میرے ذہن میں شہید واجہ کے الفاظ گونج رہے ہیں ’’ بی آر پی اگر ناکام
ہوگئی تو ہم بھی ناکام ہوں گے ، وہ ڈوب گئی تو پھر ہمارا بچنابھی ممکن
نہیں...................‘‘ ہم نے اختلاف کیا ہمارا خیال تھا کہ ہمیں محض بی
این ایم کے استحکام پر توجہ دینا چاہئے ۔ یہ بیماری آئستہ آئستہ تمام بلوچ
قوم دوست جماعتوں اور تنظیموں میں سرایت کرگئی ہم ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتے
ہوتے اب دشمنی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں ۔ آپسی اختلافات کو میڈیا پر
اُچھال کر ایسی گندگی پھیلائی گئی ہے کہ سب کے دامن پر بدنما داغ صاف نظر
آرہے ہیں ۔
خوامخواہ کے شکوک اور سازشی نظریات پالنا بلوچ سیاسی جماعتوں میں ایک مضبوط روایت رہی ہے سب پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی سوتن کی طرح برائی کرتے ہیں اور اس میں ہمنوا نہ ملے تو اس پر بھی حواس باختہ ہوتے ہیں اگر کوئی منع کرئے تو اسے بھی کوسنے دیتے ہیں ۔ شہید واجہ سے لے کر شہید رازق گل تک کوئی بھی ایسا نہیں کہ اُن پر ایجنسیوں اور دشمن کا آلہ کار جیسے سنگین الزامات نہ لگے ہوں اور ان کے گرد کسی نہ کسی ٹولے اور گروہ نے شک کا سرخ داہرہ نہ کھینچا ہو۔
سانحہ مرگاپ کے بعد میں خوش گمانی میں تھا کہ شاید اب یہ رویہ شہید واجہ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا آپ کے پاک خون سے سب کے دامن پر لگے شک کے داغ دھل جائیں گے ۔ شہید شیرمحمد نے آپ کے بدن پر پیوست ہوتی گولیوں کو دیکھ کر لمحہ بھر کے لیے ضرور سوچا ہوگا کہ ’’ہم کتنے آسانی سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیے جاتے تھے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ یہ سب باتیں دشمن کی پروپیگنڈہ مشین کی بنی ہیں جنہیں اُن کے خاص کارندے ہمارے صفوں میں پھیلارہے ہیں ۔‘‘ّ ....................
مجھے دشمن بیوقوف بھی معلوم ہوتا ہے جو ہم اختلافات پیدا کرنے اور پروپیگنڈٖہ میں
کامیابی کے باوجود دنیا میں خود کو رسوا کررہا ہے اور نہایت وحشیانہ طریقے
سے قتل عام کیے جارہا ہے حالانکہ اگر وہ ذرا صبر سے کام لے تو ہم آپ ہی ایک
دوسرے کا گلا کاٹ لیں گے ۔ شروع میں ہماری سیاست میں شرمندگی بھی تھی جس
کا اظہار بہت سوں نے شہید واجہ کی شہادت کے بعد برملا کیا ۔ قربانیوں کے بعد
لوگوں کا احترام کیا جاتا تھا مگر آج جن گھرانوں سے درجنوں نوجوان آزادی
کی جنگ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے ہیں اُنہیں بھی تنقید کے نام پر بے
عزت کیا جاتا ہے ۔ بے شرمی کی حد ہے ، پہلے شہدا کے خلاف بولتے ہوئے ہماری
زبانیں لرز جاتی تھیں بلکہ ہم بلوچ روایات کی پاسداری میں کسی مردے کے خلاف
بھی ہرزہ سرائی سے گریز کرتے تھے مگر آج شہدا ء کو گالیاں دینا انقلابی
آدرش سمجھا جاتا ہے ۔ اپنے خیالات کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے آسمانی
صحیفہ پیش کیے جاتے تھے ۔ دوسروں کے عام فہم الفاظ کو چبا چبا کران کا حلیہ
بگاڑنا دانشمندی کا معراج اور سادہ بیانی کم علمی کا پیمانہ بن چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال ذہن میں آپ ہی جنم لیتا ہے کہ کیا ہم ناقص العقل ہیں جو
اس شور میں کوئی ’’ آواز ‘‘ نہیں سن رہے یا شور کرنے والے پاگل ہوگئے ہیں
؟ ہماری نیت میں کھوٹ ہے جو ہماری سماعت پر ان کی چاندی جیسی باتیں
ہتھوڑے کی طرح برس رہی ہیں یا ان کے نیت میں فتور آگیا ہے جو شور مچا کر
ہمیں دیوانہ بنا نے پر تلے ہیں؟ ....................... ہم سب سیاسی
ہونق کیوں نہیں سمجھ پارہے کہ یہ سب ہمارے فائدے کی باتیں ہیں ؟؟ یہ
سوال
باقی تمام سوالات کی اہمیت و افادیت کم کردیتا ہے ۔
لکھاری اور سیاستدان ’’ رجنیش ‘‘ ( اوشو ) کی طرح اپنی باتوں کو مطلق سچائی کی طرح پیش کرنے لگیں توسامعین کے پاس اس سے تعلق رکھنے کی دو ہی راستے رہتے ہیں اس کا حواری بنے یا منکر ۔ جس کے لیے تازہ لفظ ’’ ردانقلابی ‘‘ ہے ۔ ہم سنگت بن کر ایک دوسرے سے مکالمہ نہیں کرسکتے جب تک ہم اپنی باتوں کو انسانی عقل کی پیداوار نہ سمجھیں ۔ پرانی اور درست کہاوت ہے ’’ دوسروں کی طرف ایک انگلی اُٹھاتے ہوئے تین اُنگلیاں تمہاری طرف اُٹھتی ہیں ‘‘ جو تمہاری اپنی ہوتی ہیں ۔ دوسرے کے ساتھ بدتمیزی اور گھمنڈ کے ساتھ پیش آکر تمیز کی توقع رکھنا تہذیب نا آشنائی ہے ۔
میں اپنے احمقانہ باتوں سے دست بردار ہونے پر سوچ ہی رہا تھا کہ مجھ جیسے ہونقوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھنے لگی سب ہی ایک سوال پوچھ رہے ہیں کہ ہم پر جو زبان برس رہی ہے آخر کس کی ہے ؟ اس کو ڈی کوڈ کرنے والے اسے مزید گنجلک کیوں بنارہے ہیں ؟ ہم سب سادہ سوال پوچھ رہے ہیں بلوچ قومی تحریک سے وابستہ مختلف پیکٹوں کے درمیان رسا کشی کی وجہ کیا ہے ؟سربراہوں کے سر ایک دوسرے سے کیوں اتنے زور سے ٹھکرا گئے ہیں کہ ہمارے سر چکرا رہے ہیں ؟ قوم میں اتحاد اور اتفاق سے کس کانقصان ہوگا اور کیوں؟ بی این ایم ، بی ایس او اور بی آر پی سب ہی ناپختہ ، ناکام اور بتدریج ’’ ردانقلابی ‘‘ کے زمرے میں شما ر کیے جارہے ہیں تو بلوچستان میں ترنگوں سے سجی ان کے کارکنان کی قبریں کیو ں بڑھ رہی ہیں ؟
کیا ہمیں ان سب سوالات کے مختلف جملوں پر مشتمل ایک ہی جواب سے مطمئن ہونا
چاہئے ’ ’ تم سب ہونق ہو، جاہل نا سمجھ ، رد انقلابی ، تمہارے پاس کوئی
روڈ میپ نہیں، تمہیں عالمی سیاست کی درک نہیں ...........‘‘
باقی ہونقوں کا پتا نہیں مگر میں ایک عدد ہونق تو یہ سمجھتا ہوں کہ آپس میں دست وگریبان ہونا اور ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنا ہمارے مفاد میں نہیں ، ہمیں فضول اور غیر ضروری مباحث کی بجائے ، زمینی حقائق پر نظر رکھنے ہوگی جو ہماری نالائقیوں کی وجہ سے بڑی تیزی سے ہمارے خلاف ہوئے جارہے ہیں ۔ ہماری وہ قربانیاں جوپہلے ہماری تحریک کا ایندھن ہوتی تھیں ضائع ہورہی ہیں کیوں کہ ہم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ٹولے ایک دوسرے کی قربانیوں میں بھی کیڑے نکالنے کے انقلابی عمل میں اُلجھ گئے ہیں ۔
شہید بالاچ نے فرمایا ہے ’’ جب میں کسی بلوچ کو برا بھلا کہہ رہا ہوں گا
تواس کا مطلب ہے میں خود کو برا بھلا کہہ رہا ہوں گا ‘‘ تو ہمیں اپنے کپڑے
بیچ چوراہے میں اُتار کر '' پورن کشتی '' لڑنے کی بجائے ۔ آپس میں مکالمہ کی
روایت ڈالنی چاہئے ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لفطوں کی جادوگری کا
سہارہ لینے کی بجائے کردار اور عمل کا مطالعہ کریں اور اپنے یک نکاتی
ایجنڈہ ’’ آزادی ‘‘ پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھیں ۔ ہمیں قوم کو یقین
دلانا ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ ایک دوسرے کا دست وبازو ہیں ۔
جن اختلافات کا ہم شکار ہیں یہ دراصل اختلافات نہیں بلکہ شخصی پسند وناپسند ہیں تو اس پر ایک دوسرے کے خلاف تلوار سونت کر کھڑے ہونے کی کیا ضرورت ہے ویسے بھی ہمارے ’’کچن ‘‘ پہلے سے علیحدہ ہیں تو جسے جو پسند ہو وہ اپنی پسند کا پکاکر کھائے ۔ ہمارا مشورہ صرف یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بلامقصد کا جھگڑا ختم کیا جائے جس کا نقصان ہم سب کا مشترکہ نقصان ہے ۔
shukrinth ekea hosh atka. let us work on shaheed fida ahmed stratey. Unity and struggle till victory