* شھید محبوب کی وصیت *
اُن کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی ، ہمیشہ متحرک نظر آنے والے محبوب
واڈیلہ دور سے دیکھنے والوں کو لااُبالاجوان لگتے ۔ لیکن دوست جانتے تھے کہ
وہ نظریاتی اور پختہ سرمچار ہیں ، نامساعد اور مشکل حالات میں بھی زندگی
کی تازگی کو اپنے وجود میں برقرار رکھنے والے ایک بظاہرلاپرواہ لیکن زندگی
کے کھیل کوسمجھنے والے سنجیدہ انسان اور اپنے نظریے سے عشق کرنے والے سیاسی
جھدکار تھے ۔
سمینار کے اختتام پر بی ایس او آزاد کے نمائندے کو تقریرکے لیے نہ بلانے پر اُن کی اور شہید لالا حمید کی ’’ دپ جنگی ‘‘ سے ہمارے درمیان نئے بننے والے سیاسی رشتوں میں ایک عارضی خلیج پیدا ہوا ۔اُن کا موقف تھا کہ بی ایس او نے علیحدہ جلسہ بلا کر قومی سطح پر ناا تفاقی کا تاثر دیا ہے اور اس پروگرام کی تیاری میں وہ شامل نہیں تھی اس لیے اس کا نمائندے کو تقریر کے لیے نہیں بلاؤں گا ، شہید ہم سب کے زور دینے پر بھی اپنی بات پر ڈٹے رہے ، اتفاق سے دوسرے دن روزنامہ توار میں اُن کی تصویر بھی شائع نہیں ہوئی۔ جس پر انہوں نے مجھے فون کر کے انگلش میں کافی جذباتی انداز میں گلے شکوے کیے ، یہ اُن کا ایک اور روپ تھا و ہ بچوں کی سی حساسیت اور جذبات کا مظاہرہ کررہے تھے جس سے مجھے اُن کے اخلاص پر یقین پختہ ہوگیا ۔ شہید محبوب کی پیدائش ہی بی ایس او کے گود میں ہوئی ، اُن کے چچازاد بھائی حسین واڈیلہ اُن کے نظریاتی اور سیاسی اُستاد تھے ، وہ بولتے بھی اُنہی کی طر ح پرکشش اور بھاری آواز میں ۔ میں اُن کے سامنے جب ناکو واڈیلہ کا نقل اُتارتا تو وہ مجھے ہنستے ہوئے ٹوکتے جس پر میں مکر جاتا کہ میں تو آپ کا نقل اُتار رہا ہوں ، نہ کہ ناکو کا ۔ لیکن اپنی ساری زندگی بی ایس او میں گزارنے کے باوجود اس میں سیاسی چالاکی ذرہ برابر بھی نہ تھی ، بچوں کی طرح معصوم تھے۔ اس رات انہوں نے کافی دیر تک مجھ سے فون پر گلہ شکوہ کیا اور میں انہیں بچوں کی طرح منانے کی کوشش کرتا رہا ، یہاں تک ہم دونوں کے بیلنس ختم ہوگئے پھر میں نے انہیں میسج کیا اور یقین دلایا کہ اُن کی تصویر کا شائع نہ ہونا ہمار ی طرف سے بد دیانتی نہیں بلکہ یہ فیصلہ نیوز ڈسک کا تھا جن کو آپ کے اور لالہ کی ’’دپ جنگی ‘‘ سے کوئی واسطہ نہیں اور وہ ثبوت دکھانے پر مان گئے ۔
لیکن سیمینار کے دن بھی وہ برائے نام نیشنل پارٹی میں تھے اُن کا اندرونی تعلق بی این ایم اور اس کے نظریے سے تھا ۔ وہ ہماری سیاسی وابستگی سے بھی واقف تھے ۔ انہوں نے مجھے فون کر کے ایک دن کہا کہ یہ بلوچ نوجوان اتحاد والا ڈرامہ ختم کریں اور سیدھا سیدھا بتائیں کہ آپ بی این ایم کے ورکر ہیں ، ہمارے خفیہ فیصلے کا اُن کو علم ہونا اُن کی پارٹی میں گہرے تعلقات کی وجہ سے تھا اور اس کا اظہار کرکے وہ جتانا چاہتے تھے کہ وہ نیشنل پارٹی کے ورکر نہیں بلکہ بی این ایم کے جھدکار ہیں ۔ لیکن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہید واجہ کی شہادت تک نیشنل پارٹی میں نظریاتی اصلاحات اور اسے راست سمت میں واپس لانے کے لیے بھی کوشش کرتے رہے ، شہید واجہ کی شہادت کے بعد وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے ۔ اپنے نیٹورک کے کچھ ساتھیوں کے اغوا اور لاپتہ کیے جانے کے واقعات نے انہیں اپنی حکمت عملی بدلنے کے متعلق سوچنے پر مجبور کردیا ۔
ایک دن حسب معمول توار کے آفس میں آکر انہوں نے نیشنل پارٹی میں موجود بی این ایم کے نظریاتی دوستوں کی اعلانیہ فوری شمولیت کے وجوہات پر دلایل دیئے ۔ آخرمیں جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ :’’ میں نہیں چاہتا میری لاش پر نیشنل پارٹی سیاست کرئے ۔‘‘
* وہ جو وعدہ نبھا گیا *
ایک طویل خاموشی اور پس منظر میں رہنے کے بعد وہ سید ھاشمی آڈیٹوریم گوادر میں منعقدہ ادبی پروگرام میں مقرر کے طورپر منظرعام پر آئے ۔ بہت ہی مدلل اور پر اثر گفتگو کے بعد سامعین کافی دیر تک شہید عبدالرحمان عارف کے مقالے پر تبصرہ کرتے رہے ۔ پاکستان میں مشرف رجیم کی حکمرانی تھی جنہوں نے گوادر میں خصوصی دلچسپی لی اور یہاں میگا استحصالی منصوبے شروع کیے جن کا مقصد گوادر میں آبادکاری اور گوادر پورٹ کے ذریعے پاکستان کے مقتدر طقبے کی عیاشیوں کے لیے مزید وسایل اور سامان مہیا کرنا تھا ، بلوچ سیاسی جماعتیں جلد ہی اس کی نیت بھانپ گئیں ۔ تحریک چار جماعتی اتحاد کے جلسے جلوسوں سے شروع ہوئی جن کو پاکستان نے کوئی اہمیت نہیں دیا ۔
شروع میں آزادی پسند سیاسی جماعتیں کافی پس منظر میں تھیں ، کسی جماعت کے آئین میں واضح طورپر پاکستان سے علیحدگی کا ذکر نہیں تھا ۔ بی این ایم کے آئین میں بھی دو ہزار آٹھ تک’’ حق خودارادیت ‘‘ کا لفظ شامل تھا ۔ نیشنل پارٹی مکوران سمیت گوادر میں بھی ایک مضبوط قوم دوست جماعت سمجھی جاتی تھی لیکن شہید عبدالرحمان اُن کی پالیسیوں کے کٹر مخالف تھے ۔ اُن کی طویل خاموشی، سیاسی اور ادبی سرگرمیوں سے طویل لاتعلقی کے وجوہات کا مجھے علم نہیں ، لیکن جیسے جیسے گوادر ایشو میں شدت آتی گئی اور یہ جنگ بتدریج پورے بلوچستان میں پھیلتی گئی ۔ گوادر میں زمینوں کی بندر بانٹ ، کالی دھن کی ریل پیل ، بڑی پارٹی کے طور پر نیشنل پارٹی کے سیاسی ، اخلاقی اور مالی بد عنوانیوں نے قابض ریاستی مشینری کو گوادر پر قبضے کی خوش گمانی میں مبتلا کیے رکھا ۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ چاہئے پورا بلوچستان جلے لیکن اُن کے لیے سونا اُگلنی والی گوادر کی زمین اس آگ سے محفوظ رہے گی ، سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے بعد جزیرہ نما گوادرمیں کیے گئے ، پوری پاکستانی بندوبست میں صرف دو چیف سیکورٹی آفیسر تھے ، ایک اسلام آباد اور دوسرا بلوچستان کے قصبہ نما شہر گوادر میں جس کی اس وقت کی آبادی بمشکل پچاس ہزار نفوس پرمشتمل تھی ،اس سے اُن کی گوادر کو مکمل گرفت میں رکھنے کے اعلیٰ سطحی منصوبوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو براہ راست پنڈی کے زیر نگرانی تھے ۔
سماجی اور سیاسی ماحول کو آلودہ کرنے اور لوگوں کو ایماندارنہ سیاست سے دور رکھنے کے لیے ، گوادر میں پورے پاکستان سے منشیات اور دیگر غیر قانونی کاموں سے اکھٹی کی گئی دولت کو بے دریغ استعمال کیا گیا ۔ ڈی سی او گوادر کو گوادر کی زمینوں کا مختار کل بناکر ان کے ذریعے مختلف اسکیم کی پلاٹوں کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ کوئی ایک آدھ سیاسی ورکر ہوگا جو اس گندگی سے محفوظ رہا ہو۔
شہید عبدالرحمان عارف بھی اس سیاست میں کود پڑے ، بی این پی عوامی میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے مقامی سطح پر پیداگیر گروہوں میں سیاست کی ، بطور صحافی اندرونی کہانیوں تک رسائی کی وجہ سے میں اُن سے کافی بدظن تھا ، بی این ایم میں شمولیت کے بعد ہمیں اُن کی سرگرمیوں سے نفرت ہونے لگی ۔ ہم صحافی کی حیثیت سے اُن کے پروگرامات اور پریس ریلیز کی کوریج کرتے ، جھوٹ اور بددیانتی کی سیاست کی وجہ سے وہ ہمارے لیے ایک ناپسندیدہ شخصیت تھے ، ہم نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ ایک دن وہ اپنی ماضی کے نظریے سے رجوع کریں گے ، آزادی پسندوں کے صف میں شامل ہوکر ہم سب کو مات دے جائیں گے ۔
وہ بی ایس او کے اُن کیڈر میں تھے جنہوں نے روس میں تربیت حاصل کی تھی ، ایک دن پیداگیروں کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کے بعد انہوں نے خلاف معمول مجھ سے ہاتھ ملایا اور ایک غیرمعمولی وعدہ کیا ، میں سپاٹ احساسات کے ساتھ اُن طرف دیکھ کر مسکرایا ۔
پھر یہ چی مگوئیا ں ہونے لگیں کہ عبدالرحمان اور بی ایس او کے ایک سابق چیئرمین بی این ایم میں شمولیت کے خواہش مند ہیں ۔ ہمارے سرکلز میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ کیا ان کرداروں کو بی این ایم میں قبول کرنا چاہئے اگر ہاں تو کیسے ۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بی این ایم ایک قومی جماعت ہے جس میں ہر بلوچ شامل ہو سکتا ہے ہم کسی پر پابندی نہیں لگاسکتے لیکن عبدالرحمان جیسے کرداروں کی بی این ایم میں شمولیت کے بعد نئے معروضی حالات کے مطابق اُن کی تربیت اور اُن کو نئی قوم دوست سوچ سے آشنا کرنے کے لیے خصوصی تربیتی سیل قائم کیا جائے گا ، جہاں بی این ایم کے آئین کے مطابق اُن کے تین مہینے کے دوزاھی مدت میں تربیت کی جائے گی ۔اس سے قبل شہید محبوب واڈیلہ اور ان کے ساتھی نیشنل پارٹی ، بی این پی عوامی اور بی این پی مینگل سے استعفیٰ دے کر بی این ایم میں شمولیت کا اعلان کرچکے تھے ۔ چوں کہ اُن میں سے بیشتر ساتھی شمولیت سے پہلے بھی بی این ایم کے پروگرامات میں شامل ہواکرتے تھے اس لیے شہید عبدالرحمان کو پیداگیری سیاست سے قوم دوست سیاست میں آنے کے بعد جس فکری تربیت کی ضرورت تھی اس پر ہم نے لائحہ عمل طے کررکھا تھا ، لیکن اچانک شہید عبدالرحمان نے بی آر پی میں شمولیت کا اعلان کردیا ، ہمارے لیے یہ اُن کا بی این ایم میں شمولیت کی نسبت زیادہ بہتر فیصلہ تھا ۔ شہید احمدداد کی روپوشی کے بعد ناکوحسین بی آر پی میں تنہا رہ گئے تھے گرتی صحت کے باوجود نوجوانوں کی طرح احتجاجی مظاہروں میں شرکت اُن کا حوصلہ تھا ، شہید عبدالرحمان کی شمولیت سے بی آر پی گوادر کو ایک ولولہ انگیز قیادت ملی ، بی آر پی میں شمولیت کے بعد شہید رحمان عارف اور ہمارے درمیان تعلقات سیاسی نوعیت سے ہوتے ہوئے دوستانہ بن گئے ۔
شہید عبدالرحمان اور شہید محبوب کی مزاج میں کافی یگانت تھی ،مگر محبوب کی نسبت رحمان صاحب مطالعہ اور سیاسی معاملات میں زیر ک تھے باوجود اس کے عمومی نشستوں میں محبوب سے بڑھ کر جذباتی تھے، جو بیشتر مخلص سیاسی جھدکاروں میں ایک قدر مشترک ہے ۔ شہدائے جیمڑی کی مناسبت سے جمیڑی میں قوم دوستوں کی تاریخ کے سب سے پر ہجوم جلسہ عا م کی تیاری کے لیے بی این ایف نے مجھے رحمان اور محبوب کو پروگرام شروع ہونے سے پہلے وہاں پہنچنے کی ہدایت کرکے تیاریوں کی نگرانی کا کہا ۔ راستے میں کئی موضوعات پر بات ہوئی ، اس وقت انہیں بخار تھا لیکن پھر بھی وہ ہمارے ساتھ آئے ۔ ہم تینوں بے روزگار تھے اس لیے راستے میں زیادہ تر بات اسی موضوع پر ہوئی کہ کس طرح ہم اپنی سیاسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کو بھی نبھاسکتے ہیں ، ہم نے مل کر کئی پاپڑ بیلے، یہ یادگار لمحات تھے ۔ پھر اُن کے ساتھ کوئی نشست نہیں ہوئی ،پاکستانی ایجنسیوں نے انہیں کراچی سے اغوا ء کرنے کے بعد شہید محبوب واڈیلہ کے ساتھ ایک ہی دن شہید کردیا ۔
یوں انہوں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ، جب بھی سوچتا ہوں وہ منظرذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے ، وہ احتجاجی مظاہرہ ختم کرکے کہیں جانے کے لیے گاڑی کے دروازے کے ہینڈل پر ایک ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے مڑ کر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہیں اور کہتے ہیں :’’ آخر میں ہم سب آپ کی طرف ہوں گے ۔‘‘
Post a Comment