حفیظ حسن آبادی کی حالیہ تحریر مجموعی طور پر بالکل متوازن اور مناسب ہے ۔
اس تحریر کو میں خوش آمدید کہتا ہوں، انہوں نے تمام آزادی پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کے درمیان ہم آہنگی کی بات کی ہے ، یہ وہ بات ہے جو میں تسلسل کے ساتھ لکھتا آیا ہوں ، البتہ مہران مری اور جاوید مینگل کے
حوالے سے اُن کا موقف غیرسیاسی ہے ، سیاست معروضی حقائق کے بنیاد پر کی جاتی ہے مفروضوں پر رائے دینے سے ایک سیاسی ورکر کو ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے مثلاً حفیظ صاحب لکھتے ہیں کہ '' جاوید مینگل کی آزادی کا نعرہ اخترمینگل کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا میں تحلیل ہوجائے گا '' تو یہ بعد کی بات ہے ، گزشتہ کل آزادی پسندوں میں بہت سے مخالف کیمپ میں تھے لیکن آج وہ آزادی کے لیے آزادی پسند قوتوں کے ہمرکاب ہیں ، کل اُن سے نظریاتی اختلاف تھا آج اتفاق ۔ تو آنے والے کل کی بات آنے والے کل پر چھوڑنا مناسب ہوگا ، جن حالات کی انہوں نے پیشن گوئی کی ہے وہ بہت خطرناک اور خونچکاں ہیں ، پاکستانی فوج بلوچستان پر بربریت کی ایک نئی داستان رقم کرنےجارہی ہے تو ماضی کی نسبت ہمیں ان حالات میں یکجہتی کی زیادہ ضرورت ہے اور جس طرح انہوں نے فرمایا ہم میں کوئی اختلاف کوئی ابہام نہیں اور یہ محض دل کو خوش رکھنے والی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے ، کلات میں دشمن فوج کاسامنا کرنے والی بلوچ فوج صرف بی ایل اے نہیں بلکہ بی ایل اے اور بی آر اے یک مشت ہوکر ان کے حملوں کا جواب دے رہی ہیں ، مشکے میں ریاستی لشکرکشی کے جواب میں لشکربلوچستان سمیت تمام دستوں نے فوج پر جوابی حملے کیے تھے ، یہ سب اتحاد اور یکجہتی کے عملی ثبوت ہیں ۔اس تحریر کو میں خوش آمدید کہتا ہوں، انہوں نے تمام آزادی پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کے درمیان ہم آہنگی کی بات کی ہے ، یہ وہ بات ہے جو میں تسلسل کے ساتھ لکھتا آیا ہوں ، البتہ مہران مری اور جاوید مینگل کے
اس لیے اُن سے ایک گزارش ہے کہ جس طرح اس تحریر میں انہوں نے نہایت چنے ہوئے الفاظ کے ساتھ ابہام کو ختم کرنے کی کوشش ہے اسی طرح چند قدم اور آگے بڑھ کر مہران ، نورالدین اور جاوید معاملے پر بھی ایسا سرا تلاش کریں جسے جوڑ کر مستقبل میں آزادی پسندوں کے درمیان وسیع تر اتحاد کی راہ ہموار کی جاسکے ، ہمیں آزادی کے بعد بھی اسی سرزمین پر رہنا ہے ۔ اختر مینگل جھلاوان چھوڑ کر کہیں نہیں جانے والے تو ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے ہم اپنے تمام تر وسایل استعمال کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی طے کریں کہ وہ ہم سے قائل ہوں بجائے دشمن کی طرفداری کی ہماری طرفداری کریں ، یہی مناسب ترین حکمت عملی ہوگی۔ جس طرح میں نے عرض کیا تھا بی آر پی کی کمزوری آزادی پسندوں کی کمزوری ہے ، اسی طرح ھیربیار اور ماما قدیر کی کردار کشی بھی قابل مذمت ہے ، یہ بات ہمیں گرہ میں باندھنی چاہئے کہ لشکربلوچستان قبائلی بنیادوں پر ضرور کھڑی کی گئی ہے لیکن جس طرح بی ایل اے اور بی آر اے کے مقاصد سیاسی ہیں اسی طرح یہ بھی آزادی کے دعوے کی بنیاد پر قائم ہے ، اس کے قیام میں عام سیاسی ورکروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے ، تو کل اگر یہ سانحہ رونما ہو کہ جاوید آزادی کی راہ چھوڑ دیں تو لشکر بلوچستان کی موجودگی میں اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا ، لوگوں نے محض نعرے بازی نہیں کی ہے بلکہ اپنے جگرگوشے اس تحریک پر قربان کیے ہیں ، آج پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ تحریک کسی سردارزادے کا محتاج نہیں بلکہ ہرطقبے کی بقا اس تحریک سے جڑنے میں ہے ۔
مہران ، نورالدین اور براھمدگ کی جاوید سے قربت کو مسئلہ بناکر پیش کرنے کی بجائے ہم اس کو استعمال کرتے ہوئے لشکر بلوچستان کو پارلیمان پسندوں کے خلاف جھلاوان میں ایک مضبوط اور منظم طاقت بننے میں مدد کرسکتے ہیں ۔
انہوں نے کچھ دانشوروں کے برعکس مہران پر الزامات لگانے کی بجائے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے سابقہ دوستوں کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب ہونے سے روکے ، بہت ہی عمدہ مشورہ ہے ۔ سیاسی ورکروں کو ان مندرجات کی حمایت کرنی چاہئے اور مہران کو بھی یہ مشورہ قبول کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے مگر التماس ہے کہ جاوید مینگل متعلق ہماری رائے پر بھی غور کیا جائے ۔
Post a Comment