توجہ :یہ مضمون بلوچی زبان میں وب بلاگwww.bamhalblog.blogspot.comمیں شائع ہوا ہے ۔اُردو ترجمہ اُن قارئین کے لیے ہے جو بلوچی پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے ، پڑھ نہیں سکتے یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتے ۔بلوچی پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اسے بلوچی میں پڑھ کر شکریہ کاموقع دیں ۔
 ___________________________

امریکن ایوان نمائندگان کے ممبر لووس گھمرٹ نے
امریکن صدر اوباما کے ساتھ مسئلہ افغانستان پر سوال جواب کے سیشن میں خطے میں آزاد بلوچستان کی اہمیت پر زور دیااورواشگاف الفاظ میں کہا  ” افغانستان مسئلے کے حل،جنگ کے خاتمے اور امریکہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے لازمی ہے کہ آزاد بلوچستان قائم ہو ۔“ انہوںنے آزاد بلوچستان کو خطے میں انتہاپسندی اور ڈرگ اسمنگلنگ کی روک تھام کے لیے ضروری قراد دیا ۔ لووس گھمرٹ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگ پاکستانیوں کی نسبت عالمی مفادات وامن کے خواہاں ہیں ۔گھمرٹ یہ بھی جانتا ہے کہ بلوچ دنیا پر قبضہ کرنے کی انتہا پسندانہ سوچ کے حامل نہیں ۔

اس خبر پر میں نے ایک دوست کے ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ذمہ داری ہمارے قیادت کے کندھوں پر ہے انہیں اس حمایت میں اضافہ اور بلوچ مفادات سے ھم آھنگ کرنے کے لیے کوشش تیزتر کرنی ہوگی ۔ 

اُن کا خیال تھا بلوچوں میں ایسے رہنما نہیں جو یہ کام کرسکیں لیکن میں نے اُن سے اختلاف کے ساتھ کہا ” بجا کہ بلوچ راہنما کتابی معیار پر پورا نہیں اُترتے لیکن اُن کے عمل سے ظاہر ہے بلوچ تحریک قیادت کے بغیر نہیں ۔“ میں نے نام گنواتے ہوئے کہا کہ ” یہ بلوچ کے رہنما ہیں یہ سردار اور نواب بھی نہیں بلکیں اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو متوسط اور پسماندہ کہلاتا ہے ۔یہ اُس گروہ سے ہیں جو ھرزمانے میں بلوچ تحریک سے وابستہ رہے ہیں انہوں نے کبھی کتابی معیار پر پورا اُترنے والے رہنماوں کے ساتھ بھی کام کیا ہےجو آجانہیں سیاستدان اور رہنما ماننے سے انکاری ہیںلیکن ادراک یہی کہتا ہے کہ بلوچ تحریک یہاں تک بغیر قیادت کے نہیں پہنچی ۔ایسے رہنماہیں جو یہ بھاری بوجھ کندھے پہ اُٹھائے آگے بڑھ رہے ہیں ہم جیسے طفلان مکتب سے زیادہ اپنی قومی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہئے ۔

دو ہی دن بعد یہ خبر آئی کہ ” امریکہ میں خارجہ تعلقات سے متعلق دفتر کی طرف سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق عوامی سماعت کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں پاکستان کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراداپنی گواہیاں پیش کریں گے۔“ اس خبر کے آتے ہی طویل عرصے بعد میڈیا بلوچستان مسئلے پر متوجہ ہوئی ۔
اس میں اُن چند لکھنے والوں کا بھی کردار ہے جو بلوچستان مسئلے پر مسلسل لکھ رہے ہیںاورترقی پذیرجدید میڈیا یعنی بلاگ اور سوشل نیٹ ورکس کی مدد سے اپنے حالات دنیا تک پہنچانے کے لیے دن رات مصروف ہیں لیکن اصل کردار اُن جھدکاروں کا ہے جو بلوچستان کو تاریک راستوں سے نکال کر آزادی کے راستے پر لے آئے، اُن کا جنہوں نے لکھنے والوں کو جھنجوڑا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو محسوس کریں۔ یہ کارنامہ اُن مسخ شدہ بلوچ فرزندوں کی لاشوں نے کردکھایا جو بے دردی سے قتل کرکے راستوں پر پھینکے جارہے ہیںاور جو پاکستان کے نزدیک بلوچ تحریک کو دبانے اور ختم کرنے کا واحد موثر طریقہ ہے ۔جنہوں نے ہر مجلس میں کہا تھا کہ ” مٹھی بھر بلوچ ایسا کچھ نہیں کرسکیں گے جو بنگالیوں نے کیا تھاان تھوڑے سے بلوچوں کو اگر پنجابی ایک ایک پتھر بھی ماریں تودب کر بے نام ونشان ہوجائیں گے ۔“

لیکن بلوچ نے اس چیلنج کو قبول کرکےپنجابی کو اپنے حسد اور غصے کے آگ میں اس طرح جلا دیا کہ اب اسے اپنے بَھلے برے کی تمیز بھی نہیں رہی ۔پاکستان کے مقتدرپنجابیوں نے دنیا کے سامنے اس بات کی گرہ پکڑ رکھی ہے کہ ”بلوچ بھی پنجابیوں کو مار بھگا رہے ہیں اس لیے اُن کا قتل جائز ہے ۔“گزشستہ سال انہوںنے اپنے خرچے پرکچھ صحافیوں کو بلوچستان کا دورہ کراکے باور کرانے کی کوشش کی کہ :” ہم بلوچ تحریک کو دبانے میں کامیاب ہوئے ہیںقتل و غارت گری کا جو کام ہم کررہے ہیں انسانی حقو ق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ قاتلوں کے قتل کا جائز، انسانی اور اسلامی اُصولوں سے مطابقت رکھنے والا قدم ہے ۔“صحافیوں نے بھی اپنی روٹی حلال کرنے کے لیے اسی یکطرفہ اور ایک آنکھ سے دیکھے گئے حالات کو اپنے رپورٹس میں شائع کیا ۔ان صحافیوں میں ایک بی بی سی اُردو کے ہارون رشید تھے ۔بعد میں اُس کی جانبداری پر تنقید بھی کی گئی اور بی بی سی کو اس سلسلے میں وضاحت کرنی پڑی کہ بلوچستان کے اصل حقائق اُن تک نہیں پہنچ پارہے ۔پاکستانی مقتدرہ نے دنیا کے سامنے بلوچوں کو اغوا ءکے بعد قتل کرنے کی بات اس لیے بے شرمی سے تسلیم کی کہ اسے دنیا کے بادشاہ ”ا مریکہ “ کی پشت پناہی حاصل تھی ۔امریکہ میں ہونے والی سماعت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ” بلوچستان میں استعمال ہونے والے اسلح امریکہ میں بنتے ہیں ۔“ علی حسن دایان نے زیادہ سچی بات یہ کہی کہ ” دہشت گردی کی روک تھام کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوںنے لوگوں کو ماورائے آئین وعدالت اُٹھا کر غائب کرنے اور امریکہ کی تحویل میں دینے کا جولائسن دے رکھاہے پاکستان اس کا بلوچستان میں بے دریغ استعمال کررہاہے ۔“یہ بات امریکہ میں ا نسانیت دوست حلقے کافی عرصے سے کرہے ہیں لیکن پاکستان نے امریکہ کے ساتھ سودا کیا ہوا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کو بلوچستان میں بلوچ نسل کشی پر کچھ نہ کہے تو پاکستان امریکہ کی طرف سے ہونے والے ڈرون حملوں کوبرداشت کرئے گا ( توجہ : بلوچستان میں پاکستان فوج کی اُٹھا ﺅ ، مارو اور پھنیک دو ” آپریشن سائلنس“ اور امریکن ڈرون حملے ایک ہی وقت میں شروع ہوئے تھے ) بلکہ بلوچ کشی کی اجازت لینے کے لیے ”شمشی ائربیس “ بھی اُن کے حوالے کی تھی تاکہ اُنہیں اپنے بغیر پائلٹ ڈرونز اُڑانے میں  آسانی ہو۔

بلوچوںنے بھی ادراک کیا کہ امریکہ ہی وہی طاقت ہے جس نے پاکستان کو بلوچوں کے قتل کے لیے بے لگام چھوڑ رکھا ہے لیکن بلوچ اپنے گزشتہ تجربات کی روشنی میں اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ دنیابغیر مفاد کے کسے کا ساتھ نہیں دیتی ۔اسی طرح امریکہ سے آس لگانا کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لیے بلوچوں کو بغیر کسی لالچ کی مدد کرئے گا طفلانہ خواہش ہے ۔ اس سلسلے میں بلوچ دانشور جناب ملک طوقی نے آج سے آٹھ سال پہلے اسی جگہ جہاں بلوچستان سے متعلق عوامی سماعت ہوئی تھی امریکن رہنماوں سے ایک ایسی بات کہی تھی کہ اس سے پہلے دنیاکے کسی غلا م قوم کو اس طرح کا خیال پالنے کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ دنیا کی مدد کے بغیر بھی ” آزد “ ہوسکتی ہے ۔ لیکن یہ بات دنیا سے الگ تھلگ ہونے کے لیے نہیں بلکہ یہ یقین دلانے کے لیے تھی کہ بلوچوں کی قوت برداشت اور صلاحیتیں پنجابیوں سے زیادہ ہیں جو اپنی بقاکے لیے دنیا کا محتاج ہے لیکن بلوچ ( ملک طوقی ) نے امریکن سے کہا ” ہم اپنی آزادی لینے جارہے ہیں اگر آپ ہماری مددکرتے ہیں ، تھینک یو ویری مچ ۔ اگر نہیں تب بھی ہم اپنی آزادی ضرور لے کر رہیں گے ۔“ یہ روس سے آس لگانے والے پرانے اورزائد المعیاد خیالاات رکھنے والے ”قوم دوستوں “ کے خیال سے مختلف تھا ۔اسی خیال کی بنیاد پرجدید بلوچ تحریک نے سر اُٹھا یا ”ہم اپنی جنگ اپنے زور بازوسے لڑتے رہیں کوئی مدد کرئے تو خوش آئند اگر کوئی توجہ نہ بھی دے ہم لڑتے رہیں گے کیوں کہ یہ لڑائی عالمی ایجنڈے اور خواہش پر نہیں بلکہ بلوچ مفادات کے تحفظ کے لیے شروع کی گئی ہے او ر اس کاممقصد بلوچ قومی حیثیت کی بحالی اور بقا ہے ناں کہ عالمی طاقتوں کی ضروریات کی تکمیل ۔“

امریکہ میں ہونے والی سماعت بلوچ رہنما وں کے جہد تسلسل کا ثمر تھا ۔ اس سماعت سے بلوچستان کا مسئلہ نہ صرف عالمی سطح پر اُبھرنے والے مسائل میں شامل ہواہے بلکہ بلوچوں کے لیے رہنما اور ترغیب ہے کہ اگر زیادہ بہتر ، منظم ، توجہ اور طاقت کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائیں توزیادہ بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں ۔اس کام کے لیے بلوچوں کو امریکن سیاستدانوں کی نفسیات سمجھنے ہوگی ۔ امریکن وہی کام کرتے ہیں جو ان کے مفادات سے ہم آہنگ ہو۔ بلوچ ابتدا سے یہی کہتا آرہاہے کہ پاکستان دنیا بھر کے دہشت گردوں کا قلعہ ہے اگر دنیا دہشت گردی سے چھٹکارہ چاہتی ہے تو پھربلوچستان کو اس کے پنجے سے نکلنے کے لیے مدد کرئے مگر آج تلک امریکن مقتدرہ یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ دہشت گردی کی روک تھام نہیں کرسکتا ۔ان کے دل میں کہیں یہ ڈر بھی ہوگاکہ پاکستان کے کمزور ہونے سے دہشت گرد زیادہ مضبوط اور دنیا کے لیے مزید مسئلہ بنیں گے ۔“صاف ظاہر ہے کہ امریکہکی یہ خام خیالی ہے ،وہ پاکستان کی تاریخ اور عوام کے سیاسی رجحانات سے آگاہ نہیں۔ اس کے کئی اسباب میں سے ایک امریکن کاپروپیگنڈہ سے متاثرہ ہوناہے ۔طویل عرصے تک امریکنز نے پاکستان کے ساتھ کام کیا ہے ان کی قربت بلوچوں کی نسبت پنجابیوں سے زیادہ رہی ہے یقینا وہ زمانہ بھی اُنہیں نہیں بھولا جب بلوچ ” رشین بلاک “ اور پنجابی ” امریکن بلاک “ میں تھے ۔ نئے دور کا تقاضا ہے کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لائے ، اپنے لیے نئے دوست تلاش کرئے ۔بلوچ امریکہ کے نئے دوستوں کے صف میں اسی وقت شامل ہوسکتا ہے جب وہ اپنے لیے امریکہ میں زیادہ حمایتی تلاش کرسکے اور امریکن سیاستدانوں کے ساتھ رابطے رکھنے کے ساتھ ساتھ امریکن میڈیاتک رسائی حاصل کرنے کا بھی راستہ ڈھونڈے ۔جیسا کہ بلوچ رہنماوں کی کوشش رہی ہے امریکہ یا دنیامیں بلوچ مسئلہ بغیر کسی لگی لپٹی کے صاف طور پر اُجاگرہو اس میں کوئی پیچیدگی نہ ہو تاکہ دنیا کے لوگ بآسانی سمجھ سکیں کہ بلوچ کیا چاہتا ہے ۔وہ بلوچ دانشور جو بلوچ جھدکاروں سے بعض جگہ اختلاف رائے رکھتے ہیں اپنے گلے شکوے عالمی سطح پر ظاہر کرنے کی بجائے اپنےمجالس میں بات کریں ۔اور اپنے دوستوں کی غلطیوں کی اپنی نشستوں میں نشاندہی کریں ناں کہ اس کے لیے سوشل نیٹورکس اور انگریزی زبان میں مضامین شائع کریں ۔

امریکہ میں ہونے والی سماعت میں بلوچ تحریک کے لیے کچھ ناخوشگواہ باتیں بھی سامنی آئیں ۔سماعت میں کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ ” جس طرح پاکستانی فوج انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے اسی طرح بلوچ بھی آبادکاروں کو قتل کررہے ہیں ۔“ اور یہ بھی کہ ” بلوچ اپنی آزادی کے حصول کے لیے اُٹھائی گئی بندوق پھینک دیں ۔“

اس میں یقینا بلوچوں کی طرف سے کوتائی ہوئی ہے کہ امریکہ میں ہوئی سماعت میں ہیومین رائٹس کمیشن پاکستان کے نمائندے علی دایان کے اس جھوٹ کو پکڑنے کے لیے کوئی موجود نہ تھا ۔بلوچوں کواب زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے لیے حمایت حاصل کرنے میں کافی گھاگ ہے اور یہ بات ہرکوئی جانتا ہے امریکہ میں اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان جیسے ممالک کافی سرمایہ کاری کرتے ہیں اس لیے امریکہ اور یورپ میں پاکستان پر گرفت کڑی کرنے کے لیے پیش کیے گئے بہت سے بل نامنطور ہوئے ہیں ، اس کابڑا سبب پاکستان کی لابنگ تھی ۔بلوچ نے جس طرح پاکستان کو بلوچ گلزمین میں ٹپ ٹائم دے رکھاہے اسی طرح عالمی سطح پر سفارتکاری کے میدان میںپاکستان مشکلات سے دوچار کرنا ہے ۔ اب یہ امتحان ہے باہر بیٹھے بلوچوں کے لیے اور یہ کام وہی بہتر کرسکیں گے جو کم سوتے زیادہ جاگتے ہیں ۔
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.