زیر نظر کالم مئی دوھزار نو میں انتخاب کے ایڈیٹر جناب انودر ساجدی کے ایک مضمون پر تبصرہ ہے ، انورساجدی کے اُٹھائے گئے سوالات کے تںاطر میں شہید واجہ کی سیاست کے اُس پہلو پر بات کی گئی ہے جس کی وجہ سے مخالفین آپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، شہید واجہ کے تیسرے یوم شہادت کی مناسبت سے اس تحریر کومعمولی قطع برید کے ساتھ قارئین کی خدمت میں مکرر پڑھنے کے لیے پیش کررہا ہوں ۔
چند دن صحافت کا طالب علم رہ کر مجھے اس بات کا شکوہ اپنے دوستوں سے نسبتاً کم ہے جوصحافیوں کے قلم کی کاٹ کو تلوار کی دھار دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کیوں کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بلوچستان میں اب تک صحافت نام کی کوئی چیز
وجود ہی نہیں رکھتی ۔ میں کسی ایسے صحافی سے واقف نہیں (نیوز ڈیسک کوچھوڑ کے ) جسے اُن کے ادارے کی طرف سے اپنی خد مت کے عوض باقاعدہ تنخواہ ادا کی جارہی ہے ۔ تواس مہنگائی کے دور میں کوئی بے وقوف ہی صحافت کرئے گا ۔ صحافت ایک باقاعدہ پیشے کے طور پر نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں ٹھیکہ دار ، ٹیچر ، کلرک ، منشی ، سیاسی کارکن اور اسی قبیل کے دیگر لوگوں نے اپنے فارغ وقت میں خبر نویسی کا شوق پا ل رکھا ہے ۔ ان حالات میں چند ایک اخباری مالکان کم کالم نگاران کے حوصلے قابل قدر ہیں جوکہ صحافت کے مقد س پیشے کو اپنا اصل مقام
دینے کے لیے کوشش کررہے ہیں جو باتیں کسی سروے اور تحقیقی خبر کی زینت بننی چاہئیں ان کے کالم میں پڑھنے کو ملتی ہیں تو کسی حد تک حقائق بینی کی تشنگی کم ہوتی ہے ۔
روزنامہ انتخاب کے جناب انور ساجدی بھی قلم قبیلے کے ایسے ہی سپوت ہیں جو باصلاحیت اور محنت کش ہونے کے ساتھ ساتھ خوش قسمتی سے بلوچستان کے ایک ایسے کثیرالاشاعت اخبار کے مالک ہیں جس میں چھپنے والے ملازمت کے اشتہارات کےعلاوہ اُن کے اور اخبار کی ایڈیٹر نر گس بلوچ کے کالم بھی شو ق سے پڑھے جاتے ہیں ۔ آپ اپنے کالم میں اکثر بلوچ مسائل پر لکھتے ہیں آپ کانکتہ نظر سے اختلافات اپنی جگہ آپ کی دانشورانہ رائے کا '' اظہار '' وزن رکھتا ہے ۔ گزشتہ دنوں سے آپ متواتر بلوچ نیشنل موومنٹ کے صدر غلام محمد بلوچ کی شہادت کے تناظر میں پیش آنے والے واقعات پر اپنے زرین خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جو ہمارے لیے راہنمائی کاباعث ہیں بی این ایم آپ کے ناقدانہ رائے کو خنداں پیشانی سے قبول کرتے ہوئے تہہ دل سے شکریہ اداکرتی ہے ۔
جناب ساجدی !.....آپ کانکتہ نظر یقیناً کسی گہرے مطالعے کا نچوڑ ہے مگر شاید ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنی رائے شہید غلام محمد بلوچ کی سیاسی سوچ کے مطابق پیش کریں امید ہے کہ آپ اسے اپنے اخبار کے توسط بلوچ عوام تک پہنچائیں گے ۔ اصل مضمون پر آنے سے پہلےگرائمر اور املاکی ممکنہ غلطیوں پر پیشگی معذرت کرتاہوں ۔
آپ اپنے18مئی 2009کے کالم ”میر جعفر اور میر صادق کون ؟ “ میں شہید غلام محمد کے بارے میں لکھتے ہیں ”آزادی کی تحریک کے لیے ٹائم وسائل ، اندرونی وبیرونی حمایت اور جو دیگر لوازمات درکار تھے انہوں نے اس کا تجزیہ نہیں کیا تھا ۔ وہ ریاست کی طاقت کا اندازہ کیے بغیر اپنے جدا راستے پر چل نکلے اور بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ اپنی جان قربان کر بیٹھے ۔“
ا ن سطور میں آپ جس رائے کااظہار کررہے ہیں یہی رائے بی این ایم سے اختلاف رکھنے والی جماعتوں خاص طور پر بی این پی اور نیشنل پارٹی کی ہے ۔ نیشنل پارٹی کی مخالفت کی حد تو یہ ہے کہ وہ آج تک بی این ایم کا سیاسی وجود قبول کرنے سے انکار کرتی ہے البتہ بی این پی نسبتاً مثبت انداز میں ( یہاں ماضی کے الزامات سے صرف نظر کیا گیا ہے ) مخالفانہ رائے کا اظہار کررہی ہے ۔ہماری سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ ہم میں سے اکثریت نے شہید کو اُن کی زندگی میں درست طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کی اُن جیسا بیباکانہ انداز سیاست کا حوصلہ نہ رکھنے والوں نے انہیں ایجنسی کا کارندہ کہا جوکہ ببانگ دہل آزادی کا نعرہ لگاتا ہے لیکن گرفتار نہیں کیے جاتے۔ دنیا نے دیکھی کہ وہ گرفتار بھی ہوئے ، گمنا م ٹارچر سیلوں میں رہے ، جیل ہوئے اور بغاوت کے مقدمات کاسامنا کیالیکن پھر بھی انہوں نے ان کی کردار کشی کا سلسلہ جاری رکھا ۔ آپ کی شہادت سے ایک ہفتے پہلے مذکورہ جماعتوں میں سے ایک کے طلباءبازو( بی ایس او میم) کی طرف سے بیرون وطن مقیم بلوچوں کے نام باقاعدہ ایک خط ”Hidden Face of Ghulam Mohammad “ کے عنوان پر لکھا گیا جس میں آپ کو واشگاف الفاظ میں ایجنسیوں کاکارندہ کہا گیا۔ لیکن نتائج کیا نکلے ”بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ اپنی جان قربان کر بیٹھے“۔
اب اس بات میں کوئی دو رائے نہیں رہا کہ آپ اپنے مقصدکے ساتھ مخلص تھے لیکن کیا یہ بات بھی درست ہے کہ آپ کو ان حالا ت کا اندازہ نہیں تھا ؟ آپ کا ہوم ورک نامکمل اور حکمت ناقص تھی ؟ان سب کا جواب نفی میں ہے ۔شاید اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم کھل کر آپ کی قومی تحریک میں کردار کو زیر بحث لائیں لیکن چند پہلوواضح ہونا ضروری ہیں تاکہ ہمارے ذہنوں کے ابہام کم ہوسکیں ۔آپ بی ایس او کے فلیٹ فارم سے بلوچ قومی جدوجہد آزادی سے وابستہ ہوئے ۔آپ نے کسی نئی تحریک اور جماعت کی داغ بیل نہیں ڈالی بلکہ اپنے پیشرﺅں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُس تسلسل کو جاری رکھا ۔ سال 2000میں قابض قوتوں نے بلوچستان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفتار بڑھالی ۔ قبل ازیں بلوچ مسلح جدوجہد میں ( جو 1948 سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے ) تیزی پید اکرنے اور جنگ آزادی کو نئی حکمت اور بھر پور توانائی کے ساتھ لڑنے کی تیاریاں ہوچکی تھیں ۔ یہ تیاریاں سردار وں کے خلاف جدوجہد ، سیاسی سوچ کی آبیاری او ر پارلیمانی سیاست کے مراحل میں بھی جاری رہئیں ۔ یہ سفر آگے بڑھنے کا تھا دوبارہ لکھی ہوئی سطرپر نظر دوڑائیں”سرداروں کی اثر ورسوخ کو کم کرنا ، سیاسی سوچ کی آبیاری ، پارلیمانی سیاست “ان سب مراحل میں مختلف نعرے لگائے گئے ہماری ناقص رائے میں اس جدوجہد سے وابستہ افراد نے شعوری بنیادوں پر اپنے منزل تک پہنچنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ ون یونٹ کا خاتمہ ، صوبائی خود مختاری ، حق حاکمیت اورساحل وسائل پر اختیار کے نعرے ”آزادی“ کے مطالبے کوجواز فراہم کرنے کے لیے تھے ۔ ہم جانتے ہیں کہ قابض قوت نے ہر مرحلے میں بلوچوں کے جائز مطالبات کو(جوکہ پاکستان کے آئین اور قوانین سے بھی متصادم نہ تھے )نظر انداز کرتے ہوئے جارحانہ انداز اپنا یااور بالآخر جس طرح ہمارے قائدین کی خواہش تھی پاکستان نےبلوچوں کو اسی نہج پر پہنچا دیاکہ اب آزادی کے علاو ہ کوئی بات باقی نہیں بچی ۔
سرداریت کے خلاف آوازبلند کرنے پر بی ایس او کو تقسیم کیاگیا۔ پانی مانگنے پر جیمڑی میں یاسمین اور ازگل کو گولی مار کر شہید کردیاگیا ۔ پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کی سزاء میں بلوچ قائدین کوگرفتار کر کے جیل کردیاگیا ۔ پیغمبراسلام کا ایک حکیمانہ قول ہے کہ ”مومن وہی ہے جو کہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا “بلوچ قو م دوست جماعتوں نے مرحلہ وار آگے بڑھتے ہوئے اس بات کو اپنی گرہ میں باند ھ لیا ہے ۔ اس پر تجزیہ کرتے ہوئے بلوچ تحریک آزادی کے قائد اعلیٰ بابا خیر بخش مری فرماتے ہیں کہ ”جب ہمیں ایک انڈہ پانے کے لیے اپنی زندگیاں قربان کرنی ہوں گی تو کیوں نہ ہم پورے مرغی خانے کے لیے قربانی دیں ۔“اور یوں غیر پارلیمانی سیاست کا آغاز ہو ا ۔
سن دوھزار میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ در پردہ ایک بھر پور جنگ لڑنے کے لیے تیار بلوچ قوت کو منظر عام پر لاکر قابض ریاست کے استحصالی ایجنڈے کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنا کا فیصلہ ناگزیر ہوگیا ۔ اس گوریلا جنگ کو اگر بغیر کسی سیاسی حمایت کے شروع کیا جاتا توعوامی حمایت کے بغیر اسے بآسانی دہشت گرد ی قرار دیاجاتا ۔ اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی گئی کہ اس جنگ کو چھیڑنے سے پہلے ایسا سیاسی ماحول پید اکیا جائے جو اس جنگ کے محرکات اور مقاصدکو واضح کرئے ۔ یہ محاذ ایک مشکل لیکن ضروری محاذ تھا یہ حکمت عملی صرف شہید غلام محمد کی نہ تھی اُس وقت کی بی این ایم اور موجودہ این پی کے کئی قائدین نے بھی اسی بنیاد پر ایک مسلح تنظیم کے قیام کا خواب اپنے کارکنان کو دکھایا تھا جس سے متاثر ہوکر بیرون وطن مقیم کئی بلوچوں نے اپنی پوری کی پوری تنخواہیں اٹھاکر اُن کو چندہ دیا تھا تاکہ وہ ہتھیار خرید کر بلوچ قومی فوج تشکیل دے سکیں ۔ یہ ایک بہترین آزمودہ طریقہ ہے جس پر چلتے ہوئے ہندوستان کے آزادی پسند لیڈر ”چندر بوس آزاد “نے ”آزاد ہند آرمی “ تشکیل دے کر ہندوستانیوں کو آزادی کا ایک واضح راستہ دکھایا ۔ لیکن بلوچوں کی اپنی قبائلی جنگ کو سیاسی بنیادوں پر استوار کرنے کی پہلی کوشش بد نیت اور کمزور لیڈروں کی وجہ سے ناکام ہوگئی ۔ عمان آرمی کے ایک ریٹائرڈ فوجی ، سابق نیشنل پارٹی اور دم شپادت بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنماء شہید نصیر کمالان کے بقول ” ایک دفعہ میں نے اپنے ہاتھوں سے چندہ کی خطیر رقم ڈاکٹر مالک کو پہنچائی تھی جب ریٹائرڈ ہوکر وطن واپس آیا تو اُن سے پوچھا کہ کہاں ہے ہماری آرمی مجھے بھرتی ہونا ہے اگر مجھ میں لڑائی کی سکت نہیں لیکن اپنے جوانوں کو روٹی پکا کر دے سکتا ہوں ۔ج واب میں اس نے کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم اسے برقرار نہیں رکھ پائے جس پر میں نے اسے یاد دلایا کہ اگر تم اسے برقرار نہیں رکھ سکے تو گزشتہ سال تک ہم سے چندہ کس بات کی لیتے رہے ہو۔“ ان کی ان ہی کرتوت کی وجہ سے جدوجہد میں حصہ دینے والے لوگوں کی بڑی تعداد مایوس ہوگئی جس سے بلوچ قومی لشکر کی تشکیل میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن چند باہمت رہنماءکٹھن حالات میں بھی اپنا نیٹورک منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ میدان جنگ سے مشکل محاذ سیاسی تھا جہاں مذکورہ سیاستدانوں نے قوم دوستی کے نام پر سیاسی ماحول کو اتنا پراگندہ کیا ہواتھاکہ نیشنل ازم ایک گالی بن کر رہ گئی تھی، لوگوں کو ”کامریڈ “اور ”بی ایس او“ کے نام سے نفرت اور بیزاری ہوچکی تھی ۔ ان نا مساعد حالات میں شہید غلام محمد بلوچ نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ آپ کی بھر پور کوشش تھی کہ تمام بلوچ سیاسی قوتوں کو ایک مشترکہ فلیٹ فارم پر لاکر واضح انداز میں جدوجہد آزادی شروع کی جائے ۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے مطابق دنیا میں اس بات کو اجاگر کرنا انتہائی ضروری تھا کہ بلوچ جنگ آزادی لڑی جارہی ہے تاکہ اُن کی توجہ حاصل کی جاسکے ۔ جس طرح آپ نے ایک تقریر میں واضح کیا تھاکہ ”یہ جنگ ہم پر مسلط نہیں کی گئی ہے بلکہ ہم نے جنگ کا آغا زکیا ہے ۔‘ ‘ وقت کا چناﺅ دشمن کی رفتار میں تیزی دیکھتے ہوئے کیا گیاتھا اور یہی مناسب وقت تھا اگر خاموشی اختیار کی جاتی تو وہ سیاستدان جنہوں نے بیرون وطن چندہ کے نام پر حاصل کردہ ر وپیوں سے یہاں کروڑوں کی جائیدادیں کھڑی کی ہیں جو ڈیموکریسی کے نام پر کارپوکریسی کو پروان چڑھا رہے تھے ۔ قومی حقوق کے بجائے نوجوانوں کو اسٹبلشمنٹ کی دلالی کے لیے بھرتی کررہے تھے ۔ گھنٹے ، ٹھیکے اور میڈیکل اسٹوروں کے لائسن بھانٹے جارہے تھے ۔ پارلیمانی سیاست کے نام پر ضمیر فروشی کی بڑی دکان سجی ہوئی تھی، کب کا بلوچ قومی شناخت سے دستبراد ہوجاتے ۔ اس ٹہرے ہوئے تالاب میں ایک بھونچال کی ضرورت تھی یہی کام شہید نے سر انجام دیا۔ آپ نے شہید فدا کے فلسفے کو اپنی دلیل کو مضبوطی سے پیش کرنے کے لیے استعمال کیا ۔ آپ کی آواز جاندار، جذبات کھرے تھے ، اپنی اُوپر قومی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے کردار کی تعمیر پر زبردست توجہ دی ۔ ایک مثالی لیڈر بننے کے لیے اپنے اندر انقلاب بپا کیا جس کے اثرات اس کے اطراف موجود لوگوں نے محسوس کیے اور ایک حُریت پسند قائد کی حیثیت سے آپ کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوایہ آپ کی پہلی کامیابی تھی جس نے آپ کے عزم کو جِلا بخشا ۔ ابتدائی مرحلے میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کو اندازہ تھا کہ حالات کیاہیں ۔ حالات اس وقت قطعاً سازگار نہ تھے جو اس تحریک کی ضرورت کو بڑھارہے تھے ۔آپ وسیع المطالعہ شخصیت تھے لیکن آپ نقل اُتارنے کی بجائے اپنے مزاج اور واقعات کے تناظر میں حکمت عملی اختیار کرنے کے قائل تھے ۔آپ اس بات پر شدید تنقید کیا کرتے تھے کہ ”ہمارے لکھاری دنیا بھر کے دانشوروں کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن وہ اپنے مفکرین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔ان کو اقبال لاہوری ، غالب اور شیخ سعدی کے اقوال ذہن نشین ہیں لیکن ملا فاضل کو بھول چکے ہیں ۔“ شاید آپ کو اس کا بھی اندازہ تھا کہ ایک انقلابی رہنماءکی حیثیت سے آپ کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنا یاجارہاہے لیکن آپ کو تولوگوں کے مزاج بدلنے تھے ۔ جب آپ کی کردار کشی کا سلسلہ عروج پر تھا۔ آپ کی شہادت سے چند ہفتے پہلے میں اکثر اس طرح کی باتوں کو سن کر فکر مند ہوجاتا تھا کیوںکہ ہمیں محسوس ہورہاتھا کہ اس کردار کشی کے پیچھے ایک خطرنا ک منصوبہ ہے ہم اس کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ دشمن آپ کی مقبولیت کو کم کر کے آپ کو قتل کرنے کی ساش کررہاہے ہماری اب بھی یہی سوچ ہے کہ آپ کے کردار کشی کے پیچھے پاکستانی ایجنسیوں کا برائے راست ہاتھ تھا اور جو سیاسی رہنما ءان کے ترجمان بنے ہوئے تھے کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طورپر ان سازشوں کا حصہ تھے جو آپ کو راستے سے ہٹانے کے لیے بنائی گئی تھیں ۔ انہی خدشات کے پیش نظر میں نے آپ کو فون کرکے اس خط کے بارے میں بتایا جس پر آپ نے مجھے قدرے برہم لہجے میں انتباہ کیاکہ ”تم اس طرح کی باتوں کو ہرگز اہمیت نہ دو اگر ہم ہر ہیرے غیرے کو جواب دینے لگیں تو اپنااصل مقصد ہرگز حاصل نہیں کرپائیں گے ۔
“
آپ نے ہر تنقید کو خنداں پیشانی سے قبول کیا لیکن اپنی روش نہیں بدلی ۔آپ نے حالات کو بدلنے کے لیے مصنوعی سیاسی ماحول پید اکیا تاکہ دشمن مشتعل ہو۔ یہ خطرناک سیاسی چال تھی جس میں آپ کی زندگی ہمیشہ داﺅ پر لگی رہی ۔آپ نے جس وقت آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا آپ کے ہمراہ محض چند ہی ساتھی تھی ۔شہید لالہ منیر اپنی حالیہ کامیابیوں کودیکھتے ہوئے اکثر سر شاری کے عالم میں مجھ سے کہتے تھے کہ ڈاکٹر مالک نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ”بی این ایم غلام محمد سے شروع لالہ منیر سے ختم ۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں اُن سے پوچھوں کہ اگر تم صحیح تھے تو آج یہ (اپنے بلوچستان بھر سے آئے ہوئے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کون ہیں۔“اگر وہ روایتی طریقہ اپنا تے ہوئے زیر زمین تنظیم سازی کرتے تونہ صرف ان کا کام سست رفتاری سے ہوتا بلکہ دشمن بھی ان کو آسانی سے گمنامی کی موت ماردیتا ( یہ بات ہوائی نہیں بلکہ انہیں اس کا تجربہ ہوچکا تھا ) انہوں نے اپنی محدود توانائی کا استعمال کرتے ہوئے دشمن کو للکارتے ہوئے جنگ آزادی کا اعلان کیا۔ برملا بلوچ حُریت پسند وں کی حمایت کی اور انہیں بلوچ آزاد ی کا سپاہی کہا ۔ آپ کی آواز گھر گھر گونجنے لگی یہ بھی کوئی معجزہ نہیں آپ کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی تھی ۔آپ نے اپنی تحریک کے لیے دستیاب میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ۔آپ کی ایک گھنٹے پر مشتمل آڈیو کیسٹ ”جِھ جن اِت بیلاں !“ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اس راہ میں اناڑی نہیں تھے ۔ دشمن کے لیے آپ ایک بھر پور خطرہ بن کر سامنے آگئے آپ ایک ایسی ہڈی بن کر ان کے گلے میں پھنس چکے تھے کہ اُن کے لیے آپ کو نگلنا بھی مشکل تھا وراُگلنا بھی تکلیف دہ ۔آپ اور آپ کی پارٹی کے خلاف زبردست کریک ڈاﺅن کیا گیا آپ کے و ہ ساتھی جن کے آپ کے ساتھ وابستگی کا شبہ تک تھا اُٹھا کر غائب کردیئے گئے ۔ دانش سے عاری دشمن نے آپ کے پہلے ہی حملے کے جواب میں اپنا سب سے بڑا ہتھیار استعمال کیا ۔ جس کا نقصان کے بجائے فائدہ ہوا کیوں کہ یہ ردعمل آپ کے توقعات کےعین مطابق تھا بلکہ یہی آپ کی خواہشتھی وہ اپنی اصل چہرے کے ساتھ بلوچ عوام کے سامنے آجائے ۔ آپ اپنے لوگوں پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اس غیر فطری ریاست میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ، اسلام کے نام پر پنجاب ہمارے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اس قبضہ گیری کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بننے کی کوشش کرئے گا پنجاب اُس کوقتل کرنے بھی دریغ نہیں کرئے گا،پہلے اس بات کے لیے عوا م کی یاداشت میں بہت کم ٹھو س دلائل تھے شہید غلام محمد کی حکمت نے دلائل کے انبار لگا دیئے ۔ ٹارچر سیل اور جیلوں سے واپسی کے بعدبھی آپ اور آپ کے ساتھی اسی بہادری کے ساتھ دشمن کو للکارتے رہے ۔ یہ باتیں محض جذباتی پن کا اظہار نہیں دشمن پر نفسیاتی اور اخلاقی وار تھے جن کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہوئے ۔
جہاں تک غلام محمد کی شہادت کو نقصان قرار دینے کا تاثر ہے اس کو بھی درست قرار نہیں دیاجاسکتا اور نہ ہی شہید خود اس طرح کی قربانیوں کونقصان سمجھتے تھے اُن کا نکتہ نظر تھا کہ ”ہمیں شہادتوں پر ماتم کرنے کی بجائے انہیں تحریک کا ایندھن بنانا چاہئے ۔“ آپ سمجھتے تھے کہ آزادی کی جنگ میں قیادت کو قربانی دینی چاہئے جب تک ہم (قیادت )قربانی کے لیے تیار نہیں ہوں گے بلوچ قوم آزاد نہیں ہوسکتی ۔“ 27مارچ 2009کوپسنی میں ، مَیں نے اُ ن سے کہاکہ” واجہ! محتاط رہیں کہیں یہ آپ کو پھر دوبارہ اغواءنہ کرلیں ۔“ انہوں نے مسکراکر جواب دیا کہ ” اغواءاورمارنے کاتواب مزا آئے گا۔“یعنی ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ دشمن کی طرف سے جتنی شدت کااظہار کیا جائے گا بلو چ تحریک اتنی ہی زیادہ توانائی کا ساتھ اُبھرئے گی ۔ انہوں نے اپنے ایک پیغام میں کہاہے کہ ”دوست ہماری ہرگز پروا نہ کریں بلکہ تحریک پر توجہ دیں ۔
“
جہاں تک درکار وسائل کی بات ہے توسیاسی جدوجہد میں سب سے زیادہ افرادی قو ت کی ضرورت ہوتی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہاہے ۔ یہ افرادی قوت جس میں ہرقسم کی اہلیت رکھنے والے لو گ ہیں تحریک آزادی کے لوازمات کوپورا کرنے کا ذمہ دار ہیں ۔
جناب ساجدی !.............آپ کی تحریر کے عنوان سے تاثر ملتا ہے کہ آپ بی این ایف کی سیاسی تنقید کو زیادہ درست نہیں سمجھتے حالانکہ مندرجات میں آپ اس کو سراہتے ہیں ۔ہم بھی یہی سمجھتے ہیں (گوکہ ہماری قومی نفسیات میں ”تنقید “کو برداشت نہیں کیا جاتا اس کا اندازہ آپ بلوچی ادب میں ”تنقید “کی شرح کو دیکھ کر بخوبی لگاسکتے ہیں ۔ ) کہ تنقید سیاست کی جان ہے ۔ دنیا میں ہر جگہ مخالف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح سیاست کرتے ہیں۔ شہید غلام محمد بلوچ کی سیاسی تدبر سے انکاری ہمارے ایک ساتھی کی اس فرمائش پر جو انہوں نے پارٹی سیشن میں کیا تھا کہ ”بی این ایم نہ کسی کی حمایت کرئے نہ مخالفت “شہید نے نہایت حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ کیسا سیاسی کارکن ہے اگر ہم ”حمایت اور مخالفت “ کااظہار نہیں کریں گے تو کریں گے کیا ؟“ ۔آپ سیاست میں بھر پور اور کھلے لفظوں تنقید کے قائل تھے ۔آپ سمجھتے تھے سیاسی موقف کو واضح ہونا چاہئے جو کردار بلوچ قومی تحریک کے آگے رکاوٹ ہیں اُن کی نشاندہی لازمی ہے اسی سے قوم کی درست رہنمائی ہوگی ۔آپ اپنی جماعت کی پذیرائی کی سب سے بڑی وجہ اپنے دوٹوک موقف اور مخالفین کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر کھلے لفظوں تنقید اور منفی کرداروں کی نشاندہی کو سمجھتے تھے ۔ اس لیے بی این ایم بھی واضح کرچکی ہے کہ وہ اپنے موقف کو واضح لفظوں پیش کرنے کے ساتھ اس نظریے سے اتفا ق نہ رکھنے والی جماعتوں پر تنقید جاری رکھتے ہوئے اُن پر اپنا دباﺅ برقرار رکھے گی تاکہ ان جماعتوں کے قائدین کو مجبور کیاجاسکے کہ وہ قومی آزادی کے واضح پروگرام کے مطابق جاری تحریک کا ساتھ دیں ۔اس سیاسی تنقید کے داہرے میں کسی کی ذات پر نکتہ چینی اور جلسہ جلوس میں ہنگامہ آرائے کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کی جائے گی ۔ میری ذاتی رائے میں کسی سیاستدان کے ایسے عمل پرتنقید ( نام لے کر یا اشارتاً) جس کے اثرات معاشرے پر اور تحریک آزادی پر مُرتب ہوں ذاتی نکتہ چینی نہیں سیاستدان کے خاندان کے افراد سے متعلق معاملات جن کا اُن کی سیاست پر کوئی اثرات نہ ہوں ہی اُن کے ذاتی معاملات شمار ہوں گے( سیاسی دانشور یہاں تک کہتے ہیں کہ سیاستدان کی زندگی عوامی ملکیت ہے یعنی عوام اُس پر ہر طرح کی رائے زنی کا حق رکھتا ہے ۔)
جس طرح جناب ساجدی نے بی این ایم اور نیشنل پارٹی کو درست مشورہ دیاہے کہ ”اگر وہ وفاق کومانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بلوچ کے لیے یہی بہتر ہے تو وہ اپنا موقف عوام اور کارکنان کو سمجھائیں اور پھر اس پر ڈٹ جائیں ۔“ہماری سب سے بڑی تنقید بھی یہی ہے کہ وہ واضح کریں کہ چارقومی اکائیوں کے حقو ق کی بات کرنے والی جماعت ہیں یا قوم” بلوچ“ کے مفادات کی جنگ لڑنے والی ۔ اس موقف میں محض اس بات کا اضافہ کریں گے کہ اگر وہ تحریک آزادی کے حق میں نہیں تواُن شہیدوں کے نام اور تصاویر کوجنہوں نے اپنی زندگیاں واضح طور پر قومی آزادی کے لیے قربان کیں ہیں استعمال کرنے سے گریز کریں کیوں کہ اگر ان کے نکتہ نظر کو درست تسلیم کیا جائے توانہوں نے کوئی قربانی نہیں دی اور کوئی شہادت نہیں پائی ہے بلکہ وفاق پاکستان سے بغاوت کر کے ایک جرم کیاہے جن کی انہیں سزاء دی گئی ہے ۔ کیوں ہمارے خیال میں ان شہداءکا نام لے کر ان کے نظریا ت کے برعکس موقف کے اظہار سے بھی اکثر بلوچوں کے احساسات مجرو ح ہوتے ہیں اورجلسہ جلوس میں ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں جن کی ہم سیاسی مخالفت کرتے ہوئے بھی جواز سے انکار نہیں کرسکتے ۔
چند دن صحافت کا طالب علم رہ کر مجھے اس بات کا شکوہ اپنے دوستوں سے نسبتاً کم ہے جوصحافیوں کے قلم کی کاٹ کو تلوار کی دھار دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کیوں کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بلوچستان میں اب تک صحافت نام کی کوئی چیز
وجود ہی نہیں رکھتی ۔ میں کسی ایسے صحافی سے واقف نہیں (نیوز ڈیسک کوچھوڑ کے ) جسے اُن کے ادارے کی طرف سے اپنی خد مت کے عوض باقاعدہ تنخواہ ادا کی جارہی ہے ۔ تواس مہنگائی کے دور میں کوئی بے وقوف ہی صحافت کرئے گا ۔ صحافت ایک باقاعدہ پیشے کے طور پر نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں ٹھیکہ دار ، ٹیچر ، کلرک ، منشی ، سیاسی کارکن اور اسی قبیل کے دیگر لوگوں نے اپنے فارغ وقت میں خبر نویسی کا شوق پا ل رکھا ہے ۔ ان حالات میں چند ایک اخباری مالکان کم کالم نگاران کے حوصلے قابل قدر ہیں جوکہ صحافت کے مقد س پیشے کو اپنا اصل مقام
دینے کے لیے کوشش کررہے ہیں جو باتیں کسی سروے اور تحقیقی خبر کی زینت بننی چاہئیں ان کے کالم میں پڑھنے کو ملتی ہیں تو کسی حد تک حقائق بینی کی تشنگی کم ہوتی ہے ۔
روزنامہ انتخاب کے جناب انور ساجدی بھی قلم قبیلے کے ایسے ہی سپوت ہیں جو باصلاحیت اور محنت کش ہونے کے ساتھ ساتھ خوش قسمتی سے بلوچستان کے ایک ایسے کثیرالاشاعت اخبار کے مالک ہیں جس میں چھپنے والے ملازمت کے اشتہارات کےعلاوہ اُن کے اور اخبار کی ایڈیٹر نر گس بلوچ کے کالم بھی شو ق سے پڑھے جاتے ہیں ۔ آپ اپنے کالم میں اکثر بلوچ مسائل پر لکھتے ہیں آپ کانکتہ نظر سے اختلافات اپنی جگہ آپ کی دانشورانہ رائے کا '' اظہار '' وزن رکھتا ہے ۔ گزشتہ دنوں سے آپ متواتر بلوچ نیشنل موومنٹ کے صدر غلام محمد بلوچ کی شہادت کے تناظر میں پیش آنے والے واقعات پر اپنے زرین خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جو ہمارے لیے راہنمائی کاباعث ہیں بی این ایم آپ کے ناقدانہ رائے کو خنداں پیشانی سے قبول کرتے ہوئے تہہ دل سے شکریہ اداکرتی ہے ۔
جناب ساجدی !.....آپ کانکتہ نظر یقیناً کسی گہرے مطالعے کا نچوڑ ہے مگر شاید ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنی رائے شہید غلام محمد بلوچ کی سیاسی سوچ کے مطابق پیش کریں امید ہے کہ آپ اسے اپنے اخبار کے توسط بلوچ عوام تک پہنچائیں گے ۔ اصل مضمون پر آنے سے پہلےگرائمر اور املاکی ممکنہ غلطیوں پر پیشگی معذرت کرتاہوں ۔
آپ اپنے18مئی 2009کے کالم ”میر جعفر اور میر صادق کون ؟ “ میں شہید غلام محمد کے بارے میں لکھتے ہیں ”آزادی کی تحریک کے لیے ٹائم وسائل ، اندرونی وبیرونی حمایت اور جو دیگر لوازمات درکار تھے انہوں نے اس کا تجزیہ نہیں کیا تھا ۔ وہ ریاست کی طاقت کا اندازہ کیے بغیر اپنے جدا راستے پر چل نکلے اور بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ اپنی جان قربان کر بیٹھے ۔“
ا ن سطور میں آپ جس رائے کااظہار کررہے ہیں یہی رائے بی این ایم سے اختلاف رکھنے والی جماعتوں خاص طور پر بی این پی اور نیشنل پارٹی کی ہے ۔ نیشنل پارٹی کی مخالفت کی حد تو یہ ہے کہ وہ آج تک بی این ایم کا سیاسی وجود قبول کرنے سے انکار کرتی ہے البتہ بی این پی نسبتاً مثبت انداز میں ( یہاں ماضی کے الزامات سے صرف نظر کیا گیا ہے ) مخالفانہ رائے کا اظہار کررہی ہے ۔ہماری سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ ہم میں سے اکثریت نے شہید کو اُن کی زندگی میں درست طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کی اُن جیسا بیباکانہ انداز سیاست کا حوصلہ نہ رکھنے والوں نے انہیں ایجنسی کا کارندہ کہا جوکہ ببانگ دہل آزادی کا نعرہ لگاتا ہے لیکن گرفتار نہیں کیے جاتے۔ دنیا نے دیکھی کہ وہ گرفتار بھی ہوئے ، گمنا م ٹارچر سیلوں میں رہے ، جیل ہوئے اور بغاوت کے مقدمات کاسامنا کیالیکن پھر بھی انہوں نے ان کی کردار کشی کا سلسلہ جاری رکھا ۔ آپ کی شہادت سے ایک ہفتے پہلے مذکورہ جماعتوں میں سے ایک کے طلباءبازو( بی ایس او میم) کی طرف سے بیرون وطن مقیم بلوچوں کے نام باقاعدہ ایک خط ”Hidden Face of Ghulam Mohammad “ کے عنوان پر لکھا گیا جس میں آپ کو واشگاف الفاظ میں ایجنسیوں کاکارندہ کہا گیا۔ لیکن نتائج کیا نکلے ”بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ اپنی جان قربان کر بیٹھے“۔
اب اس بات میں کوئی دو رائے نہیں رہا کہ آپ اپنے مقصدکے ساتھ مخلص تھے لیکن کیا یہ بات بھی درست ہے کہ آپ کو ان حالا ت کا اندازہ نہیں تھا ؟ آپ کا ہوم ورک نامکمل اور حکمت ناقص تھی ؟ان سب کا جواب نفی میں ہے ۔شاید اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم کھل کر آپ کی قومی تحریک میں کردار کو زیر بحث لائیں لیکن چند پہلوواضح ہونا ضروری ہیں تاکہ ہمارے ذہنوں کے ابہام کم ہوسکیں ۔آپ بی ایس او کے فلیٹ فارم سے بلوچ قومی جدوجہد آزادی سے وابستہ ہوئے ۔آپ نے کسی نئی تحریک اور جماعت کی داغ بیل نہیں ڈالی بلکہ اپنے پیشرﺅں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُس تسلسل کو جاری رکھا ۔ سال 2000میں قابض قوتوں نے بلوچستان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفتار بڑھالی ۔ قبل ازیں بلوچ مسلح جدوجہد میں ( جو 1948 سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے ) تیزی پید اکرنے اور جنگ آزادی کو نئی حکمت اور بھر پور توانائی کے ساتھ لڑنے کی تیاریاں ہوچکی تھیں ۔ یہ تیاریاں سردار وں کے خلاف جدوجہد ، سیاسی سوچ کی آبیاری او ر پارلیمانی سیاست کے مراحل میں بھی جاری رہئیں ۔ یہ سفر آگے بڑھنے کا تھا دوبارہ لکھی ہوئی سطرپر نظر دوڑائیں”سرداروں کی اثر ورسوخ کو کم کرنا ، سیاسی سوچ کی آبیاری ، پارلیمانی سیاست “ان سب مراحل میں مختلف نعرے لگائے گئے ہماری ناقص رائے میں اس جدوجہد سے وابستہ افراد نے شعوری بنیادوں پر اپنے منزل تک پہنچنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ ون یونٹ کا خاتمہ ، صوبائی خود مختاری ، حق حاکمیت اورساحل وسائل پر اختیار کے نعرے ”آزادی“ کے مطالبے کوجواز فراہم کرنے کے لیے تھے ۔ ہم جانتے ہیں کہ قابض قوت نے ہر مرحلے میں بلوچوں کے جائز مطالبات کو(جوکہ پاکستان کے آئین اور قوانین سے بھی متصادم نہ تھے )نظر انداز کرتے ہوئے جارحانہ انداز اپنا یااور بالآخر جس طرح ہمارے قائدین کی خواہش تھی پاکستان نےبلوچوں کو اسی نہج پر پہنچا دیاکہ اب آزادی کے علاو ہ کوئی بات باقی نہیں بچی ۔
سرداریت کے خلاف آوازبلند کرنے پر بی ایس او کو تقسیم کیاگیا۔ پانی مانگنے پر جیمڑی میں یاسمین اور ازگل کو گولی مار کر شہید کردیاگیا ۔ پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کی سزاء میں بلوچ قائدین کوگرفتار کر کے جیل کردیاگیا ۔ پیغمبراسلام کا ایک حکیمانہ قول ہے کہ ”مومن وہی ہے جو کہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا “بلوچ قو م دوست جماعتوں نے مرحلہ وار آگے بڑھتے ہوئے اس بات کو اپنی گرہ میں باند ھ لیا ہے ۔ اس پر تجزیہ کرتے ہوئے بلوچ تحریک آزادی کے قائد اعلیٰ بابا خیر بخش مری فرماتے ہیں کہ ”جب ہمیں ایک انڈہ پانے کے لیے اپنی زندگیاں قربان کرنی ہوں گی تو کیوں نہ ہم پورے مرغی خانے کے لیے قربانی دیں ۔“اور یوں غیر پارلیمانی سیاست کا آغاز ہو ا ۔
سن دوھزار میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ در پردہ ایک بھر پور جنگ لڑنے کے لیے تیار بلوچ قوت کو منظر عام پر لاکر قابض ریاست کے استحصالی ایجنڈے کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنا کا فیصلہ ناگزیر ہوگیا ۔ اس گوریلا جنگ کو اگر بغیر کسی سیاسی حمایت کے شروع کیا جاتا توعوامی حمایت کے بغیر اسے بآسانی دہشت گرد ی قرار دیاجاتا ۔ اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی گئی کہ اس جنگ کو چھیڑنے سے پہلے ایسا سیاسی ماحول پید اکیا جائے جو اس جنگ کے محرکات اور مقاصدکو واضح کرئے ۔ یہ محاذ ایک مشکل لیکن ضروری محاذ تھا یہ حکمت عملی صرف شہید غلام محمد کی نہ تھی اُس وقت کی بی این ایم اور موجودہ این پی کے کئی قائدین نے بھی اسی بنیاد پر ایک مسلح تنظیم کے قیام کا خواب اپنے کارکنان کو دکھایا تھا جس سے متاثر ہوکر بیرون وطن مقیم کئی بلوچوں نے اپنی پوری کی پوری تنخواہیں اٹھاکر اُن کو چندہ دیا تھا تاکہ وہ ہتھیار خرید کر بلوچ قومی فوج تشکیل دے سکیں ۔ یہ ایک بہترین آزمودہ طریقہ ہے جس پر چلتے ہوئے ہندوستان کے آزادی پسند لیڈر ”چندر بوس آزاد “نے ”آزاد ہند آرمی “ تشکیل دے کر ہندوستانیوں کو آزادی کا ایک واضح راستہ دکھایا ۔ لیکن بلوچوں کی اپنی قبائلی جنگ کو سیاسی بنیادوں پر استوار کرنے کی پہلی کوشش بد نیت اور کمزور لیڈروں کی وجہ سے ناکام ہوگئی ۔ عمان آرمی کے ایک ریٹائرڈ فوجی ، سابق نیشنل پارٹی اور دم شپادت بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنماء شہید نصیر کمالان کے بقول ” ایک دفعہ میں نے اپنے ہاتھوں سے چندہ کی خطیر رقم ڈاکٹر مالک کو پہنچائی تھی جب ریٹائرڈ ہوکر وطن واپس آیا تو اُن سے پوچھا کہ کہاں ہے ہماری آرمی مجھے بھرتی ہونا ہے اگر مجھ میں لڑائی کی سکت نہیں لیکن اپنے جوانوں کو روٹی پکا کر دے سکتا ہوں ۔ج واب میں اس نے کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم اسے برقرار نہیں رکھ پائے جس پر میں نے اسے یاد دلایا کہ اگر تم اسے برقرار نہیں رکھ سکے تو گزشتہ سال تک ہم سے چندہ کس بات کی لیتے رہے ہو۔“ ان کی ان ہی کرتوت کی وجہ سے جدوجہد میں حصہ دینے والے لوگوں کی بڑی تعداد مایوس ہوگئی جس سے بلوچ قومی لشکر کی تشکیل میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن چند باہمت رہنماءکٹھن حالات میں بھی اپنا نیٹورک منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ میدان جنگ سے مشکل محاذ سیاسی تھا جہاں مذکورہ سیاستدانوں نے قوم دوستی کے نام پر سیاسی ماحول کو اتنا پراگندہ کیا ہواتھاکہ نیشنل ازم ایک گالی بن کر رہ گئی تھی، لوگوں کو ”کامریڈ “اور ”بی ایس او“ کے نام سے نفرت اور بیزاری ہوچکی تھی ۔ ان نا مساعد حالات میں شہید غلام محمد بلوچ نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ آپ کی بھر پور کوشش تھی کہ تمام بلوچ سیاسی قوتوں کو ایک مشترکہ فلیٹ فارم پر لاکر واضح انداز میں جدوجہد آزادی شروع کی جائے ۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے مطابق دنیا میں اس بات کو اجاگر کرنا انتہائی ضروری تھا کہ بلوچ جنگ آزادی لڑی جارہی ہے تاکہ اُن کی توجہ حاصل کی جاسکے ۔ جس طرح آپ نے ایک تقریر میں واضح کیا تھاکہ ”یہ جنگ ہم پر مسلط نہیں کی گئی ہے بلکہ ہم نے جنگ کا آغا زکیا ہے ۔‘ ‘ وقت کا چناﺅ دشمن کی رفتار میں تیزی دیکھتے ہوئے کیا گیاتھا اور یہی مناسب وقت تھا اگر خاموشی اختیار کی جاتی تو وہ سیاستدان جنہوں نے بیرون وطن چندہ کے نام پر حاصل کردہ ر وپیوں سے یہاں کروڑوں کی جائیدادیں کھڑی کی ہیں جو ڈیموکریسی کے نام پر کارپوکریسی کو پروان چڑھا رہے تھے ۔ قومی حقوق کے بجائے نوجوانوں کو اسٹبلشمنٹ کی دلالی کے لیے بھرتی کررہے تھے ۔ گھنٹے ، ٹھیکے اور میڈیکل اسٹوروں کے لائسن بھانٹے جارہے تھے ۔ پارلیمانی سیاست کے نام پر ضمیر فروشی کی بڑی دکان سجی ہوئی تھی، کب کا بلوچ قومی شناخت سے دستبراد ہوجاتے ۔ اس ٹہرے ہوئے تالاب میں ایک بھونچال کی ضرورت تھی یہی کام شہید نے سر انجام دیا۔ آپ نے شہید فدا کے فلسفے کو اپنی دلیل کو مضبوطی سے پیش کرنے کے لیے استعمال کیا ۔ آپ کی آواز جاندار، جذبات کھرے تھے ، اپنی اُوپر قومی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے کردار کی تعمیر پر زبردست توجہ دی ۔ ایک مثالی لیڈر بننے کے لیے اپنے اندر انقلاب بپا کیا جس کے اثرات اس کے اطراف موجود لوگوں نے محسوس کیے اور ایک حُریت پسند قائد کی حیثیت سے آپ کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوایہ آپ کی پہلی کامیابی تھی جس نے آپ کے عزم کو جِلا بخشا ۔ ابتدائی مرحلے میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کو اندازہ تھا کہ حالات کیاہیں ۔ حالات اس وقت قطعاً سازگار نہ تھے جو اس تحریک کی ضرورت کو بڑھارہے تھے ۔آپ وسیع المطالعہ شخصیت تھے لیکن آپ نقل اُتارنے کی بجائے اپنے مزاج اور واقعات کے تناظر میں حکمت عملی اختیار کرنے کے قائل تھے ۔آپ اس بات پر شدید تنقید کیا کرتے تھے کہ ”ہمارے لکھاری دنیا بھر کے دانشوروں کا مطالعہ کرتے ہیں لیکن وہ اپنے مفکرین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔ان کو اقبال لاہوری ، غالب اور شیخ سعدی کے اقوال ذہن نشین ہیں لیکن ملا فاضل کو بھول چکے ہیں ۔“ شاید آپ کو اس کا بھی اندازہ تھا کہ ایک انقلابی رہنماءکی حیثیت سے آپ کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنا یاجارہاہے لیکن آپ کو تولوگوں کے مزاج بدلنے تھے ۔ جب آپ کی کردار کشی کا سلسلہ عروج پر تھا۔ آپ کی شہادت سے چند ہفتے پہلے میں اکثر اس طرح کی باتوں کو سن کر فکر مند ہوجاتا تھا کیوںکہ ہمیں محسوس ہورہاتھا کہ اس کردار کشی کے پیچھے ایک خطرنا ک منصوبہ ہے ہم اس کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ دشمن آپ کی مقبولیت کو کم کر کے آپ کو قتل کرنے کی ساش کررہاہے ہماری اب بھی یہی سوچ ہے کہ آپ کے کردار کشی کے پیچھے پاکستانی ایجنسیوں کا برائے راست ہاتھ تھا اور جو سیاسی رہنما ءان کے ترجمان بنے ہوئے تھے کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طورپر ان سازشوں کا حصہ تھے جو آپ کو راستے سے ہٹانے کے لیے بنائی گئی تھیں ۔ انہی خدشات کے پیش نظر میں نے آپ کو فون کرکے اس خط کے بارے میں بتایا جس پر آپ نے مجھے قدرے برہم لہجے میں انتباہ کیاکہ ”تم اس طرح کی باتوں کو ہرگز اہمیت نہ دو اگر ہم ہر ہیرے غیرے کو جواب دینے لگیں تو اپنااصل مقصد ہرگز حاصل نہیں کرپائیں گے ۔
“
آپ نے ہر تنقید کو خنداں پیشانی سے قبول کیا لیکن اپنی روش نہیں بدلی ۔آپ نے حالات کو بدلنے کے لیے مصنوعی سیاسی ماحول پید اکیا تاکہ دشمن مشتعل ہو۔ یہ خطرناک سیاسی چال تھی جس میں آپ کی زندگی ہمیشہ داﺅ پر لگی رہی ۔آپ نے جس وقت آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا آپ کے ہمراہ محض چند ہی ساتھی تھی ۔شہید لالہ منیر اپنی حالیہ کامیابیوں کودیکھتے ہوئے اکثر سر شاری کے عالم میں مجھ سے کہتے تھے کہ ڈاکٹر مالک نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ”بی این ایم غلام محمد سے شروع لالہ منیر سے ختم ۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں اُن سے پوچھوں کہ اگر تم صحیح تھے تو آج یہ (اپنے بلوچستان بھر سے آئے ہوئے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کون ہیں۔“اگر وہ روایتی طریقہ اپنا تے ہوئے زیر زمین تنظیم سازی کرتے تونہ صرف ان کا کام سست رفتاری سے ہوتا بلکہ دشمن بھی ان کو آسانی سے گمنامی کی موت ماردیتا ( یہ بات ہوائی نہیں بلکہ انہیں اس کا تجربہ ہوچکا تھا ) انہوں نے اپنی محدود توانائی کا استعمال کرتے ہوئے دشمن کو للکارتے ہوئے جنگ آزادی کا اعلان کیا۔ برملا بلوچ حُریت پسند وں کی حمایت کی اور انہیں بلوچ آزاد ی کا سپاہی کہا ۔ آپ کی آواز گھر گھر گونجنے لگی یہ بھی کوئی معجزہ نہیں آپ کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی تھی ۔آپ نے اپنی تحریک کے لیے دستیاب میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ۔آپ کی ایک گھنٹے پر مشتمل آڈیو کیسٹ ”جِھ جن اِت بیلاں !“ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اس راہ میں اناڑی نہیں تھے ۔ دشمن کے لیے آپ ایک بھر پور خطرہ بن کر سامنے آگئے آپ ایک ایسی ہڈی بن کر ان کے گلے میں پھنس چکے تھے کہ اُن کے لیے آپ کو نگلنا بھی مشکل تھا وراُگلنا بھی تکلیف دہ ۔آپ اور آپ کی پارٹی کے خلاف زبردست کریک ڈاﺅن کیا گیا آپ کے و ہ ساتھی جن کے آپ کے ساتھ وابستگی کا شبہ تک تھا اُٹھا کر غائب کردیئے گئے ۔ دانش سے عاری دشمن نے آپ کے پہلے ہی حملے کے جواب میں اپنا سب سے بڑا ہتھیار استعمال کیا ۔ جس کا نقصان کے بجائے فائدہ ہوا کیوں کہ یہ ردعمل آپ کے توقعات کےعین مطابق تھا بلکہ یہی آپ کی خواہشتھی وہ اپنی اصل چہرے کے ساتھ بلوچ عوام کے سامنے آجائے ۔ آپ اپنے لوگوں پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اس غیر فطری ریاست میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ، اسلام کے نام پر پنجاب ہمارے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اس قبضہ گیری کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بننے کی کوشش کرئے گا پنجاب اُس کوقتل کرنے بھی دریغ نہیں کرئے گا،پہلے اس بات کے لیے عوا م کی یاداشت میں بہت کم ٹھو س دلائل تھے شہید غلام محمد کی حکمت نے دلائل کے انبار لگا دیئے ۔ ٹارچر سیل اور جیلوں سے واپسی کے بعدبھی آپ اور آپ کے ساتھی اسی بہادری کے ساتھ دشمن کو للکارتے رہے ۔ یہ باتیں محض جذباتی پن کا اظہار نہیں دشمن پر نفسیاتی اور اخلاقی وار تھے جن کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہوئے ۔
جہاں تک غلام محمد کی شہادت کو نقصان قرار دینے کا تاثر ہے اس کو بھی درست قرار نہیں دیاجاسکتا اور نہ ہی شہید خود اس طرح کی قربانیوں کونقصان سمجھتے تھے اُن کا نکتہ نظر تھا کہ ”ہمیں شہادتوں پر ماتم کرنے کی بجائے انہیں تحریک کا ایندھن بنانا چاہئے ۔“ آپ سمجھتے تھے کہ آزادی کی جنگ میں قیادت کو قربانی دینی چاہئے جب تک ہم (قیادت )قربانی کے لیے تیار نہیں ہوں گے بلوچ قوم آزاد نہیں ہوسکتی ۔“ 27مارچ 2009کوپسنی میں ، مَیں نے اُ ن سے کہاکہ” واجہ! محتاط رہیں کہیں یہ آپ کو پھر دوبارہ اغواءنہ کرلیں ۔“ انہوں نے مسکراکر جواب دیا کہ ” اغواءاورمارنے کاتواب مزا آئے گا۔“یعنی ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ دشمن کی طرف سے جتنی شدت کااظہار کیا جائے گا بلو چ تحریک اتنی ہی زیادہ توانائی کا ساتھ اُبھرئے گی ۔ انہوں نے اپنے ایک پیغام میں کہاہے کہ ”دوست ہماری ہرگز پروا نہ کریں بلکہ تحریک پر توجہ دیں ۔
“
جہاں تک درکار وسائل کی بات ہے توسیاسی جدوجہد میں سب سے زیادہ افرادی قو ت کی ضرورت ہوتی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہاہے ۔ یہ افرادی قوت جس میں ہرقسم کی اہلیت رکھنے والے لو گ ہیں تحریک آزادی کے لوازمات کوپورا کرنے کا ذمہ دار ہیں ۔
جناب ساجدی !.............آپ کی تحریر کے عنوان سے تاثر ملتا ہے کہ آپ بی این ایف کی سیاسی تنقید کو زیادہ درست نہیں سمجھتے حالانکہ مندرجات میں آپ اس کو سراہتے ہیں ۔ہم بھی یہی سمجھتے ہیں (گوکہ ہماری قومی نفسیات میں ”تنقید “کو برداشت نہیں کیا جاتا اس کا اندازہ آپ بلوچی ادب میں ”تنقید “کی شرح کو دیکھ کر بخوبی لگاسکتے ہیں ۔ ) کہ تنقید سیاست کی جان ہے ۔ دنیا میں ہر جگہ مخالف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح سیاست کرتے ہیں۔ شہید غلام محمد بلوچ کی سیاسی تدبر سے انکاری ہمارے ایک ساتھی کی اس فرمائش پر جو انہوں نے پارٹی سیشن میں کیا تھا کہ ”بی این ایم نہ کسی کی حمایت کرئے نہ مخالفت “شہید نے نہایت حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ کیسا سیاسی کارکن ہے اگر ہم ”حمایت اور مخالفت “ کااظہار نہیں کریں گے تو کریں گے کیا ؟“ ۔آپ سیاست میں بھر پور اور کھلے لفظوں تنقید کے قائل تھے ۔آپ سمجھتے تھے سیاسی موقف کو واضح ہونا چاہئے جو کردار بلوچ قومی تحریک کے آگے رکاوٹ ہیں اُن کی نشاندہی لازمی ہے اسی سے قوم کی درست رہنمائی ہوگی ۔آپ اپنی جماعت کی پذیرائی کی سب سے بڑی وجہ اپنے دوٹوک موقف اور مخالفین کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر کھلے لفظوں تنقید اور منفی کرداروں کی نشاندہی کو سمجھتے تھے ۔ اس لیے بی این ایم بھی واضح کرچکی ہے کہ وہ اپنے موقف کو واضح لفظوں پیش کرنے کے ساتھ اس نظریے سے اتفا ق نہ رکھنے والی جماعتوں پر تنقید جاری رکھتے ہوئے اُن پر اپنا دباﺅ برقرار رکھے گی تاکہ ان جماعتوں کے قائدین کو مجبور کیاجاسکے کہ وہ قومی آزادی کے واضح پروگرام کے مطابق جاری تحریک کا ساتھ دیں ۔اس سیاسی تنقید کے داہرے میں کسی کی ذات پر نکتہ چینی اور جلسہ جلوس میں ہنگامہ آرائے کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کی جائے گی ۔ میری ذاتی رائے میں کسی سیاستدان کے ایسے عمل پرتنقید ( نام لے کر یا اشارتاً) جس کے اثرات معاشرے پر اور تحریک آزادی پر مُرتب ہوں ذاتی نکتہ چینی نہیں سیاستدان کے خاندان کے افراد سے متعلق معاملات جن کا اُن کی سیاست پر کوئی اثرات نہ ہوں ہی اُن کے ذاتی معاملات شمار ہوں گے( سیاسی دانشور یہاں تک کہتے ہیں کہ سیاستدان کی زندگی عوامی ملکیت ہے یعنی عوام اُس پر ہر طرح کی رائے زنی کا حق رکھتا ہے ۔)
جس طرح جناب ساجدی نے بی این ایم اور نیشنل پارٹی کو درست مشورہ دیاہے کہ ”اگر وہ وفاق کومانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بلوچ کے لیے یہی بہتر ہے تو وہ اپنا موقف عوام اور کارکنان کو سمجھائیں اور پھر اس پر ڈٹ جائیں ۔“ہماری سب سے بڑی تنقید بھی یہی ہے کہ وہ واضح کریں کہ چارقومی اکائیوں کے حقو ق کی بات کرنے والی جماعت ہیں یا قوم” بلوچ“ کے مفادات کی جنگ لڑنے والی ۔ اس موقف میں محض اس بات کا اضافہ کریں گے کہ اگر وہ تحریک آزادی کے حق میں نہیں تواُن شہیدوں کے نام اور تصاویر کوجنہوں نے اپنی زندگیاں واضح طور پر قومی آزادی کے لیے قربان کیں ہیں استعمال کرنے سے گریز کریں کیوں کہ اگر ان کے نکتہ نظر کو درست تسلیم کیا جائے توانہوں نے کوئی قربانی نہیں دی اور کوئی شہادت نہیں پائی ہے بلکہ وفاق پاکستان سے بغاوت کر کے ایک جرم کیاہے جن کی انہیں سزاء دی گئی ہے ۔ کیوں ہمارے خیال میں ان شہداءکا نام لے کر ان کے نظریا ت کے برعکس موقف کے اظہار سے بھی اکثر بلوچوں کے احساسات مجرو ح ہوتے ہیں اورجلسہ جلوس میں ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں جن کی ہم سیاسی مخالفت کرتے ہوئے بھی جواز سے انکار نہیں کرسکتے ۔
شھیدیے پگر ءُ ھیال باز جوان بیتگ