پروفیسر حسن جانان بھی بالآخر ضبط کو نہ روک سکے اور سوشل میڈیا پر ھیربیار کی حمایت میں میدان میں آنے کے بعد بذریعہ کالم بھی سردار خیربخش مری سے جواب طلبی کررہے ہیں ۔ پروفیسر کا دعوی تو سیاسی کارکن ہونے کا ہے بلکہ انقلابی جو قبائلی اور غیرسیاسی سوچ پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ھیربیارانقلابی آدرشوں اور تحریک کے مفاد کے لیے کام کررہے ہیں لیکن میں کچھ اور ہی سوچ رہا ہوں ۔ یہ حقیقت جوآج حسن جانان نے بیان کی ہے اس سے ہماری واقفیت کافی پرانی ہے،ہمیں بچپن سے یہ باور کرایا گیا ہے کہ سردار صرف اپنے مفادات کے ہیں ، اُن کو قوم اور قومیت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ پروفیسر
صاحب اگرمکوران کی تاریخ کو اورماڑہ سے لے کر مغرب کی سمت باھو دشتیاری تک کنگالیں تو یہاں سرداریت کے خلاف دوسوسا ل سے بھی پرانی تحریک کی جڑیں ہیں۔ یہاں سرداریت کی خلاف عمومی نفرت ہی نہیں عوامی جرأت بھی کافی بلند سطح پر ہے۔سرداری انا کوسمجھنے کے لیے ہمیں مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں البتہ پروفیسر صاحب جیسے سیاسی کارکنان کو سرداری انا کو درست طور پر سمجھ کر اپنے مستقبل کو سرداروں کی بجائے سیاسی اداروں کے فیصلوں سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے ۔اُن کی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے عصا ظفر بھی یاد آئے جنہوں نے نہایت خاموشی سے استعفیٰ دیا ، میڈیا پر اُن کی کردارکشی کی گئی ،اُنہیں بھگوڑا اور غدار تک کہاگیا ہے ،پھر بی این ایم تقسیم ہوئی تو بھی اُن پر اُنگلی اُٹھائی گئی حالانکہ یہ اُن کے استعفیٰ کے ٹھیک ایک سال بعد ہوا ۔ عصاظفر اور ھیربیار میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہی ہے کہ عصا متوسط درجے کے کاروباری ، اور ایک عام سیاسی کارکن ہیں کسی سردار کے بیٹے نہیں اس لیے میڈیا پر اداروں کے خلاف بیان بازی نہیں ہوئی ، کسی دھڑے بندی میں شامل نہیں ہوئے اور پارٹی جھدکاروں کو موقع دیا کہ وہ آزادانہ بنیا د پر پارٹی فیصلے کریں ،اُن کے مضبوط کردار کی بدولت آج پارٹی جھدکار بھی سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پارٹی اور تحریک کے مفاد میں جو فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا ۔جہاں شخصیات کا ٹھکراؤ ہوتا ہے وہاں ادارے زوال پذیر ہوکر بالآخر ٹوٹ جاتے ہیں ۔ گروہی تقسیم سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔جھدکاروں کے درمیان جو ربط اور ہم آہنگی ہوتا ہے اس کی جگہ شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں اور پرانے ساتھی ایک دوسرے سے بدظن ہوکر نئی حلقہ بندیوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ، حلقہ بندیوں کی جنگمیں اچھے برے اور لائق نالائق کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ، گروہی دوڑ میں گروہ کے سربراہ کے لیے سب سے بہترین ساتھی وہی ہے جو اس کے موقف کی غیرمشروط اور جیالے پن سے حمایت کرئے ۔

حسن جانان کے جیالے پن پرحیرت ، یہ کام ہم جیسے بقول حسن کے ’’ ھچ مزانت ‘‘ کرئے یابی ایس او کا کوئی ورنا جو سیکھنے کے مرحلے میں ہیں ، سکھانے پڑھانے والے نہیں ، تو بات کچھ اور ہوتی مگر یہاں توآوے کا آوا ہی بگڑا ہو اہے جن سے اُمید تھی کہ وہ ان معاملات کی درستگی کے لیے سیاسی اور شعوری پختگی کا مظاہرہ کریں گے وہ بھی گروہوں کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ پروفیسر نے الفاظ تو وزن دار چنے ہیں ’’ منظم وپختہ سوچ ،منظم وپختہ شعور ، پختہ و شعوری آگاہی ،سیاسی ونظریاتی تضاد ، قومی اجتماعیت ،فرق و تفاوت وغیرہ ‘‘لیکن انہیں جوڑنے کے لیے خیربخش ، مہران اور ھیربیار کے جوڑ لگائے گئے ہیں وہ ان الفاظ کے اثرات کوزائل کردیتے ہیں ۔

ہمارا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ اس جھگڑے کو میڈیا کی زینت بنانا نہیں چاہئے تھا یہ ایک خالص گھریلو نوعیت کا جھگڑا ہے جسے پہلے تنظیمی جھگڑا بنایا گیا اور اب اسے تحریک کی سطح پر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے بتتدریج جو نیم سچائیاں ھیربیار کے خیرخواہی کے دعویدار قلم کار میڈیا میں اُچھال رہے ہیں وہ عام سیاسی کارکن کے لیے انتہائی مایوس کن ہیں ۔ حسن جانان نے اپنی تحریر میں اُن الزامات کو جگہ دی ہے جو سوشل میڈیا پر پہلے تو’’ ان بکس چیٹنگ ‘‘ کے ذریعے پھر کھل کر لگاگئے ۔ مرکزی ملزم مہران مری اور خیربخش مری کو بنایا گیا ہے جب کہ مدعی ھیربیار ہیں ۔ الزام ہے کہ’’ مہران نے تنظیم کے مالی معاملات میں خرد برد کی ، ھیربیار نے اس پر انہیں سرزنش کی ، خیربخش نے مہران کی حمایت کی اور اس حدتک کہ اُلٹا ھیربیار کو ہی رد کردیا اوربی ایل اے کا کمانڈ مہران کے سپردکرنا چاہا اس پر ھیربیار نے مزاحمت کی، ردعمل میں بی ایل اے تقسیم ہوئی اور خیربخش نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی نامی اپنی علیحدہ تنظیم کھڑی کرلی جس میں اپنی معاونت کے لییاب کے بار مہران کو چنا ۔‘‘ مگر یہ قابل غور ہے کہ پروفیسر بلاتبصرہ یہ بیان نہیں کررہے بلکہ وہ ان الزامات کے صحت کی تصدیق کرتے ہوئے ، ھیربیار کو درست اور خیربخش کو غلط قرار دیتے ہیں۔ تحریر میں اُن سے جواب طلبی اور انہیں اس مسئلے پر خاموشی توڑنے کی جوبات کی گئی ہے وہ محض دکھاوا ہے جب کہ تحریر کابنیادی مقصد ’’ھیربیار کی صفائی پیش کرکے خیربخش اور مہران کو مجرم ثابت کرناہے ۔‘‘

پروفیسر سے جب بات ہوئی تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ آپ حقائق سے واقف نہیں ، اُن سے باادب عرض ہے جتنا حقائق آپ بتاتے جارہے ہیں ہم اتنے ہی زیادہ اُلجھتے جارہے ہیں اور ہماری یہ سوچ پختہ ہوتی جارہی ہے کہ یہ کوئی نظریات کی جنگ نہیں بلکہ شخصیات اور ذاتیات کا ٹھکراؤ ہے جس میں تنظیموں اور اداروں کو فریق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ وہ خود بھی مانتے ہیں کہ ’’ یہ نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ گروہیت کے فروغ ،اناپرستی اور ناانصافی جیسے اختلافات ہیں ۔‘‘یعنی وہ تصدیق کرتے ہیں کہ نظریاتی طور پرمہران ھیربیار اختلاف یا بی ایل اے میں موجود اختلافات اس بنیاد پر پیدا نہیں ہوئے کہ کسی لیڈر نے تحریک کی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوشش کی اور دوسرے نے انہیں ماننے سے انکار کردیا ، بلکہ اختلاف تنظیمی وسائل کی غلط تقسیم کی وجہ سے ہوئی جسے وہ گروہیت اور اناپرستی کا اضافی اور غیر ضروری لیبل بھی لگاتے ہیں ۔اصل لڑائی تنظیم کے مالی وسایل کو لے کر شروع ہوئی جو بلآخر دھڑے بندی کا سبب بن گئی ۔

تحریک کے خیرخواہوں کے لیے اس مسٗلے کو کمترین الفاظ میں صحیح طور پر سمجھنا نہایت ضروری ہے ، پروفیسر کے بیان کیے گئے تمام باتوں کو میں حرف بہ حرف درست تسلیم کرتا ہوں لیکن کیا خیر بخش نے اُن پر اپنے گھر کے دروازے بندکرلیے ہیں اور انہوں نے اُن سے ملنے سے انکار کردیا ہے ؟ کیا ضروری ہے کہ ان معاملات کو میڈیا کے ذریعے حل کیا جائے جہاں اُن کے حل کی کوئی صورت نہیں یا جس طرح میں نے عرض کیا مہران اور خیربخش کے میڈیا ٹرائل کے ذریعے ھیربیار کو بے قصور ژثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس سچائی پر پردہ ڈالا جارہا ہے کہ ’’ سردار خیربخش مری ھیربیار کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ، اس لیے اُن کی جگہ انہوں نے مہران کو ذمہ داریاں سونپ دی جس کو قبول کرنے کی بجائے ھیربیار نے اُن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ‘‘ پروفیسر اور ان کے دوست اسلم کو ان باتوں کو میڈیا پر اُچھالنے سے پہلے یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے تھا کہ اُن کی باتوں کو محض اس لیے سچ تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ ان کے روای معتبر ہیں کیوں کہ الزام حالیہ تحریک کے بانی پر لگایا جارہا ہے جس کی اُنگلی پکڑ کر انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ہے ، وہ سردار خیربخش کی تحریک کے اندروانی معاملات میں رازداری کو اُن کا جرم بناکر پیش کررہے ہیں ، تو کیا یہ سوال غیراہم ہے کہ بی ایل اے کے اندرونی معاملات کو تنظیمی اداروں میں حل کرنے کی بجائے میڈیا میں لانے کی پالیسی کس کی تھی ؟ کیا حماقت کی حد نہیں کہ جب آزادی کی لڑائی شروع کی گئی تو کیا قوم کے سامنے یہ بات رکھی گئی کہ ہم لڑنا چاہتے ہیں ، ہمیں بندوق اُٹھانا چاہئے یا نہیں ؟ مدد کہاں سے آئی گی؟ ہتھیارکون دے گا ؟ کیسے ہماری تحریک خطے کے پراکسی وار سے محفوظ رہے گی ؟ سردارکس طرح اپنے ذاتی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک عام سپاہی کی طرح جنگ لڑیں گے ؟خود ہی مری سردار نے فیصلہ کیا اور نکل پڑا پھر کارواں بننے کی ایک اپنے ہی کہانی ہے، اس وقت قوم تو پارلیمانی سیاست دانوں کے سحر میں جھکڑی ہوئی تھی۔کچھ ہی لوگ تھے جنہوں نے کسی قومی ریفرنڈم کے بغیر اعلان جنگ کیا ، تو اب کیوں قوم سے پوچھنے یا اسے بتانے کی ضرورت پیش آئی ؟ ہم بار بار پوچھ رہے ہیں اسلم ، یا کوئی اور دانشور جواب تو دے کہ بھئی قوم سے رائے لینے کی میکنزم کیا ہوگی ؟ تمہاری ڈکشنری میں قوم کی تعریف کیا ہے ؟
آسمانی دانشورو! زمین پر آجاؤ قومی پختہ شعور اور حقیقی انقلابی قوت جیسے تراکیب اور اُن کے خودساختہ مفہوم تراشنے کی بجائے معروضی حقائق کا سامنا کریں ۔ہم نے ابھی تک قوم کو شعور نہیں دیا البتہ دنیا میں مواصلاتی انقلاب کی وجہ سے ایک آگاہی پیدا ہوئی ہے ۔یہ پاکستا ن کے مظالم اور شہدا ء کی قربانیوں کے بدولت ہے کہ قوم میں آزادی کا جذبہ موجود ہے لیکن آزادی کے لیے جو قومی شعورہونی چاہئے وہ ابھی تک اس منزل پر نہیں کہ ہم تحریک کے معاملات کو حل کے لیے اس کے سامنے پیش کریں ۔
آپ اداروں کی بات کرتے ہیں ، قبائلی سوچ کے خلاف بول رہے ہیں لیکن آپ اپنے اندر کے تضاد کو نہیں دیکھ پارہے کہ آپ اداروں کی نہیں بلکہ سردارزادہ مہران کے خلاف سردار زادہ ھیربیار کی حمایت کررہے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مرحلے میں آپ کھل کر اداروں کی بات کرتے اور اپنی تنظیمی ساتھیوں کو یہ سمجھاتے کہ یہی وقت ہے کہ ہم مری سردارکا طوق اپنے گلے سے اُتار پھینکیں اور تحریک کی قیادت مضبوط اداروں کی سپرد کردیں ۔سردار خیربخش ، بزرگ احترام کے قابل ہیں لیکن ان کامشورہ تنظیم کے لیے محض ایک فرد کا مشورہ تصور ہوگا جسے اسی صورت قبول کریں گے جب تنظیمی اداروں میں بحث کے بعد اسے تسلیم کیا جائے گا ۔

آپ گروہی اور تنظیمی انا کے خلاف ہیں لیکن بی ایل اے کو مدر آرگنائزیشن قرار دے کرتاریخ کو بھی تنظیمی اناکی بھینٹ چڑھا رہے ہیں، آپ کے باقی بیان کردہ حقائق خود ہی یہ بھید کھول رہے ہیں کہ بی ایل اے ، سیاسی بنیادوں پر قائم ہونے کے باجود تنظیمی طور پر قبائلی سوچ کا اسیر ہے ، اس کی قیادت مری سرداروں کی ذاتی میراث ہے جس کے لیے مہران اور ھیربیار ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں ۔ہم سمجھتے تھے کہ یہ وقت سردار مری کے بعد ہی آئے گا اوراس خدشہ کا ہمیشہ اظہار کیا جاتارہاہے کہ سردار مری کے بعد تنظیم گھریلو جھگڑے کا شکار ہوسکتی ہے لیکن بیٹے کا باپ کے سامنے سینہ تھان کر کھڑا ہونا توقعات کے برعکس ہے ۔

آج پروفیسرنے ہمیں بھی یہ سچائی بیان کرنے کا موقع دیا ہے کہ بی ایل ایف ، اس لیے بی ایل اے کے ساتھ ضم نہیں ہوئی کہ یہ تاثر موجود تھا کہ بی ایل اے کی قیادت ایک سردار کے پاس ہے جس کی موجودگی میں ادارے آزادانہ فیصلے نہیں کرسکیں گے ۔ جو تنظیمی طعنہ ، اسلم کے بعد حسن نے دیا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ بی ایل اے نے بی ایل ایف کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی، تربیت ، ہتھیار اور دیگر مالی وسایل ۔ جس کی بنیاد پر انہوں نے بی ایل ایف کو اپنے تابع رکھنے کی کوشش کی ۔ ہمارے ایک بزرگ نے بی ایل ایف کی تشکیل سے پہلے کی صورتحال کی کچھ اس طرح نقشہ کشی کی ہے کہ : ’’ بی ایل ایف کی تشکیل کے بعد کچھ دوست میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ مری سردار سے مدد کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے آپ ہمارے ساتھ چلیں ۔ میں نے منع کیا اور کہا کہ آپ سرداروں کو نہیں جانتے میری زندگی ان کے ساتھ گزری ہے ان کے پاس جانے کی بجائے اپنی غریبی میں ہی گزارہ کریں ، لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی ، اب جب کہ ساتھ نبھانا مشکل ہورہا ہے تو پھراُن سے دوری چاہتے ہیں ، اب یہ غلط ہوگا ، جب کوئی آپ کو کچھ دے رہا ہے تو اُس کے بھی کچھ شرائط ہوں گے ۔‘‘بی ایل ایف کیجڑیں ماضی کی سیاسی تحریکوں تک جاتی ہیں، ایک خالص سیاسی غیرقبائلی بنیاد وں پر قائم کی گئی واحد تنظیم جس کی قیادت کسی فرد نہیں اداروں کے پاس ہے ۔ بی ایس او اور بی این ایم کے سرکل سے نکل کر اس کے صفوں میں شامل ہونے والے بیشتر شہید یوسف نذر جیسے سپاہی ہیں ، جن کے گھر میں دووقت کی روٹی نہیں پکتی۔اس کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایک گھریلو جھگڑے کو پھیلا کر اشارے کنایوں اور صاف الفاظ میں اس کو بھی ملوث کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔

مانتا ہوں کہ ماضی میں بہت ساری ایسی غلطیاں ہیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں لیکن میں یہ منطق تسلیم نہیں کرتا کہ ھیربیار کا بت کھڑا کر کے باقی تمام تنظیموں کے اداروں کی تذلیل کی جائے ۔حسن جاناں نے جو حقیقت بیان کی ہے اس کے بعد اب گنجائش نہیں رہی کہ مزید یہ مشورہ دیا جائے کہ تنظیمی معاملات میڈیا پر نہیں لانی چاہئیں اب کوئی بات پوشیدہ نہیں رہی ۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس خاندانی افیئر میں جھدکاروں کوپڑنے کی ضرورت نہیں ۔ بی ایل اے اگر اس کو اپنا تنظیمی معاملہ سمجھتی ہے تو آپ ہی حل کرئے کم ازکم ہمارے پاس اس کے حل کا کوئی مینڈیٹ نہیں البتہ اس جھگڑے کا میڈیا میں آنے سے ہمارے پاس اب اس کے سواء کوئی چارہ نہیں کہ ہم سرداروں اوران کی بنائے گئی تنظیموں کے ساتھ اپنے رشتے ، اور اُن کی بالادستی پرسنجیدگی سے غور کریں ۔سردارزادگان کا اس سے زیادہ بھیانک اور بدنما چہرہ نہیں ہوسکتا کہ قوم نہایت یکسوئی سے قربانی دے رہی ہے اور وہ اُن کی لاشوں پر اپنی ذات ، انااور سرداری کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ شاید پروفیسر حسن جانان بادینی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سردار زادگان کی انا کا فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن میں یہ نہیں سمجھتا کہ وہ واقعی ایک عام بلوچ کی طرح تحریک میں شامل ہوئے ہیں ، اس لیے بہترین راستہ اپنے جہدوجہد کو سیاسی اورعسکری محاذپر سرداروں کے دستبرد سے محفوظ رکھنا ہے ۔ شاید ابتدائی طور پر ہمارے پاس اُن جتنے وسایل نہ ہوں ، بین الاقوامی فلیٹ فارم پر نمائندگی نہ دی جائے مگر جب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے تو راستہ چلنا بھی سیکھ لیں گے ۔

حسن جانان نے اتحاد کی مخالفت کی ہے ہم بھی ایسے اتحاد کوتحریک میں سرداروں کی بالادستی برقرار کرنے کی کوشش قرار دیں گے جس کا خان قلات، ھیربیار، جاوید، نورالدین اورمہران بغیر کسی تنظیمی نمائندگی کا حصہ ہوں ۔ اب سردار ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دیں کہ سیاسی جھدکار اُن کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلیں گے ،مگر میں حسن جانان کی طرح اتحاد کے لیے روحانی شرائطرکھنے کابھی قائل نہیں کہ ’’ حقیقی انقلابی قوت جن میں اناپرستی نہ ہو ‘‘ بلکہ سادہ سیاسی شرط ’’پاکستانی اداروں سے مکمل لاتعلقی اور جہد آزادی ‘‘ کی بنیاد پر بی این ایم کو کسی بھیگروہ کے ساتھ مشترکہ کام کرنے پر اعتراض نہیں ہوناچاہئے لیکن غیرقبائلی سوچ کی حامل واحد قوم دوست سیاسی جماعت کی حیثیت سے جس کی قیادت جھدکاروں کے پاس ہے ، بی این ایم کی علیحدہ حیثیت کا خاتمہ ایک قومی نقصان ہے جس کی کوئی سیاسی کارکن حمایت نہیں کرسکتا ۔
Labels:
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.