’’بلوچی بتل ’’زوراکے آپ برزءَ تچ اِیت‘‘(طاقتور کا پانی بالائی سمت بہتا ہے )آج صدیوں گزرنے کے باوجود بھی سچ ہے ۔‘‘ گزشتہدومئی کو ایبٹ آباد میں امریکن کارروائی اس کی نمایاں مثال ہے جس پر پوری پاکستانی میڈیا اور خود کو وطن پاکستان کے خیرخواہ سمجھنے والے صحافتی برزجمہرسیخ پاہوکرمہینوں بین الاقوامی قوانین کی دہائیاں دیتے رہے۔ مگر کیا پاکستان واقعی ایسا ملک ہے جس کی کسی بات کو سنجیدہ لیاجائے یا دنیا اس کے’’ صاحب الرائے طبقے‘‘ کو دانشور وں کے معیار پر قبول کرتی ہے ؟
یقیناًنہیں، بلکہ دنیا پاکستان کوایک دہشت گرد اورناکام ریاست سمجھتی ہے ۔پاکستان اپنا سب سے بڑا دشمن ’’ہندوستان ‘‘کو مان کر اس سازشی سوچ کوپروان چڑھارہاہے کہ ’’ہندوستان امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ مل کرپاکستان کوعدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے پاکستان مخالف عناصرکی مدد کررہاہے‘‘ ۔مگر زمینی حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں سر د جنگ کے زمانے میں پاکستان نے اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر امریکہ اور اس کے حواریوں کے ساتھ جو اتحاد بنا رکھا ہے وہی تاحال پاکستان کے بقاء کا ضامن ہے ۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس اتحاد کی بدولت ان ممالک کو پاکستان کے سیاسی معاملات میں برائے راست مداخلت کاسنہری موقع ہاتھ آیا جس کاکو انہوں نے بھرپور استعمال کیا ،پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے۔پاکستان کی ایٹمی طاقت بننے کے پیچھے بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کی خاموش رضامندی شامل تھی ورنہ ایک ٹوٹے پھوٹے ،منتشر ، غیر متفق ، مخلوط نظریات کے حامل اور غیر منظم ڈھانچے پر مشتمل ریاست کاایٹمی تکنیک تک رسائی ممکن نہ ہوتی ۔سامراجی طاقتیں ابھرتی ہوئی معشیت ، نمایاں استعدادکار ، زمین اور آبادی کے اعتبار سے بڑے ملکوں سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں اور ان ممالک کو ہمیشہ دباؤ اور مسائل میں الجھا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بھارت رنگا رنگ سماجی ، مذہبی اور نسلی تضادات کے باوجودمذکورہ معیار پر پورا اُترتا ہے مگر سیاسی اعتبار سے اتنا ہی نااہل ہے جتنا پاکستان ۔اس لیے پاکستان سے فوجی اوراقتصادی اعتبار سے کئی گنا طاقتور ہونے کے باوجود بین الاقوامی طور پر اپنے ان مفادات کے تحفظ اور مقاصد تک رسائی میں ناکام اور امریکہ کی کٹھ پتلی ثابت ہوا ہے ۔یہ امریکہ ہی ہیجو اپنے مفادات کیخاطر ہندوستان کو پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدام سے روکے ہوئے ہے۔اس لیے کشمیر نصف صدی کے بعد بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ماتھے پر بد نما داغ ہے ایک ایسا داغ جو بڑی تیزی سے پھیلتا ہوا اس کے پورے چہرے کو بدنما بنا رہاہے۔یہ وہی ہندوستان ہے جو امن ،شانتی ،کلچراور خوشیوں کا گہوارہ مانا جاتا تھا، جس کی تہذیبی خوبیوں کی بناء پرپوری دنیا اس کے حسن کی دیوانی تھی،صدیوں سے ایک ایسی سرزمین جسے سیاح دیکھنے کا ہوس کرتے تھے۔ہندوستان جس کو’’ گاندھی ‘‘کی ہندو اوتارکی سی چھاپ اور نہروکی ذہنیت نے تعصب اور فرقہ واریت کے اس مقام پر پہنچا دیاہے جہاں سے محض چندقدم آگے پاکستان کھڑا ہے ۔پاکستان جس کے اصل خالق ’’محمد علی جناح ‘‘نہیں برطانوی افسر اور ان کے لیے لیے نرم گوشہ رکھنے والے نہروجیسے گانگریسی لیڈر ہیں جنہوں نے ہندومسلم تعصب کی بنیاد رکھی ۔
پاکستان ‘جس کے مقتدرہ کو شروع سے ہی یہ اندازہ تھا کہ ان کی ریاست کا وجود ایک سازش کے سواء کچھ نہیں ، اس کی مقتدرہ کی تربیت ایسے برطانوی اداروں میں ہوئی جہاں سے انہیں ادراک ہواکہ وہ منافقت اور دھوکے بازی کے بغیر اپنی حاکمیت کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے ۔انہوں نے شروع ہی میں پاکستان کے سماجی مسائل اور تضادات کو سمجھنے کی دانستہ کوشش نہیں کی ۔فوج کی بالادستی کو برقرار رکھا گیا جس کو جواز فراہم کرنے کے لیے ہندوستان کو دشمن سمجھنے کی سازشی سوچ کو راسخ کیا گیا۔پاکستان کیپالیسی سازوں کے خیال میں ’’اسلام ‘‘ایک ایسا ذریعہ ہے جس کو استعمال کر کے و ہ نہ صرف نام نہاد پاکستانی قومیت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں بلکہ پاکستانی بندوبست میں شامل کیے گئے دیگر قومیت کے وسائل پر بھی اپنا حق جتاسکتے ہیں ۔
اس میں اگر نیک نیتی کا دخل ہوتا ہے تو پاکستانی حکمران ہمیشہ سے غیر مذہبی اورعیاش طبع نہ ہوتے ان کے برعکس کردار سے ہی واضح ہے کہ اسلام کو محض حاکمیت برقرار رکھنے کے ایک فارمولے کے طور پر ضرورت پڑنے پراستعمال کیا جاتا ہے ۔سامراجی فوج جوکہہمیشہ سے چند پیسوں کے لیے کوئی بھی انسانیت سے گری ہوئی حرکت کرنے والے مزدوروں پرمشتمل ہوتی ہے ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر مقتدرہ کو ان کی وفاداری پر ہمیشہ شک رہتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستانی فوج کے سپاہی اسی سماج سے بھرتی کیے جاتے ہیں جہاں مذہبی سوچ اور ہند ودشمنی کو راسخ کیا گیا ہے لہذا انہیں اسی طرح کے نعرے اور نظریاتی تربیت فراہم کی جاتی ہے جو انہیں جذباتی طور پر وفادار بنائے رکھنے کے بھی کام آتے ہیں ۔
یہ فارمولا طویل عرصے تک موثر ہونے کے باوجود اعلی مقاصد کے حصول کے لیے ناکام ثابت ہواہے ۔پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں سے تربیت پانے والے سپاہیوں اور افسران سے ملئے یا یوں ہی سر راہ مڈ بھیڑکیجئے ان کی ذہنیت اورتربیت کا پتا چل جائے گا۔راقم اپنے ساتھ پیش آنے والے دو مختلف واقعات کے سبب پاکستانی فوجیوں کے رویے سے واقف ہوا ہے جن کے بارے میں پہلے محض دوسروں سے سن رکھاتھا۔
دوہزار چار کے وسط میں جب بلوچستا ن کے حالات اس قدر خراب اور بغاوت گلی محلے کی سطح تک نہیں پھیل چکی تھی اور گوادر کے عوام کی اکثریت قوم دوستیکے آزادی پسند نظریات سے ناواقف تھے ۔عید الفطر کے دوسرے دن کا واقعہ ہے،گوادر کے عوام پرانی روایت کی پیروی میں ہزاروں کی تعداد میں کوہ باتیل پر عید کی خوشیا ں منانے کے لیے جمع ہورہے تھے ۔اس وقت میر ابڑا بیٹا قاضی اے آرداد ( قاضی عبدالرزاق )محض ڈیڑھ سال کا تھا، جسے میں کندھے پہ اُٹھائے بھیڑ میں شامل تھا ۔رش کافی زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی موٹر سائیکل اور گاڑھیاں چڑھائی سے ذرا اُوپرپارک کررہے تھے ۔( بلکہ اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں بچی تھی ) جہاں پاکستانی بحریہ کے میرین سیکورٹی فورس نے چوکی قائم کررکھی ہے ( جس کا مقصد غالباً وہاں سے آدھے کلومیٹر دوری پر نیول بیس کی حفاظت ہے ‘اس کے علاوہ کوئی باتیل پر ایسی کوئی تنصیب نہیں جسے لوگوں سے خطرہ لاحق ہو ۔پہلے یہاں پولیس کی چوکی ہوا کرتی تھی جسے بحریہ نے مداخلت کر کے ہٹا دیا)۔اچانک وہاں شور مچ گیا‘میں نے پیچھے مڑکر دیکھا چند نوعمر لڑکے میرین سیکورٹی کے ایک سپاہی سے اُلجھ رہے تھے میں معاملے کو سمجھنے کے لیے ان کے قریب گیا ۔جھگڑا موٹرسائیکل کی پارکنگ کے معاملے پر تھا ۔میں سپاہی کو سمجھانے کی کوشش کررہاتھا کہ’’ آپ آج کے دن کو کوئی عام دن نہ سمجھیں، آج لوگ عید کی خوشیاں منانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے ہیں آپ اپنے افسران سے بات کر کے سیکورٹی پلان میں لچک پیدا کریں جو اس لڑائی جھگڑے سے زیادہ بہتر رہے گا ۔‘‘
ابھی میری بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ بھگڈر مچ گئی جس کی وجہ ایک سپاہی کی اُن پر اند ھا دھند لاٹھیاں بر سا نا تھی۔ہجوم تتر بتر ہوئی اور صر ف میں ہی اکیلا ہی رہ گیا تو وہ پھرتی سے میری طرف لپکااور جب اس کے توقع کے برعکس میں اس سے مرعوب ہوئے بغیر اپنی جگہ سے ٹھس سے مس نہ ہو ا۔ تو اس نے یہ پرواہ کیے بغیر کہ ایک ڈیڑھ سال کا بچہ میرے کندھے سے لگا ہوا ہے ۔میرے اسی کندھے پر لاٹھیاں بر سانا شروع کردیں ۔میں بت کی طرح کھڑا اَپنی کوئی ایسی غلطی یادکرنے کی کوشش کرنے لگا جس کی مجھے یہ سزاء دی جارہی تھی کہ اس کی مضبوط لاٹھی میری کمزور ہڈیوں سے ٹھکرا کر ٹکڑے ہوگئی ۔میری آنکھیں اس کے چہرے کے تاثرات پر جمی تھیں،مجھے وہ ایک پاگل سانڈ معلوم ہورہاتھا مارے غصے سے جس کا چہرہ لال پیلا ہواجارہاتھا۔جب لاٹھی ٹوٹ گئی تو وہ تیزی سے اپنی چوکی کی طرف لپکا اور ہتھیا ر اُٹھا کر اسے سلطان راہی کی طرح ہوا میں لہراتے ہوئے للکارنے لگا کہ ’’تم بلوچوں کے میں اسے ......گھسا دوں گا،حرام زادوں تم خود کو کیا سمجھتے ہو ۔‘‘اب میں معاملے کی نزاکت سمجھ گیا اور بے موت کی مرنے سے کسک لینے میں ہی عافیت جانی۔ بعد میں کئی سیاسی جماعت کے کارکنان نے مجھے اس معاملے پر ہڑتال کرنے کی پیشکش کی جسے میں نے غیر ضروری قرار دے کر مسترد کردیا۔جب یہ واقع پیش آیا تھا اس وقت میں باقاعدہ کسی قوم دست جماعت کا رکن نہیں تھا۔ میرے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ ان بہت سارے اسباب میں ایک سبب تھا جس نے مجھے پاکستانی مقتدرہ کے بارے میں اسی طر ح سوچنے پر مجبور کیا جس طرح وہ ہمارے بارے میں سوچتا ہے ۔
دوسرا واقعہ دوھزار گیارہ کے اواخر کا ہے ۔ بلوچی زبان کے نامور بزرگ شاعر اور افسانہ نگارعلی جان قومی میر ے مہمان تھے‘مجھے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیئے ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے اور میں نفسیاتی طور پر کافی دباؤ کا شکار تھا ۔شام کوہم لوگ ساحل کی سحر کے لیے نکل پڑے ۔پدی زر کے ساحل پرکوباتیل کے دامن میں کوسٹ گارڈ نے مستقل کیمپ لگارکھا ہے ۔پاکستان کوسٹ گارڈ سن اکہتر کے اُن پاکستانی فوجی بھگوڑوں پر مشتمل فورس ہیجنہیں بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈالنے کے بعد قیدی بنایا گیاتھا،بعد میں ذولفقارعلی بھٹو کی کوششوں کی وجہ سے انہیں رہائی ملی ۔باقاعدہ فوج کے لیے ناکارہ ہونے پر انہیں بلوچستان کے ساحل کی حفاظت کے نام پربلوچوں کے سروں پر مسلط کیا گیا۔
کیمپ کے اطراف کوئی چاردیواری نہیں ا س کے احاطے کو چونے سے نشان لگایا گیاہے ‘چونے کی لکیر کے اس طرف عام لوگوں کاقدم رکھنا ممنوع ہے ۔اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔کوسٹ گارڈ کے سپاہیوں کے رویے سے ظاہر تھا کہ وہ اس کے ساتھ کسی سخت معاملے پربات کررہے تھے ۔میں نے قومی سے کہاکہ’ کیمپ کے سامنے بیٹھتے ہیں مجھے شک ہے کہ کوسٹ گارڈکے اہلکار اس نوجوان کے سا تھ کوئی تشدد آمیز سلوک کریں گے ۔‘ ہم اسیمتعلق بات کررہے تھے کہ ان کا ایک سپاہی مضبوط لاٹھی اُٹھا لایااور لڑکے کے پاؤں پر جوکہ چارپائی پر بیٹھا ہو اتھا مارنے لگا ۔میں نے قومی سے کہا کہ ’’اگر انہوں نے اس لڑکے کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا کہ مجھے واضح نظر آئے تو میں مداخلت کرؤں گا ۔‘‘اگلے لمحے ایک مضبوط قد کاٹھ کے سپاہی نے اس نحیف لڑکے کو ایک ہاتھ سے انڈر ٹیکر کی طرح گلے سے پکڑ کر ہوا میں اُٹھایااور دوسرے ہاتھ سے مارنے کے لیے لاٹھی فضاء میں بلند کی اس سے پہلے کہ وہ اس کے پسلیوں کا سرما بنادیتا ۔میں نے اپنی جگہ سے اُٹھ کر آواز دی ۔پھر کیا وہ لڑکے کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے ہماری طرف آئے ایک لمبا سپاہی باقیوں سے کچھ زیادہ ہی باؤ کھارہاتھا ۔جس نے آستین چڑھا کر پنجابی میں کہا ’’کوسٹ گارڈ کو تم نے اینہویں سمجھ رکھا ہے ۔میں یہ ہاتھ تمہارے .............میں گھساکر منہ سے نکال لوں گا ۔‘‘وہ شاید بہت زیادہ شرافت دکھانے کے موڑ میں تھا لیکن قریبی لوگوں نے مجھے پہچان لیا اوراچھی خاصی بھیڑ جمع ہوگئی جنہوں نے اس نوجوان کو ’’پاگل ‘‘کے طور پر شناخت کر لیا جو ہندو اور بھنگی محلے کے رہائشی ہیں جنہیں کوسٹ گارڈ کے سپاہی تشدد کے ذریعے سبی کا رہائشی اور ہندوستان کا ایجنٹ منوانے پرتلے ہوئے تھے ۔
میں نے پہلے انہیں قانون سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’کوسٹ گارڈ کسی کو گرفتار یا تشدد کرنے کا مجاز نہیں اگر تم کو اس پر شک ہے تو پولیس کو جس کی چوکی چند قد م ہی کے فاصلے پر ہے بھلاکر اسے اسی کے حوالے کردیں اور پھر چونکہ تم پبلک مقام پر بیچارے کو لاٹھیوں سے پیٹھ رہے تھے اس لیے مجھ پر اثر پڑنا فطر ی تھا اور میں نے عین فطری ردعمل دکھا کر کارسرکار میں مداخلت کی ہے ۔‘‘پھرمیں اپنے اس وعظ کوغیر موثر دیکھ کر قومی سمیت رفو چکر ہوگیا۔
پاکستانی نام کی اگر کوئی قوم کہیں رہتی ہے تواسے یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ یہ فوج ایک نام نہادوفاقی قومی ریاست کے نام نہاد نظریاتی سر حدوں کا دفاع اپنی جگہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی حفاظت کرنے کے بھی اہل نہیں ۔( میں تباہی مچانے کی بات نہیں کررہا ) یہ برطانوی سامراجی فوج کی باقیاتہے جسے دشمن سے جنگیں لڑنے کی بجائے عام لوگوں پر ڈنڈے کے زور پر حکمرانی کی زیادہ تربیت ہے۔ایک ایسی فوج جس کی ادارتی زبان پنجابی اوردوران تربیت رنگروٹوں کے ساتھ گالم گلوچ عام سی بات ہے ۔پاکستانی اور برطانوی فوجی لٹریچرز میں پاک وہند کے قومیتوں کے فوجی سپاہی کے طور پر اہلیت کے بارے میں تحقیق کرنے والوں نے ’’بلوچ‘‘کوفوج میں بھرتی کے لیے نااہل قرار دیاہیجس کی بنیاد ی وجہ حکم عدولی اورسخت فوجی قوانین کی خلاف ورزی بتائے گئے ہیں۔اس کے برعکس بحرین ، عمان اور قطر جیسے خلیجی ممالک میں بلوچبہادر ، ایماندار اور وفادار سپاہی ثابت ہوئے ہیں وہاں بس یہی مشہور ہے کہ بلوچ بے عزتی برداشت نہیں کرتے ۔ پاکستان کی بُری فوج کا مقابلہ اسی برے سپاہی سے ہے جس کا ضمیر نہ مانے تو حکم عدولی پر دیر نہیں کرتا اورضد پر آجائے تو سوسال تک پیچھے نہیں ہٹتا ۔
یقیناًنہیں، بلکہ دنیا پاکستان کوایک دہشت گرد اورناکام ریاست سمجھتی ہے ۔پاکستان اپنا سب سے بڑا دشمن ’’ہندوستان ‘‘کو مان کر اس سازشی سوچ کوپروان چڑھارہاہے کہ ’’ہندوستان امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ مل کرپاکستان کوعدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے پاکستان مخالف عناصرکی مدد کررہاہے‘‘ ۔مگر زمینی حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں سر د جنگ کے زمانے میں پاکستان نے اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر امریکہ اور اس کے حواریوں کے ساتھ جو اتحاد بنا رکھا ہے وہی تاحال پاکستان کے بقاء کا ضامن ہے ۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس اتحاد کی بدولت ان ممالک کو پاکستان کے سیاسی معاملات میں برائے راست مداخلت کاسنہری موقع ہاتھ آیا جس کاکو انہوں نے بھرپور استعمال کیا ،پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے۔پاکستان کی ایٹمی طاقت بننے کے پیچھے بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کی خاموش رضامندی شامل تھی ورنہ ایک ٹوٹے پھوٹے ،منتشر ، غیر متفق ، مخلوط نظریات کے حامل اور غیر منظم ڈھانچے پر مشتمل ریاست کاایٹمی تکنیک تک رسائی ممکن نہ ہوتی ۔سامراجی طاقتیں ابھرتی ہوئی معشیت ، نمایاں استعدادکار ، زمین اور آبادی کے اعتبار سے بڑے ملکوں سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں اور ان ممالک کو ہمیشہ دباؤ اور مسائل میں الجھا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بھارت رنگا رنگ سماجی ، مذہبی اور نسلی تضادات کے باوجودمذکورہ معیار پر پورا اُترتا ہے مگر سیاسی اعتبار سے اتنا ہی نااہل ہے جتنا پاکستان ۔اس لیے پاکستان سے فوجی اوراقتصادی اعتبار سے کئی گنا طاقتور ہونے کے باوجود بین الاقوامی طور پر اپنے ان مفادات کے تحفظ اور مقاصد تک رسائی میں ناکام اور امریکہ کی کٹھ پتلی ثابت ہوا ہے ۔یہ امریکہ ہی ہیجو اپنے مفادات کیخاطر ہندوستان کو پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدام سے روکے ہوئے ہے۔اس لیے کشمیر نصف صدی کے بعد بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ماتھے پر بد نما داغ ہے ایک ایسا داغ جو بڑی تیزی سے پھیلتا ہوا اس کے پورے چہرے کو بدنما بنا رہاہے۔یہ وہی ہندوستان ہے جو امن ،شانتی ،کلچراور خوشیوں کا گہوارہ مانا جاتا تھا، جس کی تہذیبی خوبیوں کی بناء پرپوری دنیا اس کے حسن کی دیوانی تھی،صدیوں سے ایک ایسی سرزمین جسے سیاح دیکھنے کا ہوس کرتے تھے۔ہندوستان جس کو’’ گاندھی ‘‘کی ہندو اوتارکی سی چھاپ اور نہروکی ذہنیت نے تعصب اور فرقہ واریت کے اس مقام پر پہنچا دیاہے جہاں سے محض چندقدم آگے پاکستان کھڑا ہے ۔پاکستان جس کے اصل خالق ’’محمد علی جناح ‘‘نہیں برطانوی افسر اور ان کے لیے لیے نرم گوشہ رکھنے والے نہروجیسے گانگریسی لیڈر ہیں جنہوں نے ہندومسلم تعصب کی بنیاد رکھی ۔
پاکستان ‘جس کے مقتدرہ کو شروع سے ہی یہ اندازہ تھا کہ ان کی ریاست کا وجود ایک سازش کے سواء کچھ نہیں ، اس کی مقتدرہ کی تربیت ایسے برطانوی اداروں میں ہوئی جہاں سے انہیں ادراک ہواکہ وہ منافقت اور دھوکے بازی کے بغیر اپنی حاکمیت کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے ۔انہوں نے شروع ہی میں پاکستان کے سماجی مسائل اور تضادات کو سمجھنے کی دانستہ کوشش نہیں کی ۔فوج کی بالادستی کو برقرار رکھا گیا جس کو جواز فراہم کرنے کے لیے ہندوستان کو دشمن سمجھنے کی سازشی سوچ کو راسخ کیا گیا۔پاکستان کیپالیسی سازوں کے خیال میں ’’اسلام ‘‘ایک ایسا ذریعہ ہے جس کو استعمال کر کے و ہ نہ صرف نام نہاد پاکستانی قومیت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں بلکہ پاکستانی بندوبست میں شامل کیے گئے دیگر قومیت کے وسائل پر بھی اپنا حق جتاسکتے ہیں ۔
اس میں اگر نیک نیتی کا دخل ہوتا ہے تو پاکستانی حکمران ہمیشہ سے غیر مذہبی اورعیاش طبع نہ ہوتے ان کے برعکس کردار سے ہی واضح ہے کہ اسلام کو محض حاکمیت برقرار رکھنے کے ایک فارمولے کے طور پر ضرورت پڑنے پراستعمال کیا جاتا ہے ۔سامراجی فوج جوکہہمیشہ سے چند پیسوں کے لیے کوئی بھی انسانیت سے گری ہوئی حرکت کرنے والے مزدوروں پرمشتمل ہوتی ہے ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر مقتدرہ کو ان کی وفاداری پر ہمیشہ شک رہتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستانی فوج کے سپاہی اسی سماج سے بھرتی کیے جاتے ہیں جہاں مذہبی سوچ اور ہند ودشمنی کو راسخ کیا گیا ہے لہذا انہیں اسی طرح کے نعرے اور نظریاتی تربیت فراہم کی جاتی ہے جو انہیں جذباتی طور پر وفادار بنائے رکھنے کے بھی کام آتے ہیں ۔
یہ فارمولا طویل عرصے تک موثر ہونے کے باوجود اعلی مقاصد کے حصول کے لیے ناکام ثابت ہواہے ۔پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں سے تربیت پانے والے سپاہیوں اور افسران سے ملئے یا یوں ہی سر راہ مڈ بھیڑکیجئے ان کی ذہنیت اورتربیت کا پتا چل جائے گا۔راقم اپنے ساتھ پیش آنے والے دو مختلف واقعات کے سبب پاکستانی فوجیوں کے رویے سے واقف ہوا ہے جن کے بارے میں پہلے محض دوسروں سے سن رکھاتھا۔
دوہزار چار کے وسط میں جب بلوچستا ن کے حالات اس قدر خراب اور بغاوت گلی محلے کی سطح تک نہیں پھیل چکی تھی اور گوادر کے عوام کی اکثریت قوم دوستیکے آزادی پسند نظریات سے ناواقف تھے ۔عید الفطر کے دوسرے دن کا واقعہ ہے،گوادر کے عوام پرانی روایت کی پیروی میں ہزاروں کی تعداد میں کوہ باتیل پر عید کی خوشیا ں منانے کے لیے جمع ہورہے تھے ۔اس وقت میر ابڑا بیٹا قاضی اے آرداد ( قاضی عبدالرزاق )محض ڈیڑھ سال کا تھا، جسے میں کندھے پہ اُٹھائے بھیڑ میں شامل تھا ۔رش کافی زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی موٹر سائیکل اور گاڑھیاں چڑھائی سے ذرا اُوپرپارک کررہے تھے ۔( بلکہ اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں بچی تھی ) جہاں پاکستانی بحریہ کے میرین سیکورٹی فورس نے چوکی قائم کررکھی ہے ( جس کا مقصد غالباً وہاں سے آدھے کلومیٹر دوری پر نیول بیس کی حفاظت ہے ‘اس کے علاوہ کوئی باتیل پر ایسی کوئی تنصیب نہیں جسے لوگوں سے خطرہ لاحق ہو ۔پہلے یہاں پولیس کی چوکی ہوا کرتی تھی جسے بحریہ نے مداخلت کر کے ہٹا دیا)۔اچانک وہاں شور مچ گیا‘میں نے پیچھے مڑکر دیکھا چند نوعمر لڑکے میرین سیکورٹی کے ایک سپاہی سے اُلجھ رہے تھے میں معاملے کو سمجھنے کے لیے ان کے قریب گیا ۔جھگڑا موٹرسائیکل کی پارکنگ کے معاملے پر تھا ۔میں سپاہی کو سمجھانے کی کوشش کررہاتھا کہ’’ آپ آج کے دن کو کوئی عام دن نہ سمجھیں، آج لوگ عید کی خوشیاں منانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے ہیں آپ اپنے افسران سے بات کر کے سیکورٹی پلان میں لچک پیدا کریں جو اس لڑائی جھگڑے سے زیادہ بہتر رہے گا ۔‘‘
ابھی میری بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ بھگڈر مچ گئی جس کی وجہ ایک سپاہی کی اُن پر اند ھا دھند لاٹھیاں بر سا نا تھی۔ہجوم تتر بتر ہوئی اور صر ف میں ہی اکیلا ہی رہ گیا تو وہ پھرتی سے میری طرف لپکااور جب اس کے توقع کے برعکس میں اس سے مرعوب ہوئے بغیر اپنی جگہ سے ٹھس سے مس نہ ہو ا۔ تو اس نے یہ پرواہ کیے بغیر کہ ایک ڈیڑھ سال کا بچہ میرے کندھے سے لگا ہوا ہے ۔میرے اسی کندھے پر لاٹھیاں بر سانا شروع کردیں ۔میں بت کی طرح کھڑا اَپنی کوئی ایسی غلطی یادکرنے کی کوشش کرنے لگا جس کی مجھے یہ سزاء دی جارہی تھی کہ اس کی مضبوط لاٹھی میری کمزور ہڈیوں سے ٹھکرا کر ٹکڑے ہوگئی ۔میری آنکھیں اس کے چہرے کے تاثرات پر جمی تھیں،مجھے وہ ایک پاگل سانڈ معلوم ہورہاتھا مارے غصے سے جس کا چہرہ لال پیلا ہواجارہاتھا۔جب لاٹھی ٹوٹ گئی تو وہ تیزی سے اپنی چوکی کی طرف لپکا اور ہتھیا ر اُٹھا کر اسے سلطان راہی کی طرح ہوا میں لہراتے ہوئے للکارنے لگا کہ ’’تم بلوچوں کے میں اسے ......گھسا دوں گا،حرام زادوں تم خود کو کیا سمجھتے ہو ۔‘‘اب میں معاملے کی نزاکت سمجھ گیا اور بے موت کی مرنے سے کسک لینے میں ہی عافیت جانی۔ بعد میں کئی سیاسی جماعت کے کارکنان نے مجھے اس معاملے پر ہڑتال کرنے کی پیشکش کی جسے میں نے غیر ضروری قرار دے کر مسترد کردیا۔جب یہ واقع پیش آیا تھا اس وقت میں باقاعدہ کسی قوم دست جماعت کا رکن نہیں تھا۔ میرے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ ان بہت سارے اسباب میں ایک سبب تھا جس نے مجھے پاکستانی مقتدرہ کے بارے میں اسی طر ح سوچنے پر مجبور کیا جس طرح وہ ہمارے بارے میں سوچتا ہے ۔
دوسرا واقعہ دوھزار گیارہ کے اواخر کا ہے ۔ بلوچی زبان کے نامور بزرگ شاعر اور افسانہ نگارعلی جان قومی میر ے مہمان تھے‘مجھے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیئے ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے اور میں نفسیاتی طور پر کافی دباؤ کا شکار تھا ۔شام کوہم لوگ ساحل کی سحر کے لیے نکل پڑے ۔پدی زر کے ساحل پرکوباتیل کے دامن میں کوسٹ گارڈ نے مستقل کیمپ لگارکھا ہے ۔پاکستان کوسٹ گارڈ سن اکہتر کے اُن پاکستانی فوجی بھگوڑوں پر مشتمل فورس ہیجنہیں بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈالنے کے بعد قیدی بنایا گیاتھا،بعد میں ذولفقارعلی بھٹو کی کوششوں کی وجہ سے انہیں رہائی ملی ۔باقاعدہ فوج کے لیے ناکارہ ہونے پر انہیں بلوچستان کے ساحل کی حفاظت کے نام پربلوچوں کے سروں پر مسلط کیا گیا۔
کیمپ کے اطراف کوئی چاردیواری نہیں ا س کے احاطے کو چونے سے نشان لگایا گیاہے ‘چونے کی لکیر کے اس طرف عام لوگوں کاقدم رکھنا ممنوع ہے ۔اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔کوسٹ گارڈ کے سپاہیوں کے رویے سے ظاہر تھا کہ وہ اس کے ساتھ کسی سخت معاملے پربات کررہے تھے ۔میں نے قومی سے کہاکہ’ کیمپ کے سامنے بیٹھتے ہیں مجھے شک ہے کہ کوسٹ گارڈکے اہلکار اس نوجوان کے سا تھ کوئی تشدد آمیز سلوک کریں گے ۔‘ ہم اسیمتعلق بات کررہے تھے کہ ان کا ایک سپاہی مضبوط لاٹھی اُٹھا لایااور لڑکے کے پاؤں پر جوکہ چارپائی پر بیٹھا ہو اتھا مارنے لگا ۔میں نے قومی سے کہا کہ ’’اگر انہوں نے اس لڑکے کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا کہ مجھے واضح نظر آئے تو میں مداخلت کرؤں گا ۔‘‘اگلے لمحے ایک مضبوط قد کاٹھ کے سپاہی نے اس نحیف لڑکے کو ایک ہاتھ سے انڈر ٹیکر کی طرح گلے سے پکڑ کر ہوا میں اُٹھایااور دوسرے ہاتھ سے مارنے کے لیے لاٹھی فضاء میں بلند کی اس سے پہلے کہ وہ اس کے پسلیوں کا سرما بنادیتا ۔میں نے اپنی جگہ سے اُٹھ کر آواز دی ۔پھر کیا وہ لڑکے کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے ہماری طرف آئے ایک لمبا سپاہی باقیوں سے کچھ زیادہ ہی باؤ کھارہاتھا ۔جس نے آستین چڑھا کر پنجابی میں کہا ’’کوسٹ گارڈ کو تم نے اینہویں سمجھ رکھا ہے ۔میں یہ ہاتھ تمہارے .............میں گھساکر منہ سے نکال لوں گا ۔‘‘وہ شاید بہت زیادہ شرافت دکھانے کے موڑ میں تھا لیکن قریبی لوگوں نے مجھے پہچان لیا اوراچھی خاصی بھیڑ جمع ہوگئی جنہوں نے اس نوجوان کو ’’پاگل ‘‘کے طور پر شناخت کر لیا جو ہندو اور بھنگی محلے کے رہائشی ہیں جنہیں کوسٹ گارڈ کے سپاہی تشدد کے ذریعے سبی کا رہائشی اور ہندوستان کا ایجنٹ منوانے پرتلے ہوئے تھے ۔
میں نے پہلے انہیں قانون سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’کوسٹ گارڈ کسی کو گرفتار یا تشدد کرنے کا مجاز نہیں اگر تم کو اس پر شک ہے تو پولیس کو جس کی چوکی چند قد م ہی کے فاصلے پر ہے بھلاکر اسے اسی کے حوالے کردیں اور پھر چونکہ تم پبلک مقام پر بیچارے کو لاٹھیوں سے پیٹھ رہے تھے اس لیے مجھ پر اثر پڑنا فطر ی تھا اور میں نے عین فطری ردعمل دکھا کر کارسرکار میں مداخلت کی ہے ۔‘‘پھرمیں اپنے اس وعظ کوغیر موثر دیکھ کر قومی سمیت رفو چکر ہوگیا۔
پاکستانی نام کی اگر کوئی قوم کہیں رہتی ہے تواسے یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ یہ فوج ایک نام نہادوفاقی قومی ریاست کے نام نہاد نظریاتی سر حدوں کا دفاع اپنی جگہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی حفاظت کرنے کے بھی اہل نہیں ۔( میں تباہی مچانے کی بات نہیں کررہا ) یہ برطانوی سامراجی فوج کی باقیاتہے جسے دشمن سے جنگیں لڑنے کی بجائے عام لوگوں پر ڈنڈے کے زور پر حکمرانی کی زیادہ تربیت ہے۔ایک ایسی فوج جس کی ادارتی زبان پنجابی اوردوران تربیت رنگروٹوں کے ساتھ گالم گلوچ عام سی بات ہے ۔پاکستانی اور برطانوی فوجی لٹریچرز میں پاک وہند کے قومیتوں کے فوجی سپاہی کے طور پر اہلیت کے بارے میں تحقیق کرنے والوں نے ’’بلوچ‘‘کوفوج میں بھرتی کے لیے نااہل قرار دیاہیجس کی بنیاد ی وجہ حکم عدولی اورسخت فوجی قوانین کی خلاف ورزی بتائے گئے ہیں۔اس کے برعکس بحرین ، عمان اور قطر جیسے خلیجی ممالک میں بلوچبہادر ، ایماندار اور وفادار سپاہی ثابت ہوئے ہیں وہاں بس یہی مشہور ہے کہ بلوچ بے عزتی برداشت نہیں کرتے ۔ پاکستان کی بُری فوج کا مقابلہ اسی برے سپاہی سے ہے جس کا ضمیر نہ مانے تو حکم عدولی پر دیر نہیں کرتا اورضد پر آجائے تو سوسال تک پیچھے نہیں ہٹتا ۔
Post a Comment