جگت ماموں امریکہ کے توجہ دلاﺅ نوٹس پر کرہ ارض پر خود کو پاکستانی کہلانے والے بہ زعم خود خاصان خدا کو یکایک یہ احساس جاگزین ہوا کہ اس نقشے میں جو گلوب پر پاکستان دکھایا جارہاہے بلوچستان نامی زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی شامل ہے ۔ان کے لیے بریکنگ نیوز یہ تھی کہ اس زمین پر کوئی بلوچ نامی جاندار بھی پایاجاتا ہے۔انہیں شاید پہلی دفعہ یہ اطلاع ملی کہ کل( ایک قسم کی گھاس ) کی بنی جھونپڑیوں میں رہنے والے یہ جاندار اچانک ناراض ہوکر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں ۔جو اکا دکا رہ گئے ہیں انہیں وطن کے نظریاتی محافظ جب من کرئے اُٹھا لے جاتے ہیں۔
جب ان کے جسم پر خنجر و شمشیرزنی کے جوھر سہنے کی مزید گنجائش نہیں رہتی تو اُنہیں زیر تربیت جوانوں کے حوالے کرتے ہیں جوان پر نشانہ بازی کی مشق کرتے ہیں۔
خبر گرم ہے کہ ”یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے “اس مشق مسلسل سے پکے نشانچی بن چکے ہیں ۔ اتنے پکے کہ جسم کی کسی بھی جگہ پر سوراخ کھول سکتے ہیں ۔ آنکھ پھوڑنے یا پیشانی کے درمیان سے گولی آرپار کرنے میں شاید ہی ان کا نشانہ چھوٹ جائے۔ لہو گرم رکھنے کا بہانا ڈھونڈنے والے پرواز قفس کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور بے دم جسم کو بھی چھلنی چھلنی کیے بغیر دم نہیں لیتے ۔ یہ ان کاحد درجہ محتاط رویہ ہے ،کیا خبر بلوچ نامی سخت جان جاندار جو مورخین کے دعوﺅں کے مطابق پچھلے پانچ ھزار سال سے زمین پر فساد وفتنہ مچا رہاہے ،جس کی سزا میں انسان اسے بے دریغ قتل کر رہے ہیں لیکن یہ ہے کہ نہ ختم ہونے کا نام لیتا ہے نہ ہی اس کی شر انگیزی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کے محافظین اس کے قلع قمع کے عالمی ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہیں۔ آج سے کم و بیش سترہ سولہ سو سال پہلے ” انوشیروان عادل “ نامی ایران زمین کے ساسانی بادشاہ نے بھی اپنے زمانے میں لاکھوں بلوچوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد ببانگ دہل اعلان کیا تھا ” بلوچے نماند آشکار ونہاں “ ۔( ایک بلوچ بھی نہ رہا ظاہر نہ پوشیدہ ۔ شاہنامہ فردوسی ) شاید ان کے اسی نیک کارکردگی کے اعتراف میں مورخین اُنہیں انوشیروان عادل کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ یہ انداز ہ اس لیے بھی غلط نہیں ہوسکتا کہ ہمارے ہی زمانے میں اندھے ڈرون حملوں کی اجازت دینے والے امریکی صدر اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے ۔ ویسے یہاں بھی کفار نے حق تلفی کی ہے کیوں کہ اس کا اصل حقدار مجاہد فوج کے سابق سپہ سالار پرویز مشرف ہیں جنہوں نے اسے اس کار خیر کے لیے شمشی ائربیس میں جگہ دی ۔ ماموں کی فرمائش پرمجاہد فوج کوحکم دیا کہ وہ غازی عبدالرشید کی لال مسجد کوخون سے نہلادیں۔ یہ کانا پھوسی کی بات ہے کہ غازی عبدالرشید کی قربانی محض اس لیے جائز اور عین شرعی قرار پائی تھی کہ موصوف نسلاً بلوچ تھے ، ایک بھائی بچاکر رکھاہے تاکہ ہندالطلب پیش کیا جائے اور بوقت ضرورت کام دے۔ اگر پاکستانیوں کوغازیوں اور مجاہدین سے کوئی پرخاش ہوتی تواُن کو دفاع پاکستان کونسل میں کیوں کر بھرتی کرتے؟۔ بلکہ یہ ایک قربانی تھی اسی بلوچ غازی کے خون سے پاکستان کو چند دن مزید آئی سی یو میں زندہ رکھنا ممکن ہوا ۔ بے وقوف امریکیوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے لٹھ بردار خواتین بریگیڈ میں اتنا دم خم کہاں سے آیا کہ وہ اسلام آباد کے مست ورنگین فضا ءمیں ڈاٹے باند ھ کر مارچ کریں ؟ پاکستانی اگر یونہی اپنے عقل سلیم پر بھروسہ کرتے رہئیں تو ابکے بھی جگت ماموں کو ماموں بنا سکتے ہیں ۔بلوچ مسئلہ اتنا ٹیڑھا بھی تو نہیں کہ اسے اندھے کی کھیر بنایا جائے ۔
یہ قومی سانحہ غالبا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مفتیان پاکستان میں اس مسئلے پراختلاف پایا جاتاہے ۔ مفتی حضرات دو واضح دھڑوں میں ہیں ایک دھڑا اب بھی بلوچ نامی جاندار کو خاصان خدا کا دشمن خاص سمجھ کر اُس کا شکار حلال قرار دے رہاہے جب کہ دوسرا دھڑا یہ سمجھتا ہے کہ نئی تحقیق کے مطابق  اسے فالتو بنا کررکھا جاسکتا ہے۔ اس لیے اس کو مار بھگانے کی بجائے پال کر رکھا جائے تاکہ اس کے گوشت کے ساتھ ساتھ طریقے سے نکالی گئی کھال بھی پاکستان کے روشن مستقبل کے کام آسکے۔( جس طرح غازی بلوچ اور شیخ خالد بلوچ کو پالنے کا فائدہ ہوا) اس دوسرے دھڑے کو یہ بھی ڈر ہے کہ اگراس جاندار کے شور شرابے سے متوجہ ہونے والے ہمسائے اور جگت ماموں کو یہ خبر ہوگئی کہ بلوچ نامی جاندار انسانی خصلت کا حامل ہے اور انہوں نے اسے ہم خاصان خدا کی طرح انسان سمجھنا شروع کردیا تو پھر لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کون نہیں جانتا کہ پردے میں امریکہ ہمارا دشمن پس پردہ یار غار قسم کا دوست ہے۔ اب اس راز کو چھپانے سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ ہم پاکستانی شروع ہی سے اسی تصور کے سہارے جی رہے ہیں کہ بات پکی وہی ہے جو کسے خاصان خدا کے منہ سے نکلے نہ اُن کے جن کو نظام قدرت کے بقا کے لیے امیر غریب اور آقا غلام کے سانچوں میں ہی رکھنا ضروری ہے۔
اس لیے اس جھوٹ کو سب ”پاکستانی سرشت “قبول کرلیں گے کہ امریکہ ، ہند اور یورپ لشکر کفار اور دشمن اسلام ہیں ان سے ہاتھ ملانا اور دوستی گھانٹنا خلاف شرع ہے۔مولانا عبدا لکلام ”کومسلمانان پاک“ زمانہ ہوا کہ فراموش کرچکے ہیں اور نہ ہی جمیعت علماءہند کے بطن سے جنم لینے والی جمعیت علماءاسلام کی یاداشت میں اکابرین دیوبند کی نصیت اور وصیت باقی ہیں۔ یہ بھی سب بھول جائیں گے کہ کل ہم ہی نے ڈیانا روبارکراکو اہل کتاب کا درجہ دے رکھاتھا۔ وہ ہمارے ہی دوش بدوش بنام مجاہدین افغانستان میں لڑے ہیں۔جن کوشہید شیخ اُسامہ بن لادن کی ملاقات کا شرف بھی حاصل ہے۔ نظریہ پاکستان تو اپنے اسے ہی لچکیلے پن کے سبب کامیاب ہے کہ ہم جب چاہئیں سفید کو کالا تیتر کو بٹیر بنا سکتے ہیں۔جس طرح امریکہ کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور ہم نے اسے اہل کتاب سے آل کفر بنا دیا۔ کیا ہوا کہ ہم نے کشمیریوں کی کشتی بیچ بھنور میں ڈبودی اور ہندوستان کو پسندکرنے لگے ہیں ۔جب چین کے دم پر پاوں پڑے گی تو ہم بھی دم ہلاتے ہوئے ان کے پیچھے چپ جائیں گے۔ روسی بھی اب سیکھ چکے ہیں کہ ماضی کے دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بننے میں دیر نہیں لگتی۔
 ایران بھی کانوں میں روئی ٹھونس لے گااور دفاع پاکستان کونسل کے مجاہدین بھی ہونٹ سی لیں گے۔ ہاتھوں پر لگی سیاہی دھونے میں کتنی دیر لگے گی!۔ اب تو کراچی کے بسوں میں بھی ایسی کوئی پرانی سیٹ نہیں رہی جس پر کافر کافر لکھا ہو۔ اب نئے نعر ے ہیں خان بھائیوں کا مہاجر بھائی سے تگڑا مقابلہ چل رہاہے سب انہیں دیکھنے میں مگن ہیں ۔ ہمارے پاکستان کے ہونہار نظریاتی محافظین نے خان پروڈکٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب اسے پنڈی منڈی سے قومی سطح پر متعارف کرنے کا بھی نیک ارادہ باندھا ہے۔ جب نثر نگاری کے امام مانے جانے والے گھاگ قسم کے لکھاری مدح سرا ہوں توبہتر یہی کہ توپچیوں کو پیچھے کرکے ایسے تگڑے پہلوان آگے کرلیے جائیں جو مدمقابل کو دبے پاوں دبوچ لیں اور گردن ایسا مروڑدیں کہ چی بھی نہ نکلے۔
اب اس بے تکے سوال کواسی مضمون میں ہی گول رہنے دیں کہ اس میں بلوچ کے مستقبل کا ذکر کہاں ہوا ؟بھلا کھونٹے پہ بندھے بکرے سے کب پوچھا جاتا ہے کہ اُ سے بقرعید کے پہلے روز ذبح کیا جائے یا دوسرے۔

 ٭٭٭
0 Responses

Post a Comment

Powered by Blogger.