اسلم کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے ایک سیاسی کارکن کو کافی حوصلے کی ضرورت ہے ، اسی طرح اُن پر تنقید کرنا بھی آسان نہیں ، وجہ یہ نہیں کہ موصوف تنقید کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے بلکہ ان کا اظہار بیان تنقید کی راہئیں محدود کردیتا ہے ۔ ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ آسمانی صحیفے پڑھ رہے ہوں ’’ مطلق سچ ‘‘ کا گھمنڈ ان کی تحریروں میں گلا پھاڑ کر بولتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ ہرحال میں اپنی بات منوانے چاہتے ہوں ، یہ بھی کہ وہ بیک وقت بہت سارے معاملات کو لے کر بحث کرتے ہیں ، وہ معاملات اور کرداروں کو الگ الگ رکھ کر ان پر بحث کرنے کی بجائے سب کو ایک ہی جگہ ڈھیر کردیتے ہیں ، جس میں تنقید کے لیے کچھ چننا کٹھن کام ہے ،ہر ایک جملہ ایک الگ مضمون کا محتاج ہے،کوشش ہے جتنے چیزوں کوالگ کیا جاسکے ، الگ کرکے پیش کرسکوں ۔

نیت پر شک کرنے سے میں ہمشیہ احتراز کرتا ہوں لیکن اسلم کی تحریروں ، سوشل میڈیا اور باہر ہونے والی ہلچل میں ربط نظر آتا ہے اس لیے اُن کو پڑھتے ہوئے ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔

1: اسلم ایک صحافی اور کالم نگار نہیں بلکہ بی ایل اے کے کمانڈر ہیں ۔
2 : اسلم بی ایل اے کے مختلف علاقوں میں کمان کرنے کے ساتھ ساتھ ساتھیوں کی فکری تربیت بھی کرتے رہے ہیں ، اس لیے انہیں ’’ اُستاد ‘‘ کہاجاتا ہے ۔
3: اس مہم( جسے و ہ تحریک میں اصلاحی تحریک سمجھتے ہیں ) میں اسلم اکیلے نہیں بلکہ ھیربیار کی سربراہی میں گروپ ورک کی صورت کام کررہے ہیں۔

اسلم نے اپنی تازہ تحریر میں اپنے متعلق درج ذیل باتیں بتائی ہیں۔

1: اسلم کو بی ایل اے میں ھیربیار کااعتماد حاصل ہے ، خیربخش کا نہیں ۔
2: اسلم کو تنظیم کے اند ر ایک مشوک شخص کی سے نگاہ دیکھا جاتا ہے ۔

اسلم کے تضادات :

1: اسلم فرماتے ہیں : اُن کے سوالات پر ایک انتشار موجود ہے ، لیکن بظاہر ایسا نہیں ۔ وہ حیربیار کے نمائندے کی حیثیت سے یک طرفہ مسلسل بول رہے ہیں اور بتدریج ان کے انداز میں جارحانہ پن پیدا ہوتا جارہا ہے۔ ان کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالات بلکہ الزامات کے جواب میں آج تک کسی بھی طرف سے ایسا کوئی بیان اور اظہار نظر نہیں آرہا جس کو انہوں نے اپنی تحریر میں اشتعال انگیزی سے تعبیر کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں : ’’ آج’’ معمولی سوالات ‘‘ کے لیے ہمارے اندر اتنا اشتعال کیوں ؟‘‘ ۔ اشتعال کے لفظی مفہوم کو اگر میں سمجھتا ہوں اس سے مراد کسی کی بات پر غصے میں آکر اس کا جواب دینا ، مگر خیربخش براھمدگ ، بی آر پی ، بی این ایم اور بی ایس و مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ، اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ لاجواب یا کہ بقول اسلم اور ہمنوا ( یا ھیر بیا ر اور اس کے ہمنوا ) مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔بلکہ وہ اُن کی خواہش کو پورا نہیں کرنا چاہتے جس کے لیے وہ منظم طریقے سے کام کررہے ہیں ۔

اُن کی پوری کوشش ہے کہ اس کی طرف سے چھیڑی گئی بحث میں سب میڈیا میں آکر حصہ لیں لیکن باقی تمام اداروں نے ان انفرادی سوالات کو اہمیت دینے سے گریز کیا ہوا ہے ، یقیناًً انہوں نے اپنے اپنے اداروں میں بیٹھ کر کچھ فیصلے کیے ہوں گے جن میں سے یہ بھی ایک فیصلہ ہے کہ میڈیا پر تحریک کے معاملات کو اُچھالنے سے گریز گیا جائے گا ، جب کہ موصوف انہیں اس طرف کھینچنے کے لیے بھرپور زور آزمائی کررہے ہیں ، اس کے لیے موصوف بلیک میلنگ اور دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرنے سے بھی گریزنہیں کررہے ۔
اسلم مرکزی کردار نہیں بلکہ وہ یہ سب ھیربیار کے مشورے او رضامندی سے کررہے ہیں انہوں نے اپنی تمام نظریاتی وابستگیوں کا محور اور مرکز ھیربیار کوبنا لیا ہے۔ ھیر بیار کیا چاہتے ہیں یہ اب تک واضح نہیں کیا جارہا ہے، اس بحث سے وہ کیا نتائج سمیٹنا چاہتے ہیں یہ بھی ابھی تک اسلم جیسے سچ کے پرچارک نہیں بتارہے کہ وہ ھیربیار کو کیوں پروموٹ کررہے ہیں حالانکہ وہ پہلے سے مشترکہ رہنماؤں( بلوچ کلیکٹیو لیڈر شپ )میں شامل ہیں ، جن کی اسلم نفی کررہے ہیں ، کسی تخریب کے پیچھے اگر تعمیر نہ ہوتو اس کی حمایت کیوں کر کی جاسکتی ہے ، اس کی ہر تحریر میں تعمیرکا پہلواُوجھل ہے ، اس پہلو کو پراسرار رکھنے کی کیا وجوہات ہیں ؟
اسلم کو ھیربیار کی رضامندی سے متحرک ہونے اور اس کی تحریروں کومنظم حربہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلم کی تحریریں روزنامہ توار میں چھپتی ہیں جس کا ایڈیٹوریل بورڈ کسی آزاد اخبار کی طرح نہیں بلکہ تحریک کے مفادات کو پیش نظر رکھ کرکالم اور خبروں کا انتخاب کرتاہے ۔ ماضی میں توار اس طرح کی تحریروں کو چھاپنے سے گریز کرتا تھا جس میں تحریک یا تحریک کے قائدین کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ا ب اس طرح کی تحریروں کو پروموٹ کیا جارہا ہے جس کو یقیناً ھیربیار کی حمایت حاصل ہے کیوں کہ اخبار کے ڈانڈے وہی جاکرملتے ہیں ۔
اسلم کی تحریروں بلکہ واجہ ھیربیار کی پالیسی کو پروموٹ کرنے کا دوسراذریعہ سوشل میڈٖیا فیس بک کو بنایا گیا ہے ، پہلے چارٹر معاملے پر بھی ھیربیار سے بالواسطہ اور برائے راست تعلق رکھنے والے جارحانہ انداز میں براھمدگ کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے ، آئستہ آئستہ ھیربیار کو چھوڑ کر باقی سب پر تنقید شروع ہوئی اور کچھ جانے پہچانے نام سوشل میڈیا سے غائب ہوگئے لیکن ان کی جگہ جعلی اکاونٹس نے لے لی جو نہایت مستعدی اور تنظیم کے ساتھ ’’ ھیربیار ازم ‘‘ کا پرچا ر کررہے ہیں جس کا اب تک صرف ’’ ھیربیار سچ ، باقی سب جھوٹ ‘‘ والا حصہ سامنے آیا ہے آگے ان کے کیا ارادے ہیں ابھی تک مکمل پردہ کشائی نہیں کی گئی ہے ۔ھیربیار کا سائبر بریگڈ کی جارحیت کا اندازہ اس سے لگائیں اگر کسی طرف سے ہلکی سی تنقید ہو یہ مکھی کی طرح اس جگہ جمع ہوکر بیک زبان ایک ہی گیت گاتے ہیں جس کے ٹیپ کا بند ’’ ھیربیار کی جی ہو ‘‘ ہے ۔

3:اسلم اور اس کے ہمنواء دعوی کرتے ہیں سب پر بلا امتیا زتنقید ہونی چاہئے اور ہم تنقید کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن جب کوئی نکتہ نظر پیش کرئے تو وہ انتہائی تلخی اور بدتمیزانہ لہجے میں مخاطب کرتے ہیں ، اس سے کچھ نازک مزاج لوگ تنقید نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ، اخترندیم ، منظور عزت اور بی بی نائلہ کی متوازن اور مناسب تحریروں پر وہ اپنے ردعمل کو تنقید ی حق سمجھتا ہے لیکن وہ جس طرح اپنی تحریروں میں لوگوں کو مخاطب کرکے بات کرتے ہیں اس سے ’’ ہتک عزت ‘ ‘ کاپہلو زیاد ہ اُبھرتا ہے نہ کہ مکالمہ کا رجحان پلتا ہے ۔اسی تحریر میں اختر ندیم پر چوٹ ملاحظہ ہوں ۔
'' بقول اخترندیم واجہ خلیل بلو چ ،بقول اخترندیم مقدس ادارے،اخترندیم کا بی ایل ایف چارٹر زیر غور نہیں ، اخترندیم کا بی ایس او کے لیے ثناء خوانی زیربحث نہیں ، اخترندیم کی لفاظی اور خود فریبی کو لے کر نواب مری کے لیے بلوچوں کا عمر مختار لکھنازیر بحث نہیں ۔ ۔''
بقول غالب ’’ جو ہر ایک بات پہ کہتے ہو تو کیا ہے ؟
تم ہی بتاؤ یہ انداز گفتگو کیا ہے ؟‘‘
جب اخترندیم زیر بحث نہیں تو راقم کے سرپر بھی سوار نہ ہوں جب کسی چیز پر آپ کو بحث نہیں کرنا تو اس کو اشاروں کنایوں میں بیان کرکے قاری کو اُلجھانے کا مقصد؟ اس طرح کی تحریریں جناب صورت خان مری لکھا کرتے تھے ، جس کی اسلم صاحب نقل اُتار رہے ہیں ، صورت خان اور اسلم میں ایک قدر مشترک اور بھی ہے یا اسلم صورت خان کی تحریروں سے اس قدر متاثر ہیں کہ جس طرح صورت خان اپنی تحریروں کو خارجی معاملات سے جوڑنے کے لیے غلط بیانی سے بھی گریز نہیں کرتے اور کچھ کرداروں سے جھوٹی سچی باتیں منسوب کرتے ہیں اسی طرح موصوف بھی پیوندکاری سے نہیں ہچکچاتے ، یہ غیر شعوری عمل نہیں ایک شعوری کوشش ہے پڑھنے والوں کو گمراہ کرنے کے لیے ، مثلاً اخترندیم نے خیربخش کے لیے عمر مختار کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ انہوں نے حوالہ دیا کہ بی بی سی کے معروف صحافی وسعت اللہ خان نے یہ بات کہی ہے، جسے اسلم اخترکی خودفریبی سے تعبیر کررہے ہیں ، پھرگلہ کرتے ہیں :’’ کردار کشی کو لے کر چپ کرانے کے حربے استعمال نہیں ہوں گے ‘‘ موصوف کو کردار کشی کا مطلب سمجھ میں آتا ہے ؟

4: موصوف کہتے ہیں کہ میں پورا سچ لکھ رہا ہوں ، باقی سب سچ چھپارہے ہیں لیکن جناب اپنے حصے کا سچ بھی آدھا ہی بول رہے ہیں ، اور کچھ باتیں اشارہ کنایوں میں کررہے ہیں ۔

5: ہم نے تو کہیں نہیں سنا ، انہوں نے خود انکشاف کیا ہے کہ اس کی تحریروں کو کچھ ہوشمند دوست بلیک میلنگ قرار دے رہے ہیں ، لیکن موصوف کی زیر بحث تحریر میں اس کے الفاظ خود گواہی دے رہے ہیں ، فرماتے ہیں :’’ ہم اُمید کرتے ہیں جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں کے ذریعے کردار کشی کو لے کر چپ کرانے کے حربے استعمال نہیں ہوں اگر ایسا ہوا تو ہماری صٖفائی کے لیے دلیل مزید بہت سے حقائق جن سے بہت سے راز بھی وابستہ ہیں ، باحالت مجبوری آزادی پسند کارکنان کے معلومات کے لیے ان کے سامنے ہوں گے ۔‘‘ یعنی کوئی تنقید کی جرات نہ کرئے ، اسلم کو اجازت ہے کہ وہ تنظیمی سربستہ رازوں کو دلیل کے نام پرمیڈیا میں اُچھالیں لیکن دوسرے کسی نے یہ کام کیا تو من گھڑت کہانی ہوگی اور ا س کے جوا ب میں جناب ’’باحالت مجبوری ‘‘ آزادی پسند کارکنان کی معلومات کے لیے ان کے سامنے ہوں گے ۔ سچ بھی یہی ہے جناب یہ سب مجبوری کی حالت میں کررہے ہیں کیوں کہ تنظیم کے اندر ان کو اتنی پذیرائی حاصل نہیں کہ یہ اپنی بات منواسکیں اس لیے تنظیم سے باہر میڈیا کے ذریعے دباؤ پیدا کررہے ہیں تاکہ اپنی بات منواسکیں ، شاید آج کل اسے بلیک میلنگ نہیں کہتے ہوں گے جس طرح ’’ اخترندیم ‘‘ کے نام کا غیر ضروری ورداُن کے نزدیک ان کی کردار کشی کے زمرے میں نہیں آتا ، منظور عزت کو فارمولوں کے ذریعے جھوٹا قرار دینا اور پھر ان کے نام کاجابجا محض اس لیے تکرارکہ ان کا ایک جملہ موصوف کی سماعت کو ناگوار گزرا ، یہی انداز بیان بی بی نائلہ کے لیے کیوں کہ انہوں نے سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی بات کی تھی ؟۔ ۔ ۔ تو اسلم باحالت مجبوری ، سچ بھی بولتے ہیں ، اور باحالت مجبوری کردار کشی اور بلیک میلنگ کو بھی جائز قرار دیتے ہیں ۔

6:ایک جگہ بریکٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’ بقول انہی حضرات کے میں اعزازی لقب دینے میں ذرا کنجوس ہوں ‘‘ یعنی خود کو بیجا تعریف کرنے سے گریز کرنے والے بتاتے ہیں ، لیکن ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے خود کو ’’ ڈاکٹر اللہ نذر ‘‘ کے منہ سے ’’ اُستاد ‘‘ کہلواتے ہیں اور اپنے کمانڈر ہونے کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں اور شہید عرفان سرور سے اپنا رشتہ داری ظاہر کرنا بھی ۔ قارئین ! یہ سب غیر ارادی یا اُ ن کہانیوں کے کردار کے الفاظ کو ہوبہو نقل کرنا نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے یہ جتانے کے لیے کہ میں ’’ اللہ نذر‘‘ کا اُستاد ہوں جسے قوم میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے ، اور اس بنیاد پر جناب پڑھنے والوں پر ایک نفسیاتی برتری برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں ایک عا م لکھاری سے زیادہ ریلیف مل سکے ، پھر دوسروں کی قربانیوں پر انہیں ریلیف دینے پر آگ بگولہ ہوتے ہیں ۔

7:موصوف بادی النظر میں اداروں اور تنظیم کی بات کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قوم ( تشریح میں عوام کی معنویت کو لے کر) کے سامنے شفافیت کی ۔ فرد نہیں تنظیم اور ادارے لیکن ھیربیارکے معاملے میں ان کی پالیسی یکدم بدل جاتی ہے ۔ موصوف فرماتے ہیں :’’ میں نے دوران وزارت اُن ( ھیربیار ) کو چند دوستوں سمیت سریاب کے قبرستانوں ، چلتن کے دامن اور میاں غنڈی کے میدانوں میں راتوں کو کھڈے کھودتے ہوئے پایا ۔ قومی اثاثوں کو دشمن سے چھپاتے ہوئے ہرلمحہ فکرمند پایا‘‘ کیا وہ اثاثے ھیربیار نے اکیلے دفنائے ؟ اُن کے ساتھ دینے والے چند دوست اُن کے ذاتی ملازم تھے ، یا اسلم کی طرح ذاتی سنگت ۔ کیا یہ غلط ہے کہ ھیربیار محض خیربخش کی نمائندگی کررہے تھے ؟ یہ بھی کہ انہوں نے اپنی وزرات او ر سیٹ محض اس وجہ سے حاصل کی اسے بابا کی حمایت حاصل تھی اور اس میں اس کی ذاتی صلاحیتوں اور کردار کا دخل کم تھا ۔اگر اس کے سرپر بابا کا ہاتھ نہیں ہوتا اور چنگیز کی طرح ایک نافرمان بیٹے ہوتے تو اس کے ساتھ کھڑے ہونے والے وہ چند لوگ بھی نہ ہوتے ، یہ سب انہوں نے ذاتی صورت بلکہ اس پروگرام کے تحت کیا ، جس کے ماسٹر مائنڈ بابا ہیں ۔جس نے نہ صرف اُن کو بلکہ اس جدوجہد آزادی کی پگڈنڈی پر ہر مری کی اُنگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھایا پھر اس کی چال اور منزل سے محبت کامل دیکھ کر آئستہ آئستہ ان کا کاروان بڑھتا گیا ، جس طرح براھمدگ نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بگٹی ملیشیا کو بنام بی آر اے ایک قومی لشکر میں تبدیل کیا ، بابا نے بھی مری جنگجوؤ ں کو بنام بی ایل اے ایک قومی لشکر کا حصہ بنا کر اس کو ایک نئی قوم سوچ دی ۔اور اسلم کی غیر سنجیدگی اور مذاق با اینجا رسید کہ ’’ بازی بازی با ریش بابا ھم بازی ‘‘ اور وہ ببانگ دہل ’’ ھیربیار ‘‘ کو خیر بخش کا باپ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے زیادہ احمقانہ اور طفلانہ کوشش اور کیا ہوسکتی ہے ؟؟اگر ھیربیار ہی اس تحریک کے روح رواں ہیں تو جب وہ برطانیہ میں زیر حراست تھے ان کے وکیل کو کیا ضرورت تھی کہ خیربخش سے صلاح مشورہ کرتے؟ خیابان سحر کے خاموش راستوں کو اگر زبان مل جائے تو گواہی دیں گے کہ ’’ بابا ‘‘ قوم کے لیے ہمیشہ ایک مستعد رہنماء رہے ہیں جنہوں نے لمبی چوڑی تقریروں اوراسلم کی طرح خو د نمائی سے گریز کیا لیکن ہرمعاملے پر بی این ایف کی بھی رہنمائی کرتے رہے اور بی ایل اے سمیت دیگر تنظیموں پر بھی نظر رکھی ۔وہ ایک جہاندیدہ اور تجربہ کار انسان ہیں ، کتابی گھامڑ نہیں وہ بلوچستان کی طبقاتی حدبندیوں اور قبائلیوں نفسیات کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کرتے ہیں، وہ ذہنی طور پر شاید سرداری نظا م کوقبول نہیں کرتے مگر عملاً وہ مری قبیلے کے سردار کی حیثیت سے بھی انکاری نہیں بلکہ اس حیثیت کو تحریک کا ایندھن بنائے ہوئے ہیں باوجود اس کے انہوں نے ہرمعاملے میں بی این ایف کی رہنمائی کی وہ تحریک کے تمام اجزء کے درمیان ہمیشہ پل کے مانند رہے ہیں ان تک رسائی آج بھی باقی تمام لیڈروں سے زیادہ آسان ہے ، ایک ایسے متفقہ قائد کو جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ایک مضبوط زنجیر کا کردار ادا کرسکتے ہیں ان کی حیثیت کو کمتر ثابت کرنے کی اسلم کی کوششوں کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسے ھیربیار کی درپردہ حمایت حاصل ہے ۔جو اگر مریوں کے سردار ’’ خیربخش مری ‘‘ کے فرزند نہ ہوتے تو آج اُن کی حیثیت مختلف ہوتی۔

8:اُستاد اسلم علم وشعور کا درس دیتے دیتے ،کچھ ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جس میں اس کی اپنی ناک کا مسئلہ بھی نظر آتا ہے ، مثلاً جب انہیں ایک شخص آکر یہ بتاتے ہیں کہ خیربخش نے ان سے واقفیت سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ وہ تو ھیربیار کا ساتھی ہے انہیں میں اچھی طرح نہیں جانتا ‘‘ سب سے پہلے تو انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ کیا یہی وہ الفاظ ہیں جو بابا نے اپنے زبان سے ادا کیے ہیں یااُن تک پہنچتے پہنچتے الفاظ بدل چکے ہیں ، آخر کیاوجہ تھی کہ دوہزار سات میں بھی انہوں نے ’’ بابا ‘‘کے ان الفاظ کا مطلب یہ سمجھنے کی بجائے کہ ’’ میری اسلم سے زیادہ واقفیت نہیں ‘‘ کچھ اور سمجھ لیا اور آج دوہزار تیرہ میں اس کا ذکر کرکے ہمیں کچھ اور اشارے دے رہے ہیں ۔

9: اسلم سب کچھ میڈیاکے ذریعے حل کرنے کے حامی نظر آتے ہیں مگر مہران اور ھیربیار مسئلے کو کھل کر بتانے کی بجائے اشارے دیتے ہوئے کہاکہ انہوں نے بقول اُن کے ایک نظریاتی اُستاد اور بزرگ سے بات چیت کے ذریعے ’’ ھیربیار اور میر مہران مسئلے ‘‘ کوحل کرنے کی کوشش کی تو اس بزرگ نے ’’ ھیربیار ‘‘ کے کردار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ، اس کا ذکر وہ اس لیے کررہے ہیں کہ ان کے مطابق ان کے علاوہ باقی لوگوں کے خدشات ، اعتراضات ، تنقید سب بلاجواز ہیں ماسوائے اُن کے اور ھیربیارکے ، پھران کا ھیربیار کے لیے ’’ سنگت ‘‘ اور ’’ مہران ‘‘ کے لیے ’’ میر ‘‘ کے لفظ چننا خود اُن کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس طرح دو بھائیوں میں تفریق کرتے ہیں ، اور جس بزرگ کی طرف اشارہ ہے وہ بزرگ بھی موصوف کی سنگتی سے واقف ہیں جو تنظیم سے بھی انہیں بالاتر قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں ، اس لیے انہوں نے موصوف کو سختی سے مسترد کردیا ۔

10:موصوف فرماتے ہیں قربانیوں کو بلیک میلنگ اور مراعات لینے کاذریعہ نہ بنایا جائے مگر خود لکھتے ہیں : ’’ جس سنگت ھیربیار کو میں جانتا ہوں ، وہ میری تعریف کا محتاج ہرگز نہیں ، مجھے افسوس اس عمل پہ ہورہا ہے کہ تاریخ کے ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے کردار کو مسخ کیا جارہاہے جس نے شروع دن سے اس قومی جدوجہد میں بحیثیت رضاکار اپنا کردار ادا کیا ہے ۔‘‘ تو جناب کے اس اظہاریہ کو کیا کہا جائے ، دلیل ؟ جب کہ وہ دوسروں کے شہیدوں اور کرداروں کی قربانیوں کے ذکر کو بلیک میلنگ اور قربانیوں کا تول مول قرار دیتے ہیں ، جناب یہ بھی قربانیوں کی گنتی ہی کے زمرے میں آتا ہے ،’’ پوشیدہ موقف ‘‘ کے لیے کوئی ٹھو س دلیل نہیں ۔

اسلم کے آدھے سچ :

اسلم کی تحریر آدھے سچائیوں کا مجموعہ ہے ، انہوں نے یہ سب اپنے موقف کے لیے بطور سچائی پیش کیے مگراختلاف کے وجوہات بیان کرنے سے گریز کیے ۔

1۔ھیربیار کا سفارتی مسئلہ ، میرے علم میں یوں ہے کہ غالباً دوہزار نو میں ہمیں بحیثیت بی این ایم کے سیکریٹری اطلاعات جناب سمندر آسکانی کی طرف سے ایک دستاویز موصول ہوا جس کو انہوں نے خفیہ رکھنے کو کہا ،جوایک سرٹیفکٹ کی صورت تھی جس میں ھیربیار کی نمائندگی کا ذکر تھا اور نیچے بحیثیت بی این ایم ہمارے دستخط مطلوب تھے ۔ بی این ایم کے علاوہ خواتین پینل ، بلوچ وطن موومنٹ ، بلوچ بار کونسل ، بلوچ رائٹس کونسل ، بی آر پی ، بی ایس او اور دیگر آزادی پسند تنظیموں کے نام بھی درج تھے ۔، ظاہر ہے اس پر ہمیں کوئی فوری ردعمل نہیں دینا تھا ، سوائے اس کے میں نے ان کو نشاندہی کی کہ ھیربیار کو ہم بطور نوابزدہ نہیں جانتے ، اس کی حیثیت ایک تحریکی سنگت اور رہنما ء کی ہے لہذا میرے رائے ہے کہ اس کے نام کے ساتھ نوابزادہ نہ لکھا جائے اور میں آپ کی رضامندی سے اس دستاویز سے’’ نوابزادہ‘‘ کوحذف کرنا چاہتا ہوں ، اور میں نے تنظیموں کے ناموں کی ترتیب پر بھی انہیں مشورہ دیا ۔جہاں تک مجھے یاد ہے سرٹیفکٹ میں انہیں سفارتی نمائندہ بنانے کی وجوہات کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی ہمیں یہ اطلاع تھی کہ یہ سب کس کی مرضی اور مشورے سے کیا جارہاہے بس ہمیں دستخط کرنے کو کہا جارہاتھا ۔ میں نے اسے قائمقام صدر کو فارورڈ کیا اور فون پر مندرجات کے متعلق اطلاع دی ، چوں کہ یہ ان کی طرف سے ایک خفیہ دستاویز تھا اور انہوں نے ہی اس کو خفیہ رکھنے کی سفارش کی تھی اس لیے میں نے بھی صرف صدر کو اس متعلق اطلاع دی ، مجھے چوں کہ علم تھا کہ بی این ایم میں اس پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق بحث ہوگا ، اس لیے ہم نے اداروں سے باہر اس پر گفتگو سے گریز کیا ۔
مگر ہم اس کوشش سے مطمئن نہیں تھے میں ذاتی طور پر اس مسئلے کو بی این ایم کے فلیٹ فارم پراُٹھاتا رہاہوں کہ بحیثیت علیحدہ پارٹی بی این ایم کی بین الاقوامی سطح پر ایسی نمائندگی ہونی چاہئے جو پارٹی اداروں کو جوابدہ ہو، پارٹی کے بین الاقوامی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی کمیٹی ، کومرکزی کمیٹی نے یہ اختیار دے رکھے تھے کہ وہ بین الاقوامی تناظر میں پارٹی پالیسی کو دوسرے قوم دوست جماعتوں کی پالیسیوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے اُن سے مشاورت میں رہئیں تاکہ کسی پالیسی پر ہم میں اختلاف پیدا نہ ہو۔بی این ایم اس معاملے پر اس قدر حساس تھی کہ انہوں نے بہت سے معاملات پر آن بورڈ نہ ہونے اور اختلاف کے باوجود اپنے اختلاف اور تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ، پارٹی اداروں سے باہر کام کرنے والوں کا ساتھ دیا ۔ ایسے مواقع پر میں ہمیشہ قائدین سے اُلجھتا تھا کہ آخر ہماری پارٹی اداروں کی کوئی حیثیت ہے کہ نہیں جب بھی آپ فیصلہ کرتے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ سنگتاں فیصلہ کیا ہے ، سنگتاں مشورہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ لیکن بی این ایم کی مرکزی کمیٹی ان فیصلوں کی تائید کرتی جن میں ھیربیار اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے کیے گئے فیصلے بھی ہوتے ۔
مگر ’’ ھیربیار کا سفارتی مسئلہ ‘‘ اس وقت ٹیڑھا ہوگیا جب اس پر بی آر پی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ہماری طرف سے بھی یہ نکتہ اعتراض سامنے آیا کہ تحریک کے دو اہم ’’ گروپس ‘‘ کے درمیان تنازعہ کی صورت بی این ایم کسی ایک جماعت کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں جب کہ اعتراض بھی بجا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ھیربیار کو جو ہمارے اداروں کا جوابدہ نہیں ، کیوں واحد بلوچ قومی رہنماء کا درجہ دیا جائے ۔اگر وہ بی این ایف میں شامل کسی جماعت کا بھی حصہ ہوتا تو بھی اسے بالواسطہ جوابدہ تصور کیا جاتا مگر وہ بی این ایف میں شامل کسی جماعت کا رکن نہیں تھا ۔
یہ سوال میری طرف سے ، کیا ھیربیار کو’’ بلوچوں کاواحد بین الاقوامی نمائندہ ‘‘ قرار دینے کی کوشش ایک دانشمندانہ عمل تھا ؟ایک شخص کو تمام تر معاملات میں مکمل اختیارات بغیر کسی جوابدہی کے عمل کے سپر د کرنے کے فیصلے پر دستخط کرنے سے بی آر پی اور بی این ایم کے انکارکی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں تھی، کیا اس غیر مشروط دستخط کے بعد ان کے پالیسی ساز اداروں کی کوئی حیثیت باقی رہتی؟

2: دوہزار آٹھ میں جنگ بندی کا اعلان ، بی این ایم کےایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد ہمیں اخبارات کے ذریعے جنگ بندی کی اطلاع ملی شہید واجہ سے معلوم کیا اُن کو بھی خاص معلومات نہیں تھی ، نیشنل پارٹی کی طرف سے طعنے بازی ہونے لگی کہ آپ کے سرمچاروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اب آپ کیا کروگے صحیح معنوں میں ہم منہ چھپائے پھرتے تھے یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مجھے بحیثیت بی این ایم کے مرکزی لیڈر خود اور اپنے اداروں کے کردار پر شرمندگی محسوس ہوئی ، تقریباً مہینے بعد شہید واجہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے اس جنگ بندی کا جواز بتایا کہ ’’ جنگ بندی سے ہم نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ بلوچ سرمچاروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ مشترکہ قیادت موجود ہے جو مشترکہ فیصلے کرتا ہے ۔‘‘
ایک کہانی میرے علم میں یوں بھی ہے کہ مرکزی کمیٹی کا اجلاس تھا ، جان سولیکی اغواء ہوئے ، بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ نے ذمہ داری قبول کی ہمارے ساتھی ڈاکٹردین محمد نے خوش گمانی کا اظہارکرتے ہوئے اسے ’’ بلب ‘ ‘ بمعنی روشنی سے تعبیر کرتے ہوئے میرے ساتھ کھانے کے لیے ہاتھ دھوتے ہوئے مجھے انتہائی سرشار لہجے میں اطلاع دی، میں نے انہیں ’’ بلف ‘‘ اور ’’ بلب ‘‘ میں تمیز کرنے کی طرف توجہ دلایا وہ لمحہ بھر کو ٹھٹک گئے ، پھر کہا ’’ یہ مسلح تنظیموں کا ایک ایسا اتحاد ہے جیسے بلوچ نیشنل فرنٹ ۔‘‘ لیکن براھمدگ نے جان سولیکی واقعہ کی مذمت کی اور ڈاکٹر دین کی بات محض خوش گمانی ثابت ہوئی البتہ رحمان ملک اس کی ذ مہ داری صرف براھمدگ پر ڈالتے رہے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ پردے اُٹھتے گئے ، کہانی بدل گئی شہید واجہ نے جنگ بندی کی جو وجہ بتائی تھی وہ بھی دوسرے دوستوں نے مسترد کردی ، اداروں کی بے بسی نے ہم پر کوڑے برسائے، ہم نے اداروں کو مضبوط کرنے کی ٹھانی اور خود متنازعہ ہوکر گھر کا کونا پکڑ لیا ، جان سولیکی مسٗلہ نے کیا رخ اختیار کیا ؟ ’’ اسلم صاحب ! یہ سچائی میرے دل میں آج بھی ایک ایسا درد ہے جس سے بڑھ کر درد میری زندگی میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو ، لیکن ہم بی این ایم سے ہیں جس کی ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے یا نکال دی گئی ہے اس لیے ہم نے اس کو اب تک سینے سے لگائے رکھا ہے ، باہر اُچلنے نہیں دیتے بلکہ خود کلامی سے بھی گریز کرتے ہیں ، کیا آپ اس حقیقت کو بھی سامنے لانے کی جرأت کریں گے ؟ ۔ ‘‘

3: تیرہ نومبر ، بی ایل اے نے تیرہ نومبر کو قومی سطح پر یوم شہدائے آزادی منانے کا اعلان کیا ،تیرہ نومبر کے د ن نہایت محدود پیمانے پر پروگرامات ہوئے ۔ ردعمل میں ھیربیار نے باقاعدہ بیان جاری کرکے بی این ایم ، بی ایس او اور بی آر پی کی تیرہ نومبر کی حمایت نہ کرنے پر مذمت کی ۔بی آر پی ، بی این ایم اور بی ایس او نے حسب معمول بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا موقف میڈیا میں اُچھالنے سے گریز کیا ۔لیکن اس کے کئی وجوہات موجود تھیں جن کی بنیاد پر  بی آر پی ، بی این ایم اور بی ایس او نے حمایت سے گریز کیا ۔یہ اعلان ایک سیاسی فلیٹ فارم کی بجائے ایک مسلح تنظیم کی طرف سے کیا گیاتھا ، اعلان سے پہلے اس معاملے پر بی آر پی ، بی این ایم اور بی ایس او سے مشاورت کی بجائے اپنی تین حرفی تنظیم کی طرف سے اعلان جاری کیا گیا ، بی آر پی ، بی این ایم اور بی ایس او کے فیصلے براھمدگ ، خلیل اور بلوچ خان کے جیب میں نہیں کہ وہ کسی اخباری بیان پر کسی کی تائید کا اعلان کریں ، ہر فیصلے پر تینوں مذکورہ جماعتوں کوخاص طریقہ کار کے تحت اُن اداروں کی حمایت حاصل کرنے ہوتی ہے جن کی وہ نمائندگی کررہے ہیں ، ھیر بیار کو چاہئے تھا کہ ’’ تیرہ نومبر ‘‘ کی تاریخ طے کرنے سے پہلے اُن سے رائے طلب کرتے یا ان سے اپنی تنظیمی فیصلے کی حمایت کی درخواست کرتے ، لیکن اس کی بجائے وہی روایتی طریقہ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے بیشمار مسائل ہیں ، بی آر پی ، بی ایس او اور بی این ایم نے اخباری سطح پر اس کی حمایت نہیں کی ۔ لیکن علاقائی سطح پر جہاں جہاں ممکن تھا مذکور ہ جماعتوں نے تیر ہ نومبر کی مناسبت سے پروگرامات کا انعقاد کیا ، محض اخباری حمایت کی فرمائش پورا نہ کرنے ، یا قومی ہستیوں کی یاد میں ( جو شہید بھی ہوچکے ہیں )جداگانہ پروگرامات کے انعقاد پر مذکورہ جماعتوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش قابل مذمت ہے۔

4: چارٹر ، اس پر شاید مزید لکھنے کی گنجائش نہیں ، میں براھمدگ کے موقف سے لے کر دوسرے پہلوؤں پر اپنا نکتہ نظر پیش کرچکا ہوں ۔

5: ھیربیار کا اخباری سطح پر آزادی پسند قائدین کے درمیان اختلاف کی نشاندہی ، ھیربیار کے دو بیانات ہی اب تک سامنے آئے ہیں جنہیں اختلاف کی نشاندہی نہیں بلکہ اختلاف کا اخباری اظہار کہا جاسکتاہے دوسرا تیرہ نومبر کو ان کا حکم نہ ماننے پر بی آرپی ، بی این ایم اور بی ایس او کی مذمت پر مبنی تھا، پہلے بیان میں ’’ قائدین ‘‘ نہیں بلکہ صرف بی آر پی کے قائد ’’ براھمدگ ‘‘ کو چارٹر معاملے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، اس پر وہ مضمون لکھ چکا ہوں جسے روزنامہ توار نے چھاپنے سے گریز کیا لیکن میرے بلاگ میں موجود ہے ، آپ پڑھ سکتے ہیں ۔
سوال ، چارٹر پر بی این ایم ، بی ایس او ، بی این پی اور خیر بخش نے بھی خدشات پیش کیے ہیں ھیربیار نے صرف براھمدگ پر ہی کیوں کڑی تنقید کی اور اسلم صاحب نے بھی غالباً تیرہ نومبر تک صرف براھمدگ کو ہی قلم کے نوک پر رکھا ، دوسرے جماعتوں کے معاملے پر اس وقت تک مکمل خاموشی اختیار کی گئی جب تک یہ بات واضح نہ ہوئی کہ وہ بھی چارٹر معاملے پر براھمدگ کے موقف کی حمایت کررہے ہیں ۔ یہ چارٹر ہی ہے جس کے بعد اسلم اور ھیربیار کو پوری تحریک کی خامیاں نظر آنے لگیں حالانکہ وہ بتاتے ہیں کہ یہ مسٗلے گزشتہ پانچ سالوں سے ہیں لیکن غلط اور بگڑے ہوئی تنظیموں کو چارٹر بھی پیش کیا گیا ، سفارتی سرٹیفکٹ بھی اور تیرہ نومبر کی حمایت کی اُمید بھی رکھی گئی اور یہی اسلم کے سب سے بڑے اعتراضات بھی ہیں ۔

اسلم کی کردار کشی :

ویسے تو اسلم ھیربیار کے علاوہ کسی کو غلطی سے مبرا نہیں سمجھتے چند کردار درج ذیل ہیں ۔

1: بی ایل ایف کے شہید کمانڈرماموں مری ( سدو مری ) تحریک کے نہایت پرانے ، قابل اور رہنماہانہ صلاحیتوں کے حامل ساتھی تھے ، جو نوے سال کی عمر میں بھی پہاڑوں میں بی ایل ایف کے سرمچاروں کے ہمرکاب رہے اور لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، مکوران میں شہید سدو مری ایک گمنام شہید کے طور پر بھی ایک افسانوی کردار کی طرح مشہور تھے ،جن کی ایک بڑے لشکر سے تن تنہا ء کافی دیر تک لڑاتی ، شہادت کے بعد اُن کی گولیوں سے چھلنی آنتوں میں خوراک کی بجائے گھاس اور جیب سے سوکھی روٹی ملنے کے قصے انتہائی متاثرکن انداز میں بیان کیے جاتے تھے ، عام لوگوں کوکافی بعد پتا چلا کہ دھرتی کے یہ نڈر سپوت ’’ شہید سدو ‘‘ ہیں جنہوں نے ہلمند سے لے کر جیمڑی تک اپنی زندگی قومی جدوجہد میں گزاری او ر مقصد کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ خیربخش کے نہایت دیرینہ ساتھی سمجھے جاتے تھے ، رسمی تعلیم معمولی لیکن نظریاتی اور کافی سمجھدار انسان تھے ، وہ ایک مدبر رہنما ء اور اچھے مقرر کے طور پر جانے جاتے تھے ۔اسلم نے اپنی تحریر میں بیک جنبش قلم ایک ایسی عظیم ہستی کے کردار کومسخ کیا ہے جس کے کردار سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے ۔ انہوں نے بظاہر بی ایل ایف اور اللہ نذر کو اس کا قصور وار ٹہرانے کی کوشش کی لیکن ان کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ شہید ماموں محض ایک جذباتی لڑاکو تھے ، ان کو تحریکی معاملات کی کوئی درک نہ تھی ، اور وہ اللہ نذر کی بات سنے بغیرجذباتی ہوگئے ، اب ہمیں اپنے حصے کا سچ بتا کر قائل کرنا چاہتے ہیں کہ یہ تفریق بی ایل ایف نے شروع کی جب کہ ہم مشترکہ طور پر کام کرنا چاہتے تھے ۔ اس بات کی وضاحت کرنے کی ہماری پوزیشن میں کہ شہید ماموں کے اس شرط کی کیا وجوہات تھیں کہ ’’ وہ بولان میں بھی جاکر بی ایل ایف کے زیر کمان کام کریں گے ۔‘‘ مگر اس بنیاد پر یہ کہنا کہ چوں کہ بی ایل ایف کی تربیتی نشستوں میں بی ایل اے کے خلاف ہرزہ سرائی ہوتی تھی ، اس لیے ماموں جیسے کہنہ مشق مدبر بزرگ سرمچاربھی بہک گئے!!!۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اسلم صاحب کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ بی ایل ایف کے کیمپوں میں صرف مری نہیں بلکہ بگٹی بھی ہیں ،جو بی ایل ایف کے زیر کمان اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں ۔ بی ایل ایف صرف مکوران کے لیے نہیں بنی لیکن جس طرح بی ایل اے نے مکوران میں بی ایل ایف کی موجودگی کی وجہ سے تنظیم سازی سے گریز کیا اسی طرح بی ایل ایف نے بھی اُن علاقوں میں کیمپنگ نہیں کی جہاں بی ایل اے اور بی آر اے کام کررہی ہیں ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بی ایل ایف اپنی قوت اُن علاقوں میں کھپانا چاہتی ہے جہاں زیادہ کام کی ضرور ت ہے ۔

2: کامریڈ مولاد اد ، بلوچ قومی تحریک سے دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں عملی جدوجہد ، قلمی رہنمائی سے لے کر آج تک وہ کسی نہ صورت قوم دوستی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اُن کے بہت سے معاملات پر اللہ نذر سے اختلافات رہے ہیں ، اسلم نے شاید ان کے خیال میں ایک انکشاف کیا ہے کہ اُن کو غلام محمد کے ساتھ بھی اختلافات تھے لیکن بی این ایم میں آپس میں اختلاف رائے رکھنا معمولی بات سمجھی جاتی ہے ، شہیدواجہ کو بھی یہ بات معلوم تھی کہ اُن کی پالیسیوں اور کردار پر کچھ لوگوں کو اختلافات ہیں ، لیکن کامریڈ مولاداد اُن میں شامل نہیں تھے بلکہ بعض اختلافی معاملات میں شہید واجہ کے ساتھ کھڑے رہے اور ہمیشہ پارٹی میں ایک متحرک بزرگ کا کردار نبھاتے رہے ۔اس لیے آج اُن کی جماعت میں اکثریت اُن کارکنان کی ہے جو شہیدواجہ سے قریب تر رہے ہیں ۔
اسلم کے بقول ، کامریڈ مولاداد نے اُن سے گلہ کیا ھیربیار کیوں غلام محمد کی حمایت کررہے ہیں ، اور بقول اسلم کے اس وقت اس کا جواز بھی تھا ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ھیر بیار غلام محمد کی مالی مدد کررہے تھے ، سیاسی یا اخلاقی ؟ جب کہ ہمیں تو یہ نظر آرہا تھا کہ غلام محمد بی این ایم اور بی این ایف کے چیئرمین تھے اور سرپیس پر بی این ایف کی سطح پرروزانہ کی بنیاد پرسینکڑوں لوگوں سے رابطے میں تھے ، اور ایک ایسے متحرک کردار کو قوم میں قبولیت کے لیے کسی ایسے شخص کی مدد کی کیوں کر ضرورت پیش آئی جو سرپیس پر کسی جماعت کا رہنماء بھی نہیں اور وطن سے باہر رہتے ہیں بلکہ وہ غلام محمد اور بی این ایف تھے جنہوں نے ہمیشہ ھیربیار کی حمایت کی اور ان کا ساتھ دیا ،اُن کے پوسٹرز اور تصاویر اُٹھائے پھرتے رہے اور لوگوں کو بتایا کرتے تھے ، ھیربیار ہمارے لیڈر ہیں ۔۔ ۔ ۔ حیرت کہ بقول اسلم کے ’’ کامریڈ مولاداد ‘‘ کو یہ سامنے کی بات سمجھ میں کیوں نہیں آئی کہ ھیربیار نہیں غلام محمد ھیربیار کو سیاسی اور اخلاقی مدد فراہم کررہے ہیں !!
مولاداد کو غلط ثابت کرنے کی اس کوشش پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج جن معاملات کو لے کر وہ اللہ نذر اور دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کامریڈ بھی انہی اختلافات کی بنیاد پر علیحدہ ہوئے ، اس طرح تو انہیں کامریڈ کی حمایت کرنی چاہئے نہ کہ اختلاف رکھنا چاہئے ، لیکن اختلاف کی اصل وجہ وہ نہیں جوانہوں نے اپنی کہانی میں بیان کی ہے کہ ’’ وہ شہید غلام محمد سے اختلاف رکھتے تھے پھران کے نام پر پارٹی بنالی‘‘ بلکہ اصل اختلاف شاید ان معاملات میں شروع ہوئی جہاں شہید واجہ ملوث نہیں تھے ۔

اسلم اور تنظیمی اُصولوں کی خلاف ورزی :
تنظیم میں بنیادی شرط رازداری کی ہے جس پر کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جاتی ، بی ایل اے جس سے اسلم کا تعلق ہے اس کی اس اصول پر سختی سے عملدرآمد کروانے اور غلطی کرنے کی صورت سخت سزاؤں کے متعلق کافی واقعات مشہور ہیں مگر حیرت ہے کہ تنظیم سرکردہ رہنماء تنظیمی راز میڈیا میں لارہے ہیں ۔ کیمپ کے لوکیشن ، ہتھیارو ں کو چھپانے کی جگہ اور آپس کی گفتگوسب کچھ وہ بیان کررہے ہیں جو تنظیمی اُصولوں کے منافی عمل ہے ۔

اسلم کے الزامات :
ویسے اُن کی تحریر الزامات کا مجموعہ ہے جن پر اگر بات کی جائے تو شایدیہ نشست مزید طویل ہوجائے ، مگر ایک سبک الزام کی وضاحت ضروری ہے جو انہوں نے اشارتاً بی ایل ایف پر لگایا ہے کہ بی ایل ایف کے کیمپوں میں بی ایل اے کے خلاف بات ہوتی تھی اور انہیں جاہل ، ان پڑھ اور قبائلی کہا جاتا تھا ۔ سچائی ، بی ایل ایف کے زیر اثر حلقوں میں بی ایل اے بھی یکساں مقبول جماعت ہے ، جہاں بی ایل ایف ، کا نام لیا جاتا ہے وہاں بی ایل اے کا ذکر بھی کیا جاتا ہے ۔ دیواروں میں    بی ایل ایف کی چاکنگ کے ساتھ بی ایل اے کی حمایت کے نعرے بھی درج ہیں ، اگر بقول اسلم کے بی ایل ایف کے کیمپوں میں بی ایل اے کے خلاف بات ہوتی تو مکوران میں اس کے سرمچار بی ایل اے کا نعرہ کیوں لگاتے ؟ بلکہ سچائی یہ ہے کہ       بی ایل ایف کے ساتھی بی ایل اے کے سرمچاروں اور اس کی تنظیمی صلاحیتوں کے ہمیشہ معترف رہے ہیں ۔

اسلم کے سوال :
موصوف کے چند سوالات درج ذیل ہیں ؟

1: بی این ایم ، بی ایل ایف اور بی ایس او کیوں دوسری جماعتوں کی جداگانہ حیثیت کے باوجود ان پر تنقید کرتے ہیں اور میرے حق تنقید پر اعتراض کیوں ؟
شہید واجہ تنقید کے بغیر سیاست کو بیکار سمجھتے تھے ، بی این ایم کے دوہزارآٹھ کے سیشن میں بی ایس او کے ایک سابق چیئرمین نے جب تجویز پیش کی کہ بی این ایم کو نہ کسی پر تنقید کرنی چاہئے نہ کسی کی حمایت بلکہ اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے ،ا س پر آپ نے فرمایا کہ :’’ جب ہم نہ کسی کی حمایت کریں گے نہ تنقید تو پھر کریں گے کیا ؟‘‘ تو بی این ایم بطور پارلیمانی جماعت بلوچ قوم دوستی کے دعویداروں پر اس لیے تنقید کرتی ہے کہ اُن کے مقابل ان کے پاس غیرپارلیمانی سیاسی پروگرام موجود ہے ، اس تنقید کا مقصد قوم کو آگاہ کرنا ہے کہ مذکورہ جماعتوں کی پالیسیاں درست نہیں اور پھر اس پر اپنا موقف پیش کیا جاتا ہے ۔ بی این ایم کا اُن کی پالیسیوں پر تنقید کر کے ان کی درستگی اور اصلاح کی کوشش نہیں کرتی بلکہ لوگوں کو اپنے موقف پر قائل کرنے اوراُن جماعتوں سے متاثر ہونے کی بجائے بی این ایم میں شمولیت کی ترغیب دیتی ہے ۔ لیکن بی این ایم اپنے ہم مقصد جماعتوں پر کبھی بھی میڈیا اور عوام کے سامنے اس طرح کڑی تنقید نہیں کرتی کیوں کہ وہ سمجھتی ہے کہ ان کے درمیان بہت سے معاملات مشترک ہیں ، اگر کوئی اختلافی معاملہ ہو تو بی این ایم بی آر پی اور         بی ایس او کی قیادت سے باہمی گفت وشنید سے حل نکالنے کی کوشش کرئے گی تاکہ ایک مشترکہ مقاصد کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو جو بی این ایم کی منشور کا اہم حصہ ہے ۔
اسلم کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے نہ بی این پی مینگل سے بلکہ وہ بھی ایک ایسی آزادی پسند تنظیم کا حصہ ہیں جس کا بالواسطہ بی این ایم اور براہ راست بی ایل ایف کے ساتھ اشتراک عمل رہا ہے ، اس لیے کھلے عام اعتراضات اور غلطیوں کی نشاندہی سے یہ مراد لیا جائے گا موصوف بی این ایم ، بی ایل ایف اور بی ایس او سے مطمئن نہیں ، اب قوم کو ان سے متنفر کرکے کیا اسلم انہیں کسی ایسی جماعت میں شمولیت کی ترغیب دے رہے ہیں جو ان سے بہتر کام کررہی ہے ، بی این ایم کی تنقید میں واضح آپشن موجود ہے لیکن اسلم بی این ایم ، بی ایل ایف اور بی ایس او کو جھٹلا کر اشارتوں میں تو انہیں متبادل قوت کی طرف دھکیل رہے ہیں لیکن اب تک انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی ، سیاسی اور ادبی تنقید میں یہی فرق ہے کہ ادبی تنقید لکھاری کی تخلیق کو نکھارنے اور اس کی پوشیدہ فنی خامیوں کی نشاندہی کے لیے ہوتی ہے اسے مکمل مسترد کرنے کے لیے نہیں ۔ لیکن اسٹیج پر کی جانے والی سیاسی تنقید کامقصد مخالف جماعت کی طرف لوگوں کےرجحان کو بدلنے اور اپنی جماعت کی مقبولیت ہوتی ہے ۔
پارٹی کے ممبران پر بھی یہ اخلاقی پابندی ہے کہ وہ اپنے پارٹی معاملات اور دوستوں پر اداروں سے باہر تنقید نہ کریں ،تحریکی سنگت ہونے کی وجہ سے اسلم نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

2: لکھاری اطلاعیہ انداز میں سوال اُٹھاتے ہیں کہ بی این ایم اور بی ایل ایف کیوں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے یکساں طرز سیاست کے باوجود ، نیشنل پارٹی پر تنقید کرتے ہیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے حوالے سے مصلحت کا شکا رہیں ؟
یہ سوال شاید ھیربیار سے بھی پوچھنا چاہئے جنہوں نے جن دو جماعتوں کے سربراہوں کواپنے لبریشن چارٹر کی کاپی فراہم کی اُن میں ایک بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر اخترجان بھی شامل ہیں جب کہ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو لبریشن چارٹر کی کاپیاں نہیں دی گئیں ۔ لیکن یہ بات بی این ایم کے لیے درست نہیں کیوں کہ بی این ایم نے متعدد مرتبہ بی این پی کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی ، میری ناقص رائے میں ہم سے بی این پی سے متعلق کچھ زیادتیاں بھی ہوئیں اور اس سلسلے میں کہ بی این پی پر نیشنل پارٹی اور عوامی جیسی تنقید ہونی چاہئے یا نہیں پارٹی میں رائے منقسم تھی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نیشنل پارٹی اور بی این پی کے کردارمیں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ موجودہ تحریک کے دوران بی این پی کے سینکڑوں کارکنان شہید اور اغواء ہوچکے ہیں ۔
شہید واجہ نے بی این ایف کی تشکیل کے وقت بھی اپنے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ ہم بی این ایف کے تین نکات آزادی ، غیر پارلیمانی جدوجہد اور سرمچاروں کی حمایت ‘‘ پر تمام جماعتوں اور خاص طور پر بی این پی کو بی این ایف میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں ۔‘‘
اور آج بھی ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ بی این پی اپنے متضاد موقف پر غور کرئے گی اور جو قربانیوں اس کے کارکنان دے رہے ہیں انہیں قومی حق خود ارادیت کی بجائے آزادی کے لیے کھپائے گی ۔

خلاصہ ( اسلم کے مضمون کا مختصر تنقیدی جائزہ )

اسلم صاحب نے بی ایل اے کے اس دھڑے کی نمائندگی کی ہے جس کو بظاہر ھیربیار کی سرپرستی حاصل ہے ۔ مضمون میں بی این ایم ، بی ایل ایف اور بی ایس ا وکو خاص تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ موصوف کے بقول تنقید کا مقصد اصلاح کرنا ہے لیکن ان کا زیادہ تر زور ھیربیار کے کردار کونمایاں کرنے پر ہے جس کا مقصد اُن کی مقبولیت میں اضافہ کرنا اور اپنی کمزور پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے بی ایل ایف ، بی این ایم اور بی ایس او کے کارکنان کی حمایت حاصل کرکے ایسا دباؤ پیدا کرنا جس کے نتیجے میں ھیربیار کو زیادہ حیثیت ملے۔
یہ مضمون اختر ندیم کے مضمون کا ردعمل ہے جس میں انہوں نے بی آر پی کے قائد براھمدگ کی کردار کشی کی مذمت کی جس سے یہ تاثر ملا ہے بی ایل ایف چارٹر معاملے پر ھیربیار کے موقف کا حامی نہیں ۔ بی این ایم ، بی ایس او اور بی ایل ایف کو ایک ساتھ جوڑنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ تینوں تنظیموں نے یکساں موقف کا اظہار کیا ہے ۔اخترندیم کے مضمون کی اشاعت سے بی ایل ایف کے حامیوں میں یہ بات صاف ہوئی ہے کہ بی ایل ایف اس پورے منظر نامہ میں بقول اسلم بلوچ تیسری خاموش بالغ نظر قوت نہیں بلکہ اپنا فیصلہ سناچکی ہے ۔
یہاں یہ وضاحت کرناضروری ہے کہ اسلم اور ھیربیار کی نیتوں میں کوئی فتور نہیں ، قومی تحریک میں کمزوریاں خامیاں موجود ہیں اس پر کسی کو انکار نہیں اور نہ ہی ہمیں ھیربیار اور ان کے ہمنواء دوستوں کی حصہ داری سے انکار کرنا چاہئے اعتراض ان کے طریقے پر ہے بقول اُن کے وہ تقسیم کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سارے پریکٹس کاجو نتیجہ سامنے آیا ہے اس میں نہ مزید علمی مباحثوں کی گنجائش ہے نہ بہتری پیدا ہوسکتی ہے کیوں کہ ہم دو واضح گروہوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ہر گروہ اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ، اس کی مثال آپ سوشل میڈیا میں دیکھ سکتے ہیں جہاں ہر کوئی آج بھی اپنے اسی پوزیشن میں ہے جہاں شروع دن سے تھا ۔
ہم بھی قومی تحریک میں اصلاحات کے حامی ہیں بلکہ میں اپنی کمتر حیثیت اور پارٹی میں غیر موثر کردار کے باوجود ہمیشہ کوشش کرتا رہاہوں کہ ہم میں جو خامیاں ہے انہیں دور کیا جائے ، اس پر میں نے تمام قوم دست جماعتوں کے کارکنان اور قائدین کے نام ایک بند خط بھی لکھا ہے جس میں نے اُن تمام غلطیوں کا کرداروں سمیت ذکر کرکے اُن کی درستگی کے لیے فوری توجہ کی درخواست کی تھی اور ھیربیار کے بیان سے پہلے ایک تحریر میں بھی یہی عرض کیا کہ اگر ان معاملات کو نہ روکا گیا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے ۔ آج ہم اسی بگڑی ہوئی صورتحال کا شکار ہیں ۔
ان معاملات کی درستگی کے لیے ھیربیار فارمولا میں سقم یہ ہے کہ وہ تمام خامیوں اور کمزوریوں کا ذمہ داردوسروں کو قرار دے کر خود داہرے سے باہر رہ کر ان کو درست کرنا چاہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام خامیاں آج ہی آج پید انہیں ہوئیں ، ان کاذمہ دار اللہ نذر اور براھمدگ سے زیادہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس تحریک کی بنیاد رکھی ہے ۔ شہید واجہ سے لے بی این ایم کاایک یونٹ سیکریٹر ی تک بی این ایم کی موجودہ خامیوں کوتائیوں کا اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا خلیل ۔اسلم صاحب کوغور کرنا چاہئے کہ وہ بوڑھا جس کے صرف ہونٹ ہل سکتے ہیں موجودہ خامیوں کا ذیادہ ذمہ دار ہے یا وہ کمانڈرجو پہاڑوں میں کمان کررہا ہے اور کیمپ میں ذہن سازی ؟ بلاشبہ یہ کمزوریاں مجھ سمیت ہر اس جھدکار کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں جو اس عمل میں کسی نہ طوکسی طور رحصہ دار رہا ہے، سادہ سی بات ہے جس کا سب سے زیادہ حصہ رہا ہے ، جس کی پاس سب سے زیادہ ذمہ داریاں تھیں وہ اتنا ہی قصور اور ہے ۔  توہم باہر رہ کر انہیں حل نہیں کرسکتے ہمیں تنظیمی داہرے میں رہتے ہوئے خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔
ان مسائل کے حل اور تنظیموں میں اصلاحی کوششیں اسی صورت بار آور ثابت ہوسکتی ہیں کہ ہم اُن کے اداروں کو مضبوط کریں اور ان پر اپنے رائے مسلط کرنے کی بجائے تمام فیصلوں کو اداروں میں کرنے کی روایت ڈالیں ۔یوں دوسروں پراُنگلی اُٹھانے سے دوسری طرف سے سوائے اُنگلی کی کسی دوسری چیز کی اُمید نہیں رکھیں ۔

محترم ھیر بیار ،آپ قوم میں موجود سماجی اور سیاسی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک ایسا پلان پیش کررہے ہیں جس پر موجودہ حالات میں سب کامتفق ہونا ممکن نہیں ، یہ خواہش ایک غیر قبائلی اور بی این ایم کا ورکر ہونے کی حیثیت سے مجھ میں زیادہ ہے لیکن حقائق ہمارے خواہشات کے برعکس ہیں ۔ تبدیلی ہم بھی چاہتے ہیں طبقاتی درجہ بندی ، علاقائی اور لسانی تقسیم جیسے بیشمار مسائل ہیں جو ہم سے بھی پوشیدہ نہیں لیکن قومی جہدجہد کے دوران اور حالت جنگ میں ہم کو اپنی وِش لسٹ کی بجائے مقصد اور دشمن پر زیادہ توجہ دینا چاہئے ۔
ہمیں تحریک کے موجودہ اسٹاک ہولڈرز اور فطر ی تقسیم قبول کرنے ہوں گے ، قومی تحریک اور انقلابی تحریک میں ایک فرق ہے ، انقلابی تحریک ایک ہی سیاسی نظریہ رکھنے والے لوگوں کی ہوتی ہے جب کہ قومی تحریک  میں قوم کے تمام طبقات کو اکھٹا کرنا اہم ہوتا ہے ، آج ہمیں جو سب سے بڑی کامیابی ملی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بلوچ قومی آزادی کی جنگ کی حیثیت قبائلی شورش سے زیادہ نہ تھی مگر آج بلوچستان کا ہرطبقہ قومی آزادی کی جدوجہد میں حصہ دار ہے ، یہی جنگ منزل تک ہمارے درمیان دوریوں کو کم کرنے کا سبب بھی بنے گی اور باقی مسائل بھی حل ہوں گے ۔

قارئین ! اسلم نے موجودہ حالات کی جو منظرکشی کی ہے وہ ان کی دید ہے ،میری نظر سے منظرنامہ کیا ہے اس پر اپنے اگلے مضمون میں بات کرؤں گا۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.