بطور صحافی میرا ملک سراج اکبر سے قاری سے بڑھ کر ایک رشتہ ، قلم قبیلے کا بھی ہے اوروہ ان گنے چنے صحافیوں میں سے ہیں جن کی میں عزت کرتا ہوں ۔ انہوں نے حال ہی میں اپنا ایک اُردو بلاگ بھی بنایا ہے جس میں وہ اُردو میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں ، شاید اُنہیں بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ عام لوگوں تک رسائی کے لیے انگریزی کی بجائے اُردو مناسب میڈیم ہے اُنہوں نے حامد میر کی ایک تحریر پر بعنوان ’’ ہم سب بھگوڑے ہیں ‘‘ر دعمل دکھایاہے ۔ اُن کی اُردو تحریریں اور فیچر رپورٹس پہلے بھی میں نے پڑھے ہوئے ہیں،وہ کافی اچھا لکھتے ہیں۔ مگران کی یہ تحریر اتنی اچھی نہیں جتنا اچھا وہ
لکھتے ہیں ، ایک بے ربط تحریر ، انہوں نے الفاظ کو چن کر مرتب کرنے کی بجائے ، خیالات کو ڈھیر کردیا ہے جس سے ان کی تحریر سے ایک مجموعی تاثر نہیں ملتا ۔ اُن کو چاہئے تھا کہ وہ حامد میر پر ہی فوکس کرتے یا پھر بقول اُن کے اپنی ذات پر لکھی گئی تحریر کا جواب نہ دے کر اپنی قابل فخر خامی کو دور نہ کرتے یا پھر ایک ایسا جواب دیتے جس سے اُن کا صحافتی قد اُبھر کر سامنے آتا ، الزامات کا جواب جوابی الزامات سے دے کر انہوں نے ذاتی طور پر مجھے مایوس کیا ہے ، میں انہیں ایسا صحافی نہیں سمجھتا تھا جو گالی کا جواب گالی سے دینے پر یقین رکھتے ہوں ، پھر انہوں نے اسی تحریر میں قوم دوستوں کی تنقید کا بھی جواب دیا ہے، جس کے لیے انہیں علیحدہ تحریر لکھنی چاہئے تھی۔

ملک سرا ج اکبر نے میڈیا کے حوالے سے چند اہم باتیں بتائی ہیں۔ میں بھی گوادر پریس کلب کے سابق جنرل سیکریٹری ہونے کی بناء اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکار فیلڈ کے تمام صحافیوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ روزنامہ گراب میں اپنی صحافتی سرگرمیوں کے ابتدائی دنوں میں ایک نوجوان آئی ایس آئی اہلکار نے ہمارے دفتر آکر تعارف کے بعد بتایا کہ ’’ آپ ہمیں رپورٹ کریں اور ہم آپ کو ‘‘ مجھے جوائن کیے ہوئے ڈھائی دن بھی نہیں ہوئی تھے لیکن میں کہہ سکا کہ ’’ آپ جس کام کی تنخواہ لیتے ہیں وہ ہم سے کرانے کی بجائے خود کریں اور ہم صحافی جو رپورٹ تیار کرتے ہیں اس کو خود ہی اخبارات میں شائع کرتے ہیں اس کے لیے ہم سے آپ کو کسی خصوصی تعلق کی ضرورت نہیں ۔‘‘ اس کے بعد دومرتبہ گوادر پریس کلب کے کلیدی عہدے پر ہونے کے باوجود کسی نے رابطہ نہیں کیا ۔ا لبتہ میں روز مشاہدہ کرتا تھا کہ کون کون صحافی ان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطےمیں ہیں اوروہ کن کے دفاتر آکر تصاویر ، تقسیم کیے گئے پریس ریلیز اور نوٹس لے جاتے تھے ۔

مگر سیاسی کارکنان کی بجائے صحافتی تنظیموں کو ان کالی بھیڑوں پر نظر رکھنی چاہئے ، صحافت محض ایک پیشہ نہیں بلکہ صحافی اسے ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں اس لیے اس کام میں اپنی جان کی بازی تک لگادیتے ہیں ، کیا یہ صحافتی اُصولوں کے منافی عمل نہیں کہ صحافی اخبارات میں رپورٹنگ کی بجائے پہلے خفیہ اداروں کو رپورٹ کریں؟ملک سراج نے ایک صحافی کی حیثیت سے یہ گواہی بھی دی ہے کہ صحافت کے نام پر بیشتر صحافی مخبری کرتے ہیں لیکن جب بلوچ سرمچار انہیں تنبیہ کرتے ہیں تو واویلہ مچایا جاتا ہے کہ صحافیوں پر بلوچ سرمچار دباؤ ڈال رہے ہیں ، بد قستمی سے ان شور مچانے والوں میں ملک بھی شامل رہے ہیں ۔

انہوں نے بی ایس او اور بی این ایف کی اُوپن پالیٹکس کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اُن کے میڈیا کے استعمال کی کوششوں کو بھی نمائشی قرار دیا لیکن ایک کالم نگار کی حیثیت سے اُن کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ بی این ایف میں شامل جماعتیں سرفیس کی سیاست پر ہی یقین رکھتی ہیں ، اگر بی این ایف میں شامل جماعتوں کے کارکنان ہتھیار لے کر مظاہرہ کرتے تب تنقید مناسب ہوتی،  سیاسی جماعتوں کے پرا من احتجاج اور جلسہ جلوس پر پاکستانی ریاست کا تشدد پر اُتر آنا میری ناقص رائے میں قابض ریاست کی بربریت ہے نہ کہ بی این ایف کا قصور ۔

یہ بات بھی ایک بلوچ صحافی کو پتا ہونا چاہئے کہ بی این ایم نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت سرفیس کی خطرناک سیاست کا چناؤ کیا ہے ۔ ان کی لیڈرشپ کو اس سیاست کے منفی اور مثبت نتائج کا بخوبی اندازہ تھا ۔ مکمل اُوپن پالیٹکس بی این ایم کی سیاست کا ایک مرحلہ تھا جو کامیانی سے طے ہوچکا ہے ، اس لیے حکمت عملی بھی تبدیل کی گئی ہے لیکن ظاہر ہے سیاسی جماعت بہرحال میڈیا کے ذریعے اپنا موقف پیش کرتی ہے اور اسے اپنے اظہار کے لیے جلسہ جلوس اور مروجہ سیاسی طریقہ کار استعمال کرنی پڑتی ہیں ، اب ان کے نتیجے میں ریاستی تشدد ، قتل وغارت گری ایسے ردعمل نہیں کہ جن کے لیے ایک کالم نگار کی رہنمائی کی ضرورت ہو یہ نہ صرف متوقع ہیں بلکہ اس کے لیے جھدکار ذہنی طور پر تیار ہیں ، دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی سیاست ہی چھوڑ دیں ، جب وہ عوامی فلیٹ فارم پر اپنا موقف بیان نہیں کریں گے پھر ان کے لیے خطرہ بھی کوئی نہیں ہوگا ، لیکن یہ عام طریقہ ہے جن سیاسی کارکنان کے لیے واضح خطرہ موجود ہے وہ سرفیس پر نہیں آتے ۔اور دنیا کی تمام سیاسی جماعتیں یہی کرتی ہیں البتہ گوریلا تنظیموں سے متعلق اُن کی رائے کو میں قابل غور اور درست سمجھتا ہوں لیکن اسے سیاسی جماعتوں کو جنگی تنظیموں کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہئے تھا ، یہ بالکل ویسا ہی غلط رویہ ہے جیسا کہ ان کے ساتھ پاکستانی سفیر شیریں رحمن نے انہیں بی ایل اے کا کمانڈر قرار دے کر اختیار کیا ، بی این ایم ، بی ایس اواور بی آر پی پرامن سیاسی جماعتیں ہیں وہ بلوچ سرمچاروں کو اخلاقی سپورٹ تو کرتی ہیں لیکن ان کا موقف بھی واضح ہے کہ وہ ان کا حصہ نہیں جس طرح ا نہوں نے بلوچ بابا خیربخش کی بات کا حوالہ دیا کہ ’’ آپ خود کو بی ایل اے کا سربراہ نہیں مانتے ‘‘ یہی بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا بھی موقف ہے ۔اب آزادی کے حصول کے لیے جدجہد اور اس میں قربانیاں اگراُن کے خیال میں غلط حکمت عملی ہے تو اس پربات کرتے ہوئے انہیں بی این ایم اور دوسری جماعتوں کا موقف بھی سامنے رکھنا چاہئے ۔
سراج نے حامد میر پر تنقید کرتے ہوئے بات کافی پھیلادی ہے اور اپنے اُوپرقوم دوستوں کی تنقید کاساتھ ساتھ جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن میرے خیال میں وہ اصل تنقید کی وجہ نہیں سمجھ پارہئے ۔ اُن پر تنقید یہ نہیں کہ وہ کیوں صحافتی زبان استعمال کرتے ہیں بلکہ اصل تنقید یہ ہے کہ وہ بھی پاکستانی صحافیوں  کی طرح ہی سوچتے ہیں اور ملک کی جگہ حامد اور نجم شیٹھی معلوم ہوتے ہیں ۔ ویسے ارداری یا غیر ارداری طور پر انہوں نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ وہ خود کو ’’ پاکستانی ہی سمجھتے ہیں ‘‘ مثلا وہ لکھتے ہیں کہ ’’ ہمارے دہرے معیار کی وجہ سے بلوچستان آج آگ اور شعلہ کے زد میں ہے ‘‘یقین جانیں میں تو پڑھ کر چونک گیاکہ وہ عاصمہ جہانگیر، نصرت جاوید ، حامد میر ، جاوید چوہدری وغیرہم کی روشن فکری کو نشانہ بناتے ہوئے بھی خود کو انہی کا حصہ سمجھتے ہیں ، ہم تو آج تک یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک بلوچ پیشہ ور صحافی ہیں انہوں نے ہمیشہ سچ لکھا ہے اور بلوچستان کی درست ترجمانی کی ہے اس لیے آج وہ جلاوطن ہیں ۔ میری اُن سے گذارش ہے کہ اپنے اندر کی اس دور خی کی تشخیص کرلیں وہ بیک وقت ادھر اور اُدھر نہیں ہوسکتے ، جس طرح اُن کی بی این پی کے متعلق رائے ہے اسی طرح بلوچ قوم دوست جھدکار سمجھتے ہیں کہ وہ بھی پاکستانیوں کی طرح با ت کرتے ہیں ، اس تناظر میں دیکھا جائے تو حامد میر کی آواز اُن سے کہیں زیادہ بلند ہے ، اور حامد سے ہماری یہ توقع کہ وہ ہماری آزادی کی حمایت کریں گے پاگل پن ہی ہوگا لیکن جناب ملک سراج اکبر اگر بلوچ آزادی کی تحریک کو’’ حق خود ارادیت ‘‘ کی پیکنگ میں پیش کرئے تو ہم اسے غلط بیانی سمجھیں گے ۔

کیا قوم دوست حق بجانب نہیں کہ پوچھیں بلوچ تنظیموں کی طرف سے بمع مکمل کوائف پندہ ہزار لاپتہ بلوچ سیاسی قیدیوں کی فہرست پیش کرنے کے بعد انہوں نے یہ تعداد پانچ ہزارکیوں ظاہر کی ؟ 

 ملک لکھتے ہیں کہ ’’ جب میں آبادکاروں پرہونے والے حملوں پر تنقید کرتا ہوں تو یکدم بلوچ دشمن ہونے کے فتوے لگتے ہیں ‘‘، آپ ایک بہترین اور ایسے پیشہ ور صحافی ہیں جن کو عام بلوچ صحافیوں سے سوگنازیادہ سیکھنے کے مواقع ملے ہیں لیکن آپ نے اپنے کچھ رپورٹس میں غیرجانبدار صحافی اور سچا بننے کی کوشش میں سچائی کوہی مسخ کرکے پیش کیا ، آپ نہیں بلکہ خود قوم دوست جماعتوں کے کارکنان نے بھی بلوچستان میں مسافروں کے قتل کی مذمت کی ہے ، میں اور جناب میر محمد علی تالپور بھی اس پر لکھ چکے ہیں ۔ لیکن آپ نے اس پرحقائق جاننے کی بجائے تصدیق کی ہے کہ یہ کارروائیاں بلوچ آزادی پسند جماعتوں کی ہیں ، حالانکہ اس طرح کی کارروائیوں کی پیچھے ان علاقوں میں سرگرم انسانی اسمگلروں کا ہاتھ ہے جو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے اس طرح کی کارروائیاں کرتے ہیں ، بھتہ خوری اوردوسرے عناصربھی اس میں شامل ہیں ، اس طرح کی کارروائیوں کو معروف تنظیموں کی بجائے غیرمعروف تنظیمیں قبول کرتی ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جاسکے ،شکایت اتنی سے ہے کہ ہر واقعہ کوبلاتحقیق بلوچ سرمچاروں کے سر نہ تھوپا جائے ۔
 یہ بات بھی چونکا دینے والی ہے کہ وہ حامد میرکے بلوچ مسئلے کو پاکستانی میڈیا کے ذریعے ہائی لائٹ کرنے پر ناراض ہیں ۔ عجیب نہیں کہ اگر کوئی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرئے تو ہم اس کی نیت کا آپریشن کریں۔

ملک جان ! شاید بلوچ اتنے زیادہ گوریلا جنگ کو نہیں سمجھتے جتنا کتابوں میں لکھا ہے لیکن انہیں اتنی شدبدتو ضرور ہوگی کہ کسی پاکستانی صحافی کو اپنا راز دار نہیں بنائیں گے لیکن بلوچ اتنے پاگل بھی نہیں کہ کوئی اُن پر ہونے والے مظالم کے خلاف بولے اور کسی حد تک اُن کے موقف کو درست بیان کرئے ، حامد میر صاحب کی طرح بلوچستان کی جدوجہد کو جدوجہد آزادی تسلیم کرئے ، لاپتہ بلوچ سیاسی قیدیوں کی بات کرئے ، نیشنل پارٹی اور بی این پی کو پاکستان دوست قرار دے اور پاکستانیوں کو بتائے کہ ان کی بلوچستان میں حیثیت کیا ہے ؟ توجواب میں اسے پتھر ماریں اور گالیاں دے کر کہ کہیں بھئی آپ بلوچستا ن پر ہونے والے مظالم کا ذکر نہ کریں کیوں کہ آپ پاکستان سے محبت کرتے ہیں ، اس کے جوبھی مفادات ہوں ہمیں بہرحال اپنے مفادات ہی دیکھنے ہیں ۔ کیا یہ خام سوچ نہیں کہ اللہ نذر کو پاکستان کے لیے خطرہ حامد میر نے بنا کر پیش کیا ، بلکہ مشکے آپریشن بھی ان کے یہ کہنے سے ہوا کہ ’’اگر کوئی بلوچستان مسٗلے کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے سرداروں سے نہیں اللہ نذر سے بات کرنا چاہئے جو ایک عام بلوچ ہے ۔‘‘یہ دلیل میرے عقل سے ماورا ہے ۔

اور وہ  یہ بھی باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شہید کمبر چاکر میڈیا میں بات کرنے اور ذاکر مجید اُن کی بہن کے اس بیان کہ ’’ میں بلوچ ہوں پاکستانی نہیں ‘‘ پراغواء کیے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ سرچکرانے دینے والی دلیل ہے ۔
اور ان سے ایک پولیس آفیسر کی یہ بات بھی سچائی سے کوسوں دور ہے کہ بہت سے نوجوان اپنی فیس بک سرگرمیوں کی وجہ سے اغوا ء اور قتل کیے گئے ، میرے خیال میں امریکن پولیس نے اپنے طرف سے اندازہ لگایا ہے کہ بلوچ سیاسی کارکن گھامڑ ہیں ، فیس بک اور سوشل میڈیا کے خطرناک پہلووں سے ناواقف اور درست استعمال سے نابلد ہیں اس لیے وہ پاکستانی اداروں کا بآسانی شکار بنتے ہیں ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ، بلوچستان میں اس طرح کی سرگرمیوں کی بنیاد پر اگر قتل کرنے کی پالیسی ہوتی تو موبائل ایس ایم ایس نیٹورکس چلانے والے نسبتاً آسان ترین نشانہ ہیں ۔ یہ بھی ہوائی گفتگو لگتی ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو ایسا کوئی ایک آدھ ہی ہوگا جس کی انٹرنیٹ سرگرمیوں کی بنیاد پر اسے نشانہ بنایا گیا ہو ، کیوں کہ اغواء اور قتل کیے جانے والے بیشتر افراد بلوچستان کی جدوجہد آزادی سے عملاً وابستہ رہے ہیں ۔

ان سے یہ بھی گلہ ہے کہ انہوں نے کیچ کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی کو اپنے نیوزبلاگ ، بلوچ ھال میں کورریج نہیں دی ۔ کیا یہ پاکستانی میڈیا والا رویہ نہیں ؟کیا اتنی بڑی ریلی کو جس کے لمحہ لمحہ کی خبریں اور تصاویر فیس بک پر شائع ہورہی تھیں رپورٹ کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا ؟
مجموعی طور پر تحریر اچھی نہ ہونے کے باوجود اس میں پیش کی گئیں کئی رائے قابل غور اور دانشمندانہ ہیں ، جس طرح اُنہوں نے اپنی تحریر ’’ ڈاکٹر اللہ نذر کا مستقبل ‘‘ میں غور طلب بات کی ہے ، اس لیے ہم نے اس وقت بھی نہ صرف اسے سراہا بلکہ کوشش کی یہ بات متعلقہ لوگوں تک بھی پہنچائی جائے ۔

ملک سراج اکبرایک اچھے بلوچ صحافی ہیں ہمارے اُن سے ایسے توقعات ہرگز نہیں جس طرح دوسرے عام صحافیوں سے ہیں وہ بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بننے کا چکر چھوڑ دیں ، حقائق کو یا بلاتبصرہ شائع کریں یا مکمل تحقیق اور دو طرفہ موقف کو پیش کرکے اپنی صحافتی ذمہ داری نبھائیں ، اچحا صحافی اور اچھے سیاستدان بیوروکریٹک لینگوئج استعمال نہیں کرتے ۔

ملک جان! دراصل آپ اسی صحافتی ماحول میں پلے بڑھے ہیں جہاں ٹھیکہ داراور منشی صحافی ہیں جن کے ڈور آئی ایس پی آر ہلاتا ہے ، آپ کو اشتہاراور اسٹیٹس کے پیچھے بھاگنے والے صحافیوں جیسا روش چھوڑنا ہوگا ۔ آپ ایسا تب کرتے جب آپ وطن میں ہوکر کسی پاکستانی ادارے سے وابستہ ہوتے ، لیکن بیرون وطن رہ کر آپ کا حقائق کو پاکستانی صحافیانہ فلٹر سے چھاننے کی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔
Labels:
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.