سات صفحات پر مشتمل یہ خط میں نے تقریباً ایک سال پہلے تحریکی دوستوں کے نام لکھا ، یہ خط تحریک سے وابستہ تمام دوستوں کو انفرادی طور پر ان کے ای میلز کے ذریعے ارسال کرچکا ہوں ۔ اس خط میں جن خدشات کا اظہار کرچکا ہوں آج حقیقت بن چکے ہیں ۔ میڈیا میں بہت ساری باتیں شائع ہونے کے بعد اس خط سے کچھ اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ۔
جو تحریکی ساتھی تفصیلی خط کی کاپی حاصل کرنا چاہتے ہیں مجھ سے فیس بک پر رابطہ کریں ۔
-------------------------------------------------------------
تحریکی سنگتاں !
اُمید ہے کہ شگفتہ دمی کے ساتھ مصروف عمل ہوں گے ۔ زیر نظر مندرجات جنہیں میں گزشتہ ڈھائی مہینے سے لکھتا مٹاتا رہاہوں آپ کو ارسال کرنے کا مقصد تحریکی سنگتانی درمیان ایک مکالمہ کا آغاز کرنا ہے تاکہ ذہنوں میں موجود خلفشار ختم ہوں اور ہم صاف ذہن کے ساتھ اپنے مقصد کی برآوری کے لیے اپنی طاقت اور صلاحیتوں کوایک ایسے مرکز میں جمع کرنے کے قابل ہوں جوانہیں بہترطریقے سے قومی آزادی کے حصول میں کھپا سکے ۔ مندرجات ایک پریشان اور بے خبر ذہن کی پیداوار ہیں لیکن احساس رہے کہ ہم جیسے سینکڑوں پریشان حال کامیابی کی آس بھی لگائے بیٹھے ہیں ۔ زندگی کا آخری لمحہ اس خواب کی تعبیر میں صرف کرنے کی خواہش بھی ہے جو ہم نے مل کر دیکھا ہے ۔ ظاہر ہے یہ مندرجات کسی اخبارکے لیے نہیں اس لیے انہیں ایک دوست کا شکوہ سمجھ کر پڑھ لیں اور غلطیوں پر اصلاح کریں ۔
xxxxxxxxxxxہم جب اس راستے پر چلے تھے تو ہم میں سے بیشتر کو ان مصائب کا جن کا ہمیں سامناہے بخوبی اندازہ تھا ۔ ہم نے کبھی کسی مصیبت کو انتہا نہیں جانا ہم نے ان خدشات کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ دشمن ہمیں روکنے کے لیے ہر طرح کے حملے اور ہتھکنڈے آزمائے گا۔ لیکن ہمیں اس کا ادراک ہرگز نہیں تھا کہ ہم ساتھ جینے مرنے کی قسم کھانے والے دوست ایک دن یوں بکھرجائیں گے ۔ ایک دوسرے پر اعتماد کی بدولت موت کے سفر کا مسافر بننے والے آج ایک دوسرے کو جیسے بھول گئے ہوں وہ جنہیں دشمن مارنے میں کامیاب ہوا بہتر ہیں کہ اُنہیں ’ ’ شہید ‘‘ کہہ کر لاکھوں بلوچ یاد کرتے ہیں مگر وہ جو محض خوش قسمتی سے ’’ شہادت ‘‘ کے مقام سے اپنی جان بچاکر بھاگنے میں کامیاب ہوئے ہیں بھولی بسری یاد کی طرح بھی یاداشت میں نہیں ۔
ماضی کی غلطیوں نے ہمیں ایک ایسی صورتحال سے دوچار کیاہے کہ ہم’’نظریاتی خرافات‘‘ پالے بغیر اپنی بے عملی کا دفاع نہیں کرسکتے ۔ تحریک ہر دم متحرک رہنے والی سیاسی گروہ کا نام ہے ، سیاسی گروہ افراد کے مجموعے کا ، دراصل افراد کی تیز تر اور روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمیاں ’’ تحریک ‘‘ کو وجود بخشتی ہیں ۔ ’’ فرد ‘‘ کی سرگرمیوں کا اختتام دارصل تحریک کا اختتام یا تعطل ہے ۔ تحریک کی ناکامیوں کا سبب بھی یہی رہاہے کہ مخالفین متحرک افراد کے ’’ حرکات ‘‘ کو محدود ، منجمد اور بالآ خر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اب بی این ایم یا بی ایس او کا تجزیہ کریں تو ان دونوں تنظیموں کو بھی مرحلہ وار اس نہج پر پہنچایا گیا ۔ سیاست میں ناکامیوں کا ذمہ دار محض مخالف نہیں ہوتا بلکہ ناکامیوں کی اصل ذمہ داری سیاسی تنظیموں کی ہوتی ہے جس طرح فٹبال میں مخالف ٹیم کی پھرتی ، چستی اور جارحیت جیت کی وجہ نہیں بنتی بلکہ مدمقابل ٹیم کی سستی ، کاہلی اور کمزور دفاع اس کے ہارنے کا سبب بنتے ہیں ۔ کھیل کے میدان میں اُترتے ہوئے جب یہ ذہن میں ہی نہ ہو کہ وہاں کھیل یکطرفہ نہیں ہوگا تو تیاری بھی ناقص ہوگی ۔
بلوچ قومی تحریک کو روکنے کے لیے دشمن نے ہمہ جہت حکمت عملی اپنانے کے علاوہ جو سب سے خطرناک ’’ ڈرون پالیسی ‘‘ اپنائی اس سے خاص طور پر بلوچ قوم دوست سیاسی جماعتیں بی آر پی ، بی ایس او اور بی این ایم اپنے’’ محرکین ‘‘سے محروم ہوگئے ۔ جس طرح امریکن ڈرونز ’’ دہ طالبان پلار ‘‘ ( طالبان کے باپ ) ثابت ہوئے اسی طرح پاکستان ایجنسیوں کی طرف سے ہمارے صفوں میں جاسوسوں کا وسیع نیٹ ورک بچھانے اور اُٹھا کر قتل کرنے کی پالیسی کے سامنے ہم بے بس نظر آرہے ہیں ۔ اب تو اس پر مزید سوچنے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ اب پاکستان پس ماندگان کو ختم کرنے کے لیے جلد نیا قدم اُٹھانے کی تیاری میں ہے کیوں کہ ’’ ڈرون پالسیی ‘‘ کی مکمل کامیابی کے بعد بلوچستان کے طول وعرض میں ایسے سیاسی کارکنان کی تعداد کم رہ گئی ہے جو ’’ محرک ‘‘ اور ’’ مبلغ ‘‘ کا کردار اداکرسکیں ۔ جنگ میں رسد کے راستے اس لیے روکے جاتے ہیں تاکہ دشمن کے پاس لڑنے کے لیے ہتھیار اور کھانے کے لیے خوراک ختم ہوجائیں ۔ ’’ تحریک کے ’’ محرکین ‘‘ اور ’’ مبلغین ‘‘ کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ نئے ’’محرک ‘‘اور ’’ مبلغ ‘‘ پید انہ ہوں جو پہلے سے موجود ہیں وہ تو محاصرے میں ہیں جب دشمن کا دل چاہئے انہیں تہہ تیغ کردے ۔
البتہ خوش قسمتی سے بی ایس او ، بی این ایم اور بی آر پی کے قیادت کی مرضی ، منصوبہ بندی اور رہنمائی کے بغیر تینوں تنظیموں کے سیاسی کارکنان کی قابل ذکر تعداد پاکستان کے’’ ڈرونز نما حملوں ‘‘ سے وقتی طور پر جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اب اس نکتے پر تو قائدین کو سوچنے کی دعوت دی جاسکتی ہے ، ٹھیک ہے تم لوگوں نے بڑی جرأت ، ہمت اور بہادری سے سینکڑوں کارکنان کی’’ شہادت ‘‘ کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے مگر جو بچارے اس سعادت سے محروم ہیں اُن کا بھی کوئی بندوبست کرنا چاہئے ۔
xxxxxxxxxxxدوستو ! باہر بیٹھے ہوئے ’’ انقلابی ‘‘ ، کسی زمانے میں بائی لکس اور آج کل ’’ اسکائپ ‘‘ اور فیس بک پر سیاست بگھار رہے ہیں ، لکھنے لکھانے سے شغف ہوتا تو یہ کار خیر بن جاتا ہے ۔ بلوچی زبان میں کم ازکم سندھی ادب سے ایک تہائی کم ’’ انقلابی لٹریچر ‘‘ تو ضرور مہیا ہوتی ، درست ہے ہر ایک لکھنے کے فن سے آشنا نہیں ہوتا ۔ ’’ مکالمہ ‘‘ تو میرے نزدیک علم کا جوہری ہے مگر ایک دوسرے کی ٹانگ یا پتھر پر لکیر کھینچنے کا نام مکالمہ نہیں ، انہی دوستونے ایک بیان پربراھمدگ کوآڑے ہاتھوں لیا ، یہ مینڈیٹ سوشل نیٹورکس کے انقلابیوں کا نہیں ہونا چاہئے اور سائبرتنظیموں کو بھی اپنا دامن اس طرح کی فضولیات سے بہر حال بچانا ہوگا۔ براھمدگ ، اللہ نذر ، ھیربیاراور ’’ بابا ‘‘ سب سے ، سب کے متعلق مکالمہ کیاجانا چاہئے لیکن کسی کے ذاتی موقف یا رائے پر اس کی کردار کشی کی اجازت یا اس کو سیاسی گالیوں سے نوزانے کا عمل ’’ مکالمہ ‘‘ کے داہر ہ میں نہیں بلکہ اس برعکس ’’ مکالمہ ‘‘ کی گنجائش ختم کر نا ہے ۔
یہ بھی ہماری قوم دوستانہ سیاست کا المیہ رہاہے کہ میدان عمل کے لوگوں کو باہر بیٹھے ہوئے ’ ’ انٹرنیٹ کے بقراط سقراط ‘‘ رہنمائی فرمایا کرتے ہیں حالانکہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ میدان عمل کے سپاہیوں کا موقف دنیا کو بتا ئیں اورسیاسی قائدین کی رہنمائی میں ذمہ داریاں نبھائیں مگر بیشتر حضرات اپنا الگ ایجنڈہ رکھتے ہیں ۔ جب ہمارے درمیان اختلافات تھے توایک صاحب نے فون کر کے احکامات صادر کیے پہلے تو میں صبر کے ساتھ سنتا رہا لآخر میں نے اسے کہا کہ ’’ جناب ! دردمندانہ مشوروں کا شکریہ لیکن بی این ایم فرد واحد کا نام نہیں اس کے ادارے موجود ہیں آپ جب اس تنظیم کی صلاحیتوں کے قائل ہیں تو میں کم ازکم موجودہ تنظیمی ڈھانچے میں اپنی جماعت کے ذمہ دار ترین افراد میں سے ہوں جسے کام کے لیے کارکنان کا مینڈیٹ حاصل ہے ۔ میں نے آپ کو اپنے موقف سے آگاہ کیا ، میں بیش بینی کررہا ہوں کہ معاملہ ایک حلقے کو دبانے دوسرے کو اُبھارنے سے حل نہیں ہوں گے آپ زمینی حقائق سے واقف نہیں اس لیے ہمارا موقف کو ٹالنے کی بجائے سنیں اگر یہ ارادہ نہیں تو ہمیں اپنے فیصلوں کا مکمل اختیار دیں ۔‘‘اسی طرح ا بی این ایم کے ایک بانی رکن نے جس سے ہمیں اُمید تھی کہ پارٹی بحران میں کردار اداکریں گے ۔ ہمیں بلاکر کہا کہ ’’ ہم نے آپ لوگوں کو پارٹی حوالے کی تھی آپ اس کو ترقی دینے کی بجائے توڑ رہے ہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جناب ! میں آپ کے بچوں کی عمر کا ہوں ، نفسیاتی طور پر بھی خود کو بچہ سمجھتا ہوں اور ابھی تک طالب علم ہوں ۔ میں بی این ایم میں سیکریٹری اطلاعات بننے کے لیے شامل نہیں ہوا بلکہ مجھ سمیت گوادر کے طلباء کی ایک بڑی تعداد بی این ایم میں علاقائی ضرورت کے تحت شامل ہوا اور یہ آپ کی تنظیم کی کمزوری تھی کہ میری شمولیت کے چھ مہینے بعد مجھے بلامقابلہ سیکریٹری اطلاعات کا عہدہ تھما دیا ۔ میں نے لاکھ عذ ر کیے اور بالآخر یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اندھوں میں ’’ میں ہی کانا راجا ہوں ‘‘ ۔ ابھی بھی بی این ایم موجود ہے تمہیں کسی نے کام سے نہیں روکا آؤبسمہ اللہ کرو ہم پیچھے ہٹیں گے تم قیادت کرو لیکن ایسا نہیں چلے گا کہ اسٹیج پراور پاکستانی ایجنسیوں کی لسٹ میں ہم پارٹی کے سربراہ ہوں اور فیصلے آپ جاری کیا کریں ۔‘‘
پھر اُن صاحب نے اپنی مشکلات کاذکر کیا ، میں نے عرض کیا ’’ واجہ یہ مشکلات آپ کی ذات کو ہرگز نہیں بلکہ بحیثیت بی این ایم کے کارکن سب کے سانجھے ہیں ، ابھی کہ آپ بی این ایم سے لاتعلق ہیں تو آپ کے مشکلات بھی کم ہیں اور ہم جن مشکلات سے نبرد آزما ہیں ان کو بتاتے نہیں اس لیے آپ سمجھتے ہو کہ ہم پر پاکستانی اداروں کا نظر کرم ہے ۔ جناب ! معذرت میرے نزدیک آپ ایک تھکے ہوئے کارکن ہیں جوبھاگنے اور سر چھپانے کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح بی این ایف کی قیادت بھی ناپختہ اور غیر سنجیدہ لوگوں کو دی گئی ، فیصلے بااختیار اداروں کی بجائے ’’ وہاب اور صادق ‘‘کی منشاء و مرضی سے ہوتے تھے ۔( دونوں کا اخلاص زیر بحث نہیں ) بی این ایم ، بی آر پی اور بی ایس او کی سرگرمیوں پر یہ کہہ کر روک لگالی گئی کہ ’’ بی این ایف ‘‘ موجود ہے ۔ جذبات کا گرد وغبار اُٹھا اور ایسے خود رو رہنماء پید اہوگئے جو صرف ’’ بی این ایف ‘‘ کے رہنما ء اور کارکن کہلاتے تھے ۔ ’’ اتحاد ‘‘ مقدس اور جذبہ خیر سگالی سے لبریز لفظ ہے لیکن تنظیم کا نعم ولبدل نہیں ہوسکتا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تینوں جماعتیں یکساں موقف کی وجہ سے ضم ہوجاتیں یا پھرایک دوسری کی سرگرمیوں میں شامل ہوتیں ۔ قومی سطح کے تقریبات مشترکہ فلیٹ فارم پر منائے جاتے جب کہ ہر ایک کو آزادی ہوتی کہ اپنے استعداد کار کے مطابق کام کرئے بلاوجہ تنقید اور ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ نہ ہوتا مگر جو اتحاد تینوں جماعتوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور انضمام کی را ہ ہموار کرنے کے لیے تھا وہ تینوں کے درمیان مزید دوری کا سبب بنا اور بالآ خر اپنے منطقی انجام کو پہنچا ۔
یہاں اس بات کا ذکرکرؤں کہ بی این ایف کے قائدین کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود تھی ، شہید واجہ اپنی ہر نشست میں تکرار کے ساتھ ذکر کرتے تھے کہ ’’ براھمدگ کو بی این ایم پر مکمل اعتماد ہے بلکہ وہ غیر مشروط انضمام پر آمادہ تھے لیکن دوستوں کا مشورہ تھا کہ انضمام سے پہلے متحدہ فلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے ساتھ کام کیا جائے تاکہ کارکنان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو ۔ براھمدگ بی این ایم کے کارکنان کوسیاسی تسلسل کا پیداورار سمجھتے ہوئے ہمیں یہ ذمہ داری سونپ چکے ہیں کہ ہم اُن کے کارکنان اور اُن کی سیاسی رہنمائی کریں ۔‘‘xxxxxxxxxxx
بی این ایم میں پارٹی بننے کی مکمل صلاحیت ہے لیکن اس کے لیے قائدین کو اپنا روش بدل کر خود کو اُصول وضوابط کا پابند بنانا ہوگا ۔ پارٹی اداروں پر مشتمل ہوتا ہے محض ایسے افراد کا مجموعہ نہیں جو مل کر کام کرتے ہیں البتہ ایسے افراد پارٹی بناتے ہیں جو آئین میں دیئے گئے تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کرکے اسی داہرہ کار میں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں ۔xxxxxxxxxxx آمرانہ روش کا نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا ہے ’’ آمریت ‘‘ نے ملکوں اور سلطنتوں کا بیڑ ہ غرق کیا پارٹی پھر بھی رضاکارانہ بنیادوں پر اکھٹے ہونے والے افرادپر مشتمل ہوتی ہیں ۔ان کے درمیان ھمکاری کا معاہدہ پارٹی کا آئین ہوتا ہے جس کی پامالی اور انحراف نے ہمیں آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب ہم میں اُٹھنے اور خود کو دوبارہ جوڑنے کی سکت کیا دل میں اُمید بھی نہیں جگتی ۔ اپنا محاسبہ ’’xxxxxxxxxxx کیا کرئے شاید اعصاب کے ساتھ احساسات بھی ’’ اسٹیل ‘‘ ہوچکے ہیں ۔ اس لیے ایک اور شاہکار سیاسی گالی ’’ رد انقلاب ‘‘ کا سہارہ لیا ۔ لیکن ایسا نہیں کہ سب لوہے کا ہوچکے ہیں ’’ حلقہ یاراں بریشم کی طرح نرم ‘‘ اب بھی خون اور پانی میں فرق کو سمجھتے ہیں ۔ تحریک اور سیاست کے تقاضوں سے واقف ہیں ۔آزاد ی اور انقلاب کو گڈمڈ کرنے والوں کو ان آزادی پسندوں کی غیر انقلابی آواز سننے ہوگی ۔
کل ہوا سوا ہوا ، ہم نے ذکر کیاتاکہ ’’ تاریخ سے سبق سیکھنے ‘‘ والوں کے لیے بھی ہمارے پاس کچھ مواد ہو۔ ہم گزرے ہوئے کل کو نہیں بد ل سکتے لیکن ’’ آج ‘‘ ایک ایسا اوزار ہے جس سے ہم اپنے ’’ کل ‘‘ کی تعمیر کرسکتے ہیں ۔ ہمارے اکابرین ’’ شہید اکبر ، شہید واجہ اور شہید بالاچ ‘‘ نے اپنی زندگی کے شب روز محض ’’ تحریک ۔ تحریک ‘‘ کا رٹالگانے اور دشمن سے لڑنے میں تمام نہیں کیے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ بلوچستان کے قبائلی رنجشوں ، سیاسی چپقلشوں اور علاقائی حد بندیوں کوبلوچ قوم دوستی کے واضح نظریے کی بنیاد پر ختم کرکے اُنہیں ایک متفقہ فلیٹ فارم پر اکھٹا کر کے بلوچ قومی آزادی کی جنگ میں شریک کیاجائے ۔ شہید بالاچ بلوچستان کے پہاڑوں کے گوشے گوشے میں گھومے اور متعدد کیمپوں میں بلوچ جنگ آزادی کے سرمچاروں کو بذات خود تربیت دی۔ شہید اکبر میدان جنگ میں بھی دنیاکے طول وعرض میں پھیلے ہوئے اپنے سیاسی اور سماجی دوستوں کو نہیں بھولے اور اُن سے رابطہ منقطع نہ ہونے دیئے۔’’ مکوران ‘‘کی خاموشی کا شکوہ کیا ،دراصل ’’ مکورانیوں ‘‘ کو بھی اپنے ہمرکاب دیکھنا چاہتے تھے ۔
مکوران کو اپنے سیاسی پن پر بڑا فخر اور غرور رہاہے ، بی این ایم اور بی آر پی کے انضمام کے مخالفین کے ’ترپ کا پتا‘ ہی یہی تھا کہ ’’ بی این ایم ‘‘ کے کارکن سیاسی اور بی آر پی کے غیر سیاسی ہیں اس لیے انضمام سے گریز کرنا چاہئے ۔ سرداروں سے نالاں ان سیاسی ورکروں کی ذہانت سے قبائلی سرمچارہمیشہ مرعوب رہے ہیں ۔ اگر ’’ بابا ‘‘ آڑے نہ ہوتے تو کب کا یہاں کی طفلانہ سیاست کی گندگیاں قبائلی سرمچاروں میں سرایت کرجاتیں اور اس سرانڈ سے جس طرح مکران میں تحریک کا دم گھٹ رہا ہے وہاں بھی حالت بہتر نہ ہوتے۔ ہمارے قبائلی سنگت سادہ لوح ہونے کی وجہ سے ’ ’ رد انقلاب ‘ معروضیت ، موضوعیت ، جدلیات اور جدلیاتی مادیت ‘‘ جیسے بکھیڑوں میں نہیں پڑتے اُنہیں سادہ سبق دیا گیا ہے کہ ’’ پاکستان ہمارا دشمن ہے جو ہم سے ہماری زمین اور پہچان چھیننا چاہتا ہے ‘‘ باقی یہ فیصلہ کہ ’’ اپنی زمین اورپہچان بچانے کے لیے لڑنا ہے ‘‘ اُن کا اپنا ہے ۔ اور ہم کتابی گھامڑ ’’ جمع ، نفی ، ضرب اور تقسیم ‘‘ جیسے ریاضاتی اُصول برت کر جو کیڈر تیار کرچکے ہیں وہ قول شہید واجہ ’’ بلوچ ،بلوچی اور بلوچستان کے علاوہ پوری دنیا سے باخبر ہے ‘‘۔ شہید واجہ ، شہید اکبر اور شہید بالاچ کیمون ازم کے زیر اثر پنپنے والی بلوچ سیاست کے حامی نہ تھے ۔ شہید واجہ اور بی این ایم کے قائدین تو بالکل واضح تھے کہ’’ بلوچ قومی تحریک طبقاتی ہرگزنہیں یک نکاتی ایجنڈہ ’’ آزادی ‘‘ کے لیے ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلیں گے ۔‘‘ّ
کتابیں انسانی تجربات کا ریکارڈ ہیں اُن کو پڑھ کرمطالعے کا ہنر سیکھاجاتاہے کہ کس طرح اپنے معاشرے کا مشاہدہ کیاجائے ۔ سماجیات اور سیاسیات میں کوئی مطلق قانون نہیں ہم ’’ نیلسن منڈیلا ‘‘ سے متاثر ہوسکتے ہیں لیکن وہ ہمیں ایسا فارمولا نہیں دے سکتے جس کو ہم استعمال کر کے آزادی حاصل کر سکیں ۔ یہاں شہید واجہ ، شہید اکبر اور شہید بالاچ کا فارمولاہی کامیاب ہیں جنہوں نے اس معاشرے کا تجزیہ کیا ہوا تھا اُن کاسادہ اُصول تھا۔’’ آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے ’’ بلوچ ، بلوچی اور بلوچستان ‘‘ کوسمجھو ۔‘‘ شہید واجہ کے دانشمندانہ الفاظ پر غور فرمائیں :’’ دنیا کے سب سے بڑے میڈیکل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹربھی دوسرے کا نبض دیکھ کرمریض کا علاج نہیں کرسکتا ۔‘‘ آپ اپنے خانگی مسائل پر بیگانگی اور کتابوں سے رومانس کشید کرنے کے مخالف تھے ۔
شہید واجہ اور آپ کے ساتھیوں کی روشن فکری نے آزادی پسندوں کا جو کیڈر تیار کیا اُن کے لیے دنیا کے تمام’ ازم‘ سردست محض ’’ معلومات عامہ ‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں البتہ ’’ نیشنل ازم ‘‘ اُن کا سادہ نظریہ ہے جس میں وہ ملاوٹ برداشت نہیں کرسکتے ۔ شہید واجہ کے نیشنل ازم کے خالص نظریے نے مکوران کوتحریک آزادی کاقلعہ بنادیا لیکن شہید واجہ کی ایک پیشن گوئی اور وارننگ جو کہ آج ہماری نادانیوں کی وجہ سے حقیقت بن چکی ہے نظر انداز کردی گئی ’’ آج تحریک تاریخ میں پہلی مرتبہ بلند سے بلند ترین مقام کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن یاد رہے جو جتنی اُونچائی سے گرے گا اسے اُتنے ہی شدید زخم آئیں گے اور ہم اگر یہاں سے گرپڑے تو پھر ہمیں اپنے ٹکڑے سمیٹنا مشکل ہوگا ۔‘‘ چے جائے کہ دشمن ہمیں گراد یتا ہم خود ہی اُونچائی پر اٹھلکیاں مارنے لگیں نتیجتاً گرکر بکھرگئے ۔ مکوران جو بلوچستان کے لیے ایک فخریہ مثال تھا آج اپنے سپوتوں کے کرتوتوں سے حیران اور پریشان ہے ۔ xxxxxxx جو ماضی میں قومی وحدت اور یک جہتی کے مثال تھے آج اپنے نظریاتی ساتھیوں کو برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ، یہی ہماری کہانی ہے ۔
لیکن مجموعی تحریک میں بھی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ، شہید واجہ ہمیں بار بار کہتے تھے کہ بلوچ قوم کے پاس قیادت کی کوئی کمی نہیں بابامری ، براھمدگ، ھیر بیار ، عبدالنبی بنگلزئی ،واحد قمبراور اللہ نذر ہمارے قائد ہیں ۔عصا ظفر نے ان کے لیے ’’ کلیکٹیو لیڈر شپ ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی لیکن ہم نے دیکھا کہ ’’ بی آرپی ، بی این ایم اور بی ایس او ‘‘ کی سنجیدہ سیاسی کوشش کا جو انہوں نے قومی یک جہتی کے لیے بی این ایف کے فلیٹ فارم پر شروع کی تھی ماسوائے براھمدگ کے کسی نے عملاً ساتھ نہیں دیا ۔ بی این ایم ( دراصل xxxxxxx ) کے بحران کو ذاتی جھگڑا سمجھ کر نظر انداز کیا گیا ۔اسی طرح بی آر پی کی بی این ایف سے علیحدگی کا کوئی نوٹس دیکھنے میں نہیں آیا ۔
xxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxx
’’ براھمدگ ، ھیر بیار اور اللہ نذر ‘‘کیا ماضی کے’’ انقلاب کے تین نشان ‘‘یا پھر ’’ سردار خیر بخش ، سردار عطاء اللہ اور غوث بخش بزنجو ‘‘ کی مثلثی سیاست کو نہیں دہرایا جارہا ، کوئی تنظیم ، کوئی ادارہ نہیں بلکہ ’’ بس تین نشان ‘‘ ؟
اگرمیں تعصب نہ کرؤں تو تسلیم کرناہوگا ہمارے تینوں قائدین میں ’’ براھمدگ ‘‘ بلوچ قومی تحریک کی کمزوریوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں ، تنظیم کی ضرورت اوراُس کی وسعت دامنی کے قائل ہیں لیکن بدقسمتی سے اُن کے ساتھ وہی سلوک روا کیا جارہاہے جو ماضی میں شہید اکبر کے ساتھ کیا گیاجس کا خمیازہ انہوں نے خود بھی بھگتا اور شہید اکبر کادامن بھی داغدار کر گئے ۔ حالانکہ نوجوان براھمدگ کی نسبت ہمادے دیگر قائدین میں زیادہ قوت برداشت اور قبولیت کامادہ ہوناچاہئے ۔
اس یک طرفہ بحث کو چند آئندہ نشستوں کے لیے سمیٹتے ہوئے ، چند تجاویز جو کہ مندرجہ بالا خامی کوتاہیوں کا نچوڑ ہیں پیش کرتا ہوں ، اس اُمید کے ساتھ کہ آپ دوست اس پر غور فرمائیں گے ۔
1۔ xxxxxxxکے اختلافات کوتحریکی معاملہ سمجھتے ہوئےxxxxxxx اور ان کے ناراض دوستوں پر دباؤڈالنا چاہئے کہ وہ اپنے اختلافات کو فوری طورپر ختم کریں ۔ اختلافات کے خاتمے کے لیے تحریک کے معتبرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو دونوں فریقین کا نکتہ نظر تحریری طور پر حاصل کرنے کے بعد اختلافات کے خاتمے اور آئندہ اس طرح کی صورتحال کے تدارک کے لیے مشورے کے بعد تجاویز پیش
کرئے اور جن پر عمل درآمدکے لیے ہر دو فریقین پر برابر دبا ؤ ڈالا جائے ۔
2۔ ہمارے اکابرین نے بی ایل اے ، بی ایل ایف اور بی آر اے کے درمیان انضمام کا جوا یک پرانا فیصلہ کر رکھا ہے اس پر عمل کے لیے ایک جائز ہ کمیٹی بنائی جائے جو غور کرئے کہ کس طرح ان تینوں دھڑوں کو ایک ’ سپریم کمانڈ کونسل ‘ کے تحت لایاجاسکتا ہے، مشکلات اور ممکنہ خدشات تحریری صورت میں مرتب کر کے ذمہ داران کے سامنے رکھے جائیں ۔
3۔ بیرون وطن مقیم بلوچ جو کہ قومی تحریک میں کردار اداکرنا چاہتے ہیں ان پربلوچ قوم دوست سیاسی جماعتوں سے متعلق ہونا لازمی قرار دیاجائے تاکہ ’’ بلوچستان ‘‘کی صورتحال کی وجہ سے یہاں تنظیم سازی کا جو عمل نہ ہونے کے برابر ہے اس کی کمی پوری کی جاسکے۔اس کے لیے ہم عصر تحریکوں کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے جن کے اراکین بیرون وطن تنظیم سازی کے ذریعے اپنی آواز بین الاقوامی سطح پر اُٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
4۔ قوم دوست جماعتیں ، قائدین اور ہمدرد ایک ضابطہ اخلاق وضع کریں جس کے تحت وہ ایک دوسرے پر میڈیا میں تنقید نہ کرنے کاپابند ہوں ۔
5۔عسکری تنظیموں کے ایک مشترکہ ’’ سپریم کمانڈ ‘‘ کے تحت متحد اور ضم ہونے کے عمل میں کامیابی کے بعد بی این ایم اور بی آر پی کے درمیان انضمام کی راہ ہموار کی جائے ۔اس کے لیے سیاسی دانشوروں کے زیر نگرانی اُصول و ضوابط تشکیل دیئے جائیں اور پھر اس پر اتفاق رائے حاصل کی جائے ۔
6۔ اگر ایسی کوئی صورت نہیں کہ بلوچستان کی آزادی پسندتنظیمیں ایک فلیٹ فارم پر اکھٹی ہوسکیں (حالانکہ یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اُن کا کوئی ذاتی ایجنڈہ ہو اگر ایجنڈہ قومی آزادی ہے تو مل کر کام کرنے میں کیا دلیل مانع ہے ؟ ) تو ایک متحدہ سپریم کونسل بنایاجائے لیکن اس میں چھوٹے چھوٹے گروہوں کو شامل کرنے کے بجائے محض نمایاں جماعتوں کونمائندگی دی جائے ۔
7۔ بی ایس او کو قومی تحریک کی مادر علمی اور تربیت گاہ کے طور پر عملی جدوجہد سے دور رکھا جائے ۔ بی ایس او کی ذمہ داری لگائی جائے کہ وہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں عملی زندگی میں قدم رکھنے والے بلوچ نوجوانوں کو قومی تحریک میں متحرک کردار اداکرنے کی تربیت دیں ۔ بی ایس او کے جارحانہ کردار کی وجہ سے بلوچ قوم ایک ایسی نسل سے محروم ہورہی ہے جسے مستقبل کا باگ دوڑ سنبھالنی ہے ۔ بلوچ قوم اور تحریک کو ہمہ جہت محاذ پر کام کرنے والے افراد کی ضرورت ہے جو بی ایس او کے علاوہ کوئی تنظیم پوری نہیں کرسکتی اور اس کام سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری نہیں اور اس اعزاز سے بڑھ کر کوئی اعزاز بھی نہیں کہ بی ایس او تحریک کے لیے جانثار سپوت پیدا کرنے والی ماں کا کردار اداکرئے ، یہی
تحریک کے لیے تازہ دم دستہ فراہمی کا راستہ بھی ہے۔
8۔ بلوچ قومی یک جہتی کے لیے ’’ بلوچی ‘‘ زبان کو فروغٖ دیاجائے ۔ تحریک میں رابطہ کاری اور ابلاغ کے لیے بلوچی زبان کے استعمال کو ضروری سمجھاجائے۔ اُردو زبان کے استعمال کو کم کرکے ترک کیاجائے جب کہ ’’ انگریز ی ‘‘ اور دیگر زبانوں کو محض بیرونی رابطہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے ۔ ( اگر روزنامہ توار اُردو کی جگہ بلوچی میں چھپتا تو اس کے انقلابی نتائج برآمد ہوتے ، آج صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان کاوسیع حلقہ بلو چی لکھنے پڑھنے سے محروم ہے ۔انسان چیزوں کااستعمال ضرورت اور مجبوری کے تحت کرتا ہے ۔ ہمیں بلوچی زبان کا پڑھنا لکھنا مجبوری اور ضرورت بنانا ہوگی ۔)
9۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے ریڈیو اسٹیشن کے قیام کی کوشش کی جائے جسے بلوچی زبان کے فروغ کے علاوہ قومی تحریک کی حمایت میں پروپیگنڈہ کرنے کے لیے استعمال کیاجاسکے ۔ ( ٹی وی کی نسبت ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے لوگوں تک رسائی آسان ہے کیوں کہ مشرقی بلوچستان میں کیبل پر کسی بلوچ ٹی وی کے نشریات کو نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی)
حرف آخر :۔ تنظیم اور اتحاد کے بغیر ہم اگرحادثاتی طور پر آزادی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے توخانہ جنگی اور آزادی کھونے کے خدشات ہمیشہ رہئیں گے ۔ بلوچستان معاملے کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والے بین الاقوامی سطح کے مانے ہوئے ہمارے دانشور دوست ہمیں ایک گرینڈ نیشنلسٹ پارٹی تشکیل دینے کا جومشورہ دے رہے نظر اندازنہیں کیاجاسکتا، باقی مسئلے مسائل ایسے نہیں کہ اُنہیں بروقت توجہ سے حل نہ کیاجاسکے ۔
Post a Comment