اشاریے :زامر : بلوچستان کے پہاڑوں میں پائی جانے والی ایک گھاس جسے ہرن شوق سے چرتے ہیں۔اللہ لیڑک:ساحلی کیڑا جو بلوچستان کے ساحل میں موسم گرما میںپایا جاتاہے ۔ہڈپروش: ایک قدیم سماجی رسم جس کے تحت باہر آئے سے ہوئے گروہ یا فرد کو بلوچ قوانین کی پاسداری اور انہیںکے مطابق رہنے کے شرط پر کسی بلوچ قبیلے میں شامل کیا جاتاہے ۔ ھڈپروش کے لغوی معنی ” ہڈی توڑ “ کے ہیں یعنی وہ جس کی ہڈی توڑی گئی ہو۔
آسمان کو جماکر زمین پر پھینک دیں کہ اب میرے لیے کچھ بھی باقی نہ رہا ۔ قبل ازیں شب وروز میں کوئی فرق نہ تھا۔بجلی وقت پر کڑکتے بارشیں موسمی بادلوں سے برسا کرتی تھیں ، موت کا لگام فطرت کے ہاتھوں سے نہیں پھسلاتھا اس لیے میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز نہ تھا۔نہ ہی میں ایسے کرب میں مبتلا تھا کہ سانپ کی طرح زمین پرلوٹوں ۔اب میں مارے جلن کے ماہی بے آب سا ہوں ۔ نہ مجھے زمین میں قرار نہ آسمان میں آرام ۔ میری بے کلی اورشکن جبینی دیکھئے اور میرے لیے کوئی نسخہ کیمیاءبنانے کا آغاز کریں۔ نہیں تو میں فطرت کے رستے چل پڑوں گا پھر تمہارے لیے بھی کچھ باقی نہ رہے گا__________________ہاں ، بجا فرمایا ہے زمان شناسوں نے کہ اعلی نسب کتے کی دم سے بھی زیادہ حساس ہیں،کتے کی دم اُکڑوںپن اور یہ اپنی اکڑ پن کٹ مرنے پر بھی نہیں چھوڑتے ۔یکساں احساسات کے مالک ، بات کا ڈھنگ یکساں ۔سچ طشت ازبام ہے آج کے اعلی نسب بھی اپنے پیشرو کی نقل کررہے ہیں _________مگر ہماری طبیعت کی مستقل مزاجی کو کیا کہیں گے جو اُکسائے جارہاہے _____خواب دیکھنا چاہئے ۔خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب دیکھنا چاہئے ۔“قلندر نے تنبور کے تار کو چھیڑا تواُس نے جواب دیا ۔قلندر نے اپنا سر اُس کے تاروں پر رکھ دیا اور دھمی آواز میں کہتا رہا” خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب _____________“
میں نے بصد احترام اس کے قریب جاکر دریافت کیا :”واجہ ( محترم ) آپ ابھی ” چُنچان خواب“سے بیدار ہوئے ہیںکیا پھر ہمیں اپنی گوھر افشانی سے محروم رکھنے کا ارادہ ہے جو خاموشی کا چادر اُورھنا چاہتے ہیں ؟“
” چنچان خواب ، واہ! کیا خوب ترکیب بنائی ہے ۔ لیکن یہ مجلس چنچان کو نہیں جانتاجو چھ مہینے سوتا اور چھ مہینے جاگتاتھا ۔کاش ! مجھے اپنے خواب پر اتنا قابو ہوتاتو میں اپنی زندگی خواب ہی میں بسر کرتااور بغیر کسے احساس زیست اور فکر حیات کے لاد چلتا ، کیوں کہ احساس خوشی کے ساتھ رنج والم بھی دیتا ہے۔ ہماری پوری زندگی رنج والم کے دور میں گزررہی ہے اس لیے مجھ جیسا کمزورآدمی مدہوشیکے بغیر کوئی دوسرا رستہ نہیں چن سکتا ۔ آہ ! کہ مجھ میں چنچان سی ہمت و طاقت نہیں اور نہ ہی ادراک کہ میرے بقاہمی ہوش وحواس رہنے میں قصور میرے سخت جان خرد کا ہے یا خردساز کا ؟“
”لیکن خواب دیکھنے کے لیے تو سونا پڑتا ہے ؟“
” سوتی آنکھوں کے خواب اتنے شفاف نہیں جتنے جاگتی آنکھوں کے ۔سوتی آنکھیں گئے دنوں کی بات اور کہانیاں خواب میں دیکھتی ہیں ۔ جاگتی آنکھوں کے خوابوں میں بنے نقشوں کی بدولت آنے والی نسل کے بلند حوصلہ سپوت پیدا ہونے والے مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے قبل ازوقت جتنکرکے ان کو آسانیوں میں بدل دیتے ہیں ۔ جاگتی آنکھوں کے خوابوں میں کھینچے گئے نقشے رنگین اور سوتی آنکھوں کے خواب اس لمحے بھی بے رنگ اور بے معنی ہوتے ۔ مجھے کسی نادان نے ترکیب سجھائی کہ سوتی آنکھوں کے خوابوں کو شفاف دیکھنے کا بھی ایک نسخہ ہے کہ جب بھی خواب دیکھو خود کو یہ یقین دلاﺅ کہ میں خواب دیکھ رہاہوں اگر تم کامیاب ہوئے تو پھر تمہارے خوابوں کی دھندلاہٹ آئستہ آئستہ چھٹ جائے گی اور خواب شفاف و رنگین ہوں گے ۔کون نہیں جانتا کہ میں خوابوں کی تعبیر کے لیے قلندر بنا پھر رہاہوں۔ میں خوابوں کا طلبگار ہوں اور لوگ مجھ پر الزام دھرتے ہیں کہ میں خواب بیجتا ہوں ۔ میری کوششوں کا حاصل یہ نکلا کہ میرے خواب دھند سے نکلے مگراب ان خوابوں کا کیا کروں کہ سوتی آنکھوںکے خواب دھندمیں ہی اچھے ہیں ۔اگر رنگین اور شفاف ہوں تو زیادہ پریشان اور بوجھل کردیتے ہیں ۔میں نے سوتی آنکھوں میں دیکھا کہ میںکھڑاہوں میں نے خود سے کہا کہ فریب میں نہ آنا کہ یہ حقیت نہیں خواب ہے بس اتنے ہی میں میرا سایہ دھند سے نکل کر میر اہمشکل بن گیا ۔ میں نے اپنے ناک نقش سنوارے البتہ خود کوتھوڑا سا گورااور جوان بنا یا۔اس کے بعدمیں نے دیکھا کیا کہ میں اپنے خواب میں ایک ہی جگہ بت بنا کھڑا ہوں ۔ میں نے چاہا کہ ہاتھ اُوپر اُٹھاﺅں ایسا ہی ہوا ۔ میں ایک مدت تک انہی خوابوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ایسے جیسے کوئی اپنے سایے کو پکڑنے کی کوشش کرئے یا کوئی دن بھر ہوا میں مکے مارے ۔میں تھک گیا، پھولتی سانس کے ساتھ اپنے تھیلے میں سوتی آنکھوں کے لیے رکھے گئے سارے خواب نکال کر پھینک دیئے اب میرے پاس جاگتی آنکھوں کے خوابوں کے سوا کوئی خواب نہیں ۔“
” آپ نے آج کیسا خواب دیکھا ہے ؟“
”میری خام خیالی خدا سے دعاگو ہے کہ آسمان سے کبھی نہ مٹنے والی سیاہی کی بارش ہو جو سب کو ایک رنگ اور ایک کرداربنا دے یا سب جانداروں کی جین میں ایسی تبدیلی ہو کہ اُن کی رنگت توے جیسی اور ہونٹ گدھے جیسے ہوں ۔ خدا ایسازمانہ لائے کہ سب کنگلے اور ننگ دھڑنگ ایک جیسے لباس قدرت میں ہوں ۔زیادہ بہتر ہوگااگر سب بغیر نقوش والے چہرے کے اللہ لیڑو ک بن جائیں ، جن کا منہ خاک میں پیوندہوں تاکہ اُن کو سوائے مٹی کھانے کے ایک دوسرے کاخون پینے کا موقع نہ ملے ۔“
” لیکن یہ تو انہونی باتیں ہیں !“
”اس لیے میں نے کہا خام خیالی ۔“
”واجہ ایسی بات بتائیں کہ جاگتی آنکھوں کو یقین ہو ۔“
” خبر ہے کہ کلاچی میں کچھ درندوں نے ڈومبکی گلستان کے گلوں کے رنگ پھیکے کردیئے ۔ زامرکی شاخیں کاٹ کرپاﺅں تلے روندھے ۔جن ہاتھوں کوحنا کی پتیاں کوٹ کرسجایاجاتاتھا اُن کو خون سے رنگ دیاگیا ۔ دیکھئے ۔دونوں سرخ رنگ لیکن کام میں فرق ۔ایک ماتم بچھا دیتا دوسرا خوشی کے شادیانے بجواتاہے ۔“
” یہ خبر میں نے بھی سنی ہے ۔“
” ہاں ، یہ خبر مرگلہ کہ تنخواہ خوردادرسوں نے بھیسنی ہے ۔اُن کی بینائی سے محروم آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی اورگنگ زبان قینچی کی طرح چلنے لگی ہے ۔“
”یہ تو خوش آئند خبر ہے !“
”نہیں میں اب بھی خواب دیکھنا چاہتا ہوں تجھے بھی نصیحت کرتا ہوں کہ خواب دیکھنا چاہئے ۔بولان کے تنخواہ خورکورچشم سرداروں کی آنکھوں نے بھی اس خون کی لالی دیکھی ہے ۔ کیا جھلاوانی ، کیا سراوانی ، کیا زہری اور کیا کیتھران سب نابینا دیکھ اور گونگے بول رہے ہیں۔ لیکن ان کی قوت گویائی بولان کی ہر چوٹی پر اُگے زامر کی شاخوں کی تڑ تڑاہٹ سے نہیں لوٹی اور نہ ہی ان کی بے نور آنکھوں میں اُس بہتے خون کو دیکھنے کی طاقت ہے جس نے کاھان کے درویش کی رات کی نیندیں اور دن کا آرام چھین لیے ہیں ۔جو شہباز کو شاہی محلات سے نکال کر اُن کے بزرگوں کی مسکن پہاڑکی چوٹیوں پر لے گئے۔ آفرین تم پر شاہ طبع شہباز کے خون اور فکر کے رکھوالے کہ تونے اپنے گلستان کی زامرکی پامالی پر سینہ کوبی نہیں کی ،صف ماتم نہیں بچھایا کیوں کہ توبھی ھڈپروش ہے اس لیے تمہارے آنسوبھی کاہان کے درویش کی طرح ہر ایک بالاچ کے لیے یکساں بہتے ہیں ۔ میںکاہان کے درویش کو یہ خوشخبری دیناچاہتا ہوں کہ تم بلند پرواز شہباز کی طرح دوربین ہو۔“
” تو مرگلہ کے دادرسوں کی دادرسی کس لیے تھی ؟“
” ان کے خیال میں سب اعلیٰ نسب رنگ ونسل اورزبان کے فرق کے باوجود ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔اگر درندے کو اس خون کی لت پڑگئی توپھر کوئی اعلیٰ نسب محفوظ نہیں رہے گا ۔“
میں نے سرہلاتے ہوئے خودکلامی کی:” خواب دیکھنا چاہئے کہ سب اعلیٰ نسب ہڈپروش ہوکر ایک ہی نسل میں ضم ہوچکے ہیں۔ انسان مرچکے ہیں جو زندہ رہ گئے ہیں سب آدمی ہیں ۔“
٭٭٭
”زمین کو دسترخوان کی طرح لپیٹ دیں ،آسمان کو جماکر زمین پر پھینک دیں کہ اب میرے لیے کچھ بھی باقی نہ رہا ۔ قبل ازیں شب وروز میں کوئی فرق نہ تھا۔بجلی وقت پر کڑکتے بارشیں موسمی بادلوں سے برسا کرتی تھیں ، موت کا لگام فطرت کے ہاتھوں سے نہیں پھسلاتھا اس لیے میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز نہ تھا۔نہ ہی میں ایسے کرب میں مبتلا تھا کہ سانپ کی طرح زمین پرلوٹوں ۔اب میں مارے جلن کے ماہی بے آب سا ہوں ۔ نہ مجھے زمین میں قرار نہ آسمان میں آرام ۔ میری بے کلی اورشکن جبینی دیکھئے اور میرے لیے کوئی نسخہ کیمیاءبنانے کا آغاز کریں۔ نہیں تو میں فطرت کے رستے چل پڑوں گا پھر تمہارے لیے بھی کچھ باقی نہ رہے گا__________________ہاں ، بجا فرمایا ہے زمان شناسوں نے کہ اعلی نسب کتے کی دم سے بھی زیادہ حساس ہیں،کتے کی دم اُکڑوںپن اور یہ اپنی اکڑ پن کٹ مرنے پر بھی نہیں چھوڑتے ۔یکساں احساسات کے مالک ، بات کا ڈھنگ یکساں ۔سچ طشت ازبام ہے آج کے اعلی نسب بھی اپنے پیشرو کی نقل کررہے ہیں _________مگر ہماری طبیعت کی مستقل مزاجی کو کیا کہیں گے جو اُکسائے جارہاہے _____خواب دیکھنا چاہئے ۔خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب دیکھنا چاہئے ۔“قلندر نے تنبور کے تار کو چھیڑا تواُس نے جواب دیا ۔قلندر نے اپنا سر اُس کے تاروں پر رکھ دیا اور دھمی آواز میں کہتا رہا” خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب دیکھنا چاہئے ۔ خواب _____________“
میں نے بصد احترام اس کے قریب جاکر دریافت کیا :”واجہ ( محترم ) آپ ابھی ” چُنچان خواب“سے بیدار ہوئے ہیںکیا پھر ہمیں اپنی گوھر افشانی سے محروم رکھنے کا ارادہ ہے جو خاموشی کا چادر اُورھنا چاہتے ہیں ؟“
” چنچان خواب ، واہ! کیا خوب ترکیب بنائی ہے ۔ لیکن یہ مجلس چنچان کو نہیں جانتاجو چھ مہینے سوتا اور چھ مہینے جاگتاتھا ۔کاش ! مجھے اپنے خواب پر اتنا قابو ہوتاتو میں اپنی زندگی خواب ہی میں بسر کرتااور بغیر کسے احساس زیست اور فکر حیات کے لاد چلتا ، کیوں کہ احساس خوشی کے ساتھ رنج والم بھی دیتا ہے۔ ہماری پوری زندگی رنج والم کے دور میں گزررہی ہے اس لیے مجھ جیسا کمزورآدمی مدہوشیکے بغیر کوئی دوسرا رستہ نہیں چن سکتا ۔ آہ ! کہ مجھ میں چنچان سی ہمت و طاقت نہیں اور نہ ہی ادراک کہ میرے بقاہمی ہوش وحواس رہنے میں قصور میرے سخت جان خرد کا ہے یا خردساز کا ؟“
”لیکن خواب دیکھنے کے لیے تو سونا پڑتا ہے ؟“
” سوتی آنکھوں کے خواب اتنے شفاف نہیں جتنے جاگتی آنکھوں کے ۔سوتی آنکھیں گئے دنوں کی بات اور کہانیاں خواب میں دیکھتی ہیں ۔ جاگتی آنکھوں کے خوابوں میں بنے نقشوں کی بدولت آنے والی نسل کے بلند حوصلہ سپوت پیدا ہونے والے مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے قبل ازوقت جتنکرکے ان کو آسانیوں میں بدل دیتے ہیں ۔ جاگتی آنکھوں کے خوابوں میں کھینچے گئے نقشے رنگین اور سوتی آنکھوں کے خواب اس لمحے بھی بے رنگ اور بے معنی ہوتے ۔ مجھے کسی نادان نے ترکیب سجھائی کہ سوتی آنکھوں کے خوابوں کو شفاف دیکھنے کا بھی ایک نسخہ ہے کہ جب بھی خواب دیکھو خود کو یہ یقین دلاﺅ کہ میں خواب دیکھ رہاہوں اگر تم کامیاب ہوئے تو پھر تمہارے خوابوں کی دھندلاہٹ آئستہ آئستہ چھٹ جائے گی اور خواب شفاف و رنگین ہوں گے ۔کون نہیں جانتا کہ میں خوابوں کی تعبیر کے لیے قلندر بنا پھر رہاہوں۔ میں خوابوں کا طلبگار ہوں اور لوگ مجھ پر الزام دھرتے ہیں کہ میں خواب بیجتا ہوں ۔ میری کوششوں کا حاصل یہ نکلا کہ میرے خواب دھند سے نکلے مگراب ان خوابوں کا کیا کروں کہ سوتی آنکھوںکے خواب دھندمیں ہی اچھے ہیں ۔اگر رنگین اور شفاف ہوں تو زیادہ پریشان اور بوجھل کردیتے ہیں ۔میں نے سوتی آنکھوں میں دیکھا کہ میںکھڑاہوں میں نے خود سے کہا کہ فریب میں نہ آنا کہ یہ حقیت نہیں خواب ہے بس اتنے ہی میں میرا سایہ دھند سے نکل کر میر اہمشکل بن گیا ۔ میں نے اپنے ناک نقش سنوارے البتہ خود کوتھوڑا سا گورااور جوان بنا یا۔اس کے بعدمیں نے دیکھا کیا کہ میں اپنے خواب میں ایک ہی جگہ بت بنا کھڑا ہوں ۔ میں نے چاہا کہ ہاتھ اُوپر اُٹھاﺅں ایسا ہی ہوا ۔ میں ایک مدت تک انہی خوابوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔ایسے جیسے کوئی اپنے سایے کو پکڑنے کی کوشش کرئے یا کوئی دن بھر ہوا میں مکے مارے ۔میں تھک گیا، پھولتی سانس کے ساتھ اپنے تھیلے میں سوتی آنکھوں کے لیے رکھے گئے سارے خواب نکال کر پھینک دیئے اب میرے پاس جاگتی آنکھوں کے خوابوں کے سوا کوئی خواب نہیں ۔“
” آپ نے آج کیسا خواب دیکھا ہے ؟“
”میری خام خیالی خدا سے دعاگو ہے کہ آسمان سے کبھی نہ مٹنے والی سیاہی کی بارش ہو جو سب کو ایک رنگ اور ایک کرداربنا دے یا سب جانداروں کی جین میں ایسی تبدیلی ہو کہ اُن کی رنگت توے جیسی اور ہونٹ گدھے جیسے ہوں ۔ خدا ایسازمانہ لائے کہ سب کنگلے اور ننگ دھڑنگ ایک جیسے لباس قدرت میں ہوں ۔زیادہ بہتر ہوگااگر سب بغیر نقوش والے چہرے کے اللہ لیڑو ک بن جائیں ، جن کا منہ خاک میں پیوندہوں تاکہ اُن کو سوائے مٹی کھانے کے ایک دوسرے کاخون پینے کا موقع نہ ملے ۔“
” لیکن یہ تو انہونی باتیں ہیں !“
”اس لیے میں نے کہا خام خیالی ۔“
”واجہ ایسی بات بتائیں کہ جاگتی آنکھوں کو یقین ہو ۔“
” خبر ہے کہ کلاچی میں کچھ درندوں نے ڈومبکی گلستان کے گلوں کے رنگ پھیکے کردیئے ۔ زامرکی شاخیں کاٹ کرپاﺅں تلے روندھے ۔جن ہاتھوں کوحنا کی پتیاں کوٹ کرسجایاجاتاتھا اُن کو خون سے رنگ دیاگیا ۔ دیکھئے ۔دونوں سرخ رنگ لیکن کام میں فرق ۔ایک ماتم بچھا دیتا دوسرا خوشی کے شادیانے بجواتاہے ۔“
” یہ خبر میں نے بھی سنی ہے ۔“
” ہاں ، یہ خبر مرگلہ کہ تنخواہ خوردادرسوں نے بھیسنی ہے ۔اُن کی بینائی سے محروم آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی اورگنگ زبان قینچی کی طرح چلنے لگی ہے ۔“
”یہ تو خوش آئند خبر ہے !“
”نہیں میں اب بھی خواب دیکھنا چاہتا ہوں تجھے بھی نصیحت کرتا ہوں کہ خواب دیکھنا چاہئے ۔بولان کے تنخواہ خورکورچشم سرداروں کی آنکھوں نے بھی اس خون کی لالی دیکھی ہے ۔ کیا جھلاوانی ، کیا سراوانی ، کیا زہری اور کیا کیتھران سب نابینا دیکھ اور گونگے بول رہے ہیں۔ لیکن ان کی قوت گویائی بولان کی ہر چوٹی پر اُگے زامر کی شاخوں کی تڑ تڑاہٹ سے نہیں لوٹی اور نہ ہی ان کی بے نور آنکھوں میں اُس بہتے خون کو دیکھنے کی طاقت ہے جس نے کاھان کے درویش کی رات کی نیندیں اور دن کا آرام چھین لیے ہیں ۔جو شہباز کو شاہی محلات سے نکال کر اُن کے بزرگوں کی مسکن پہاڑکی چوٹیوں پر لے گئے۔ آفرین تم پر شاہ طبع شہباز کے خون اور فکر کے رکھوالے کہ تونے اپنے گلستان کی زامرکی پامالی پر سینہ کوبی نہیں کی ،صف ماتم نہیں بچھایا کیوں کہ توبھی ھڈپروش ہے اس لیے تمہارے آنسوبھی کاہان کے درویش کی طرح ہر ایک بالاچ کے لیے یکساں بہتے ہیں ۔ میںکاہان کے درویش کو یہ خوشخبری دیناچاہتا ہوں کہ تم بلند پرواز شہباز کی طرح دوربین ہو۔“
” تو مرگلہ کے دادرسوں کی دادرسی کس لیے تھی ؟“
” ان کے خیال میں سب اعلیٰ نسب رنگ ونسل اورزبان کے فرق کے باوجود ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔اگر درندے کو اس خون کی لت پڑگئی توپھر کوئی اعلیٰ نسب محفوظ نہیں رہے گا ۔“
میں نے سرہلاتے ہوئے خودکلامی کی:” خواب دیکھنا چاہئے کہ سب اعلیٰ نسب ہڈپروش ہوکر ایک ہی نسل میں ضم ہوچکے ہیں۔ انسان مرچکے ہیں جو زندہ رہ گئے ہیں سب آدمی ہیں ۔“
٭٭٭
Post a Comment