیابتاتی ہے ۔ قومیں کسی ظالم وجابر کے سامنے سر تسلیم خم کر کے بچ پائی ہیں؟ کیا اپنی ثقافت ‘اپنی زمین اپنے وسائل حتیٰ کہ اپنی تہذیب بچانے میں کامیاب ہوئیں ؟ میرے خیال میں سب کا جواب نفی میں ہوگا ۔ ماسوائے اُن قوموں کے جو اپنے کم وسائل ‘کم نفوس کے باوجود اپنے حق اور زمین کے لئے لڑتے اور مرتے گئے لیکن آخر میں اپنے وجود کومٹنے سے بچاپائے ہیں وہ قومیں آج بھی قوموں کی فہرست میں سر خرو ہیں۔

سوال یہ نہیں کہ ہم کتنے باوسائل ہیں ‘کتنے ہمارے پاس ہتھیار ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمار عہد کتنا مضبوط ہے ۔ہم قوم کے لئے کتنی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ جب بلوچ حتمی اور مضبوط عہد کرلیں تو پھر بلوچ قوم کو کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا۔ ایک مثال دیتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے خدا بھی ملتا ہے اگر ہم عہد کرلیں تو یہ صرف ایک قومی آجوئی کی بات ہے مجھے یہ اتنا مشکل اور ناممکن نہیں لگتا جیسے بتایاجاتا ہے ۔یہ شخص واحد کا نہیں ایک قومی جستجو ہے گوکہ میری باتیں کچھ لوگوں کو رومان بھی لگیں لیکن قوم کے لئے مادروطن کے لئے رومان بھی رکھنا پڑتا ہے ۔اگر ہم ناپ تول میں لگ جائیں اور اس کو اس نقطہ نظرسے دیکھیں کہ کیا ہم نے اس میں دیا اور کیا پایا تومیرے خیال میں یہ تول ترازوکبھی بھی پورا نہیں ہوگا ۔اس تول ترازوکو پوراکرنے کے لئے رومان کا عنصر جس کو رومانٹک بولتے ہیں وہ ڈالنا پڑتا ہے ۔اس کے لئے ایک جذبہ ‘ایک پیار ‘ایک محبت رکھنی ہوتی ہے ۔مادر وطن بلوچستان کے لئے بھی وہ رومان ‘احساسات دل میں رکھنے پڑتے ہیں ۔اگر ہم یہ کرپائے اور ناپ تول میں لگ گئے تو میر ے خیال میں یہ قربانی دینی ممکن نہیں رہے گی۔

اور رہی بات یہ کہ بلوچ پنجابی یا پاکستانی فوجی بوٹوں تلے روندھے یاختم ہوجائے گی تویہ بلوچ قوم پر منحصر ہے کہ اس کی حکمت عملی کیاہوتی ہے ۔اگرہم پھول بن کران کی راہ میں نچھاور ہوجائیں تومیرے خیال میں یہ ہمیں روندھتے ہوئے کوئی تکلیف محسوس نہیں کریں گے ۔ لیکن بلوچ وہ کانٹا بن جائے جوکہ بوٹوں سے گزر کر پاؤں میں پھر ان کے دلوں میں ناسور بن جائے پھر میرے خیال میں روندھنا اتناآسان نہیں رہے گا اور یہ ناسو ر جب ان کی موت کا سامان بنے گا تب ہی بلوچ کو نجات ملے گی ۔ اور اگر کوئی پنجابی سوچتا ہے کہ بلوچ ‘بچوں ‘ماؤں ‘بہنوں او ر پیر سن مردوں کو مار کر چین کی نیند سوسکتا ہے ۔ اسی طرح کے خطرات اگر پنجابی کو بھی لاحق ہوں تو وہ کسی اور کی طرف ہاتھ بڑھانے سے پہلے ایک دفعہ اپنی فکر کرئے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگرہم اپنا لائحہ عمل یا حکمت عملی نہیں بناتے اور صر ف یہ سوچتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں ۔ ہم کم تعداد ہیں ہم بے وسائل ہیں تو پھر یہ غلامی ہماری نصیب بن جائے گی لیکن دووسری طرف اگر ہم وہ کڑوہ نوالہ بن جاتے ہیں جس کو کھانے کے بعد کھانے والابھی آرام کی نیند نہیں سوسکے توپھر میرے خیال میں ہمیں نگلنا اتنا آسان نہیں ہوگا ۔توآپ کے سوال کامیرے خیال میں جواب مل جاتاہے کہ وہ پھول بن کے ہمیں روندھنا بہت آسان ہے ۔ کانٹے بن جائیں تو پھر ہمیں کھانا ناممکن ہوگا۔ بلوچ اگر کاٹنے والا بھڑ بن جائے تو ا سکے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والے کو بھی دودفعہ سوچنا پڑے گاکہ شاید اس کو بھی رات کو چین کی نیند نہ آئے ۔ 
سابقہ فوجی آپریشن جوبلوچستا ن میں ہوئے وہ زندہ ثبوت ہیں جنرل یحییٰ خان ‘جنرل ایوب خان ‘ذوالفقار علی بھٹو جوکہ کافی بااثر اور طاقتور حاکم سمجھتے جاتے ہیں انہوں نے بھی بلوچستان میں فوجی کارروائیاں کیں ۔ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو شہید کیا۔ لیکن ان شہادتوں سے قومی جذبہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ جس کی وجہ سے آج بھی یہ جذبہ آزادی ‘جذبہ جدوجہد اور جذبہ قربانی زندہ ہے ۔ توکہنے کا مقصد یہ ہے کہ کم تعداد ‘کم وسائل کی وجہ سے اگر ہم سوچیں کہ ہم غلامی قبو ل کرتے ہیں تومیرے خیال میں بے وقوفی ہوگی اور اگر ہم صرف کچکول پکڑ کر رحم کی امید ظالم سے کریں تومیرے خیال میں یہ مناسب نہیں ہوگااور پاکستانی جمہوریت سے کوئی امیدیں وابستہ کرنا تو یہ میرے خیال میں کوئی نجات نہیں زوال کا رستہ ہے او ر جن سالوں میں بلوچ قوم نے اسمبلیوں سے وابستگی یاکوئی امیدیں وابستہ کیں ۔ ان سالوں میں بھی ہمارے سامنے ہے کہ بلوچ تحریک یا قومی شعور کا کیامقام تھا اور جن سالوں میں بلوچستان میں فوج کشی چل رہی تھی توشعور کا کیا مقام تھا ۔ توان ساری باتوں کا یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قومی نجات اور قومی شعور کے لئے ہمیں کونسا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کونسا راستہ ہمیں جاکر منزل عالی ‘منزل مقصود تک پہنچاتا ہے ۔اپنی قوت بازوپر یقین رکھنا اور پختہ عزم دل میں رکھنا تومنزل دور نہیں ۔
سوال :بلوچستان اور پاکستان کامستقبل آپ کیسے دیکھتے ہیں۔ جب کہ امریکہ کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں اور وہ اس پر قبضے کی کوشش میں ہوگا یاہے جیسے کہ مشرق وسطیٰ میں ؟

جواب : بلوچستان بھی اس دنیا کا ایک حصہ ہے بلوچستان کسی اور ملک یا خطے سے الگ تھلگ نہیں ان سب سے جڑ اہواہے تو ہمارے مسئلے مسائل بھی لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ آج دنیا سمٹ کر ایک گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ جس کو انگریزی میں گلوبل ویلیج کہتے ہیں توا س گاؤں کا ایک گلی یا گھر کا نام بلوچستان ہے اس گاؤں میں کافی لوگ رہتے ہیں ۔رہی بات امریکہ کی توگاؤں کا ایک سر براہ ہوتاہے سر براہ کے ساتھ سلام دعا رکھنی پڑتی ہے ۔ایک چیز سلام دعاہے ایک چیز گھر کامالک گاؤں کے سر براہ کو نہیں قرار دیاجاسکتاہے ۔گھر کا اپناایک وقار ‘ایک عزت ایک ننگ وناموس ہوتا ہے ۔گاؤں کی تکلیف یا مشکلات میں گھر کے لوگ مددد توکرسکتے ہیں لیکن گھر کی عزت کو گاؤں پر نچھاور نہیں کیا جاسکتا گھر کاایک اپنا ماحول ہوتاہے اور دوست جتنا بھی دوست ہولیکن بھائی بھائی ہوتاہے ۔رہی بات پنجابستان کی توگاؤں میں چور لٹیرے بھی ہوتے ہیں اور چور لٹیرے جب تک موج مستیاں کرسکتے ہیں توکرتے رہیں آخران کا حشر وہی ہوتا ہے جو چور لٹیروں کا ہوتاہے ۔
سوال :پاکستان اور امریکہ کے سر کار کو آپ کا کیا پیغام ہے ؟

جواب:آج بلوچ قوم بیداری کی اس نہج پر کھڑی ہے جہاں وقتاًپہ وقتاًقومیں کھڑی ہوتی ہیں ۔یہاں یہ حقیقت ہے کہ بڑی طاقتوں کے سامنے بلوچ لاچار اور بے بس نظر آتاہے لیکن اس بات کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بلوچ وہ قوم ہے جس کا وطن وسیع وعریض بڑا اور معدنیات سے مالامال ہے ۔جس کی جیوپولیٹیکل حیثیت بلوچوں سے زیادہ اغیار جانتے ہیں ۔اس لئے میں جانتاہوں کہکئی بڑی کھلاڑیاں اس میں دلچسپیاں رکھتی ہوں گی لیکن سمجھدار اور تجربہ کار قومیں اپنے مفادات کے ساتھ علاقائی قوموں کے مفادات کوبھی مد نظر رکھتے ہیں لیکن بلوچ قومی مفادات کونظر انداز کرکے بڑی قومیں سا رے فوائد بے شک لے سکتے ہیں ۔

رہی بات پاکستان کے مفادات کی توبلوچ ان مفادات کو پوراکرنے کا بالکل بھی پابند نہیں ۔پنجابی جب تک بلوچوں کو لوٹ سکولوٹو ‘عیش موج مستی کرؤ اور جس دن بلوچ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے تو وہ نہ صرف آج بلکہ گزرے ہوئے کل کا بھی حساب لیں گے ۔ویسے بھی اوروں کے ٹکڑوں پر پلنے والا پاکستان کتنے دن اور موج مستی کرئے گا ؟آج قوم پرستی کا ایک پیمانہ اسمبلیوں سے استعفیٰ کو سمجھا جارہاہے یہ بھی بلوچوں کی بدقسمتی ہے کہ نام نہاد اسمبلیاں یا پاکستانی جمہوریت کو ٹھکرانے کو بلوچ قوم پرستی کی انتہاء سمجھا جارہاہے میں سمجھتاہوں کہ یہ تو پہلاقدم ہے جوکہ قوم پرستی کی طرف عندیہ دیتاہے ۔مانتاہوں کہ ان اسمبلیوں کو ٹھکرانا قوم پرستی اور بلوچوں کے لئے قربانی دینے کی طرف اشارہ تو کرتاہے لیکن قومی مفادات کے لئے جان وما ل کی قربانی کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ۔توا س چیزکو اگر سمجھاجائے کہ یہ قوم پرستی کی انتہاہے تویہ لوگ خود کو بے وقوف بنا رہے ہوں گے ۔قوم پرستی کے لئے ابھی قوموں کوکافی حد تک باشعور او ر قربانیاں دینی ہوگی ۔

کبھی کبھار ذرائع ابلاغ میں میرے حوالے سے یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ بالاچ بھی پارلیمان کاممبرہے یا اسمبلی ممبر ہے میر ے خیال میں میں نے اس کو روزاوّل سے واضح کردیا تھاکہ اگر کسی پہ واضح نہیں توابھی واضح کردیتا ہوں کہ یہ وہ گندگی صاف کرنے والاٹشوپیپر تھاجس کو میں نے استعمال کرکے کافی وقت پہلے ہی کچہرے کے ڈبے میں پھینک دیاتھا نہ ہی اس اسمبلی سیمیں کوئی امیدیں وابستہ کرچکاہوں نہ اس سے میری کچھ امیدیں ہیں ہاں ایک فلیٹ فارم تھا لوگوں کا بتانا تھاکہ ہمیں علاقے میں بھی لوگوں کی پذیرائی حاصل ہے ورنہ ریاستی مشینری کامنہ کافی بڑاہے اس کو بند نہیں کرسکتے کہ ان کو تواپنے علاقے میں پذیرائی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔نہ توا س سے میں امیدیں وابستہ کرتاہوں اور نہ کوئی اس تناظر میں میرانام لے کہ بالاچ بھی تو قومی اسمبلی کا ممبر ہے نہ میں اسے اسمبلی سمجھتاہوں اور نہ اس کی ممبر ی پرفخر کرتاہوں ۔پھر سے بولتاہوں کہ یہ وہ گندگی صاف کرنے ولا ٹشوپیپر تھاجس کو استعمال کرکے میں نے پھینک دیا۔

ایک اور بات ہے کہ یہ گھناؤنے عزاہم پنجابی پاکستان کے بلوچستان میں چل رہے ہیں کہ بلوچ کو بلوچ سے لڑاؤ ‘بلوچ کو پشتون سے لڑاؤ یہ جس کو پاک فوج کہتے ہیں یہ ناپاک فوج ہے کہ جس میں بلوچوں کو بلوچوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے ۔ پشتون بھائیوں کو پشتون کے خلاف استعمال کیاجارہا ہے اوراس کو پاک فوج کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ جس کا م کے لئے بنایا گیا ہے اس کام کو توآج تک اس نے نہیں کیا ۔ تاریخی تفصیل میں تو میں نہیں جاناچاہتا ہمارے جو لیڈران صاحب ہیں وہ تاریخ میں پاکستانی فوج کے کردارکو نمایاں کرچکے ہیں۔ یہ توصرف پلاٹ فوج ہے ‘اسٹیٹ ایجنٹ فوج ہے اور مفاد پرست ہے ۔

یہ سار ی زندگی اسلام کے نام پر مسلمانی کے نام بلوچوں کو زیر کیا گیاہے غلام بنایا گیاہے ۔ بلوچوں اور پشتونوں سے گزارش کرتاہوں خصوصی طور پر بلوچ بھائیوں سے کہ تمہیں آج پاک فوج کے نام پر تمہارے ہاتھوں سے بلوچستان میں بلوچوں کو مروارہے ہیں ۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ پہلے اس سے کم ازکم یہ تو پوچھیں کہ تمہارامقصد کیاہے۔ ایک قوم کو زیر کرنے کے لئے ایک قوم کودبانے کے لئے اپنے وسائل اور گولہ بارود کواستعمال کررہے ہو ۔ گھر کا چوکیدار جاکر گھر کے دروازے پر بیٹھ کر گھرکا دفاع کرئے نہ کہ گھر کے اندر لوٹ مار مچائے ۔

کافی لوگ بلوچ سنگل پارٹی کی با ت کرتے ہیں مانتاہوں کہ بلوچ کو ایک پارٹی کی ضرورت ہے جو سنگل کا لفظ پتا نہیں کس حد تک مناسب ہوگا ۔ پارٹی کی ضرورت ہے جوکہ سنگل بلکہ انقلابی سنگل ہوناچاہئے جن کے مفادات جن کامقصد ‘جن کامنزل قومی نجات کے لئے ہو۔ اسی قسم کے لوگوں سے بناہوا بلوچ قومی آجوئی کے لئے متحد ہوں ۔آپ اگر کسی ایک بس میں رنگ رنگ کے لوگ بٹھائیں کوئی سبی کا مسافر ہے تو کوئی لک پاس کاکوئی کوئٹہ کا ہے توکچھ آدھے رستے میں اترجائیں گے کچھ بیٹھیں رہیں گے ۔اگر آپ کو ایک ہی منزل کے لئے مسافر چاہئیں تووہ ڈھونڈناہ وگا ان کے سامنے پہلے منزل لانی ہوگی۔ان کے سامنے ذریعہ لانا ہوگا پھرانہیں اس منزل کی طرف لے جانا چاہئے۔ ہم نے توابھی تک منزل کا تعین نہیں کیا ہے کہ ہمارامنزل کیا ہے اس تک پہنچنے کا ہماراطریقہ کار کیا ہے پھر میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اکھٹے ہوسکتے ہیں ۔ جب اکھٹے ہوں گے توہم کیا مانگ رہے ہوں گے ۔ ہم یہ دیکھیں گے محفل میں سب زیادہ کس کی پذیرائی ہوگی ؟ کس کو سب سے زیاد ہ منافقانہ بات کہنا آتاہے ؟

بہتر یہی ہے کہ منزل پہلے رکھاجائے بلوچ آجوئی اور منزل کو پانے کے مسلح جدوجہد ۔پھر اس کے لئے جو تیار ہیں ان لوگوں کوایک جگہ اکھٹا کیا جائے اور ان کو ایک سمت روانہ کیا جائے ۔اگر ہم ان بنیادی انگریزی میں کرائی ٹیریا یعنی بنیادی نکات کہتے ہیں ہم نہیں سوچے اور ا س پر عمل نہیں کیا تو اس کا انجام وہی ہوگا جوبلوچستان میں پہلے ہوتا آرہا ہے ۔ پارٹیاں بنتی رہتی ہیں ٹوتنی رہتی ہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں ۔ بننے سے پہلے اس قسم کی پارٹی کے نصیب میں ٹوٹنا لکھ جاتاہے ۔کیوں کہ اس کا مواد ‘اس کا لائحہ عمل اس کی منزل کاتعین نہیں ہوتا۔ جب تک اس کے سب تفصیل باریک بینی سے نہیں دیکھے جاتے تو یہ میرے خیال میں ناکامی کی کچہڑی ہے جس کاانجام ناکامی ہی ہے۔اس قسم کی پارٹی انقلابی نظریات سے نہ بنائی گئی ہوتواس پارٹی کا کوئی بھی مقصد نہیں ہوگا اور اس پارٹی کا کوئی مثبت انجام بھی نظر نہیں آتا۔
Labels:
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.